اغوا ہونے والی لڑکیاں اور ٹوٹے ہوئے لوگ


روپ چند کو کراچی پہنچ کر امریتا رام پریتم داس روڈ پر عبدالرحمن سومرو کا گھر تلاش کرنا تھا۔ روپ چند کراچی میں ہی پیدا ہوا تھا۔ رحمان سومرو اس کے بچپن کا دوست تھا، دونوں ساتھ ساتھ ہی بڑے ہوئے تھے۔ روپ چند کے باپ خوب چند کی دوستی رحمان سومرو کے باپ الٰہی بخش سومرو سے تھی۔ دونوں شکارپور کے رہنے والے تھے۔ دونوں کی پشتیں شکارپور میں تھیں، دونوں کی زمینیں شکار پور میں تھیں اور دونوں کے مکان کراچی میں بھی تھے۔ خوب چند کا کراچی میں کپڑوں کی آڑہت کا کام تھا اور الٰہی بخش کراچی کے سندھ مدرسے میں سندھی کا استاد تھا۔

پاکستان بننے سے پہلے روپ چند ٹاور کے قریب کٹرک بلڈنگ کے ساتھ دریا لال جیون داس بلڈنگ میں رہتا تھا اور رحمان سومرو امریتا رام پریتم داس روڈ کے ایک مکان میں رہتا تھا۔ اسے تو ایسا ہی لگا تھا کہ جیسے پاکستان یکایک بن گیا، پھر زندگی ایک عذاب ہو کر رہ گئی تھی۔ ہندوستان سے مہاجر کراچی آنے لگے تھے آہستہ آہستہ زندگی کے غیر محفوظ ہونے کا احساس ہونے لگا تھا۔ ایسے ہی وقت میں جب ہندو مسلم فسادات کے فوراً بعد سارا پریوار ہندوستان جانے کو تیار بیٹھا تھا تو اس کی سولہ سالہ بہن کلپنا کا اغوا ہو گیا۔

زندگی جیسے رک گئی تھی۔ وہ تو چھوٹا تھا، آٹھ دس سال کی عمر بھی کیا ہوتی ہے۔ اسے تو یہی یاد تھا کہ ماں اور دادی کا رو رو کر برا حال ہو گیا تھا۔ خوب چند اور الٰہی بخش دن رات کلپنا کی تلاش میں لگے رہتے تھے۔ پھر پتا لگا تھا کہ وہ حیدرآباد میں ہے اور اسے کلمہ پڑھا کر مسلمان بنا لیا گیا ہے اور وڈیرے ستار جوکھیو کے بیٹے موسیٰ جوکھیو سے اس کی شادی ہو گئی ہے۔ وہ لوگ کلپنا سے مل بھی نہیں سکتے تھے۔ زندگی درد سے بھری ہوئی ایک طویل چیخ بن کر رہ گئی تھی۔

اس کے باپ نے سندھ دھرتی کی تھوڑی سی مٹی ایک شیشی میں بھر لی تھی۔ بوجھل دلوں کے ساتھ روتے ہوئے کیماڑی سے سمندر کے راستے وہ لوگ بمبئی چلے آئے تھے پھر اس نے کبھی بھی ماں جی کو خوش نہیں دیکھا تھا۔ ان کی ہنسی بھی جیسے ایک طرح کی فریاد بن گئی تھی۔ دادی کلپنا کو یاد کرتے کرتے ایک دن مر گئی تھی۔ ماں کی بات سچ تھی کلپنا اگر مر جاتی تو صبر آ جاتا، مگراس کا اغوا ہوا تھا، اسے زبردستی مسلمان بنالیا گیا تھا، اسے زبردستی نکاح میں لے لیا گیا تھا۔ بھولنے کی ہر کوشش رات کی سسکیوں میں بدل کر رہ گئی تھی۔

ایسا صرف ان کے ساتھ تو نہیں ہوا تھا۔ ہزاروں مسلمان ہندوستان سے پاکستان جاتے ہوئے قتل ہو گئے تھے۔ نہ جانے کتنی مسلمان عذراؤں اور زبیداؤں کو اغوا کر کے زبردستی کلپنا بنالیا گیا تھا اور وہ بھی کلپنا کی طرح کسی کے گھرمیں بیوی یا باندی بن کر رہ گئی تھیں۔

بمبئی میں کلیان کے فوجی کیمپ میں دوسرے سندھی شرنارتھیوں کے ساتھ آ کر وہ لوگ آباد ہوئے تھے۔ جلد ہی جگہ کا نام الہاس نگر ہو گیا۔ مہاراشٹر کی حکومت نے پنی طرف سے سہولتیں پہنچائی تھیں، مگر مہاجر تو پھر مہاجر ہی ہوتا ہے۔ نہ زمین اپنی، نہ صوبہ اپنا، نہ زبان اپنی۔ مذہب بھلے ایک ہو، مگر مذہب میں شاید نفرت کو دبانے کی طاقت نہیں تھی۔ وہ سب لوگ سندھی ہی کہلاتے تھے اور ان سب لوگوں سے اگر کھلی نہیں، تو ڈھکی چھپی نفرت ہی کی جاتی تھی۔

روپ چند کے باپ خوب چند نے یہاں بھی کاروبار شروع کرنے کی کوشش کی تھی اور چھوٹی سی کپڑوں کی دکان سے آگے نہیں بڑھ پایا تھا۔ کراچی کی بات اور تھی۔ شہر میں کاروبار تھا اور ہر سال شکارپور سے آنے والی زمینوں کی آمدنی تھی۔ الہاس نگر میں زندگی آسان نہیں، بہت مشکل تھی اور اس مشکل کا سامنا سارے مہاجروں کو کرنا پڑا تھا۔ کچے گھر، پانی کا مسئلہ، بجلی کا مسئلہ، بچوں کے پڑھنے کا مسئلہ، علاقے کا بھتہ، غنڈوں کا ٹیکس۔ سارے سندھی سندھ دھرتی کی مٹی کی بوتل کو دیکھ کر دل میں روتے تھے۔

کسی نے گھر میں سندھو دریا کا پانی رکھا ہوا تھا۔ کسی نے سندھ کے کھجور کی گٹھلیاں رکھی ہوئی تھیں۔ کسی نے کراچی کے مکان کی چابی رکھی ہوئی تھی۔ ایک تعلق تھا جو ٹوٹا نہیں تھا۔ کلپنا ان کی بیٹی تھی، اس کی بہن تھی، بچپن ساتھ ساتھ گزرا تھا۔ کلپنا نے اسے مارا بھی تھا، چوما بھی تھا۔ جھوٹی موٹی اس سے روٹھی بھی تھی، اسے منایا بھی تھا۔ اسے ایک مہربان چہرہ یاد تھا۔ ایک گرم گرم گود یاد تھی۔ اپنے چہرے پر بوسوں کی بارش یاد تھی۔ جب ماں جی اور پتا جی اسے ڈانٹتے تھے تووہ کلپنا کی بانہوں میں چھپ جایا کرتا تھا۔ وہی کلپنا سندھ کے شہر حیدر آباد میں کہیں رو رہی تھی، کسی مسلمان کے گھر میں اس کی بیوی بن کر گھر میں باندی کی طرح، شاید مسلمان ہو کر وہ پچاس سال کے بعد اسی کلپنا کی تلا میں کراچی آیا تھا۔

بمبئی میں زندگی نے بہت دھوکے دیے تھے۔ لاکھوں شرنارتھیوں کی طرح ان لوگوں کی زندگی بھی گزر گئی تھی۔ آزادی کے بعد جو بھی آئے، دہلی میں یا صوبے کی حکومت میں انہوں نے سبز خواب جگائے تھے اور بھیانک تعبیریں دکھائی تھیں۔ یہ کیسا ہندوستان تھا، بھارت ماتا، گاندھی کا خواب، اشوکا کی حکومت، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، جہاں کروڑوں انسان روڈ پر بھوکے سوتے ہیں، ننگے رہتے ہیں، جن کے پیروں میں نہ چپل ہے اور جن کے بچوں کے ہاتھوں میں نہ قلم ہے نہ کوئی کتاب۔

جہاں لڑکیاں گڑ کی بوریوں اور چاول کی تھیلیوں کی طرح بیچ دی جاتی ہیں۔ چکلے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ تاج محل ہوٹل سے لے کر بمبئی کی کچی آبادیوں تک۔ اس نے سوچا تھا جب وہ رحمان سومرو سے ملے گا تو وہ اسے کیا بتائے گا، کیسے بتائے گا، کہ پتا جی کی موت کیسے ہوئی تھی۔ دادی تو کلپنا کلپنا کا جاپ کرتی ہوئی اور مسلمانوں کو بددعائیں دے دے کر ایک دن خاموشی سے مر گئی تھی اور پتا جی کو کانتا کا غم لے کر مرا تھا۔ کانتا اس سے چھوٹی تھی۔ کلپنا کی طرح ہی خوبصورت، چنچل، نٹ کھٹ، گھر کے غم زدہ ماحول میں ایک رحمت کے فرشتے کی طرح تھی۔ اس کا چلنا جیسے جلترنگ تھا۔ اس کی باتیں جیسے گیتا کے بول۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے اجنتا کے غاروں میں کسی ناری کی تصویر میں جان پڑ گئی ہو اور وہ چھم سے ان کے آنگن میں اتر آئی ہو۔

اسے ہر ایک کا پیار ملا تھا۔ الہاس نگر کی غربت اور روزمرہ زندگی کی کشمکش میں پتا جی نے ماتا جی اور خود اس نے کانتا کو سب کچھ دیا تھا۔ کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ غریب ہیں، اچھے اسکول میں پڑھایا تھا، اچھے کپڑے پہنائے تھے، اچھے کالج میں داخلہ دلایا تھا۔ پھر اس نے تو ایک لوہے کی دیوار کی طرح اس کی حفاظت کی تھی۔ شراب پی کر مست ہو جانے والوں سے کانتا کو بچانا آسان نہیں تھا، روزانہ کی جدوجہد تھی۔ اس کی خوبصورتی سارے پریوار کے لیے مسئلہ بن گئی تھی۔

اس کے لیے رشتے کی ہی تلاش تھی کہ یکایک یہ سب کچھ ہو گیا تھا۔ وہ کالج کے کسی لڑکے کے ساتھ چلی گئی تھی، بمبئی کی فلم انڈسٹری میں کام کرنے کے لیے۔ نہ جانے کیا ہوا تھا، نہ کوئی بات، نہ کوئی چیت۔ نہ کوئی بحث نہ کوئی مباحثہ۔ ان لوگوں نے تو ایسا سوچا بھی نہ تھا۔ اس نے شاید خود ہی سوچ لیا تھا کہ گھر والے ستیش کی ذات برادری میں اس کی شادی کبھی بھی نہیں کریں گے۔ ستیش نے پیار کی قسمیں کھائی ہوں گی، بولی وڈ کے قصے سنائے ہوں گے اسے، اس کے حسن سے آشنا کیا ہوگا، اسے سمجھایا ہوگا کہ زندگی بہت سندر ہو سکتی ہے۔ بمبئی میں ہی سمندر کے کنارے خوبصورت سا گھر بھی ہو سکتا ہے۔ بس کسی طرح فلمی دنیا میں پہنچنے کی دیر ہے۔ وہ تھی ہی اتنی خوبصورت کوئی بھی اسے بہکا سکتا تھا۔

زندگی نے بہت جلد بہت سخت پرانی چال دوہرائی تھی۔ اس دفعہ کراچی نہیں تھا، الہاس نگر تھا۔ پاکستان نہیں تھا، ہندوستان تھا۔ کوئی مسلمان نہیں تھا، ہندو تھا۔ ابھی سنبھل ہی نہیں پائے تھے کہ پھر باپ بیٹا کانتا کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے تھے۔

بمبئی حیدرآباد نہیں تھا اور بمبئی میں الٰہی بخش نہیں تھا۔ نہ جانے وہ کہاں چلی گئی تھی، اسے آسمان کھا گیا تھا یا زمین نگل گئی تھی۔ وہ دونوں کام کرتے تھے اور کانتا کو تلاش کرتے تھے۔ نہ جانے پولیس والوں نے کتنے ہی روپے کھا لیے تھے، ایک دن اس نے کانتا کو دیکھا بھی تھا۔ ایک بڑی سی گاڑی میں ایک عربی کے ساتھ۔ وہ دیوانوں کی طرح دوڑا تھا۔ اس ہوٹل کے چپے چپے میں اس نے شور مچایا تھا، پھر اس نے کانتا کے کالج کے دوست ستیش کو دیکھا تھا جس نے اسے پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ پولیس والوں نے اسے خوب مارا تھا۔ گاندھی جی اور نہرو جی کی تصویر کے سامنے اسے ننگا کر کے ادھ موا کر دیا تھا۔

”حرام زادے۔ جانتے نہیں ہو، ستیش کون ہیں؟ نیتا جی کے بیٹے ہیں۔ ان پر الزام لگاتے ہو۔ تمہاری رنڈی جیسی بہن کو یہ اغوا کریں گے۔ ارے ان کو کمی کاہے کی ہے۔ ساری سرکار ان کی ہے۔ سارا علاقہ ان کا ہے۔ دہلی سے بمبئی تک ان کا کام ہے۔ وزیراعلیٰ سے وزیراعظم تک ان کی رسائی ہے۔“

اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ دہلی سے بمبئی تک ان کا کیا کام تھا۔ لڑکیوں کا اغوا، فلمی دنیا کا مافیا، بڑے بڑے ہوٹلوں میں دلالی، بیٹا چھوٹا دلال، باپ وزیر تھا، بڑا دلال تھا۔
بڑی مشکلوں سے ہزاروں روپوں کا بندوبست ہوا تھا اور خوب چند نے پولیس والوں کو رشوت دے کر روپ چند کو آزاد کرایا تھا۔

پھر انہیں کانتا کی لاش ملی تھی۔ اس نے خودکشی کرلی تھی۔ وہ لوگ لاش لے کر بھی نہیں آ سکے تھے۔ لاش اس قابل ہی نہیں تھی۔ انہیں تو کانتا کا خط ملا تھا جو اس کی کسی دوست نے اس کے کہنے کے مطابق مرنے کے بعد انہیں بھیجا تھا۔ اس نے معافی مانگی تھی۔ اس سے دھوکا ہوا تھا۔ ستیش نے اسے اغوا کر کے شادی کا ڈھونگ رچایا تھا اور پھر اسے صرف استعمال کیا تھا اور ایک دن وہ سمجھ گئی تھی کہ آگے کا راستہ بولی وڈ کو نہیں بمبئی کے چکلے کو جاتا ہے اور پیچھے تو اب صرف دیوار ہی تھی۔ اس نے پتا جی سے، ماتا جی سے اور اس سے معافی مانگی تھی۔ گھر میں جیسے میت ہو گئی تھی۔ ہر کوئی جی بھر کے رویا تھا اور پتا جی خاموشی سے روتے روتے فالج کی نذر ہو گئے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3