کریمہ بلوچ کی والدہ جمیلہ سے خصوصی انٹرویو: ’میں بیٹی کی موت پر بھی نہیں روئی کیونکہ وہ یہ پسند نہ کرتی‘


’میں بیٹی کی موت کا سن کر بھی نہیں روئی، کیونکہ میں جانتی ہوں کہ میری بیٹی بہت بہادر اور مضبوط اعصاب کی مالک تھی۔ اگر میں روئی تو یہ میری بیٹی کو پسند نہیں آئے گا۔‘

جمیلہ بلوچ کا کرب ہر بخوبی ماں سمجھ سکتی ہے۔ ان کی بیٹی کریمہ کی کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں ہلاکت کی خبر پوری دنیا میں زیر بحث ہے اور انسانی حقوق کے کارکنان ان کی موت کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابقہ اور پہلی خاتون چیئرپرسن کریمہ بلوچ کو 2016 میں بی بی سی نے اپنی سو بااثر خواتین کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

کریمہ بلوچ کا تعلق صوبہ بلوچستان کے ضلع تربت سے تھا اور وہ کینیڈا میں پناہ گزین کی حیثیت سے مقیم تھیں۔

ان کا شمار ان خواتین طالب علم رہنماوں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے قدامت پسند معاشرے میں نئی روایات قائم کرتے ہوئے تربت سے لے کر کوئٹہ تک احتجاج کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ٹورونٹو سے لاپتہ سیاسی کارکن کریمہ بلوچ کی لاش پانی میں سے ملی

حیات بلوچ کے والد نے شناخت پریڈ میں ملزم ایف سی اہلکار کو شناخت کر لیا

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سربراہ کے کزن لاپتہ

ٹورنٹو پولیس کے مطابق کریمہ بلوچ 20 دسمبر کو لاپتہ ہوئی تھیں۔ ان کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ان کے خاوند حمل حیدر نے پولیس کو دی جبکہ 21 دسمبر کو ان کی لاش پانی سے برآمد ہوئی۔

حمل حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹورنٹو پولیس کریمہ بلوچ کے ساتھ پیش آنے والے حادثے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جمیلہ بلوچ نے کہا کہ کریمہ کو کبھی بھی جلا وطنی کی زندگی پسند نہیں تھی۔

’میری بیٹی کو بلوچستان کے پہاڑوں، راستوں، گلیوں، محلوں، درختوں اور کھجور کے باغوں سے عشق تھا۔ کینیڈا میں رہتے ہوئے بھی ان کے بارے میں بات کرتی تھی۔ مجھ سے کہتی تھی کہ میں ان فضاؤں اور نظاروں کو اس کا سلام پیش کروں۔ وہ جب بھی فون کرتی تو اپنے سارے پڑوسیوں کا نام لے لے کر ان کا حال پوچھتی تھی۔‘

کریمہ کی یادیں ہی میرا سہارا ہیں‘

جمیلہ بلوچ نے کہا: ’مجھے ایسے لگتا ہے کہ میرے اوپر کسی نے سات آسمان پھینک دیے ہیں، مگر میری آنکھوں سے آنسو نہیں نکل رہے ہیں کیونکہ میری بیٹی نے سوچ سمجھ کر اس راستے کا انتخاب کیا تھا۔ وہ صرف اپنے لیے ہی زندہ نہیں تھی بلکہ وہ کئی بلوچ لاپتہ نوجوانوں کی رہائی کی جنگ لڑ رہی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اب میری باقی ماندہ زندگی کریمہ کی یادوں کے سہارے گزرے گی۔‘

’میں نومبر 2015 کی وہ شام کبھی بھی نہیں بھول سکتی جب میں مغرب کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تو وہ دوڑ کر آئی اور اس نے سر میری گود میں رکھ دیا۔ مجھ سے کہنے لگی کہ ’میں بہت دور جا رہی ہوں، جس پر میں نے اس کے سر کو سہلایا اور پوچھا کہ میں قربان جاوں کدھر جا رہی ہو، اپنی ماں اور اپنے علاقے کو کیوں چھوڑ کر جا رہی ہو؟ تمہیں تو کبھی بھی باہر رہنا پسند نہیں تھا۔‘

اس پر کریمہ نے کہا کہ ’یہ تنظیم کا فیصلہ ہے۔‘

جمیلہ نے بتایا ’میں اس وقت چپ ہوگئی تھی کیونکہ کچھ سال پہلے بھی اس کا ویزہ آیا تھا، مگر وہ باہر نہیں گئی تھی۔ وہ کہتی تھی کہ میں سب کچھ کر سکتی ہوں، مگر مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ اپنے علاقے کو چھوڑ کر کہیں جاؤں۔ مگر اس دفعہ تو وہ چند دنوں کے اندر ہی چلی گئی۔‘

جب جمیلہ اپنی بیٹی کو چھوڑنے ایئر پورٹ گئیں تو وہاں انھوں نے بلوچی زبان میں کچھ اشعار پڑھے جن میں اپنے ملک سے محبت اور اس کی خوبصورتی کا اظہار کیا گیا تھا۔ ’اس پر اس نے مجھ سے کہا کہ ماں یہ شعر کیوں پڑھے ہیں؟ یہ شعر مجھے جانے سے روک دیں گے۔‘

جمیلہکا کہنا تھا میں نے بیٹی کو حوصلہ دیا اور کہا کہ جاؤ اور وہاں پر جا کر اپنی پڑھائی مکمل کرنا او ر پھر اپنا مقصد پورا کرکے جلد واپس آنا۔

’اس موقعے پر میری آنکھیں نم ہوچکی تھیں۔ مگر میں نہیں چاہتی تھی کہ کریمہ میری آنکھوں میں نمی دیکھے اور کینیڈا جانے کا ارادہ ترک کردے۔ اس لیے اس سے نظریں بچا گئی تھی۔ کاش اس وقت میں ایسا نہ کرتی تو شاید وہ ٹورنٹو میں موت کا شکار نہ ہوتی۔‘

جمیلہ بی بی کا کہنا تھا کہ بچپن ہی سے جب بھی کریمہ کی شادی کی بات ہوتی تو میں ڈر جاتی تھی کہ یہ مجھ سے دور چلی جائے گئی۔ مگر پھر بھی اس کی شادی بھرپور طریقے سے مقامی رسم و رواج سے کرنے کا شوق تھا۔ مگر افسوس کہ میں ایسا نہ کرسکی۔

وہ جب کینیڈا چلی گئی تو اس وقت تحمل حسین کا رشتہ آیا۔ تحمل حسین کے گھر والوں سے ہمارے تعلقات تھے۔ یہ بھی باہر ہی ہوتا تھا۔ کریمہ کے بھائی اور والد اس رشتہ پر متفق تھے۔ جس وجہ سے میں نے رشتہ دے دیا اور ان کی کینیڈا ہی میں شادی ہوگئی تھی۔

جمیلہ کا کہنا تھا کہ ’حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ جن دونوں ان کی شادی تھی۔ ان دونوں میرا چھوٹا بھائی ماسٹر نور احمد جو کہ تقریباً ایک سال سے لاپتا تھا اس کی مسخ شدہ لاش ملی تھی۔ جس وجہ سے نہ تو ہم پاکستان میں کریمہ کی شادی کی خوشی منا سکے اور نہ ہی ان دونوں نے کوئی شادی کی خوشی منائی تھی۔`

کریمہ بلوچ کے خاوند تحمل حسین کا کہنا تھا کہ ’زمانہ طالب علمی کے دوران، میں بھی بلوچ سٹوٹنس آرگنائزیشن میں شامل تھے۔ زمانہ طالب علمی کے بعد میرا ٹھکانہ یورپ ٹھرا تھا۔ جب کریمہ کینیڈا آئی اور میری اس سے ملاقات ہوئی تو اس کی بہادری، جرات اور شخصیت نے مجھے بہت متاثر کیا اور اسی وقت فیصلہ کیا کہ میں کریمہ کے ساتھ بہت اچھی زندگی گزار سکتا ہوں۔‘

تحمل حسین کا کہنا تھا کہ ’میں نے کبھی بھی کریمہ کو پریشان نہیں دیکھا۔ درحقیقت وہ حوصلہ کا پہاڑ تھی۔‘

’بلوچستان میں اس کے گھر پر مارٹر گولے فائر ہوئے۔ اس کے گھر پر کئی مرتبہ کریمہ بلوچ کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے گئے۔ اس کو براہ راست دھمکیاں دی گئیں۔ سوشل میڈیا پر بھی دھمکیاں ملیں مگر میں نے اس کو کبھی بھی پریشان نہیں دیکھا تھا۔‘

تحمل حسین کا کہنا تھا کہ اس دوران ایک مرتبہ کریمہ کی درخواست کی سماعت تھی۔ سماعت سے چند منٹ پہلے پتا چلا کہ کریمہ بلوچ کے لاپتہ ماموں کی مسخ شدہ لاش دریافت ہوئی ہے۔

اس موقع پر کریمہ بلوچ کی وکیل نے کہا کہ ’یہ تو بہت افسوس ناک ہے اگر کریمہ بلوچ چاہیے تو تاریخ لی جاسکتی ہے۔ مگر کریمہ نے فیصلہ کیا کہ نہیں تاریخ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

تحمل حسین کا کہنا تھا کہ کریمہ کے کئی ساتھی لاپتہ تھے۔ وہ ان کے لیے جدوجہد کے ساتھ ساتھ اکنامکس کی تعلیم حاصل کررہے تھے۔ اب وہ بلوچ سٹوٹنس آرگنائزیشن سے فارغ ہوچکی تھی۔ اس نے فیصلہ کیا تھا کہ اب جلد ہی بلوچ نیشنل موومنٹ میں شمولیت اختیار کرکے جدوجہد کو جاری رکھی گئی مگر اس کو مہلت ہی نہیں ملی تھی۔

’مجھ سے تو میری زندگی کا قیمتی ساتھی بچھڑ چکا ہے۔ مگر بلوچستان بھی ایک بے باک اور مخلص قائد سے محروم ہوچکا ہے۔ ‘

کریمہ ڈاکٹر کے پاس گئی لیکن واپس نہیں آئی

تحمل حسین کا کہنا تھا کہ وہ برطانیہ اور کینیڈا میں سفر کرتے رہتے تھے۔ ہمارے شادی شدہ زندگی انتہائی شاندار گزر رہی تھی۔ میں وقوعہ سے ایک ہفتہ قبل ہی برطانیہ سے کینیڈا پہنچ کر اپنا قرنطینہ کا وقت گزار رہا تھا۔

بیس دسمبر کو کریمہ ڈاکٹر کے پاس گئی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ جلد ہی واپس آجائے گئی۔ جب وہ تین چار گھنٹے تک واپس نہیں آئی تو رابطہ کیا اور رابطہ بھی ممکن نہیں ہوسکا جس کے بعد پولیس کو بتایا گیا تھا۔ جس کے دوسرے دن پولیس نے اس کی لاش برآمد ہونے کی اطلاع دی ہے۔

تحمل حسین کا کہنا تھا کہ ’اس وقت میں کچھ بھی نہیں بتا سکتا کہ کریمہ کن حالات سے گزری ہے۔ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ ٹورنٹو میں پولیس بڑی باریک بینی سے تفتیش کررہی ہے۔ ہم بھی پولیس سے پورا تعاون کررہے ہیں۔ جیسے ہی پولیس ہمیں باضابطہ طور پر واقعہ کے حوالے سے کچھ بتاتی ہے۔ ہم بھی اس کی اطلاع کریمہ بلوچ کے چاہنے والوں کو فراہم کردیں گے۔‘

کریمہ بلوچ پانچ بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ بڑا بھائی ہے اور کریمہ کا نمبر دوسرا ہے۔ کریمہ کی سب سے چھوٹی بہن ماہ گنج کا کہنا تھا کہ میرا عملی طور پر کریمہ کی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مگر جب وہ جلسے جلوس میں جاتی تھی تو میں صرف اس کی حفاظت کے لیے جاتی تھی۔ جب لاٹھی چارج ہوتا اور آنسو گیس پھینکی جاتی تو اس وقت میں صرف پاگلوں کی طرح اس کو تلاش کررہی ہوتی تھی کہ اس کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔

ماہ گنج کا کہنا تھا کہ ’میرا کریمہ کے ساتھ بہنوں والا کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ مجھے اپنی بیٹی سمجھتی تھی اور مجھے اپنی بیٹی ہی کہا کرتی تھی جبکہ میں اس کو لٹل مام کہتی تھی۔‘

’میں نے اس کو کئی مرتبہ کہا تھا کہ ’لٹل مام‘، تمھارے بغیر میری زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہے۔ ہمارے گھر اتنے مہمان ہیں کہ میں آپ کو بتا بھی نہیں سکتی۔ مجھے ان سب کے سامنے بہادر بننا ہے۔ مگر میرا دل رو رہا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں زور زور سے روؤں اور دنیا کو بتاؤں کہ میری لٹل مام کو مجھ سے چھین لیا گیا ہے۔ مگر میں ایسا نہیں کرسکتی ہوں۔‘

ماہ گنج کا کہنا تھا کہ ’مجھے رات کو پتا چل گیا تھا کہ کریمہ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ مگر میں نے رات کو اپنی ماں کو نہیں بتایا کہ اب ساری زندگی ہی کریمہ کے بغیر رونا ہی ہے تو رات تو کم از کم سکون سے گزار لے۔‘

صبح جب میں نے اپنی ماں کو بتایا تو مجھے پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کہ انھوں نے خاموشی سے وضو کیا، نماز پڑھی، دعا مانگی اور اس کے بعد مہمانوں کی آمد شروع ہوگئی تھی۔

ماہ گنج کا کہنا تھا کہ اب تو میں بڑے حوصلہ سے لٹل مام کی جدائی کو برداشت کررہی ہوں کہ مہمان آرہے ہیں۔ مگر مجھے نہیں پتا کہ میں اپنی باقی زندگی اپنی لٹل مام کے بغیر کس طرح گزاروں گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp