وائس ورسا


اور جب کیدو نے ہیر کو بالوں سے پکڑا اور اس کے باپ سردار چوچک سیال کے سامنے لا پٹخا تو چوچک نے اپنی نوک دار مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا: ”دس اوئے ہیرئیے! ۔ اے رانجھو تیرا کی لگدا ہے؟“ تو ہیر کی آواز میں جیسے کسی نخلستان میں چوکڑیاں بھرتی ہرن کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کا سوز اتر آیا اور وہ جذب کے عالم میں دھیرے سے گنگنائی:

”رانجھا رانجھا کردی نی میں، آپے رانجھا ہوئی
سدونی مینوں دھیدو رانجھا، ہیر نہ آکھو کوئی ”

اور پھر مورخ نے بتایا کہ رانجھا بھی تو ”ہیر ہیر“ کہتا، خود ہیر سیال بن گیا تھا لہذا جب وہ ایک دوسرے کے روبرو آئے تو ایک دوسرے کو پہچان نہ پائے۔
…………..
حافظ جواد الرحمان (امریکہ والے ) میرے لنگوٹیا دوست ہیں۔ لنگوٹیا اس لئے کہ عینی شاہدین کے مطابق جب ہماری دوستی ہوئی تو ہم نے لنگوٹ باندھ رکھے تھے لیکن چونکہ وہ عمر چھ ماہ بتاتے ہیں اس لئے قرین از قیاس ہے کہ لنگوٹ ان کے تخیل کی پیداوار ہوں۔

جواد اصلی تے وڈا ملتانی تھا، میں شجاع آباد کا جم پل تھا، ملاقات کی سبیل سال میں ایک آدھ بار ہی بنتی۔ بالعموم ہماری ملاقات رسول پور میں ہوتی، جو ہم دونوں کا ننھیالی گاؤں اور لودھراں سے تیس کلومیٹر کی دوری پر ایک نہایت پر فضا مقام ہے۔ ہمارے درمیان ہمیشہ ایک مقابلے کی سی فضا رہی۔ ملاقات کی ابتدا لاتوں اور گھونسوں سے ہوتی۔ کچھ ہی دیر بعد صلح ہو جاتی تو گزشتہ سال کی روداد بیان کی جاتی جس کے تحت اپنی اپنی شخصی کامرانیوں کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا۔ اس کے بعد نصابی اور غیر نصابی کوئز کی باری آتی جن میں ریفری کی عدم دستیابی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر ممکن حد تک بے ایمانی اور بد زبانی کی جاتی۔ ملاقات کا اختتام ایک بار پھر لاتوں اور گھونسوں پر ہوتا۔

میں اسے اپنی اکثر جسمانی اور ذہنی چوٹوں کا ذمے دار سمجھتا ہوں جن میں سرفہرست اوپری ہونٹ کے بائیں جانب لگے ہوئے دو ٹانکے اور میڈیکل کالج میں داخلہ و خروج ہیں۔ میں اچھا بھلا 2002 کے انٹری ٹیسٹ میں ناکامی کے بعد اپنے فیوریٹ مضمون ریاضی کا امتحان دے کر یو۔ ای۔ ٹی لاہور میں داخلے کا پلان بنا چکا تھا کہ موصوف نے ساتھ رہنے کے سہانے ڈھول بجا کر دوبارہ انٹری ٹیسٹ دینے پر آمادہ کر لیا۔ غالباً ًجولائی 2003 کی بات ہے جب ہم نے ڈاکٹر اللہ داد مرحوم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور زندگی میں پہلی اور آخری بار کلاس فیلو بنے۔

یہ چار مہینے پلک جھپکنے میں گزر گئے۔ ہم نے غزلیں لکھیں، فلمیں دیکھیں اور یک طرفہ عشق کیے۔ ہم نے مباحثے اور مذاکرے کیے اور لڑائیاں لڑیں جن میں سب سے شہرہ آفاق لڑائی گول باغ کے تاریخی مقام پر انجام پائی، جس کی ابتدا موصوف کے مکے اور انتہا شاہد پٹھان کی فلائنگ کک پر ہوئی۔ ہم نے زندگی میں پہلی (اور آخری) بار مد مقابل کو میدان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کیا جس کے بنیادی محرکات ہماری عددی اکثریت، حریفوں کی کم عمری اور شاہد پٹھان کی موجودگی تھی (جس کے خصیوں پر لات نہ پڑتی تو وہ کبھی میدان جنگ میں نہ کودتا) ۔

ان دنوں ہم نے ملتان کے ہر قابل ذکر سینما، پارک اور ڈھابے پر حاضری دی۔ گول باغ پارک، ریکس سینما، غوری تکہ، احمد سویٹس اور ٹیسٹی ہوٹل ہمارے پسندیدہ مقامات تھے۔ آج پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ اب تو کبھی کبھار ہی جینے کا موقع ملتا ہے کہ زندگی محض ایک عادت اور لگے بندھے معمولات کا نام بن کر رہ گئی ہے، مگراس وقت ہم اپنی پوری شدت اور دیوانگی کے ساتھ ہر ایک لمحے کو یوں جیتے تھے جیسے یہی ایک لمحہ ہمارا سب کچھ ہو۔

انٹری ٹیسٹ میں ہم نے کھل کر نقل کی جس کا مجھے فائدہ اور جواد کو نقصان ہوا مگر اس کے باوجود اس کا کے۔ ای کا میرٹ بنا، میرا نشتر کا ۔ وہ چاہتا تو نشتر میں رہ سکتا تھا۔ میں چاہتا بھی تو کے۔ ای نہیں جا سکتا تھا۔ اس نے وعدہ خلافی کی اور لاہور چلا گیا، جہاں سے ڈگری پوری کرنے کے بعد پہلے قطر اور پھر امریکہ سدھار گیا۔

جب تک وہ لاہور رہا میں ہر دوسرے تیسرے مہینے اس کے پاس جاتا رہا۔ ہم نے بسنت منائی، ڈھابے پھرولے اور بے تحاشا مکالمہ کیا۔ بیچ بیچ میں ذہنی حملے اور جگت بازی بھی چلتی رہتی۔ بالعموم ہم ایک دوسرے کو پنچنگ بیگ کی طرح ٹریٹ کرتے تاہم کوئی تیسرا ساتھ ہوتا تو اسے گھیرنے میں تامل نہ کرتے۔ میں نے اس کے وسیلے کے۔ ای اور اس نے میرے وسیلے نشتر دریافت کیا۔ ہم ایک دوسرے کے رنگ، زمان اور مکان میں جیے، جس نے ہمیں ایک خاص طرح کی ذہنی وسعت اور ایک مخصوص طرح کی تنگ نظری عطا کی۔

2009 میں اس کا ایم بی بی ایس مکمل ہوا تو اسی سال میں نے بھی پی ایم ایس پاس کر لیا اور بوریا بستر باندھ کر لاہور آ گیا جہاں میری واحد بریدنگ سپیس جناب جواد کا ملنگی کمرہ تھا جس میں لاہور شہر کے تمام مجذوب وقتاً فوقتاً حاضری دیتے اور حالت جذب میں اپنے اپنے دل کا حال سنا کر لوٹ جاتے۔ اسی کمرے میں ”چنکے“ نامی ایک خاموش طبع نوجوان سے ملاقات ہوئی جو ان تمام ملنگوں کا غمگسار اور محرم راز تھا۔ چنکا اور جواد روم میٹ تھے جبکہ کشتہ، ڈبل کشتہ، مریض، میٹر اور مولوی سمیت دیگر احباب بھی اپنی فراغت کا زیادہ حصہ یہیں گزارتے۔

میرے پاس اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہونے کے بعد سر چھپانے کا ٹھکانہ نہ تھا لہذا سیکشن افسری کا ڈیڑھ سالہ دورانیہ اسی ملنگ خانے میں گزارا۔ کمرے میں سپیس نہ تھی لیکن دلوں میں بہت سپیس تھی چنانچہ میں اپنے ساتھ ساتھ اپنے ایک ہم نام ”نیر مسعود عرف فرعون کی ممی“ کو بھی یہاں لے آیا جس کا من پسند مشغلہ ڈاکٹری کی مذمت اور بیوروکریسی کا دفاع تھا۔ کمرے کی فضا میں ایک مستقل سستی، سرمستی اور سرشاری سی چھائی رہتی۔ ”پنک فلائڈ“ کی جادوئی اور ماورائی آواز اس کمرے کی سگنیچر ٹون تھی جو کسی معزز مہمان کی آمد پر دھیمی ضرور کر دی جاتی تاہم اسے بند کرنے کی کوشش کی جاتی تو نوبت سر پھٹول تک جا پہنچتی۔

یہ ہماری زندگیوں کا سب سے پرسکون وقت تھا۔ کسی کو کچھ کرنے کی چاہ نہ تھی۔ کسی کو کہیں جانے کی جلدی نہ تھی۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں یہ وقت دیکھنے کو ملا کیوں کہ اس کے بعد ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ اور اس دوڑ میں ہمارے پر جھڑ گئے، بال اتر گئے اور آنکھیں پتھرا گئیں۔ پتا ہی نہیں چلا کہ دوڑتے دوڑتے کب ہمارے آدرش ٹوٹ گئے۔

جواد میری اکثر تحریروں کا پہلا قاری اور میرا سب سے کڑا نقاد ہے۔ مجال ہے جو ذرا سی بھی چھوٹ دے دے۔ وہ آدمی سے اس کی اوقات سے کہیں زیادہ تقاضا کرتا ہے۔ اس کی کاملیت پسندی میں ایک تعمیر کی خو ہے جو مقابل کو بہتر سے بہتر ہونے پر اکساتی ہے۔ وہ ہر روز خود کو پہلے سے بہتر بناتا ہے اور توقع رکھتا ہے کہ اردگرد کے لوگ اور سماج بھی اسی روش کو اپنائیں لیکن جب ایسا نہیں ہو پاتا تو وہ مکالمے سے دلبرداشتہ ہو کر خود کلامی پر اتر آتا ہے، جو ہر تھکے ہوئے آدمی کی آخری منزل ہے۔

بنیادی طور پر وہ ایک شرپسند آدمی ہے مگر اس کا شعور انسان دوست ہے۔ یوں تو میں بھی نرگس کا اسیر ہوں مگر اس کی نرگسیت کا مقابلہ کرنا کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے آدمی کو کم ازکم عمران خان، علی اکبر ناطق یا یسری وصال ہونا چاہیے۔

وہ اتنا ذہین آدمی ہے کہ آپ کو اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لیے دوڑنا پڑتا ہے، مگر نستعلیق اتنا ہے کہ دوسروں کو شرمندگی سے بچانے کے لیے اپنی رفتار کم کر لیتا ہے۔ اس نے ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی انا اور خبط عظمت کا گلا گھونٹا ہے اور عجز و انکساری کو اپنا وتیرہ بنایا ہے جس کا سہرا ڈاکٹر من نامی ایک بدھسٹ استاد کی رفاقت اور عالمگیر طبی اخلاقیات کے گہرے انجذاب کو جاتا ہے۔ عمدہ طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اردو اور عالمی ادب کا ایک تیز رفتار قاری بھی ہے۔ جتنی دیر میں وہ کتاب پڑھتا اور سمجھتا ہے، اسے کتب بینی کا شاہد آفریدی یا شعیب اختر کہا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ اس کی رفتار کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ”غلام باغ“ جیسا ادق ناول اس نے محض دو اور ”وار اینڈ پیس“ جیسا ضخیم ناول صرف سات دنوں میں اجاڑ دیا۔

وہ ایک آزاد منش اور صائب الرائے آدمی ہے مگر ہر ذی شعور، معقول اور مصلحت پسند آدمی کی طرح اپنی آزادی سے خائف بھی ہے چنانچہ موقع ملتے ہی اپنے گرد ایک پنجرہ بنا لیتا ہے۔ پنجرہ تو بنا لیا لیکن اپنی ازلی وحشت کا کیا کرے کہ کچھ ہی دیر بعد اس کی سانس اکھڑنے لگتی ہے۔ وہ بار بار ایک مجنونانہ کیفیت میں اس پنجرے کی سنگلاخ دیواروں سے اپنا سر ٹکراتا ہے۔ توانا اتنا ہے کہ دیواریں اس کی وحشت کی تاب نہ لاکر ٹوٹ جاتی ہیں مگر اسی اثنا میں وہ ایک نیا پنجرہ تیار کر چکا ہوتا ہے۔

ہم دونوں ایک دوسرے کا تضاد تھے مگر چونکہ مسلسل مکالمے میں رہے لہذا چوں چوں کا مربہ بن گئے۔ تشکیل تو جو ہوئی سو ہوئی لیکن تخریب بھی بہت ہوئی۔ ہم دونوں نے اپنی اپنی ذات کے کچھ اہم حصے منہدم کر دیے۔ میں نے اس کی ذات کے ملبے سے اپنی پسند کی اینٹیں چن لیں اور اس نے بھی یہی کیا۔ اس کی مریضانہ حد تک بڑھی ہوئی رومان پسندی اور حسن پرستی میری دین ہے اور میرا نہ ختم ہونے والا اضطراب اور تشکیک پسندی اس کا تحفہ ہے۔

ہم دونوں ایک ساتھ نیشنلسٹ، سوشلسٹ، ملا اور سیکولر ہوئے۔ میں کچھ دن صوفی بھی رہا مگر اس نے کبھی صوفی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مجھے شبہ ہے کہ اپنی ذات کا یہ پہلو اس نے چھپایا ہوا ہے۔ اس شبے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یوسفی کا ”ملا عاصی“ ہمیشہ اس کا پسندیدہ کردار رہا۔ پھر یہ کہ اپنی تمام تر تجریدیت اور دنیا کے ہر معلوم انسانی سماج سے بے پناہ مایوسی کے باوجود اس کی انسان دوستی کا کیڑا جوں کا توں ہے چنانچہ کوئی بعید نہیں کہ کسی روز اچانک وہ انکشاف کرے کہ عشروں پہلے جب ہم زندگی کی بے ثباتی اور حسن کی ناپائیداری کا مرثیہ لکھ رہے تھے تو اس نے اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پا لیا تھا، مگر کسی کو بتایا نہیں تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ”ملا عاصی“ کی طرح وہ یہ راز اپنے ساتھ ہی لے جائے اور آنے والے زمانوں کے لیے کوئی خط تک نہ چھوڑے۔

مجھے یاد ہے کہ آج سے پندرہ برس قبل ہال روڈ پر واقع ایک چھوٹے سے پارک کی منڈیر پر بیٹھے میں نے اسے ایک کہانی سنائی تھی، ان دو لوگوں کی جن میں سے ایک جذبے کی حقانیت پر یقین رکھتا ہے اور دوسرا منطق کی سر بلندی پر ۔ پھر زندگی ان کو دو مختلف سمتوں میں جاتی ہے۔ پندرہ سال بعد اچانک ان کی ملاقات ہوتی ہے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ دونوں نے اپنا اپنا راستہ چھوڑ کر ایک دوسرے کا راستہ اپنا لیا۔ میں نے اسے کہا تھا کہ ایک روز میں اس خیال کو افسانہ بناؤں گا۔ میں کبھی اسے افسانہ نہیں بنا پایا لیکن آج پندرہ برس بعد جب میں دوبارہ اس خیال کے روبرو آیا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے یہ ہم دونوں کی کہانی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).