پادری مِک فلیمنگ: ایک خطرناک منشیات فروش سے زندگیاں بچانے والا مسیحا بننے تک کا سفر


Pastor Mick Fleming
چند ہفتے قبل لاکھوں افراد نے پادری مِک فلیمنگ اور فادر ایلکس فراسٹ کو برطانوی شہر برنلی میں بچوں کو کھانا کھلاتے اور ان میں کپڑِے تقسیم کرتے دیکھا۔ ان کے کام کو دیکھ کر بہت سے لوگ متاثر ہوئے اور انھیں عطیات کی مد میں ڈھائی لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ رقم موصول ہوئی۔

لیکن مِک فلیمنگ کی زندگی ہمیشہ سے دوسروں کو پیار دینے اور ان کا خیال کرنے میں نہیں گزری۔ وہ ماضی میں ایک خطرناک منشیات فروش تھے اور خود بھی اس کا استعمال کرتے تھے۔

انھوں نے اپنے بچپن کی درد ناک یادوں سے بچنے کے لیے منشیات کا رخ کیا۔ لیکن پھر اچانک ایک دن ان کی زندگی بدل گئی۔ شہر کے صنعتی علاقے میں صبح کے دس بج رہے تھے۔ مِک فلیمنگ جو لینکاشائر میں رہتے تھے، اپنے گھر سے بہت دور تھے۔ اس وقت ان کی عمر چالیس کے لگ بھگ تھی اور ایک جم کے باہر کسی کے نکلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ مِک ایک چرائی ہوئی گاڑی میں تھے، اس کار کا رنگ نیلا تھا۔ انھوں نے گاڑی کا انجن بند نہیں کیا کیوں کہ انھیں یہ کام تیزی سے مکمل کرنا تھا۔ ‘اس دن سورج نہیں نکلا تھا۔ مجھے اس شخص کے آنے جانے کے اوقات کا پہلے ہی سے پتہ تھا۔ اس کے بارے میں تمام معلومات میرے پاس تھیں۔ وہ بھی میری طرح ایک منشیات فروش تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

’امیر گھرانے میں جنم نہ لینا ان بچوں کی غلطی نہیں‘

پادری جو دولت اسلامیہ کے لیے بم بنانے پر مجبور ہو گیا

‘ہم طلبہ نے میرے والد کی رہائی کے لیے مسلح جنگجوؤں سے مذاکرات کیے‘

مک نے انگلینڈ کے شمال مشرق میں ایک منشیات فروش کی حیثیت سے بہت نام کمایا۔ اگر کوئی منشیات لے کر قرض ادا نہ کرتا تو مک اس کی وصولی کے لیے جانے جاتے تھے۔ قرض کی وصولی میں جب مک کی ضرورت پڑ جاتی تو اس کا مطلب تھا کہ قرض دار انتہائی بوجھ میں ہے اور اسے مک جیسے ہی خطرناک لوگوں کو اسے واپس کرنا ہے اور انھیں نقصان پہنچنے والا ہے۔’میرے پاس پلاسٹک کی ایک تھیلی میں بندوق تھی، جو کہ برابر والی سیٹ پر رکھی ہوئی تھی۔ آپ کو تھیلی دیکھ کر پتا چل رہا تھا کہ اس میں اسلحہ ہے۔ اس سے فنگر پرنٹ ملیں گے اور نہ ڈی این اے۔ چھ گولیاں، لوڈ کی ہوئی۔ کبھی دھوکہ نہیں دیتیں۔’مک کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔

Pastor Mick Fleming's cross tattoo

'میں نے دیکھا کہ وہ جم سے نکلا ہے لیکن اس بار معاملہ کچھ الگ تھا۔ اس کے ساتھ دو چھوٹے بچے تھے۔ دو لڑکیاں، سنہرے بال اور پانچ برس کی عمر کے آس پاس۔

’میں گاڑی سے نکلا اور میں نے پلاسٹک کی تھیلی کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ لیکن پھر میں نے بچوں کے چہرے دیکھے۔ ان کے سنہرے بال اور معصوم چہرے۔ اور پھر میں نے ان میں سے ایک بچی کے ہاتھ سے روشنی نکلتی دیکھی۔ جو کہ انتہائی سفید تھی۔ پندرہ سیکنڈ کے لیے میں کچھ نہیں دیکھ پایا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سورج کی روشی کی جانب دیکھ رہا ہوں اور روشنی اتنی زیادہ ہے کہ میں کچھ دیکھ نہیں پارہا۔‘مک نہیں جانتے کہ ان کے ساتھ اس دن کیا ہوا۔ لیکن اس واقعے کے بعد ان کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔ ’میں گر گیا اور پھر بڑی مشکل سے اپنی گاڑی تک واپس پہنچا۔ میری حالت بہت خراب تھی، میں کانپ رہا تھا، پسینے کے ساتھ ساتھ میرے دل کی دھڑکن بھی تیز تھی۔ مجھے اپنی نبض کی رفتار اپنے سر میں محسوس ہو رہی تھی۔ پتہ نہیں میرے ساتھ کیا ہو رہا تھا۔‘اور پھر وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے خدا سے گڑ گڑا کر مدد مانگی۔ لیکن کچھ نہیں ہوا۔

Mick Fleming as a schoolboy

وہ بتاتے ہیں کہ ’اس وقت تک میں اپنی زندگی میں اقدام قتل، اغوا، اسلحے سے متعلق جرائم میں گرفتار ہو چکا تھا۔ بس بہت ہو چکی تھی، میں مرنا چاہتا تھا۔‘

مک نے بندوق اٹھائی اور اسے اپنی تھوڑی پر رکھا۔ یہ ابھی بھی پلاسٹک کے تھیلے میں تھی۔ انھوں نے گن کا ٹرگر دبایا لیکن گن نہیں چلی۔

’میں رو پڑا۔ میرے آنسو تھم نہیں رہے تھے۔ میری طبیعیت پھر خراب ہونا شروع ہوگئی۔ مجھے متلی ہورہی تھی اور میں نے گاڑی کے ریڈیو پر مکے برسانا شروع کردیے۔ ہاتھ سے خون نکلنا شروع ہوگیا اور اس لمحے میں مجھے یہ پتا چلا کہ میں اصل میں کون ہوں۔ میں تیس برس سے رویا نہیں ہوں۔ جب میں آخری بار رویا تھا تو میری عمر گیارہ برس تھی۔ میں بہت رویا، اس گیارہ برس کے بچے کے لیے جس کی زندگی مختلف ہوسکتی تھی۔‘مک بہت روئے۔ وہ ایک طرح سے اپنے خوفناک ماضی کے درد سے گزر رہے تھے۔

مک کی پیدائش 1966 میں ہوئی، یہ وہ سال تھا جس میں انگلینڈ نے فٹبال ورلڈ کپ میں فتح حاصل کی تھی۔ ان کا تعلق سفید پوش گھرانے سے تھا۔ مک کے والد کھڑکیاں صاف کرنے کا کام کرتے تھے۔

وہ آس پاس کی فیکٹریوں کی کھڑکیوں کو صاف کرنے کے معاہدے کرے تھے۔ مِک انھیں ‘مزدور طبقے کے ہمدرد‘ کہتے ہیں۔’اس دور میں غربت نہیں تھی لیکن عیش و عشرت بھی نہیں دیکھی۔ بہت ہی سخت قسم کی پرورش تھی۔ ہمیں چرچ جانے پر مجبور کیا جاتا تھا اور ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ ہم کہا نہ مانیں۔ یہ ڈسپلن برقرار رکھنے کا پرانا طریقہ تھا۔‘

لیکن فروری 1977 میں مک کی دنیا ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔ گیارہ برس کے مک پر سکول جاتے ہوئے کسی اجنبی نے حملہ کیا۔

‘میں بہت اذیت میں تھا۔ مجھے جنسی طور پر ہراساں کیا گیا، میں یہ سہہ نہیں سکا‘۔

مِک کو لگا کہ انھیں کسی سے مدد مانگنی چاہیے لیکن پہلے انھیں اپنی ماں اور باپ کو یہ چیز بتانی تھی۔ وہ اپنے کمرے سے بار نکلے جہاں وہ رو رہے تھے، نیچے گئے اور اپنی ماں کو بتانے ہی والے تھے کہ اچانک ان کے پیچھے سے ان کے والد کی آواز آئی۔ ’تمہاری بہن مر چکی ہے۔ یہ خبر اتنی خوفناک تھی کے ایک لمحے کے لیے ہم سکتے میں چلے گئے۔ کچھ ہی سیکنڈ بعد میری ماں کے چیخنے کی آواز آئی جو کہ ایسی تھی کہ جیسے کوئی جانور درد سے چیخ رہا ہو۔‘ مک اپنی بیس برس کی بہن سے بہت پیار کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ان کا خیال کرتی تھی، انھیں کپڑے لے کر دیتی اور پیسے بھی دیتی تھی۔ انھیں بعد میں یہ پتا چلا کہ این کی موت دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ہوئی اور انھوں نے مک کے والد کے ہاتھوں میں دم توڑا۔’میرے والد بہت مضبوط انسان تھے۔ لیکن یہ ان کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔ انھوں نے ڈاکٹروں اور نرسوں کو میری بہن کی زندگی بچانے کے لیے بھاگتے دوڑتے دیکھا۔‘مک کہتے ہیں کہ یہ وہ لمحہ تھا جہاں ان کا بچپن ختم ہوگیا۔ اڑتالیس گھنٹوں میں ایک زندگی چلی گئی۔’منشیات میری مصیبتوں کا حل تھا۔ اور یہ اس کی ابتدا تھی۔ آنے والے تیس سال کسی دوزخ سے کم نہیں تھے۔ میں منشیات اور شراب کا کثرت سے استعمال کرنے لگا۔‘

یہ بھی پڑھیے

’اس پلنگ نے طالبان سے میری جان بچائی!‘

بے گھر امریکیوں کا پاکستانی مسیحا خود مشکل میں

21 برس تک لندن کی بسوں میں سونے والے شخص کی کہانی

لیکن یہ مجبوری انھیں جرائم کی طرف لے گئی۔ صرف 14 برس کی عمر میں وہ منشیات کا دھندا کرنے لگے۔ برنلی میں ان کے جاننے والوں کا خیال تھا کہ اُنھوں نے شہر سے باہر اپنا کوئی کام شروع کر لیا ہے جبکہ حقیقت کچھ اور تھی۔’میں منشیات پہنچاتا تھا اور قرض وصول کرتا تھا۔ میں اپنے کام میں اچھا تھا۔ میں لوگوں سے زور زبردستی بھی کرتا۔ لیکن مجھے کوئی پرواہ نہیں تھی۔ میں دو مرتبہ قتل، تین مرتبہ مسلحہ ڈکیتی اور بیشمار مرتبہ آتشی اسلحہ رکھنے کے جرم میں گرفتار ہوا۔

‘میں نے بے انتہا پیسہ کمایا لیکن مجھے سکون نہیں تھا، میرے اندر کا درد بڑھتا جا رہا تھا اور میں اسے چھپا نہیں پا رہا تھا۔ کوئی چیز کارگر ثابت نہیں ہو رہی تھی۔’

نوے کی دہائی میں مِک پر دو قاتلانہ حملے ہوئے۔ ایک مرتبہ ایک ٹریفک سنگل پر اور دوسرا ناکام حملہ گھر پر ہوا۔

‘میری دنیا جرائم کی دنیا تھی۔ میں نہیں جانتا تھا کہ فیکٹریوں میں کیسے کام کیا جاتا ہے۔ میں عام زندگی بسر نہیں کر سکتا تھا۔ میں لوگوں کو کھانے کے ڈبے لے کر کام پر جاتے دیکھتا تھا اور میں یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں کچھ الگ کرنا چاہتا تھا۔

‘میں مستقل منشیات میں گھرا رہا۔ میرے عزیز دوست کی صرف سولہ برس کی عمر میں زیادہ شراب پینے سے موت ہوگئی۔ شراب کی وجہ سے اسے قے آئی اور دم گھٹنے سے اس کی موت ہوگئی‘۔

ان کا ایک دوسرا دوست 17 سال کی عمر میں منشیات کے استعمال سے ہلاک ہو گیا تھا۔

‘مجھے موت کا خوف نہیں رہا تھا۔ میرا ہمیشہ سے خدا پر ایمان رہا لیکن میرا یقین تھا کہ خدا کو میری زیادہ پرواہ نہیں ہے۔’

مِک دوہری زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی بیوی اور تین بچے تھے۔ لیکن برسوں تک جھوٹ بولنے کا کوئی نہ کوئی نتیجہ تو نکلنا تھا۔ مِک کی والدہ کو بچوں کی پرورش کرنی پڑی تاکہ سوشل سروس والے بچوں کو نہ لے جائیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس ’خوفناک‘ وقت میں پولیس اکثر منشیات اور اسلحے کی تلاش میں ان کے گھر پر چھاپے مارتی تھی۔

‘اس سب کی وجہ سے میری ذہنی حالت ٹھیک نہیں رہی۔ میں نے زیادہ نشہ کرنا شروع کر دیا۔ میں اب بہت خطرناک شخص بن گیا تھا۔ لوگوں سے پیسے وصول کرنا ان سے مار پیٹ کرنا۔ مجھے زیادہ عرصہ زندہ رہنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ میں حقیقتاً یہ سمجھتا تھا کہ میں نوجوانی ہی میں مر جاؤں گا۔ میں زیادہ عرصے زندہ بھی نہیں رہنا چاہتا تھا اور میں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ میں کیسے اپنی زندگی بدلوں۔’

یہ سنہ 2009 کی بات ہے جب مِک نے خود کو اسلحے سمیت ایک جِم کے باہر پایا۔ گاڑی میں جو ہوا، خدا سے مدد کی دعا، اپنی جان لینے کی کوشش، اس سب کے بعد حکام نے مداخلت کی۔

People crowd to receive hot food

'چوبیس گھنٹے کے اندر اندر مجھے نفسیاتی مریض قرار دے دیا گیا۔ اور میرا نیا گھر برنلی کا ذہنی امراض کا مرکز تھا۔ جن کپڑوں میں میں وہاں گیا تھا ان کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں تھا۔‘

حیرت انگیز طور پر مک کو اس مرکز میں گھر کا سا احساس ہوا۔ وہاں داخل مریضوں نے ان میں یہ احساس پیدا کیا کہ وہ ان سے پیار کرتے ہیں اور ان کی پرواہ کرتے ہیں۔ انھوں نے انھیں کو سگریٹ، کپڑے اور جوتے دیے۔

‘وہاں ذہنی مریض تھے جن کا علاج ہو رہا تھا، ایسے لوگ جو اپنے آپ کو نقصان پہنچا سکتے تھے۔ بہت بیمار لوگ اور بہت سے نشے کے عادی۔ لیکن یہ لوگ مجھے ضروری چیزیں فراہم کر رہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے، اس سے میں بہت متاثر ہوا۔’

یہاں پر مِک کی ملاقات ٹونی نامی پادری سے ہوئی جو اکثر اس مرکز میں آتے تھے۔ وہ اکثر مل کر عبادت کرتے اور ایک دوسرے سے باتیں کرتے اور مِک کا کہنا ہے کہ ان کے سوئے ہوئے احساسات جاگنے لگے۔ انھوں نے دوسروں کی مدد کرنا شروع کی۔ یہ مشکل زندگی کا اختتام اور امید کا آغاز ثابت ہوا۔

یونیورسٹی آف مانچیسٹر کے ایک استاد سے اتفاق سے ہونے والی ملاقات سے ٹیکنالوجی میں ڈگری حاصل کرنے کا راستہ کھلا۔ ابتدا میں مِک جن کی کوئی زیادہ تعلیم نہیں تھی ان کے لیے پڑھنا لکھنا بہت مشکل ثابت ہوا اور ان میں ڈسلیکسیا (پڑھنے لکھنے میں ذہنی پریشانی) کی تشخیص ہوئی۔ وہ پہلے سال فیل ہو گئے لیکن سخت محنت اور یونیورسٹی کی طرف سے بھرپور مدد کی وجہ سے وہ اپنی ڈگری مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

‘اس کے بعد کبھی میں نے منشیات کو ہاتھ نہیں لگایا۔ یہ آسان نہیں تھا بہت مشکل کام تھا۔ لیکن یہ خدا کی جانب سفر تھا اور پھر سنہ 2020 اور کورونا کی وبا تک۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میری اتنی ضرورت ہوگی اور کس طری میں ایک مرتبہ پھر میں مصیبت اور تکلیف دیکھوں گا۔

آج وبا کے دور میں ان کی پہلے سے کہیں زیادہ مدد درکار ہے۔ پادری مک برنلی میں ایک ایسے چرچ کے ساتھ ہیں جو بے گھر، منشیات کے عادی اور بھوکے لوگوں کی مدد کر رہا ہے۔

میری ملاقات ان سے نومبر میں شہر کے مرکز میں واقع ایک کار پارک میں ہوئی تھی۔ اس وقت شام کے چھ بجے تھے اور مکمل خاموشی چھائی تھی جس کے ہم لاک ڈاؤن کے دوران عادی ہو چکے ہیں۔

پادری مک نے اس سال پیش آنے والی مشکلات پر بات شروع کی۔

انھوں نے کہا کہ ’سیاست دانوں کے بقول امیر اور غریب دونوں اس سے یکساں طور پر متاثر ہو رہے ہیں لیکن یہ جھوٹ ہے اگر آپ غریب ہیں تو آپ کے بچنے کا کوئی امکان نہیں۔‘

Pastor Mick Fleming hands out food

سڑک کے دوسری طرف وہ جمع ہونا شروع ہوئے۔ پہلے بے گھر لوگ جو اپنی چیزوں سے بھرے بیگ اٹھائے ہوئے تھے۔ پھر منشیات کے عادی جو ہیروئن استعمال کرتے تھے یا جو شراب کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ وہ 20 کے قریب افراد تھے جن کی عمریں 20 سال یا اس سے زیادہ تھیں۔

اس کے بعد اور لوگ آنا شروع ہوئے کچھ گاڑیوں میں تھے لیکن زیادہ تر پیدل۔ کم از کم ان کی تعداد 40 ہو چکی تھی جن میں تمام عمروں کے لوگ شامل تھے۔ اکثر کی حالت بہت خراب تھی، وہ رضاکاروں کی دو گاڑیوں کے گرد جمع تھے اور خوراک اور سردی سے بچنے کے لیے پناگاہ کی تلاش میں تھے۔

پادری مک کے ایک دوست اور رضاکار کیز نے چلا کر کہا کہ ’دھکے دینے کی کوئی ضرورت نہیں، کھانا بہت زیادہ ہے‘۔

دونوں گاڑیوں کی ڈکیاں کھولی گئیں اور گرم کھانے کی مہک آئی۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ جس کے ہاتھ میں جتنا آسکتا ہے وہ لینے کی کوشش کر رہا تھا اور دھکم پیل ہو رہی تھی۔ کچھ لوگ اتنے ضرورت مند تھے کہ جب انھوں نے کھانے کے گرما گرم ڈبوں کو ہاتھ لگایا تو ان کی انگلیاں جلنے لگیں لیکن اس کے باوجود ان کے ہاتھ میں جو آیا انھوں نے اٹھا لیا اور کسی ایک چیز کو بھی نیچے نہیں گرنے دیا۔

گرما گرم کھانا کھانے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ لیکن کھانا اور بھی تھا پہلے سے تیار شدہ کھانا جو لوگوں کے ساتھ لے جانے کے لیے تھا۔ مک نے بتایا کہ انھیں لائن کے آخری سرے سے ایک آواز آئی کہ ‘میرے ڈبے میں چاکلیٹ نہیں ہے۔ مک نے مسکرا کر جواب دیا ‘میرے پاس بھی نہیں ہے، میں کوئی ایزڈا سٹور (مقامی سُپر سٹور) تو ہوں نہیں۔’

یہ لوگ شکر گزار اور عزت سے پیش آ رہے تھے اور ان میں ایک کمیونٹی کا احساس بھی تھا۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ آج برطانیہ میں یہ حال ہے۔

برنلی انگلینڈ کی سب سے زیادہ غریب کونسل ہے۔

Pastor Mick Fleming talks to a man on the ground outside a shop

ایک اور گاڑی کی ڈکی کھولی گئی جس میں کپڑے بھرے ہوئے تھے۔ اب یہاں زیادہ کھلبلی مچ گئی لوگوں نے کپڑے چھانٹنا شروع کر دیے۔ ایک تیس برس کی عورت نے بتایا کہ وہ ڈپریش کا شکار ہے اور وبا کے دوران اس کی حالت مزید خراب ہو گئی ہے۔ اس نے کہا کہ اگر یہ سب کچھ اسے میسر نہ آتا تو شاید وہ زندہ نہ رہ پاتی۔

پادری مک کے پاس ایک آدمی روتے ہوئے آیا۔ ‘میرا پاؤں سفید پڑ گیا ہے، پادری مک میں شدید تکلیف میں ہوں۔’

مک نے اس شخص کو اطمینان دلاتے ہوئے کہا کہ ‘فکر نہ کرو بھائی ہم کچھ کرتے ہیں۔’ ساتھ پادری مک نے اسے ان دو رضاکار نرسوں کی طرف جانے کو کہا جو تھوڑے فاصلے پر موجود تھیں۔

آدھے گھنٹے میں رش ختم ہو گیا۔ مک نے کہا کہ ضرورت بہت زیادہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے دیکھا جو لوگ کام کر رہے ہیں وہ مشکل سے ہی سب کی ضرورت کو پورا کر پا رہے ہیں۔

‘ہمارے پاس این ایچ ایس (نیشنل ہیلتھ سروس) کی دو رضاکار نرسیں ہیں جو لوگوں کی ابتدائی طبی امداد کر سکتی ہیں اور ان میں بہت سے لوگ کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور ہیں۔’

کار پارک میں لوگوں کو امداد فراہم کرنے کے ایک دن بعد پادری مک اپنی سفید وین میں برنلی کے قریبی پہاڑی علاقے میں واقع صنعتی دیہاتوں کے خوبصورت علاقے سے گزر رہے تھے جہاں چونے کے پتھر کے گھروں کے علاوہ بنگلے بھی بنے ہوئے تھے۔ ان کی وین میں کھانا، ڈبل روٹیاں، بسکٹ، دودھ اور چاکلیٹ کے ڈبے تھے۔

ان کو مسلسل لوگ فون کر رہے تھے۔ ایک دس سالہ بچے نے فون کر کے کہا اس کی ماں کو ایک فریزر چاہیے تھا اور مک اس کی تلاش میں لگ گئے۔ ایک ماں کو اپنے بچے کے لیے بستر چاہیے تھا۔ مک اس کا انتظام بھی کریں گے۔ وہ ہر روز دس گھروں میں جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ ہفتے کے ساتوں دن جاری رہتا ہے۔

پادری مک نے دکھ بھری آواز میں کہا کہ بعض گھروں میں بچے ان کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ہی تھیلوں میں سے چیزیں نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔

Pastor Mick Fleming

اس کے بعد وہ دیگر لوگوں کی مدد کو بھی گئے جن میں 55 سالہ ایک خاتون تھی جو تنہا رہتی ہیں اور لاک ڈاؤن میں ان کی ذہنی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔

یہ تو پادری مک کی ایک علاقے میں ایک دن کے سفر کی روداد تھی۔

انگلیڈ بھر میں تمام بیماریوں سے اموات کی شرح اس سال اپریل اور جون کے مہینوں میں پسماندہ علاقوں میں دیگر علاقوں کی نسبت دوگنی رہی۔

پادری مک کے بقول انھوں نے کبھی ایسے حالات نہیں دیکھے۔

‘غربت لگتا ہے چھپی ہوئی تھی۔ یہ لوگوں کی نظر سے اوجھل تھی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اسے دیکھ سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔’

پادری مک کی زندگی کا اپنا سفر جرائم کی زندگی سے یہاں تک پہنچا ہے جہاں ان کو کورونا وائرس کا ہر روز ٹیسٹ کروانا پڑتا ہے۔

میں جاننا چاہتا تھا کہ وہ کیا چیز ہے جو ان کو یہ سب کچھ کرنے پر تیار رکھتی ہے۔

وہ کہتے ہیں ‘میں جو کچھ آج کر رہا ہوں یہ کوئی گناہوں کا کفارا نہیں بالکہ یہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ برنلی کے لوگوں کی خدمت کرنا ایک اعزاز کی بات ہے اور یہ بہت خوشی کی بات ہے۔’

لیکن پھر مک نے اپنے بچپن کی اندوہناک کہانی سنائی اور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ کسی طرح وہ یہ سب کچھ بھلانے میں کامیاب ہوئے۔

دس سال پہلے ان کی دوستی ایک بے گھر شرابی سے ہوئی۔ مک نے اس کی کہانی سنی۔ اس کا خیال کیا اس کی مدد کی اور اس کو شراب چھوڑنے اور اسے اس کی فیملی سے دوبارہ ملایا۔ اس شخص کی دو سال بعد موت ہوگئی لیکن اس کی فیملی ہمیشہ ان کی شکر گزار رہی۔

‘جو بات میں نے اس شخص، اس کے خاندان والوں یا پولیس کو نہیں بتائی، وہ یہ تھی کہ اس شخص نے بچپن میں میرا ریپ کیا تھا۔

‘کیوں؟ میں جانتا ہوں کہ میرے ماضی کو معاف کر دیا گیا ہے۔ میں نے وہ کچھ نہیں کیا جو اس شخص نے کیا لیکن میں نے بہت بری چیزیں کیں، مجھے احساس ہوا کہ مجھے معاف کر دیا گیا ہے اور میں اس کے گناہ کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔‘

‘یہ ہی وجہ ہے کہ میں آج آزاد ہوں، اور میری زندگی کسی عذاب میں نہیں ہے یہ گناہوں سے نجات ہے۔’

اس کے بعد ہم نے پادری مک کو سینٹ میتھیو چرچ کے باہر ایک خاتون کے ساتھ عبادت کرتے دیکھا۔ اس خاتون کو یہاں آتے ہوئے مسلسل دوسرا ہفتہ تھا۔ وہ بہت پریشان تھی لیکن اس کو مک کی باتوں سے سکون حاصل ہو رہا تھا۔

فادر ایلکس نے وضاحت کی کہ کیا ہوا۔ ‘وہ گزشتہ ہفتے آئی اور زار و قطار رونے لگی اور انھیں بتایا کہ اس کی بچی نے اپنی جان لے لی ہے۔’

بعدازاں اس خاتون جس کا نام سونیا تھا نے بتایا کہ پادری مک اور فادر ایلکس نے ان کی زندگی کو کس طرح بدل دیا۔ اس خاتون نے بتایا کہ اگر یہ دونوں نہ ہوتے تو وہ بھی اپنی زندگی ختم کر چکی ہوتیں۔

پادری مک کو فخر ہے کہ ’ایمان رکھنے والے لوگ جو مدد کے لیے آگے آ رہے ہیں اس سے زندگیاں بدل رہی ہیں‘۔

یہ کہانی تھی پادری مک کے سفر کی جو برنلی میں کچھ لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ڈر یہ ہے کہ بہت سے لوگ جو غربت کی چکی میں پس رہے ہیں ان کے مسائل اس وبا کے ختم ہونے کے بعد بھی ختم نہیں ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp