ڈراما کہانیوں میں عورت دشمنی کا تسلسل


”عورت دشمنی“ یا ”زن بیزاری“ بدقسمتی سے ہمارے ڈراموں کا مرغوب موضوع بن چکی ہے۔ ’میرے پاس تم ہو‘ کے تسلسل کے طور پر اس وقت اور ماضی قریب میں بھی ایسی کہانیاں آن ائر جا رہی اور جاتی رہی ہیں۔ ماضی قریب کا ایک ڈراما ’جھوٹی‘ اور موجودہ/نئی کہانیوں میں ’محبت تجھے الوداع‘ اور ’ڈنک‘ قابل ذکر ہیں۔ ’ڈنک‘ تو آن ائر جانے سے پہلے اور پہلی قسط کے فوراً بعد انسٹاگرام اور ٹویٹر پر باقاعدہ زیر بحث رہا ہے۔ (مضمون میں مذکورہ ڈراموں کے علاوہ اور کئی کہانیاں بھی ایسی ہیں جو میری نگاہ سے نہیں گزریں )

عورت دشمنی پر مبنی کہانیوں کے حوالے سے نمایاں ترین اور محترم ترین نام خلیل الرحمٰن قمر کا ہے جو ’میرے پاس تم ہو‘ سے قبل بھی عورت کی بے وفائی پر مشابہہ کہانیاں لکھ کر دل کی بھڑاس نکال چکے ہیں۔ ان میں ’تو دل کا کیا ہوا‘ اور ’ذرا یاد کر‘ شامل ہیں لیکن ’میرے پاس تم ہو‘ میں جناب ڈراما نگار کی عورت دشمنی کافی نمایاں نظر آئی۔ خاص طور پر اس کے ایک مکالمے (جس کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ) کے بعد تو ناظرین میں عورت دشمنی یا زن بیزاری کے حوالے سے کافی شعور اجاگر ہوا۔ اس کے علاوہ جناب نے عورت کے حوالے سے متنازع اور ہتک آمیز بیانات داغنے کے بعد تو کافی عزت افزائی بھی کروائی۔ اب چونکہ عوام کے پاس سوشل اور ویب میڈیا کے ہتھیار ہیں اس لئے وہ اپنی مخالف یا مواقف رائے کا برملا اظہار کرتے ہیں۔

پروڈیوسر فہد مصطفیٰ کے مطابق، نیا ڈراما سیریل ’ڈنک‘ جنسی ہراسانی کے جھوٹے الزامات کا شکار ہونے والے افراد کے مسائل کو سامنے لاتا ہے۔ ’ڈنک‘ میں ایک پروفیسر کا کردار نمایاں ہے۔ لاہور میں کچھ عرصہ قبل ایک کالج پروفیسر کی خودکشی کی خبر سننے کو ملی تھی جس پر کسی طالبہ نے جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا تھا۔ اس واقعے کے نتیجے میں پروفیسر کی بیوی اسے آوارہ اور بے حیا سمجھتے ہوئے ناراض ہو کر میکے چلی گئی۔

بعد ازاں یہ بھی سننے کو ملا کہ اس پر جنسی ہراسانی کا الزام جھوٹا اور دشمنی کا شاخسانہ تھا جس کا مقصد پروفیسر کے کردار کو داغدار کرنا تھا۔ غالباً ’ڈنک‘ اسی کہانی سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے۔ اس ڈرامے پر عورت دشمنی کا لیبل بالکل درست ہے کیونکہ سوال اٹھتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے کتنے فیصد مرد ایسے الزامات کا شکار ہوتے ہیں۔ شاید پانچ فیصد سے بھی کم۔ ایسی صورت میں صرف پانچ فیصد طبقے کے درد پر تڑپ اٹھنا اور جنسی ہراسانی کے حقیقی واقعات سے متاثرہ خواتین کی کہانیوں کو نظرانداز کر دینا سراسر تعصب اور عورت دشمنی ہے۔ اس کے جواب میں بیچارے فہد مصطفیٰ یہ کہہ کر اپنے ڈرامے کو جواز اور دل کو تسلی دیتے رہے کہ ایسے ڈرامے لوگ دیکھتے اور پسند کرتے ہیں اور چینلز وہی بنائیں گے جو ناظرین کو پسند ہو۔

ہمارے معروف گلوکار علی ظفر بھی گلوکارہ میشا شفیع کی طرف سے جنسی ہراسانی کے الزامات کا شکار ہوئے۔ ان کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور وہ خود کو بے گناہ قرار دیتے ہیں۔ اس معاملے میں علی ظفر سچے ہیں یا جھوٹے، یہ تو اللہ جانے یا مقدمے کے فریقین۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ جنسی ہراسانی کے الزامات میں جھوٹ چند ایک ہی کیسز میں ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کوئی عورت یا لڑکی اتنا سنگین جھوٹ بول کو خود اپنی عزت کو داغدار کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچے گی، کیونکہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے جنسی ہراسانی کا شکار ہونے اور اسے رپورٹ کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کو ہی قصوروار قرار دیا جاتا ہے۔ مرد تو مجرم ہوتے ہوئے بھی بچ نکلتا ہے۔

دوبارہ ڈراما کہانیوں کے موضوع پر آتی ہوں۔ قبل ازیں ایک اور کہانی ’جھوٹی‘ میں ہیروئن کو پہلے شوہر، سسرال، اور بھائیوں تک سے انتہائی جھوٹ بولتے ہوئے اور دولت کی لالچی دکھایا گیا۔ پھر اسے ایک جھوٹا ملتا ہے، اسی جیسا، جو اسے پیسوں اور بزنس کا لالچ دے کر اس سے شادی کر لیتا ہے۔ وہ اس جھوٹی کو لارے لگا لگا کر لوٹتا اور سب کچھ لوٹ لینے کے بعد طلاق نامہ منہ پہ مار کر چلا جاتا ہے۔ بھائی بھی اس کی اصلیت سمجھ جانے کے بعد ٹھکرا دیتے ہیں اور وہ شدید صدمے اور پچھتاووں سے پاگل ہو جاتی ہے۔ جبکہ اسے لوٹنے والا جھوٹا اس کے پیسوں پر قابض ہو کر بیرون ملک فرار ہو جاتا ہے۔ ڈرامے کے مصنف و ہدایتکار اور پروڈیوسر نے صرف جھوٹی کا انجام برا اور عبرت ناک دکھایا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ مرد کا انجام برا دکھانے کے لئے انہیں مردانہ انا کی قربانی دینا پڑتی جو یقیناً کسی کم ظرف کے بس کا روگ نہیں۔

’محبت تجھے الوداع‘ میں ایک لڑکی دولت کی خاطر اپنے شوہر کی دوسری شادی ایک کروڑ پتی لڑکی سے کروا دیتی ہے۔ پھر سوتیاپا غالب آ جاتا ہے اور یہ دونوں بیویاں اپنے مشترکہ شوہر کی زندگی سے ایک دوسری کو نکال پھینکنے کے درپے ہو جاتی ہیں۔ پہلی بیوی کروڑ پتی ہو جانے کے باوجود تنہا رہ جاتی اور نتیجتاً خودکشی کی کوشش کرتی ہے۔ ’میرے پاس تم ہو‘ میں بھی ہیروئن مہوش کو ذلت آمیز زندگی سے تنگ ہو کر خودکشی کی کوشش کرتے دکھایا گیا تھا۔

’محبت تجھے الوداع‘ کی ہیروئن تو شرک والے کچھ مکالمات بھی ادا کرتی ہے جیسے ’میرے پاس تم ہو‘ میں ہیرو نے بے وفائی کو شرک سے تعبیر کیا تھا۔ لگتا ہے اس کہانی کے مصنف نے ’میرے پاس تم ہو‘ کو ہی ذرا سی مختلف شکل دے دی ہے۔ اسی مصنف نے قبل ازیں ایک اور ڈراما ’بھوک‘ لکھا تھا جس میں غربت کے ہاتھوں تنگ ایک اکیلی ماں اپنے بچوں کو زہریلا کھانا کھلا کر مارنے کی کوشش کرتی ہے۔

مذکورہ بالا تمام اور ان جیسی ڈراما کہانیوں کے مصنفین، ہدایتکاروں، اور پروڈیوسرز سے میرا صرف ایک ہی سوال ہے :

عورت کو ذلت آمیز اور منفی کرداروں میں دکھانے کے بعد کیا وہ اپنی ماں، بہن، بیٹی، اور بیوی کا سر اٹھا کر سامنا کر سکتے ہیں؟ اگر کر سکتے ہیں تو یقیناً وہ خلائی (اور وہ بھی بے حیا) مخلوق ہوں گے اور ان کے نزدیک ’شرم و غیرت، احترام نسواں، اور اخلاقیات‘ کا معیار کچھ اور ہو گا۔ ایسے مردوں کے چہرے پر اگر سر عام سیاہی، تھوک، یا جوتا بھی پھینک دیا جائے تو انہیں فرق نہیں پڑتا۔ وہ آرام سے چہرہ پونچھ کر اور دامن جھاڑ کر چل دیتے ہیں۔

دوسرا سوال: کیا ایسے مردوں کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں، اور بیویاں ان کے ساتھ رہنے میں ہتک اور ذلت محسوس نہیں کرتیں؟ اگر نہیں کرتیں تو ان کے نزدیک بھی ’احترام نسواں، اور ذلت‘ کا معیار کچھ اور ہو گا۔ یہ عورتیں بھی ڈرامے کے نسوانی کرداروں کی طرح مرد کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرات نہیں کر سکتیں کیونکہ انہیں دو وقت کی روٹی اور اپنے نام کے ساتھ ایسے مرد کا نام اپنی عزت و ناموس سے زیادہ عزیز ہے۔

ان پست اور غیر اخلاقی معیارات کو اپنی زندگی اور معاشرے پر حاوی ہونے سے ہم صرف ایک طریقے سے روک سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ عورت دشمنی پر مبنی کہانیاں دیکھنا بند کر دی جائیں۔ اگر لوگ ’ڈنک‘ کو ابتدا ہی سے دیکھنا بند کر دیں اور اس کی ریٹنگ نیچے آ جائے تو فہد مصطفیٰ، خلیل الرحمٰن قمر، اور ان جیسے دیگر ڈراما نگار، ہدایتکار، اور پروڈیوسرز ضرور اپنے عورت دشمن روئیے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).