ہماری غیر ملکی پڑوسنیں اور بے نظیر کا غم


سچ لکھیں تو یہ ہمارے اپنے وہم و گمان کے کسی کونے میں بھی یہ بات یا یہ سوچ نہیں ہوتی کہ ایک دن اچانک اپنے والد اور والدہ بھی اس دنیا سے خالق حقیقی کے پاس چلیں جائیں گے۔

اگست 2007 میں اپنی والدہ کے انتقال کے بعد ہم پاکستان کراچی سے جدہ سعودی عرب واپس آ گئے پر ہم کبھی بھی اپنے شہر اپنے ملک اپنے لوگوں سے دور رہ ہی نہیں سکے لیکن جب تک ہم اس دنیا میں زندہ ہیں تب تک اپنی زندگی کو اپنے اور اپنوں کے لیے آگے بڑھانے کا سلسلہ جاری بھی رکھنا ہوتا ہے۔

میں نے ماں کا لباس جب پہنا
مجھ کو تتلی نے اپنے رنگ دیے

ٹیلی وژن دیکھنے کا ہمیں شادی سے پہلے بھی کوئی شوق نہ تھا پر انٹر نیٹ، کمپیوٹر اور ٹچ موبائل کی ایجاد اور آسانی سے دستیابی کے بعد بیرون ملک سے اپنی فیملی سے رابطے کا سلسلہ آسان ہوا تو ہم جیسے پردیسیوں کے غموں میں بھی کافی کمی آنا شروع ہوا پھر پاکستان میں موجود اور حیات اپنے والد، بھائی، بہن اور ان کے بچوں سے بات کرنا اور کبھی کبھی وڈیو چیٹ کرنا آسان ہوا۔

ہمیں پاکستانیوں کے علاوہ دوسرے ممالک کے لوگوں سے ملاقاتوں کا اصل سلسلہ تو جدہ کے علاقے حیؔ الصفاء میں ہی آ کر ملا کیوں کہ ہماری بلڈنگ میں کل 12 گھر تھے ایک ہم واحد پاکستانی اور ایک سعودی فیملی باقی ساری عربی فیمیلی ہی آباد تھیں اور مزے کی بات کہ ہمیں اس وقت بولنے والی عربی تو دور کی بات بالکل سمجھ بھی نہیں آتی تھی لیکن اس کے باوجود ہمارے گھر کے دروازے سے دو قدم پر دوسرے گھر کا دروازہ جہاں مصر کے شہر اسکندریہ کی رہائشی ”راشاء“ سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا جو بعد میں اپنے پیارے اخلاق کی وجہ سے بہت پیاری دوست بنی۔

دوستی عام ہے لیکن اے دوست
دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے

راشاء کی دو عدد پیاری پیاری سی چھوٹی چھوٹی بیٹیاں جو کہ ہمارے بچوں کی ہی ہم عمر تھیں اور شوہر سوڈان کا نیشنل تھا اب ہماری معلومات کے حساب سے سوڈانی افراد رنگ و روپ اور قد کاٹھ کے لحاظ سے اپنے کراچی کے علاقے لیاری کے رہائشی شیدی (مکرانیوں ) کی طرح کے ہوتے پر ہم میاں بیوی کے لیے حیران کن بات یہ تھی کہ راشاء کا شوہر انتہائی صاف ستھری رنگت اور درمیانے قد کا تھا پھر تحقیق پر معلوم ہوا کہ راشاء کے شوہر کی جائے پیدائش و تعلیم و تربیت مصر کی ہے پر اس کی دادی سوڈان کی تھیں، اب اس سے آگے کی معلومات کرنے کے لیے ہماری انرجی زیادہ نہیں تھی پھر ظاہر ہے مصر اور سوڈان کی سرحدیں بالکل ملی ہوئی ہیں اور امن کی آشا ہمارے ملکوں کے یہاں سے کہیں زیادہ بہتر خیر پھر ہم دونوں خواتین کا لفظوں کا اسٹاک بھی بہت قلیل اور جلدی ختم ہو جایا کرتا تھا کیوں کہ ہمیں بولنے والی عربی میں مشکل ہوتی اور راشاء کو انگریزی میں۔

ہمارے درمیان گفتگو کا زیادہ تر سہارا اشاروں کی زبان پر ہوتا تھا جو کہ کئی گھنٹوں پر مستعمل ہو جایا کرتا اور پھر روز کی ملاقات اور دوستی کے چڑھتے پروان کی بدولت بلڈنگ میں موجود بقیہ گیارہ عربی خواتین سے بھی ملاقاتیں شروع ہوئیں پھر ہم سب خواتین کا آپس میں طے ہوا کہ ہر پندرہ دن بعد کسی ایک کے گھر پر شوہر حضرات کے بغیر خواتین اور بچے ون ڈش پارٹی کا اہتمام رکھا کریں گی جو کہ باقاعدگی سے چلنے لگا۔

ہم سمجھتے تھے کہ شاید صرف ہندوستان اور پاکستان کی نیک خوش بخت جنتی خواتین ہی اپنے دل کے چھالے ایک دوسرے کو دکھایا اور اپنے شوہروں کے گن گایا کرتی ہیں لیکن یہ نغمے تو لگ بھگ ہر مختلف ملک کی بیوی ہی گایا اور سنایا کرتی ہے بس راگ الاپنے کے انداز تھوڑے مختلف ہوتے لیکن سر اور تال سسرال کے معاملے میں سب کے سانجھے ویسے بھی کون سا درخت ہے جسے ہوا نہیں لگتی۔

دسمبر ہو چاہے جون، جدہ شہر موسم کے لحاظ سے سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں شدید گرم ہی ملا۔

27 دسمبر 2007 کے دن ہم حسب عادت اپنے گھر کے کاموں میں مشغول تھے اچانک دروازے کی بیل بجی ہم نے بیٹے سے کہا کہ دروازے پر دیکھو کون ہے؟ ہمارے چار سالہ بیٹے نے اپنے سائز کی کرسی لگا کر اس کے اوپر چڑھ کر دروازے سے چپکے اور باہر دیکھ کر بولا کہ ”امی سامنے والے گھر کی راشاء آنٹی ہیں۔

ہم جلدی دروازے کی طرف آئے کیوں کہ راشاء ہمارے گھر آنے سے پہلے اپنی بیٹی کو ہمارے گھر کے دروازے پر بھیجا کرتی تھیں اور اس کا خود دروازے پر آنا کسی ایمرجنسی کا اشارہ کر رہا تھا۔

دروازہ کھولتے ہی راشاء بالکل بدحواس ملی اور فوراً ہمارے گھر کے اندر آ گئی مسلسل عربی میں تیز تیز کچھ بول رہی تھی اور روئے جائے، ہم پہلے ہی عربی سے فارغ تھے اور وہ بھی مصری لہجے کی تیز تیز علاقائی عربی تو ہمارے سر سے جنگی جہاز کی طرح ہمارے اوپر سے گزرے جا رہی تھی۔

ہم نے فوراً اپنے بیٹے کو پاس بلایا اور اپنا ترجمان بنا کر راشاء کے سامنے کھڑا کیا اور بیٹے کے کان میں کہا کہ

” بیٹا! راشاء آنٹی کی وڈیو تو ہمیں سمجھ آ رہی پر آڈیو نہیں، ذرا چیک کرو کہہ کیا رہی ہیں۔
بیٹے نے راشاء کی بات کو غور سے سنا اور کہا کہ ”امی یہ ٹی وی کو ریموٹ سے کھولنے کا کہہ رہی ہیں۔

ہم حیران ہونے کے ساتھ اپنے اندر ہی سوچنے لگے کہ کیا اس کے اپنے گھر ٹی وی شیوی نہیں چل رہا؟ حد ہے اور اس بات پر رو رہی؟ لو! بھلا ٹی وی پر اسے کون سا اسٹار پلس دیکھنے کا شوق جو ایک دن نہ دیکھے تو دنیا ویران ہو جائے۔

بیٹے نے جیسے ہی ٹی وی اور ریموٹ کے الفاظ بولے تو راشاء فوراً بولی ”آئیوا آئیوا“ یعنی کہ ہاں۔

ہم نے حالات کو اپنے طریقے سے سمجھتے ہوئے بیٹے سے بولا کہ ”جاؤ بیٹا ان کے گھر شاید اس کے بچوں سے اس کے گھر کا ٹی وی ریموٹ کہیں گم کر دیا ہوگا تبھی بے چاری بار بار اناللہ وانا الیہ راجعون بھی پڑھے جا رہی۔

جاؤ بیٹا! ان کے گھر جاکر ان کے ٹی وی کا ریموٹ تلاش کروانے میں آنٹی کی مدد کروا دو۔

پھر ہم نے آگے بڑھ کر راشاء کو اپنے گلے سے لگا کر تسلی دیتے ہوئے اردو میں ہی کہا کہ اتنی چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر اتنا زیادہ پریشان نہیں ہوا کرتے، مل جائے گا ریموٹ۔

لیکن بیٹے نے ہم سے فوراً کہا کہ۔
امی جی! یہ ہمارے گھر کے ٹی وی کو کھولنے کا کہہ رہی ہیں۔

ہم بولتے بولتے فوراً چپ ہوئے اور حیران ہوئے کہ بھلا یہ ہمارے گھر کا ٹی وی کھولنے کا کیوں کہہ رہی؟ اور وہ بھی اتنا روتے ہوئے۔

ہم لمبی گہری سانسیں لیتے ہوئے اپنے بیٹے اور راشاء کو ٹی وی لاؤنج کی طرف لے گئے جہاں ہماری بقیہ ٹیم پہلے سے ہی ٹی وی پر کارٹون نیٹ ورک دیکھ رہی تھی۔

ہم راشاء کی طرف مڑے اور اس سے بات کرتے ہوئے کہا۔
ٹی وی موجود، کارٹون موجود۔

راشاء نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے ہم سے دوبارہ عربی میں بولی اور ہم کو صرف اتنا ہی سمجھ آیا کہ پاکستانی چینل لگاؤ۔

ہم بوکھلا کر بڑبڑاتے ہوئے اپنے آپ سے ہی بولے ”ہماری سمجھ میں تو کچھ آ ہی نہیں رہا پاکستانی چینل شاید ہم خود پاکستانی ہو کر نہیں لگاتے اس مصری کو ہمارے چینل کی آج یاد کیوں آ رہی۔

ہم نے اپنی بیٹی کے ہاتھ سے ریموٹ لے کر پاکستانی چینل لگانے لگے۔
راشاء پھر بولی کہ ”پاکستان نیوز چینل“ ۔

ہم ڈرامہ چینلز سے ہٹ کر پاکستانی نیوز چینل ڈھونڈنے لگے اور ایک پاکستانی نیوز چینل پر آ کر چینل لگا دیا۔

اسکرین پر دیکھا تو ہم پر ایک دم خاموشی طاری ہو گئی۔

اسکرین پر چلتے مناظر اور خبروں پر یقین نہیں آ رہا تھا اور خودبخود ہماری اپنی آنکھوں سے آنسو جاری ہونا شروع ہوئے ساتھ ہی کھڑے رہنے کی ہمت بھی ایک دم ختم سی ہو گئی۔

اپنی ہر دل عزیز مسلم ممالک کی پہلی خاتون اور جمہوری حکومت کی سربراہ کا اعزاز رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی ریلی لیاقت نیشنل پارک کے بعد راولپنڈی میں گولی اور بم دھماکہ سے جان لیوا حملہ جس میں 23 افراد اور محترمہ کے شہید ہونے کی تصدیق کی خبریں چل رہی تھیں۔

اس بار راشاء ہمارے بالکل قریب آ کر، ہم کو اپنے گلے سے لگا کر خود بھی رونے لگی پھر ہمیں سمجھ آیا کہ وہ اناللہ وانا الیہ راجعون کیوں کہہ رہی تھی۔

تھوڑی دیر ہی گزری ہو گی ہماری بلڈنگ کی باقی عرب ممالک کی رہائشی خواتین جن میں مراکش کی لیان، فلسطین کی روان، سوڈان کی جواہر، ایران کی آریانہ بھی ہمارے پاس ہمارے گھر اس طرح داخل ہو رہی تھیں جیسے ہمارے اپنے اور ان کے اپنے گھر پر کسی اپنے کی شہادت ہو گئی۔

ہمارے ساتھ تعزیت اور دلاسا لینے اور دینے کا یہ سلسلہ کافی دنوں تک جاری رہا۔

اس دن پہلی بار ہمارے اپنے سامنے یہ انکشاف ہوا تھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہرت اور محبت دوسرے مسلم ممالک میں بھی اس قدر پھیلی ہوئی ہے جتنی ہمارے پاکستان میں ہے کیوں کہ بحیثیت ایک پروقار شخصیت خاتون ہونے کے ناتے محترمہ بے نظیر بھٹو کا ایک مسلم اکثریت ملک کا سربراہ بننا ہمارے لیے ہمیشہ فخر رہا اور وہ بھی مسلم ممالک کی پہلی خاتون سربراہ ہونے کا اعزاز رکھتے ہوئے ہم پاکستانیوں کے علاوہ بھی دوسرے مسلم ممالک کی عوام کے دلوں پر بھی راج کرتی تھیں۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).