لاڈ بھرے نام: کھنگورے سے جانو اور میرا شونا تک


اب کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ ادھر جرمنی سے محبؔی کولمبس خان صاحب نے دعوی کیا کہ ان کو یہ تسلی ہے کہ ان کو اصل نام سے پکارنا ان کے ممکنہ بگاڑے گئے نام سے زیادہ آسان ہے۔ کہ کولمبو بولنا کولمبس کہنے سے زیادہ زور لیتا ہے۔ اب ان کی اس امریکہ کی دریافت سے زیادہ وزنی بات سے ہم مرعوب ہوئے ہی تھے۔ کہ ”ہم سب“ اردن کے شاہ حسین مرحوم کی بھابھی پاکستان کی ثروت حسن کی شادی کے دن مع ان کے گھریلو نام ”بٹلم“ کو یاد کرا گیا۔

ساتھ ہی ٹی وی کے سامنے گزرتے کپور خاندان کی سپوت اداکارہ کے نام ”بے بو یا بیبو“ کی بھنک پڑی۔ اب ادھر اپنی مرحومہ بے نظیر سے وابستہ ”پنکی“ تو یاد آنا تھا۔ اس سے ہمارا دھیان ماں باپ کے رکھے اصل نام ( جو ہمارے زمانے میں عموماً ماں باپ کو رکھنے کی جرات ہی نہ ہوتی تھی۔ کہ بزرگوں کا راج تھا ایسے معاملات پر ) اور بعد میں جس نام سے بچہ اپنے آپ کو پہچانتا۔ کی طرف نکل گیا۔ ابھی اس ”کھلے تضاد پر غور شروع کیا تھا کہ انہی دنوں بھارت سے آمدہ خبر یاد آ گئی۔ تو پہلے وہ سن لیجیے۔

خاتون خانہ نے فون اٹھایا۔ تو انسداد پولیو محکمہ کی خاتون نے تحکمانہ فرمایا۔ ہمارے ریکارڈ کے مطابق آپ نے ابھی تک اپنے بچے کو دو بوند پولیو بچاؤ قطرے نہیں پلوائے۔ جواب دیا۔ کیا کہہ رہی ہیں۔ میرا تو ابھی کوئی بچہ ہے ہی نہیں۔

تو آپ کے ہمسائے جو روز آپ کے گھر سے ”میرا شونا۔ میرا لاڈا۔ میرا مٹھو۔ میرا بچہ۔ میرا منؔا“ کی آوازیں سنتے ہیں وہ کون کس کو کہتا ہے۔

آپ کو اس سے مطلب۔ جواب تھا۔ وہ تو میں پیار سے اپنے پتی دیو کو پکارتی ہوں۔

ٹھیک۔ تو منگل وار صبح نو بجے ان کو ساتھ لے دو بوند پولیو کے قطرے پلوانے انسداد پولیو سنٹر پہنچ جائیں۔

اب کیا کریں کہ زمانہ کے رنگ ہیں۔ پہلے بندہ گھر میں داخل ہو اپنے کمرے میں جاتے ہلکا سا کان کھجاتا یا کھنگورا مار گزرتا ( جو بھی کوڈ مقرر ہوتا ) اور بیگم ساس سسر یا بزرگو ں کی توجہ ہٹنے کا انتظار کرتی چھپتے چھپاتے اندر جاتی۔ اور رحمت اللہ کی بیگم سلام پھیرتی السلام علیکم منے کے ابا کہتی اور مکھن سنگھ کی پیالے میں مکھن کا پیڑا تیار رکھتی جو نام بتانے کے کام آتا۔ پھر زمانہ کہ صرف خاوند بیگم کا نام لینے پہ آیا اور بیگم منے کے ابا یا میں نے کہا سنیے ذرا یا اجی سنتے ہو۔ سے گزرتے شیخ صاحب۔ سردار جی مرزا صاحب پہ آئی۔ پھر نام کے ساتھ صاحب لگا اور جلد ہی اس کی بھی ضرورت نہ رہی اور اب کھلے عام جانو۔ اور کمرے میں میرا شونا کا دور ہے۔

ادھر ہمارے فیصل آباد گھر میں دیوار پار سے تقریباً ہر شام جو خاوند کے لئے پیار لاڈ کے نام سنائی دیتے وہ بہت کھلؔے ڈلھے اور ناگفتنی ہونے کے ساتھ موت آوے۔ پیچھا چھوڑے۔ جان بھی نہیں چھوڑتا۔ بھاڑ میں جائے۔ کہاں سے پلے پڑ گیا۔ آتے ہی چارپائی پہ لمبا ہو جاتا ہے قسم کا ( پنجابی کے لذیذ متبادل خود سمجھ لیں) کوئی لمبا سا لیکچر شروع ہو جاتا اور جب سارا دن خراد پہ کام کر کے تھکے ہارے آئے لیٹے مستری صاحب کی طرف سے جواب نہ آتا تو خالہ سارہ کا پارہ اور تیز ہو جاتا۔

جب وہ تھک کے خاموش ہونے لگتیں (ایک دن میری والدہ مرحومہ نے ہنستے اس کلائمیکس کو دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر سننے کی خصوصی فرمائش کی تھی) ہاں تو جب وہ تھک کر خاموش ہونے لگتیں۔ مستری صاحب لیٹے لیٹے ایک ہلکی سی آواز میں ابھی آدھا فقرہ نکالتے ”اک توں ای جے مک جائیں تے“ کہ یہ ڈرامہ دوبارہ شروع ہو جاتا۔ آج یہ احساس بھی صحیح یا غلط سوچ لئے آتا ہے۔ کہ پیار یہ میرا جانو۔ میرا شونا والا دیرپا ہے کہ ہر آٹھواں دسواں گھرانا چند مہینوں سے شروع ہو کر بعض اوقات پچیس تیس سال بعد بھی ٹوٹتے، طلاق اور علیحدگی کا شکار ہو رہا ہے۔

اور دن رات سب کے سامنے بھی میرا جانو۔ میرا شوہنا۔ میرا پارا۔ کرنے والے ایک دوسرے کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو در گزر کرنا ایک دوسرے کی خامیوں کو فطرت سمجھتے برداشت کرنا یا خود بھول جاتے ہیں یا ارد گرد کی انگلیاں شعلے بھڑکائی اور زبانیں بے غیرت، جھوٹی۔ میں اس ڈائن کو سبق سکھا کے رہوں گا۔ پر آجاتی ہیں۔ اور آسانی سے حل ہوسکنے والے بکھیڑے کوتاہ اندیشوں کی انا اور ضد کا شکار ہو لاینحل کی حدود میں جا پہنچتے ہیں۔

یا ان گالیوں میں زیادہ لذت اور محبت اور ساتھ نبھانے کا اور ایک دوسرے کے لئے ہر قربانی کا جذبہ والا ہے کہ جب وہی مستری صاحب سائیکل ٹکر سے گر کر ران کی ہڈی تڑوا بیٹھے تو وہی لڑتی گالیاں نکالتی سارہ خالہ دن رات سرہانے بیٹھ خدمت کرتی اور روزانہ گائے کے پائے کا شوربہ کے علاوہ پوچھ پوچھ اپنے وسائل سے نکل کر بھی۔ ہر وہ ٹوٹکا کرتیں جو انہیں ہڈی کے جوڑ کو جلد پکا کرنے کے کا کہیں سے بھی بتایا جاتا

بہر حال لاڈ پیار کے ناموں کی یہ بھی ایک قسم ہے۔ جو خاصی معروف ہے۔ اور کھڑاک اور پیار کا اچار ہے۔

اب جو اس موضوع نے ذہن میں خارش شروع کی تو نئے نئے عجیب عجیب فارمولوں نے سامنے آ آ کر اپنی کہانیاں شروع کر دیں۔ پہلا موڑ اتفاقیہ ایسا آیا کہ ہم اب اپنے کولمبس بھائی کو امریکہ کی بجائے ویسٹ انڈیز ( جہاں وہ اصل پہنچا تھا) پہنچائیں گے۔ کہ باہر ٹھنڈ کا ذائقہ چکھنے سر دروازے سے باہر نکالا تو سامنے گزرتی پورش کار میں سردار صاحب کے پوری آواز سے لگائے اپنے زمانے کے مشہور ترین گیت ”پہلی پہلی بار دیکھا تیرا جلوہ۔ لڑکی ہے یا شعلہ“ کا بول ”چڑیا پھنسے نہ لمبوا“ کان کو ٹکرایا۔ ہن دسو کولمبس صاحب۔ کولمبو تے واقعی اوکھا جے۔ لمبوا کے متعلق کیا رائے ہے۔ شکر کریں آپ کے انتہائی بچپن کے بعد یہ گانا آیا ہوگا۔ خدا کرے آپ کا قد بھی نکلتا ہوا ہو۔ ورنہ گنجائش تو بن گئی نا۔

ہاں تو سب سے عام تو وہی کہ اصل رکھے گئے نام کو سہولت اور اختصار کی غرض سے تھوڑا سا موڑ دے دیا۔ تو رحمت رحمو۔ غلام محمد گاما پہلوان اسلم اچھا پہلوان۔ نور محمد نوری نت۔ اور زبیر جھارا اور اکرم اکؔی پہلوان بنتے اپنے اصل نام صرف سرکاری کاغذوں اور سکول ریکارڈ میں محفوظ رکھ سکے منیر مینی اور مبشر بچھو میں بدل گیا۔ دلا بھٹی کے دیس کی ہماری نانی ست بھرائی سے ستاں۔ بھاگ بھری بھاگاں۔ رابعہ روبی۔ شازیہ شازی اور شاہینہ کو ہمارے گلو کار کی چھؔنو کا لقب لینا پڑا۔ اب ان ناموں سے اگر بڑھاپے تک یاد کیا جائے تو بندہ اندازہ کر ہی لیتا ہے کہ شمو اگر شمیم نہ ہوئی تو شمائلہ ہو سکتی ہے۔ اور پکارے جانے والا بھی بد حواسی تک نہیں پہنچتا

دوسرا سرا۔ محض پیار سے یا بچپن کی کی کسی خاصیت سے یا بڑے بچے کے چھوٹے بچے کا نام لیتے کوئی نام مختلف رکھ دیا گیا۔ اور عام مانو۔ بلی۔ گڈی۔ اور بلا۔ کاکو۔ گوگا۔ وغیرہ وغیرہ ہی میں بدلتے ہیں لیکن اگر بچپن میں ہی کوشش کر کے ان سے چھٹکارا نہ حاصل کر لیا جائے تو اخیر عمر تک وہی چلے گا۔ مثلاً میری بیگم لاہور اپنے بھتیجے سے فون ملا دو فقرے بول فرماتی ہیں۔ اچھا اب فون ”کاکے“ کو دے دو اب یہ کاکا جی ان سے دو سال بڑے بہتر سالہ ان کے بھائی ہیں۔

پھر بہن کے گھر فون ہوتا ہے بھانجا یا ان کی بیگم اٹھا لے تو ”بے بی“ کے کان سے لگانے کی فرمائش ہوتی ہے جو تین چار سال چھوٹی چھیاسٹھ سالہ بہنا ہے۔ ببو پپو۔ گڈا گڈی بھی اگر چلتے رہنے دیے جائیں تو آخر عمر تک چلتے ہی جاتے ہیں ادھر اسی عمر کے کزن کینیڈا میں اپنے خاندان میں گڈا اور منؔا ہی پکارے جاتے دو بھائی ہیں۔ بہر حال یہ وہ کیٹیگری ہے جو ہر چند گھروں بعد کسی نہ کسی گھر میں مل جائے گا۔ اب اس نام سے غیروں کے سامنے بھی پکارا جاتا ہے کہ اصل نام یاد ہی نہیں ہوتا۔ تو پھر اس۔ کاکا یا بے بی یا گڈا کو کچھ جھینپنا تو پڑتا ہے۔

اب ذکر چھڑ گیا قیامت کا تو کچھ اور پھول جھڑتے نظر آ گئے۔ بس صرف اکاون سال قبل کی بات ہے۔ شادی ہوئے سال کے لگ بھگ ہو گا۔ ہمسائے دکاندار چوہدری نیاز صاحب نے لڑکا بھیج کر فون نمبر منگوایا۔ تھوڑی دیر بعد کوہ نور ٹیکسٹائل ملز کے فون آپریٹر نے پر چیز ڈیپارٹمنٹ سے بات کا کہا۔ نہایت مؤدب آواز میں۔ اب ذرا اس مکالمہ پہ غور کیجئے گا۔ کہ ہم تو آج تک بھول نہیں پائے شاید آپ بھی یاد رکھیں۔

” جی محترم معاف کیجئے گا کچھ ذاتی بات ہے۔ کوئی غلطی ہو یا آپ سے متعلق نہ ہو تو معاف کیجئے گا۔ وہ ڈھونڈتے ڈھانڈتے خواجہ حفیظ پرچیزر سے پتہ چلا کہ آپ جوان بھی ہیں اور تعلق بھی جماعت احمدیہ سے ہے“ ظاہر ہے جواب اثبات میں تھا۔ پھر نام پوچھا گیا۔

” تو جناب آپ کی شادی کو بھی ابھی تھوڑا عرصہ ہوا ہے نا“ ۔ جی بالکل ایسا ہی ہے۔ ماننا پڑا

” تو جناب مجھے یہ بات پوچھتے ڈر لگ رہا ہے۔ مگر صاحب کا حکم ہے۔ جی وہ وہ آپ کی بیگم کا نام بلؔو ہے“ اب تو حیرانی کی حد تھی۔ لگ رہا تھا کہ پوچھنے والے کے ما تھے پہ پسینہ ہو گا اور ادھر حیرت سے منہ کھلا تھا۔ جی جی۔ ان کے گھر میں اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔

” او خدا تیرا شکر ہے۔ کل سے ہلکان تھے۔ پلیز ہولڈ کیجئے ہمارے سپننگ ماسٹر صاحب آپ سے بات کریں گے“ ۔
اب سپننگ ماسٹر صاحب کا انٹرویو شروع ہوا۔

” لئیق صاحب میں سپننگ ماسڑ سوری بات کر رہا ہوں۔ بات یہ ہے کہ میری بیگم کی بھابھی لاہور سے آئی ہوئی ہیں اور ان کا یہ حکم تھا ان کو اپنے ماموں کی بیٹی سے ملوایا جائے۔ اب نہ ان کو اپنی اس کزن کے اصل نام کا پتہ ہے کہ ان کے مطابق خاندان بھر میں لاڈ کے نام ہی چلتے ہیں۔ اور جب بہن کے نام کا نہیں پتہ تو بہنوئی کا نام کس نے یاد رکھا۔ بس اتنا پتہ تھا کہ بلو کی شادی فیصل آباد ہوئی ہے اور ان کے خاوند آٹو پارٹس کے بزنس میں ہیں اور احمدی ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ ہم اسی طرح ڈھونڈ سکتے تھے جس طرح ڈھونڈا“

اب ٹیلیفون بیگم کی کزن کے پاس تھا اور جب سب کوائف کنفرم ہو گئے تو ہم بیگم کو گھر فون پہ بتا کوہ نور ملز کی طرف رواں تھے اور تھوڑی دیر بعد دونوں بہنیں۔ ہائے بلو ہائے خالدی باجی کر رہی تھیں۔

کہانی ایک اور بھی ہے۔ بعد میں سہی۔ مگر ایک مسئلہ کچھ کم پائے جانے والے ناموں کے ساتھ بھی ہے۔ کچھ فائدہ بھی۔ خود ہمارا نام لئیق ایک بہت محترم ہستی کا عطا فرمودہ اچھے پڑھے لکھے احباب بھی۔ علیق۔ لیق۔ لائق یا لیک تک لیتے۔ بھلا ہو وہ پی ٹی وی میں ایک لئیق احمد صاحب آنا شروع ہوئے۔ تو کچھ آسانی ہوئی۔ مگر اس طرح۔ ”کون سا لئیق“ کے سوال کی ضرورت نہ تھی۔ ورنہ ہمارے والد صاحب شیخ دوست محمد نام کے ساتھ شمس لکھتے تا ان کے ہم عمر اور سنگی ساتھی، دوست محمد پوری، دوست محمد آنول، دوست محمد زنانہ، دوست محمد کل والے، دوست محمد زینت والے (دو تین اور بھی تھے) سے ممیز ہو سکیں۔ تاہم بعض نام کسی امتیاز یا کارنامہ یا اہمیت کی وجہ سے قوم یا معاشرہ عطا کرتا ہے اور لوگ اصل کی بجائے یہ یاد رکھتے۔ قائد اعظم، مفکر اعظم، پری چہرہ ( نسیم۔ سائرہ بانو کی والدہ)، ملکۂ ترنم۔ ملکہ جذبات۔ چاکلیٹ ہیرو۔ پنڈی ایکسپریس۔ بوم بوم، لٹل ماسٹر صرف چند مثالیں ہیں۔

اب ہمارے لب پہ آئے وہ نام (صرف چند) جن کی نہ کچھ وجہ تسمیہ سمجھ آتی ہے نہ آگا پیچھا نہ ماخذ اور پھر لطف یہ کہ گھر خاندان میں اتنے معروف کہ اصل نام کوئی لیتا ہے نہ جانتاہے۔

اوپر بیان کردہ کہانی سے کوئی چند ماہ قبل ہمارے گھر کے ایڈریس پر والد صاحب کے نام ایک نامہ آیا۔ اب وہ بھی پڑھ لیں۔ سلام کے بعد ”مکرم شیخ صاحب میرا نام شیخ۔ ہے اور میری بھتیجی“ بلو ”جس کا اصل نام مجھے نہیں پتہ آپ کی بہو ہے۔ میری بیٹی“ ددھا ”اس کا بھی اصل نام مجھے یاد نہیں کی شادی۔“ آگے شادی میں شرکت کا دعوت نامہ تھا۔ اور یہ میرے چچا سسر پنجاب سیکرٹیریٹ میں ایک اعلی عہدہ سے ریٹائر ہوئے تھے۔

ہمارے گھر کے لیے یہ چسکے عجوبہ تھے کہ ہمارے بچپن سے والد صاحب نے گھر میں صرف اصل نام استعمال کرنے پر زور رکھا تھا بلکہ عزیزوں ملنے والوں کو بھی ہمارے اصل نام لینے کی درخواست کرتے رہتے۔ اور یہی سبق ہم نے ساری عمر رکھا مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں سے کچھ گڑبڑ ہو جاتی ہے

اب یہ تو ہمارے معاشرے میں شادی کے کھٹے میٹھے سوادی مرحلے سے گزرنے والے ہر مرد بلکہ اس وقت جواں مرد دکھنے کی کوشش کرنے والے کو علم ہے کہ ”دلہا کو اندر لایا جائے“ کے اعلان کے بعد سے وہ جو جوتا چھپائی اور دودھ پلائی (لو جی اب ایک ویڈیو آئس پلائی بھی گھومتی پائی) کا مرحلہ ”دل دھڑکنے کا سبب“ یاد ہی نہیں کرنے دیتا۔ مگر ساتھ دونوں گھرانوں کی کریم کا مجمع بھی ہوتا ہے۔ تو اس وقت ہمارے حواس کچھ ساتھ دے گئے تھے۔ نوٹ کیا کہ سالی قسم کی لگنے والی لڑکیاں ایک دوسرے کو کو کوئی خلائی قسم کے ناموں سے پکار رہی تھیں۔ اور جو کڑکتی آواز میں ہم سے دودھ پلائی مانگ رہی تھی ہم نے اس اپنا رشتہ پوچھتے اس کانام پو چھا تو ”زریں“ بتایا۔ عرض کیا کہ نہیں یہاں تو کوئی یہ نام لے ہی نہیں رہا وہ بتائیں کہ ہم نے زندگی بھر جس نام سے پکارنا ہے۔ تو دور سے آواز آئی۔ کولی۔ اب ہم نے سالیوں کے اس جھرمٹ سے نام پوچھنے شروع کردیے۔ ایک تو دودھ پلائی اور جوتا چھپائی کے امتحان کم خرچ بالا نشین رہے تو دوسرے وہ نام آج تک چودہ طبق روشن کر رہے ہیں۔ صرف چند عرض ہیں۔ جو اصل نام سے لگؔا بالکل نہیں کھاتے۔ بٹو۔ ددھا۔ پتلی۔ پوچی۔ گوندی۔ کپا۔ کٹؔی (زیر کے ساتھ) مٹھی۔ لڈو اور بوتری وغیرہ اور ادھر جپھو قاضی۔ کاکو بھی تھے۔ کاکا۔ طافی۔ رانی۔ بے بی چندا وغیرہ قسم کو چھوڑتے۔

بات لاڈ کے یا مختصر کیے آسان کیے بے تکلفی سے لئے جانے والے ناموں کی ہو رہی تھی۔ یہ ہر زبان اور معاشرت کا ایک بہت ہی پیارا رخ ہے۔ جو محبت اور اپنائیت کے بڑھانے کا سبب ہے۔ ہندی پنجابی عربی انگریزی۔ جرمن فرانسیسی چینی کوئی زبان لے لیں۔ اس مصالحہ کی خوشبو سے سبھی رنگین ہیں۔ مگر پچھلی چند دہائیوں سے ایک اور قسم ابھرتی جا رہی ہے۔ وہ ہے دور کے دیسوں میں جا بسنے والے وہاں کے لوگوں کو اپنے نام کا تلفظ نہ سمجھا سکنے والوں کے لئے اپنے نام اسی زبان میں کسی مخفف کو نام کے ساتھ سرکاری یا ویسے شامل کرنے کی۔

تو سوچنا پڑتا ہے کہ یہ جو جیگ ملنے آ رہا ہے جیگوار ہے یا جگجیت سنگھ۔ اور یہ جو سونی سے ملنے جانا ہے یہ سونیا کور ہے سونم کپور ہے سندرم ملیاتھم ہے یا کوئی سن چو پائی۔ ہیری ہرنام سنگھ نکل سکتا ہے اور ٹونی طاہر۔ نک نکولس بھی ہو سکتا ہے اور نانک چند۔ ہماری آنکھوں کے لئے ڈاکٹر اپنا نام تنؔو بانسل اور بہن منؔو بانسل بتاتا ہے ویسٹ انڈیز میں تو ویسے ہی خصوصاً ٹرینڈاڈ میں ہندو مسلم عیسائی آپس میں شادیوں کے عام ہونے سے اور یہاں کے کینیڈا کے باشندوں میں بھی۔

مائیک حسین۔ خالدہ جوزف۔ طارق رام۔ گوتم عزیز قسم کے نام عام ہوتے جا رہے ہیں۔ مگر ٹرینیڈاڈ سے مشتاق محمد اور سعید احمد سے جب کریدا تو پتہ چلا کہ ان کے باپ مشتاق محمد اور سعید احمد کے فین تھے اور بیٹوں کو ان کے متعلق بہت کچھ بتا رکھا تھا اور یہ کہ ساٹھ کی دہائی تک کے بہت سے پاکستانی کھلاڑیوں کے نام پر رکھے نام کافی مل جاتے ہیں۔

اب آگے دیکھتے ہیں یہ جانو اور شونا بڑھتے کہاں پہنچتے ہیں۔ ابھی تو ایک معمر سکھ خاتوں کی ویڈیو اپنی سہیلی کو کچھ اس طرح بتاتی دیکھی۔ یہ بتاتی ہوئی کہ جانو پکارنے کے بہت فائدے ہیں جانو جانو کرتے ساتھ دل کی بھڑاس بھی نکالی جا سکتی ہے۔ اسے بھی سر دے سائیں کو جانو کے نام سے پکارنے کی تلقین کرتی اپنے بہت پیارے خوند کو پکارتی ہے ”ہائے جانو۔ وے سویر دا منجا توڑنا پیا ایں جانو آکے بھانڈے دھو تے پوچا لا۔ ہائے جانو ٹٹ پینیاں۔ مینوں ہانڈی نوں دیر ہوندی پئے۔ ایتھے کیہڑا تیرے ابے دا ہوٹل اے کہ پکی پکائی آ جانی اے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).