آئرلینڈ کی لوک کہانی اور ستائیس دسمبر


آئرلینڈ کی لوک کہانیوں میں بینشی (Banshee) نام کی مافوق الفطرت مخلوق کی چیخ اگر کوئی سن لے تو وہ چیخ کسی رشتہ دار کی موت کا پیغام ہو جاتی ہے۔ آئرش لوگ کہتے ہیں کہ بینشی کی چیخ صرف آئرش نسل کے لوگ سن سکتے ہیں۔ لیکن ’درد کا رشتہ‘ نسلی رشتوں سے ’بڑا‘ ہوتا ہے۔

2007 کا موسم سرما مارگلہ کی پہاڑیوں سے اتر کر اسلام آباد میں ڈیرے ڈال رہا تھا۔ نومبر کی دھوپ احباب کے خلوص کی تمازت کم، دوستوں کی سرد مہری زیادہ یاد دلانے لگی تھی۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک زوروں پر تھی اور ’ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پذیرائی/جس بار خزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی‘ ۔ جیو نیوز کے دفتر کے سامنے احتجاج ختم ہوا تو واپسی کا قصد کیا۔ دیکھا کہ علم، شائستگی، نفاست اور سلیقہ یکجاں ہو کر تاج حیدر بنے چلے جا رہے ہیں۔ عرض کیا کچھ خدمت کر سکتا ہوں۔ کہنے لگے زیرو پوائنٹ کی طرف جا رہا ہوں۔ بات چیت شروع ہوئی تو 18 اکتوبر کے بعد سے دل میں در آئے خوف کا ذکر چھڑ گیا۔ ان کے چہرے نے بتا دیا کہ ’چاروں صوبوں کی زنجیر‘ نے جن کو ایک رشتے میں باندھ رکھا تھا وہ سب بینشی کی چیخ سن چکے تھے۔

ادبی روایات میں المیے کو جمالیاتی قالب میں ڈھالنے کا ہنر فن کی معراج تصور کیا جاتا ہے۔ آسکر وائلڈ اپنے بیٹے کو ’دا ہیپی پرنس‘ سنانے کے بعد اشکبار ہو گئے۔ بیٹے نے وجہ پوچھی تو کہا ’یہ کہانی خوبصورت ہے اور خوبصورت چیزیں مجھے ہمیشہ رلا دیتی ہیں۔‘ المیے کی خوبصورتی پر اتنا مختصر اور مکمل تبصرہ کم ہی ہوا ہے۔ اور کم ہی المیے کے تار و پود میں بسے حزن کا حسن انسانی وجود میں یوں مجسم ہوا ہو گا جیسے بے نظیر بھٹو کی ذات میں ہوا تھا۔

جولائی 1977 میں جب ’ظلمت ضیا‘ کے بھیس میں دیس کو گھیرنے آئی تو جوشیلے مرتضیٰ بھٹو نے ذوالفقار علی بھٹو کو مزاحمت پر مائل کرنا چاہا۔ ان کا جواب مختصر مگر حتمی تھا ’کبھی بھی مارشل لا کے خلاف مزاحمت نہیں کرنی چاہیے۔‘ چند روز بعد مرتضیٰ کو ملک سے باہر بھیج دیا کہ بیرون ملک جا کر ان کا مقدمہ لڑیں۔ بے نظیر کے حصے میں آیا کہ وہ یہیں رہ کر ’صر صر کو صبا‘ کہنے سے ایک بار نہیں، دو بار انکار کریں۔ نگاہ کم ظرف کو وراثت کی سیاست دکھائی دی۔ وقت نے بتایا یہ مقام منصور کی جستجو تھی۔

بے نظیر نے ’اپنے لئے ایسی زندگی کا انتخاب نہیں کیا تھا‘ لیکن زندگی کو خود پر غرور کرنے کی دلیل میسر آ گئی تھی۔ شہادت کی وراثت سنبھالی تو سجیلے جوانوں کے اٹھتے ہاتھوں کو یہ یاد دلا کر روکنا پڑتا کہ ’میرے والد تمہارے ساتھیوں کو عزت سے گھر واپس لائے تھے۔‘ زود فراموشی سی زود فراموشی تھی۔ بس ایک چو مکھی لڑائی تھی۔ ایک طرف موت بانٹنے کی تربیت پانے اور اس کے بیوپار سے اپنا رزق کشید کرنے والے جوانمرد تھے تو دوسری طرف نسوانی ناموس کو مزاحمت کا عنوان بناتی ایک ’نہتی لڑکی۔‘ کبھی رذیل ذہن اس کی نسوانی شناخت پر حملہ آور ہوئے تو کبھی ’دہن غلیظ‘ کا ’خبث دروں‘ لباس کے انتخاب پر طعنہ زن ہوا۔ کبھی صوبائی عصبیت کے شعلوں کو ہوا دی گئی تو کبھی ’گھر کو گھر کے چراغ سے آگ‘ لگانے کی کوشش فرمائی گئی۔ کبھی نظر بندی تھی تو کبھی جلا وطنی، کبھی پیشی تھی تو کبھی قید۔ کہیں کارکن ’تاریک راہوں میں مارے‘ جا رہے تھے تو کہیں ماں پر لاٹھیاں برسائی جا رہیں تھیں۔ کبھی بھائیوں کے گرتے لاشے تھے کبھی شوہر پر تشدد کا عذاب۔

اور جب اقتدار ملا بھی تو وہ ‘a mutilated, moth. eaten Pakistan’ کی شرح جیسا۔ دلیروں نے سب کیا جو کر سکتے تھے۔ مگر درد و غم کا اثاثہ سمیٹتے سمیٹتے بے نظیر نے اپنے نام کا حق یوں ادا کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی کوسوں پیچھے رہ گئے۔ شاید وہ بھی جانتے تھے کہ بے نظیر ہی سورماؤں کا غرور پاش پاش کر سکتی تھی۔

اکتوبر 2007 میں پاکستان واپسی سے کچھ دن پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو، زلمے خلیل زاد اور ان کی اہلیہ شیریل بینارڈ کے ساتھ سفر کر رہی تھیں۔ دوران سفر، انہیں بسکٹ پیش کیے گئے تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اپنے وزن کے بارے میں محتاط ہیں۔ لیکن پھر ’ارض وطن‘ کے ’عارض بے رنگ‘ یاد آ گئے۔ کہنے لگیں : ’کھا لیتی ہوں۔ میں نے ویسے بھی کچھ عرصے میں مر جانا ہے۔‘ وارفتگی نے ’پھول کھلنے کے مہینوں‘ کا انتظار نہیں کیا۔ ’شہر وفا‘ اور ’دشت جنوں‘ کے فاصلے مٹا کر ماں کلاچی کی دھرتی پر قدم رکھا تو دل دست دعا میں اشک بن کر سمٹ آیا۔ ’سندھ مدینے کی بیٹی‘ جانتی تھی کہ باپ کے قاتل ابھی مچان سے نہیں اترے۔ لیکن ’عشق تو سر ہی مانگتا ہے‘ اور وہ یہی نذر کرنے آئی تھی۔

کار ساز کا وار خالی گیا تو بے نظیر ’جنوں کا فرمان‘ تھامے 27 دسمبر کو خود شہر حشر انگیز میں آ گئیں۔ اکیس سال پہلے، پہلی جلا وطنی کاٹ کر واپس لوٹیں تو آمریت اور عوام میں حد فاصل کھینچ کر آوازہ لگایا تھا کہ ’وعدہ کرو کہ تم ایمان کے ساتھ کام کرو گے۔‘ دوسری جلا وطنی کاٹ کر آئیں تو سرشاری کا عالم اور تھا۔ ’آج جب یہ دھرتی پکار رہی ہے کہ میں خطرے میں ہوں یہ دھرتی آپ کو پکار رہی ہے، مجھے پکار رہی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہمارا ملک خطرے میں ہے۔ مل کر کے ہم ملک کو بحران سے نکالیں گے۔ اس ملک کی عزت ہماری عزت ہے اور اس ملک کی عزت کے لئے ہم سب قربانی دے سکتے ہیں۔ یہ ہمارا ملک ہے یہ سر زمین ہمارے لئے پیارا ہے۔ آپ سنبھالیں گے، میں سنبھالوں گی۔ آپ بچائیں گے، میں بچاوں گی۔‘ موت اس ولولے سے دو چار ہوئی تو اس کے بس میں یہی تھا کہ بے نظیر کو سرخرو کر جاتی۔

بے نظیر ’افتادگان خاک‘ کی امیدوں پر پورا اترنے آئی تو ’حدود وقت سے‘ یوں ’آگے نکل‘ گئی کہ ’ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق۔‘ اس دیس کے محکوم و رنجور لوگوں نے یہ محبت یوں لوٹائی کہ غمگساری کا علم سرنگوں نہیں ہونے دیا۔ آج سوفوکلیز (Sophocles) زندہ ہوتے تو گڑھی خدا بخش کی نئی قبر کو چوم کر اپنا قلم اس کی مٹی کی نذر کر جاتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).