ڈارون سے دریدا تک


زندگی کا مقصد کیا ہے؟ کائنات کی حتمی حقیقت کیا ہے؟ اور کائنات اور زندگی کا باہمی تعلق کیا ہے؟ کیا ہم ان سوالوں کے جوابات حاصل کر سکتے ہیں؟

قدیم دور سے ہی انسان اپنے اردگرد ہونے والے مظاہر کی تفہیم کے لیے مختلف وجوہات اور تشریحات یا معنی تخلیق کرتا آیا ہے۔ معلم اول ارسطو نے معنی کی تفہیم کے لیے چار علتوں کا سہارا لیا۔ ان میں سے علت غائی وہ حتمی علت یا وجہ قرار دی جس کے ذریعے اشیاء نقص سے کمال کی جانب حرکت کرتی ہیں۔ ارسطو کے بعد سے لے کر قرون وسطٰی کے متعدد فلسفی، حکیم اور علم الکلام میں بھی علت غائی کا کردار سب سے نمایاں رہا ہے۔ دنیا میں موجود اشیاء کی حرکت کو اوج کمال تک لے جانے کی فطری تڑپ اسی علت غائی کا کرشمہ تھی۔

مولانا روم کے الفاظ میں بانسری کی لے ہو یا حافظ شیرازی کے اشعار میں محبوب سے وصال کی خواہش، ابن عربی کا انسان کامل ہو کہ بوعلی سینا کا فلسفہ عشق، انسانی نفسیات کی گہرائیوں میں پوشیدہ تنہائی کا احساس ہو یا کہ معاشرے میں ہونے والی تبدیلیاں، گویا ہر شے کی حرکت کا باعث علت غائی یعنی نقص سے کمال کی جانب سفر ٹھہرتا رہا۔ ہے خوب سے خوب تر کی تلاش!

لیکن قرون وسطٰی کے بعد مغرب میں ہونے والی نشاۃ ثانیہ اور اس کے ساتھ ہی روشن خیالی کے عہد میں ان سوالات کو ازسرنو تحقیق و تفکر کا نشانہ بنایا گیا۔ خدا مرکزیت آہستہ آہستہ انسان مرکزیت کی طرف گامزن ہو گئی۔ اگرچہ یہ سوالات مابعد الطبیعات کا طرہ امتیاز تھے مگر سائنسی سوچ اور اس کے ساتھ آنے والا ریڈکشنزم کا فلسفہ ان سوالات کو کسی اور زاویے سے دیکھنے لگا۔ سائنسی انقلاب کے بعد جب ہر شے کو عقل کی مدد سے سمجھنے کا نعرہ لگ رہا تھا تو ادبیات میں رومانویت پسند رد عمل سامنے آ رہا تھا۔

اس سے مغرب کا جدید عہد مختلف تحریکوں میں سے گزرنے لگا۔ اس سفر میں ڈارون کی آمد نے بہت زیادہ اثر پیدا کیا۔ ڈارون کے نظریہ ارتقاء نے حرکت کے لیے علت غائی کے برخلاف اندھی تبدیلیوں کا فطری چناؤ پیش کیا۔ فطری چناؤ کے اس فلسفہ کے مطابق اشیاء جو کہ ڈارون کے لیے محض حیاتیات سے متعلق تھیں، ان کی حرکت کسی منصوبہ بند یا حتمی کمال کی جانب نہیں بلکہ غیر یقینی مستقبل کی جانب ازخود حرکت تھی۔ اس نظریے کی قوت نے مجموعی انسانی فکر میں نفوذ کیا اور یوں معنی کی تلاش نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا۔

ولیم پیلے کی کتاب ”نیچرل تھیالوجی“ اس کا واضح ثبوت ہے جہاں حیاتیات میں مقصد کی موجودگی کو ذہن یا خالق کی موجودگی کے لیے بطور دلیل استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن ڈارون کے نظریہ ارتقاء نے اس دلیل پر گہری ضرب لگائی جس کے اثرات ہنوز ہمیں رچرڈ ڈاکنز کی کتاب ”خدا کا وہم“ میں ملتے ہیں۔ یا پھر نطشے کی ”زرتشت نے کہا“ میں اس نظریے کی چھاپ ملتی ہے۔ بقول احمد جاوید صاحب ”ڈارون کی آمد کے بعد حقیقت اور حقیقت سے متعلق شعور کی تعریفات میں بہت بنیادی تبدیلیاں آ گئی ہیں“ ۔

یہ بات اب کسی طرح سے پوشیدہ نہیں ہے کہ سائنس اور فلسفے کا گہرا رشتہ ہے۔ سائنسدان جب کسی مظہر کی تشریح کرتا ہے یا کسی نظریے کی تصدیق کے لیے تجربہ تشکیل دیتا ہے تو اس عمل کے دوران اس کے ذہن میں کچھ مفروضات یا کلیات ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ اپنے کام کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اس کی واضح مثال کوانٹم فزکس کی مختلف تشریحات اور بگ بینگ نظریے سمیت دیگر اشیاء میں سائنسدانوں کا اختلاف ہے۔ اسی طرح حیاتیات میں بھی سائنسدانوں نے ڈارون سے اختلاف کرتے ہوئے جینیات کی آمد سے مزید بہتری کی کوشش کی اور یہی سائنسی سوچ کی خوبصورتی ہے کہ وہ اختلاف کو خوش آمدید کہتی ہے۔

نظریہ ارتقاء کے مطابق جینیاتی تبدیلیوں کا عمل کسی متعن مقصد کے تحت نہیں ہوتا۔ یعنی ایک جین جب اگلی نسل میں منتقل ہوتا ہے تو اس میں ہونے والی تبدیلی اس بات سے تعلق نہیں رکھتی کہ اس سے وہ کیا حاصل کرنا چاہتا تھا۔ یہ عمل لاکھوں کروڑوں سال تک جاری رہتا ہے جس کے بعد ہمیں مختلف جنس کی اشیاء دکھائی دیتی ہیں جن کا ماضی میں اشتراک نہایت قریبی رہا ہوتا ہے۔ ایسے ہی انسان یا ہومو سیپئن بھی ترقی یافتہ شکل میں ہمارے سامنے آیا ہے۔ لیکن اب ہر انسان اپنے آپ میں محسوس کرتا ہے کہ اس کے اعمال میں کسی مقصد کا پایا جانا ایک لازمی امر ہے۔

ہارورڈیونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈیوڈ ہیگ نے حال ہی میں ایک کتاب شائع کی جس کا موضوع ہے ”معنی کا ارتقاء ؛ ڈارون سے دریدا تک“ ۔ اس کتاب میں مصنف نے انتہائی خوبصورتی سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگرچہ ڈارون کے نظریہ میں حرکت کے لیے علت غائی یا مقصد و حتمی معنی نہیں ملتا لیکن اس کے باوجود اشیاء کی حرکت میں بظاہر ایک مقصد کے پائے جانے کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ اس کتاب کی طرف میری دلچسپی کی وجہ ڈارون سے زیادہ دریدا کا نام تھا۔

کیونکہ سائنسی حلقوں میں جو لوگ فلسفیانہ مباحث کے شوقین ہیں یا جو لوگ سماجی تبدیلی اور دانش حاضر کا تجزیہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ان کے ہاں دریدا پر بہت شدید تنقید موجود ہے۔ وہ دریدا کو ایک مشکل پسند اور بعض اوقات نامعقول لکھاری سمجھتے ہیں۔ دریدا کا نام سنتے ہی مابعد جدید عہد کے تمام اہم نام اور تصورات ذہن میں گھومنے لگتے ہیں۔ دریدا کے مطابق کسی بھی لفظ کا معنی التوا کا شکار ہوتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی لفظ کا معنی اپنے آپ میں یا لغوی اصطلاح میں مطلق طور پر موجود نہیں ہو سکتا ۔

ہر لفظ کا معنی کسی دوسرے لفظ اور معنی کا محتاج ہوتا ہے اوریہ دوسرا پھر کسی تیسرے کا محتاج ہوگا اور یوں ایک لامتناہی سلسلہ بنے گا جو پہلے لفظ کے مطلق معنی تک نہیں پہنچ سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ لفظ کو اپنے معنی کے لیے متن یا پہلے سے موجود معنوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ گویا فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں والی بات ہوگی۔ بالکل ایسا ہی کچھ جینز کی سطح پر بھی دیکھا گیا ہے کہ جینز جب اپنا نقش اگلی نسل میں منقش کرتے ہیں تو پہلے سے موجود نقوش کے محتاج ہوتے ہیں۔ یہی وہ مشترک قدر ہے جو ڈارون کو دریدا سے جوڑ سکتی ہے اور ڈاکٹر ڈیوڈ ہیگ نے ایسا ہی تقابل اپنی کتاب میں پیش کیا ہے جو ایک سرسری سی قدر مشترک ہے تاکہ سائنس کے علاوہ اہل ادب کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا جاسکے۔

ڈاکٹر ہیگ کے مطابق ایک جاندار محض ایک مشین نہیں کہ جس کے تمام پرزے ایک مشترک مفاد کے لئے مل کر کام کرتے ہیں۔ بلکہ جانداروں میں پائے جانے والے پرزے یعنی جینز بعض اوقات اس مشترک مفاد کے برخلاف اپنا ایک الگ مقصد قائم کر لیتے ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ نر اورمادہ کے مخلوط شدہ سیمپل میں نر والے جینز اور مادہ والے جینز ایک دوسرے کے برخلاف مختلف مقاصد رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر میری والدہ کا مادہ جینز میرے اندر میرے والد کے نر جنیز سے برسرپیکار ہو سکتا ہے۔

یوں بیرونی عناصر کے علاوہ ہمارے اندر بھی جینز کی ایک کشمکش جاری رہتی ہے۔ ایک نسل سے دوسری نسل تک جینز ایک خاص پس منظر کی وجہ سے تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں۔ یہاں ہمیں ڈارون اور دریدا کا باہمی ربط ملتاہے۔ یعنی اگر ہم جینز کو لفظ سے تشبیہ دے دیں تو پھر اس کا مطلب ہوگا کہ جیسے ایک لفظ کا معنی کسی متن سے متعلق ہوتا ہے ویسے ہی جینز اپنے پس منظر سے متعلق ہوتا ہے۔

آدم سمتھ کے مطابق کسی بھی سماج میں ہر فرد اپنے ذاتی مفاد کی تکمیل کے لیے کوشش کر رہا ہوتا ہے اور کسی ”نادیدہ قوت“ کے زیر اثر پورا سماج ترقی کرتا رہتا ہے (یاد رہے اس بارے کارل مارکس، کینیز یا جان نیش کے خیالات مختلف ہیں ) ۔ ایسی ہی کچھ صورتحال جانداروں میں بھی دیکھی جا رہی ہے۔ یعنی جینوم کی دنیا کا ہر فرد اپنے ذاتی مفاد کے لیے کوشش کر رہا ہوتا ہے اورکسی نادیدہ قوت کے زیر اثر جانداراپنی بقاء کشید کرتا رہتا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کے معنی کا سوال صرف ادب یا فلسفہ ہی کا موضوع نہیں بلکہ ’فطری‘ سائنس کا بھی موضوع بن سکتا ہے۔

ہم انسان جب بھی کوئی فعل سرانجام دیتے ہیں تو ہمارے پیش نظر ایک مقصد ہوتا ہے۔ سماج ایسے ہی تشکیل پاتے ہیں۔ قانون اور آئین بنانا، اس کے نفاذ کے لیے ادارے تشکیل دینا، نظریات قائم کرنا، عمارتیں بنانا، ادبی فن پارے تخلیق کرنا یعنی کہ ہر فعل میں کسی نہ کسی مقصد کی موجودگی پائی جاتی ہے۔ گویا جینیاتی سطح پر بے مقصد اور اتفاقی تبدیلیوں نے بالآخر ایسے جاندار تشکیل دیے ہیں جو با مقصد افعال سرانجام دیتے ہیں۔ انسان میں مقصد یا معنی کی قوت کی موجودگی ہی نے مختلف متھالوجی، مذاہب اور نظریات و ادبیات کو تشکیل دیا ہے۔

مشہور فلسفی و مورخ ول ڈیوراں اپنی کتاب ”تہذیبوں کی داستان“ کی جلد اول میں اشارہ کرتے ہیں کہ ”تہذیب دراصل ادب کی اگلی نسلوں میں منتقلی کا نام ہے“ ۔ مطلب یہ کہ تہذیب بذات خود انسان میں مقصد یا معنی کی پیدائش اور ترسیل کی علامت ہے۔ علامہ اقبال اپنی نظم ”لالہ صحرا“ میں شاید اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ،

تو شاخ سے کیوں پھوٹا، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اک جذبہ پیدائی، اک لذت یکتائی

چونکہ ہماری ابھی تک کی سائنس ان سوالات کے جواب نہیں فراہم کرتی یا پھر ہمارے عقائد ہمیں الجھا دیتے ہیں اس لیے ہم ان سوالات کو غیر حقیقی یا ناجائز قرار دینے لگ جاتے ہیں۔ دراصل یہی وہ سوالات ہیں جنہیں ہم فلسفے کی مدد سے جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ محض حیاتیاتی کیمیائی عوامل سے مقصد کی موجودگی یا معنی کی جستجو کو واضح نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر جنسی عمل میں لذت کا پایا جانا اس لیے مفید ہے کہ اس سے جینز ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتے ہیں لیکن انسان نے ایسے وسائل ایجاد کیے ہیں جن سے لذت بذات خود ایک مقصد بن کر رہ سکتی ہے اور تولید کے عمل سے اس کا تعلق منقطع کیا جا سکتا ہے۔

یوں لذت کا مقصد محض جینیاتی انداز سے سمجھا نہیں جا سکتا۔ اس مسئلہ کا سب سے واضح اظہار انسانی شعور کی تعریف اور اس کی ناقابل تفہیم ماہیت میں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والے سائنسدان بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ذہانت کا یہ نیٹ ورک کیسے کام کرتا ہے۔ کیسے ایک آؤٹ پٹ کو نیٹ ورک میں ان پٹ سے جوڑا جاتا ہے اور فیصلہ کس طرح عمل میں آتا ہے لیکن وہ یہ نہیں جان پاتے کہ مصنوعی ذہن ایک خاص مقصد کیوں قائم کر لیتا ہے۔

یہاں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان یا دیگر جانداروں میں مقصد یا معنی کی تلاش کیوں ہے؟ یعنی ارتقاء کے دوران ایسا کیا ہوتا ہے کہ اتفاقی تبدیلیاں ایک بامعنی وجود یا معنی کی جستجو کا خمیر پیدا کرنے لگتی ہیں۔ کیا حیاتیات یا مادی عوامل اس سوال کے جواب میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں؟ کیا سائنس بذات خود ان سوالات کا جواب سے سکتی ہے؟ ہمارے عہد میں بہت سے سائنسدان یا دانشور ایسے موجود ہیں جو ان سوالات کو یا تو یکسر غیر ضروری قرار دے دیتے ہیں یعنی انسان میں مقصد یا معنی کی تلاش کو ایک لاحاصل جستجو یا انسانی ذہن کا وہم قرار دے دیتے ہیں یا پھر اس جستجو اور اس سوال کو جائز اور واقعی سوال سمجھتے ہوئے اپنے من مانے عقائد سے ان کا جواب تلاش کرتے ہیں۔

ڈینئل ڈینیٹ جنہوں نے ڈاکٹر ہیگ کی کتاب کا دیباچہ تحریر کیا ہے، ان سے اتفاق کرتے ہوئے ہمارے مطابق بھی یہ سوالات بالکل جائز ہیں۔ اس کی ایک سادہ سی وجہ تو یہ ہے اگر یہ کہا جائے کہ یہ سوال اور جستجو ہی بے معنی ہے، تو یہ بات بھی اپنے ہی آپ بے معنی ہو جائے گی۔ گویا ہم اپنی ہی دلیل سے اپنا ہی رد پیش کر رہے ہوں گے جو کہ ایک منطقی مغالطہ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جائز اور واقعی سوال وہ ہوتا ہے جس کے لیے مشاہداتی بنیاد فراہم ہو۔

اور ان سوالات کے لیے مشاہداتی بنیاد خود انسان کی ذات میں موجود ہے۔ اگر انسان خود میں ایسا محسوس نہ کرتے تو پھر یہ تہذیب، ادب اور علوم و سماج بھی موجود نہ ہوتے۔ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ تہذیب، ادب، اعلٰی شاعری، سماجیات، سیاست یہ سارے عوامل دراصل انسان میں معنی کی تلاش ہی کے استعارے ہیں۔ لہذا ان وجوہات کی بنا پر ہم سمجھتے ہیں کہ معنی یا مقصد کی تلاش ایک حقیقی تلاش ہے اور اس سے متعلق سولا ات جائز سوالات ہیں۔

ان سوالات کی جانچ میں سائنس اور فلسفے کو ایک ساتھ چلنا ہوگا اور یہی وہ کام ہے جو ڈاکٹر ہیگ کی کتاب پیش کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح زبان، ثقافت، اخلاقیات اور دیگر سماجی ضابطے وقت میں دہرائے جانے والے واقعات کا نتیجہ ہوتے ہیں ایسے ہی جینز میں ایک نسل سے دوسری یا بعد کی نسل تک دہرائے جانے کا عمل جانداروں میں معنی کی جستجو یا تلاش پیدا کرتا ہے۔ گویا معنی کی تلاش کا جواز دہرائے جانے والے پیٹرن کی وجہ سے ہے۔

اسے وہ انڈے اور مرغی والی کہاوت سے تشبیہہ دیتے ہیں یعنی انڈے سے مرغی بنتی ہے اور مرغی سے انڈہ بنتا ہے جو بعد میں پھر مرغی بنتا ہے اور یہ عمل بار بار دہرایا جاتا ہے۔ اس سارے عمل کے نتیجے میں ارتقاء ہوتا رہتا ہے اور ہر جاندار اپنے ماحول اور داخلی تضادات کے نتیجے میں معنی کی تلاش کرتا ہے۔ انسان کی سطح پر معنی کی تلاش محض جبلت یا بقاء تک محدود نہیں رہتی بلکہ آج جس دور میں انسان پہنچ گیا ہے اب یہ زیادہ آزاد ہے اور جبلت سے آگے جا کر اپنے لیے نئے معنی پیدا کرنے کا ماحول بھی بنا چکا ہے۔

اسی لیے آج کی اخلاقیات یا سماجی ضابطے آج کے ماحول کے مطابق بنانے کا اہل ہے۔ اس طرح معنی صرف جبلی یا مطلق نہیں ہو تا بلکہ جینز کی کشمکش سے معنی کا ارتقاء جاری و ساری رہتا ہے جس طرح متن کی تنقید سے معنی کا ارتقاء ہوتا ہے۔ بہرحال یہ کتاب بہت سے اسباق لیے ہوئے ہے جنہیں مختلف شعبہ ہائے علم میں استعمال کیا جاسکتا ہے اورسائنس، ادب اور فلسفہ کے لیے مزید مشترک میدان دریافت ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).