خوش آمدید 2021 ء


2020 ء رخصت ہوا، سال نو 2021 ء کا آغازہو چکا۔ جانے والے ماہ و سال پوری دنیا کو دکھی کر کے گیا۔ آنے والے 365 دن کے مہمان کو خوش آمدید، خیر سے آؤ، برکتیں اور خوشیاں لاؤ، پریشانیوں سے محفوظ رکھنا، کورونا سے نجات دلانا، بیماروں کو شفاء دینے، بے روزگاروں کو روزگار، مشکل میں گرفتاروں کی مشکل دور کرنا۔ مسلمان کی حیثیت سے ہمارا نیا سال یعنی اولین مہینہ تو محرم الحرام ہے جب کہ آخری مہینہ ذولحجہ کا مہینہ ہے۔

یعنی ہماری ابتدا قربانی اور انتہا قربانی ہے۔ پاکستان قائم تو ہوا اسلام کے نام پر لیکن بہت سے معاملات میں اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں ہوتا ، ان میں سے ایک ماہ و سال بھی ہیں۔ یہاں انگریزی مہینوں اور تاریخوں کے مطابق زندگی کے معاملات پر عمل ہوتا ہے۔ بمشکل تمام جمعہ کی چھٹی ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے کردی تھی لیکن حکومتوں نے کچھ اور تو نہ کیا اسے دوبارہ جمعہ کے بجائے اتوار مقرر کر دیا ، دلیل یہ دی گئی تھی کہ پوری دنیا اتوار کو بند اور جمعہ کو جاگ رہی ہوتی ہے تو ہم جمعہ کو کیسے سو جائیں۔

سعودی عرب سمیت کئی اسلامی ممالک میں جمعہ کی چھٹی ہوتی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کی منطق الگ ہی ہے۔ اسلامی سال اور اول مہینے کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے ، اسے کوئی کم نہیں کر سکتا، بے شمار کام ہم چاند دیکھ کر ہی کرتے ہیں، حج کا دن مقررہے، قربانی کا دن متعین ہے ، رمضان کے روزے رکھتے ہیں چاند دیکھ کر، عید مناتے ہیں چاند دیکھ کر، اسی طرح بہت سے کام چاند دیکھ کر ہی کر رہے ہوتے ہیں لیکن زیادہ کام انگریزی مہینوں اور دنوں کے اعتبار سے ہو رہے ہوتے ہیں۔

سب سے اہم بات اجرت محنت کشوں کو تنخواہ ملتی ہے انگریزی مہینے کے اعتبار سے، چھٹی کے معاملے میں ہماری قوم خود کفیل ہے یعنی اسلامی تہوار ہو تب چھٹی انگریزی مہینوں میں کوئی تہوار ہو تب چھٹی، اس لیے ہماری زندگی میں انگریزی ماہ و سال کا عمل دخل زیادہ ہے۔ گزرے سال کے لیے دعائے خیر ، گو سال 2020 ء انسانوں کی ہلاکتوں کے اعتبار سے بڑا ہی ظالم سال ثابت ہوا، اس سال کورونا  ہزاروں نہیں لاکھوں جانیں نگل گیا۔یہ سال اپنی نشانی کورونا اپنے ساتھ لے کر نہیں گیا بلکہ اسے نئے سال کو تحفہ میں دے گیا ہے۔ اللہ اپنا کرم کرے، نئے آنے والے مہمان کو خوش آمدید۔

سیاسی اعتبار سے پاکستان میں نئے سال کا آغاز حکومت مخالف محاذ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم کے سربراہان کا اجلاس یکم جنوری 2021 ء کو نواز شریف کی راج دھانی ’جاتی امرا‘ جسے رائے ونڈ محل بھی کہا جاتا ہے ،میں منعقد ہونا۔ یہ علامت تھی اس بات کی کہ نیاسال اپنے ساتھ سیاسی گہما گہمی، کشیدگی، سیاسی دنگل اپنے ہمراہ لے کر آ رہا ہے۔ حکومت اپنی جگہ مستعد اور حوصلہ مند، کپتان مطمئن اور بے خوف، دوسری جانب حزب اختلاف میں شامل 11 سیاسی جماعتیں اپنی جگہ پر امید کہ وہ کپتان کو گھر بھیجنے میں اب کامیاب ہوئے کے تب۔

گویا دونوں پہلوانوں نے اپنی اپنی تیاری کر رکھی ہے۔ سیاسی مخالفت، جلسے جلوس، ریلیاں، دھرانا حزب اختلاف کا حق ہوتا ہے اور جمہوری نظام کا یہ حسن ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس وقت سیاسی ماحول میں جو زبان سرکاری نمائندے اور جو زبان پی ڈی ایم آزادانہ استعمال کر رہی ہے وہ کسی بھی طرح ایک اسلامی، مہذب، تہذیب یافتہ معاشرہ کے شایان شان نہیں۔ لیکن یہ کوئی اب نہیں ہورہا۔ میری عمر کے لوگوں کو ذوالفقار علی بھٹو کا دور اور اس کے خلاف شروع ہونے والی پی این اے کی تحریک یاد ہو گی۔

مولانا فضل الرحمن کے والد محترم مفتی محمود صاحب اس اتحاد کے سربراہی کر رہے تھے۔ بھٹو صاحب نے بھی اس دور میں مخالف سیاست دانوں کو کوئی اچھے ناموں سے نہیں پکارا، جانوروں سے تشبیہہ دی تھی۔ مخالفین کا طرز عمل بھی ایسا ہی تھا۔ ممکن ہے کہ نئے نسل کو اپنے سیاست دانوں کو یہ زبان استعمال کرتے ہوئے دیکھ کر حیرانی ہوتی ہو کم از کم میری نسل کو پریشانی نہیں ہوتی، سیاست اور سیاست دان پاکستان کا وہ عجیب و غریب طبقہ ہے جو اقتدار کے لیے، مخالف کو نیچے دکھانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ جھوٹ بولنا تو بہت ہی معمولی سے بات ہے۔ ٹی وی پر بیٹھ کر سیاست دان ایسا ایسا سفید جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔

کچھ کچھ دکھائی ایسا دے رہا ہے کہ پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکلنا شروع ہو گئی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کے فیصلے  نے مولانا صاحب مریم نوز کو دکھی کر دیا ہے۔دوسری جانب مولانا سے سابقہ سال کی شب کے اندھیرے میں محمد علی درانی کی اچانک ملاقات اور اختتام اجلاس میڈیا سے گفتگو بہت کچھ بتا رہا ہے۔ نون لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ’پی پی کو منانے کا مصمم ارادہ ہے، نہ مانے تو ہم مان جائیں گے‘ ۔ گویا پہلے تو تسلیم کیا کہ ناراضگی موجود ہے۔ خود مان جانے کا مطلب پی ڈی ایم کا اپنے بنیادی موقف سے ہٹ جانا ہے۔ نیب مستقبل میں کیا کردار ادا کرتی ہے، اس کا کردار بھی سیاست میں گرمی اور سیاست میں دھیماپن لاسکتا ہے۔

حکومت کی پالیسی پر بھی منحصر ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ عمران خان ملک کا مال لوٹنے والوں سے دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھائے گا، چاہے اس کی حکومت ہی کیوں نہ چلی جائے۔ حزب اختلاف ہر صورت یہی چاہتی ہے کہ عمران خان چلا جائے۔ حزب اختلاف کی تحریک کی کامیابی میں یہی عنصر رکاوٹ ہے کہ انہوں نے عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کو اپنے مطالبات کا بنیادی نقطہ بنایا۔ وہ انتہائی اقدام ہے، اگر وہ حکومت کی پالیسیوں، مہنگائی جیسے ایشوز کو بنیاد بناتے تو وہ ہتھیار زیادہ مفید ثابت ہوتا۔

زمینی حقائق یہی بتا رہے ہیں کہ کپتان کی حکومت اس تحریک سے جاتی دکھائی نہیں دیتی۔ مستقبل میں مولانا فضل الرحمن کی پارٹی میں ہونے والی بغاوت یا جس جانب عمران خان نے توجہ دلائی کہ فارورڈ بلاک بن سکتے ہیں۔ نون لیگ میں زیادہ آثار ہیں اس بات کے کہ نئے سال میں فارورڈ بلاک یا کچھ اراکین صوبائی اور قومی باغی ہو سکتے ہیں۔ البتہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست مختلف سمت جاتی دکھائی دے رہی ہے، بغاوت یا فارورڈ بلاک کی کوئی امید نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وہ اعلان ہے جو بلاول  نے اپنی پارٹی کے سینئرز ساتھیوں کے خیالات کی روشنی میں کیا۔ یہی عقلمندی ہے۔ یعنی جمہوری نظام کے چلتے رہنے، ضمنی اور سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان نے پیپلز پارٹی کو فضل الرحمٰن یا نون لیگ کی پارٹی بننے سے روک لیا۔

اگر کسی کا خیال ہے کہ 2020 چلا گیا اب نیا سال ہے ، سب اچھا ہو جائے گا، نیاسال امن لائے گا، سیاست میں شائستگی لائے گا، سیاست دان اپنے معاملات افہام و تفہیم سے، گفت و شنید سے حل کر لیں گے تو یہ خام خیالی ہے، نئے سال میں پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں زیادہ بحران متوقع ہے۔ امریکہ کی سیاست نئے صدر سے بدل سکتی ہے، کورونا کی ویکسین کی تیاری اور اس کی فروخت میں مسائل پیدا ہوں گے۔ ویکسین بنانے والے ملک اپنی اپنی ویکسین کو کارآمد دوسروں کی ویکسین کو فضول قرار دیں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمائیں۔ویکسین کی تیاری پر چند بڑے ممالک کی اجارہ داری ہوگی۔ وہ غریب ممالک کو ویکسین سپلائی کریں گے اور رقم کمائیں گے۔

پاکستان میں پی ڈی ایم کی تحریک کو دیکھتے ہوئے بعض احباب بہت پریشان ہیں کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے، لمحہ میں کچھ کا کچھ ہو سکتا ہے۔ یہی کچھ اب بھی ہوگا۔ زیادہ آثار یہی دکھائی دے رہے ہیں کہ پی ڈی ایم کسی بھی معاہدہ کی صورت میں خاموش ہو جائے گی۔ یہاں مسئلہ نون لیگ کا ہے، باقی سب آرام سے ہیں۔

پیپلز پارٹی جمہوریت کو جاری و ساری رکھنے کی روش پر دکھائی دیتی ہے، مولانا کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے، دیگر جماعتیں شامل باجا ہیں۔ نون لیگ کو کسی بھی طرح خاموش کرادیا جائے گا آئندہ انتخابات تک، یہ جب ہوگا جب شہباز جیل سے باہر آئیں گے۔ شہباز مصلحت کے تحت جیل میں ہیں ، ان کی تو ضمانت ہو چکی تھی ، انہوں نے کینسل کی درخواست از خود دی۔ شہباز باہر آئیں گے اور یہ معاملات نارمل ہو جائیں گے۔ آخرمیں گیلپ پاکستان کا سروے ”کتنے فیصد پاکستانی مستقبل میں بہتری کے لیے پر امید؟”

 اس سروے کے مطابق 47 فیصد پر امید اور 30 فی صد مایوس اور 10 فیصد خاموش جس کا مطلب کہ وہ نا امید نہیں۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے ہے کہ اس قدر ابتر حالات، کورونا کے علاوہ مہنگائی، سیاست میں ہلچل، بے شمار مسائل سے پاکستانی دوچار اس کے باوجود پاکستانیوں کی اکثریت مستقبل سے پر امید ہیں۔ یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان پر اپنا فضل کرے، کورونا سے نجات دے، سیاست دانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین۔ اپنی بات کسی شاعر کے اس شعر پر ختم کرتے ہوئے دعا ہے کہ نیا سال ملک و قوم کے لیے نیک فعال ثابت ہو۔

نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے
خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).