پاکستان میں سینسر شپ اور آزادی صحافت: ’جو آپ مارچ میں کہہ سکتے تھے وہ آپ اگست میں نہیں کہہ سکتے‘


سینسرشپ

اس سال اکتوبر میں لاہور ایئر پورٹ پر اپنی فلائٹ کا انتظار کرتے ہوئے کامیڈین خالد بٹ کی ایک جانے پہچانے چہرے پر نظر پڑی جن کا نام وہ صیغہ راز میں ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ خالد بٹ کے مطابق وہ صاحب حکمران جماعت تحریک انصاف سے تعلق رکھتے تھے اور وفاقی وزیر کے عہدے پر براجمان تھے۔

خالد بٹ کے مطابق جب انھوں نے وزیر موصوف سے سلام دعا چاہی تو اس کے جواب میں انھوں نے خالد بٹ کو کہا کہ ’تم نے تو حد ہی پار کر لی ہے۔ کیا تمہیں اس پر پچھتاوا ہو رہا ہے۔‘

خالد بٹ یہ سن کر حیران رہ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے پہل تو مجھے سمجھ ہی نہیں آیا کہ وزیر صاحب کس ضمن میں بات کر رہے ہیں، پھر جب میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا وہ میرے کام کے متعلق بات کر رہے ہیں تو وہ ہنسنے لگے۔‘ پیغام واضح تھا۔

رواں سال فروری میں خالد بٹ کا نجی چینل نیو نیوز پر ہفتہ وار نشر ہونے والا پرائم ٹائم شو بند کر دیا گیا تھا۔ طنز و مزاح کے اس پروگرام کا نام ’نیشنل ایلین براڈکاسٹ (نیب)‘ تھا اور اس میں ہر ہفتے ایک اداکار کرکٹر، پولیس والا، ٹی وی اینکر یا سیاستدان کا روپ دھارتا اور مزاح نگار خالد بٹ ان سے بناوٹی انٹرویو لیتے۔

خالد بٹ نے بتایا کہ ان کو چینل انتظامیہ کی جانب سے پیغام بھیجا گیا کہ آپ کے شو کی وجہ سے ہمارے لیے متعدد مسائل پیدا ہو رہے ہیں لہذا آپکے شو کو بند کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’سیلف سینسر شپ: ’اب جان کی بجائے کام بند کرنے کی دھمکی کافی ہے‘

’ایسی سینسرشپ فوجی دور حکومت میں بھی دیکھنے میں نہیں آئی‘

’پاکستان میں سینسر شپ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے‘

خالد بٹ کے لیے یہ فون کال ہرگز غیر متوقع نہیں تھی کیونکہ فروری میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) میں بھی ان کے خلاف ایک شکایت درج کروائی گئی تھی جس میں مدعی کا کہنا تھا کہ خالد بٹ کے شو میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی ’ہتک عزت اور کردار کشی‘ کی گئی تھی۔

’بے مثال سینسرشپ‘

دو دہائیوں سے دنیائے ظرافت سے وابستہ خالد بٹ کی اس طرز نگاری کو ماضی میں بھی طاقت کی کرسی پر بیٹھنے والوں نے کبھی پسند نہیں کیا چاہے، وہ جمہوری حکمران ہوں یا ملٹری ڈکٹیٹر لیکن خالد بٹ کا کہنا ہے کہ ماضی میں کسی حکومت یا ادارے نے ان کے شو بند کرنے کے لیے زور نہیں ڈالا۔

خالد بٹ کا کہنا ہے کہ ’ماضی پر اب نظر ڈالتا ہوں تو مجھے پشیمانی ہوتی ہے کہ ہم نے اپنے شو میں سابق صدر زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ کافی زیادتی کی۔ ہم نے بچکانہ حد تک مزاح کے نام پر ان پر ذاتی حملے کیے لیکن پھر بھی کبھی ہمارے ساتھ یہ نہیں ہوا کہ ہمارا شو ہی بند کروا دیا گیا ہو۔‘

پاکستان میں سیاسی طنز و مزاح کی روایات کے بارے میں سیاسی تجزیہ کار محمل سرفراز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مزاح کو ہمیشہ سے ہی ایک منفرد حیثیت ملی ہے اور اخبار کے خاکے اور طنزیہ شاعری پاکستان کے سیاسی کلچر کا حصہ رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا ’حتیٰ کہ جنرل ضیا الحق کے دور آمریت میں بھی سرکاری ٹی وی پر ففٹی ففٹی جیسے پروگرام نشر ہوتے تھے۔‘

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں عمومی طور پر افواج پاکستان کے بارے میں طنز و مزاح کرنا شجر ممنوعہ کی حیثیت سمجھا جاتا رہا ہے جبکہ مذہب اور عدلیہ بھی ریڈ لائن کے اُس پار ہوتے ہیں۔ البتہ سیاستدان، کھلاڑی، صحافی وغیرہ مزاح نگاروں کے لیے مشق سخن فراہم کرتے رہے ہیں۔

تاہم خالد بٹ کے مطابق موجودہ وزیراعظم عمران خان کے دور میں ان کے شو پر چلائے گئے مواد کو ’تمام حدود پار کرنے‘ کے مترادف قرار دیا گیا۔

اس سال جنوری میں میں خالد بٹ نے وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کو ظرافت کی چھری تلے رکھا جس میں وزیراعظم نے مذاقاً کہا تھا کہ درد کش انجکشن لگنے کے بعد انھیں نرسز ’حوریں‘ دکھائی دینے لگیں۔

سینسرشپ

اس خاکے میں وزیراعظم کا کردار ادا کرنے والے اداکار اپنے آپ کو انجکشن لگاتے ہیں جس کے بعد خالد بٹ وزیراعظم کا کردار ادا کرنے والے کو امریکی پاپ سٹار جنیفر لوپز دکھائی دینے لگ جاتے ہیں۔

یہ خاکہ کبھی ٹی وی پر نہ چل سکا اور اس کے بعد خالد بٹ اپنے شو کو انٹرنیٹ پر نشر کرنے لگ گئے ہیں۔

خالد بٹ کے خیال میں تحریک انصاف کی سنہ 2018 میں حکومت سازی کے بعد سے ملک میں سیاسی طنز و مزاح کے لیے عدم برداشت پائی جاتی ہے۔

’ہمارے ملک کے وزیر اعظم جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آٹھ منٹ کی میٹنگ کرتے ہیں کیونکہ وہ بہت مصروف ہیں لیکن پھر ان ہی کا بیان آتا ہے کہ ترکش ڈرامہ دیکھو، تو مجھے لگتا ہے کہ معاملات بہت ہی خراب ہیں۔ ان کا مذاق ہی بنتا ہے، اور کیا کریں اس پر؟‘

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے اس بارے میں سوال پر کہا کہ پاکستان میں میڈیا قوانین کے تحت سینسرشپ یا پریس ایڈوائس کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی موجودہ حکومت اس طرح کے ہتھکنڈوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، جس سے ادبی یا صحافتی آزادی پر کوئی قدغن لگائی جائے۔

انھوں نے کہا ’وزیراعظم عمران خان خود ایک اچھا حس مزاح رکھتے ہیں۔ اظہار رائے کے بنیادی، آئینی اور جمہوری حق پر ہمارا کامل یقین ہے لیکن ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ طنزو مزاح اور تضحیک میں بڑا فرق ہے۔‘

شبلی فراز نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں اظہار رائے کی جتنی آزادی ہے میرے خیال میں کسی دوسرے مُلک میں کم ہی ہوگی۔‘

’حس مزاح کا فقدان‘

پاکستان ٹوڈے کے اشتراک سے امریکی اشاعت ’دا انئین‘ کی طرز پر کام کرنے والے پیروڈی اور طنز و مزاح پر مبنی جریدے ’دی ڈیپنڈنٹ‘ کے ایڈیٹر عمر عزیز خان کا بھی ماننا ہے کہ سیاسی مزاح نگاری کے لیے اب ماحول سازگار نہیں۔

عمر عزیز خان کا کہنا تھا کہ ’جو کچھ آپ مارچ میں کہہ سکتے تھے وہ آپ اگست میں نہیں کہہ سکتے اور جو آپ اگست میں کہہ سکتے تھے وہ اب نومبر میں نہیں کہہ سکتے۔‘

حالیہ چند دنوں میں پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کافی گفتگو چل رہی تھی۔ اس موضوع پر ’دی ڈیپنڈنٹ‘ نے جو ہیڈ لائن چسپاں کی وہ کچھ اس طرح تھی: ’فاشسٹ نسلی عصبیت والی ریاست ایک فاشسٹ نسلی عصبیت کی متمنی ریاست سے تعلقات قائم کرنے کی خواہاں۔‘

عمر عزیز کا ماننا ہے کہ ملک میں طنز و مزاح نگاروں کو روایتی صحافیوں کے برعکس زیادہ آزادی حاصل ہے۔

وہ کہتے ہیں ’روایتی مباحثے یا بات چیت میں لوگ زیادہ چوکنا ہوتے ہیں دوسری طرف اگر آپ مذاق میں بات کر رہے ہوں تو لوگ اتنے محتاط نہیں ہوتے، اپنے خیالات دوسرے تک پہنچانے کا یہ ایک زبردست طریقہ ہے۔‘

لیکن تین سال سے قائم ’دی ڈپینڈنٹ‘ کو بھی اپنی اشاعتوں پر سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے اور متعدد قانونی نوٹسز اور حکام کی جانب سے فون کالز موصول ہو چکی ہیں۔

عمر عزیز کا کہنا ہے کہ ’حتی کہ ہمیں فیک نیوز تک کہا گیا، مطلب کہ یار حد ہی ہے یہ تو۔‘

حکومتی دباؤ کی مثال دیتے ہوئے عمر نے نومبر کے اس واقعے کا ذکر کیا جب اُس وقت کے وزیر داخلہ بریگیڈئیر اعجاز شاہ کی ایک ویڈیو وائرل ہو گئی تھی جس میں وہ ایک مجمعے سے بات کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ماضی میں سیاسی جماعتوں کو پاکستانی طالبان کی جانب سے ان کی دہشتگردی کے حوالے سے پالیسیز کے ’ردعمل‘ کے طور پر نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

اس ویڈیو میں بریگیڈئیر اعجاز شاہ نے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ فوج مخالف موقف پر ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہو سکتا ہے۔

اس بیان پر دی ڈپینڈنٹ نے ایک تصویر پوسٹ کی جس کا عنوان تھا ’بریگیڈئیر غدار‘ جس میں ایک جھنڈے پر سابق وزیر داخلہ کی تصویر تھی لیکن انھیں اسی دن اس سٹوری کو ہٹانا پڑا۔

عمر عزیز خان کا کہنا ہے کہ تنقید برداشت کرنے کے لیے تمام ہی حکومتوں کے ’دل چھوٹے‘ ہوتے ہیں لیکن موجودہ حکومت تو حس مزاح سے یکسر عاری ہے۔

’تنقید برداشت کرنے کے معاملے میں تو ان لوگوں کی کھال بالکل موٹی نہیں۔ اس حکومت میں جو خندہ پیشانی سے تنقید سنتے ہیں وہ صرف ’برے‘ الیکٹیبلز ہی ہیں کیونکہ یہ سیاسی لوگ ہیں اور مذاق برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔‘

خالد بٹ بھی اس نکتے نظر سے اتفاق کرتے ہیں۔ انھوں نے وزیراعظم کے ایک حالیہ انٹرویو میں کہی گئی ایک بات کی طرف اشارہ کیا جس میں وزیراعظم کا عندیہ تھا کہ انھیں اس پر اعتراض نہیں کہ خفیہ ایجنسیاں ان کی تمام فون کالز کو سنتی ہیں۔

’ایک ایسا ملک جہاں کا وزیراعظم بھی آزادی سے بات نہ کر سکتا ہو، ہم کیسے کسی اور کے لیے آزادی اظہار کی بات کر سکتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp