فلسفۂ بینظیر ایک بار پھر تاریخ رقم کر گیا


پاکستان اور عالم اسلام کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم، کارزار سیاست کی عظیم دانشور، باہمت، بہادر ایک عظیم سیاسی جمہوری ورثے کی وارث شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی ان کے تکلیف دہ غم کو اس طرح ایک بار پھر مضبوط عزم میں تبدیل کر گئی کہ پاکستان کی سیاسی جمہوری تاریخ کی مختلف الخیال نظریات، فکر و فلسفے کی حامل جماعتیں شہدائے گڑھی خدابخش میں جمہوریت کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے ان کی مزار پہ حاضری دینے کے لیے اکٹھی ہو گئیں۔

سب سے اہم شرکت پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت کی جانب سے میاں نواز شریف کی دختر محترمہ مریم نواز اور ان کے اعلیٰ سطحی وفد کی تھی۔ پاکستان میں کئی دہائیوں سے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی ورثے کے وارثوں ضیاء الحق کے آمرانہ نظریات، فسطائی خیالات و اقدامات کے جانشینوں کے درمیان جمہوریت کے احیاء اس کے کی بقا اور استحکام کے لیے سیاسی جنگ رہی، اس سیاسی نظریات کے تضادات کو مسلم لیگ نون اور اس کی قیادت نے ذاتی جنگ سمجھ کر لڑا۔

سیاسی، اخلاقی اور اسلامی اقدار کی دھجیاں تک اڑائی گئیں، اپنے سیاسی مخالفین خاص طور پر شہید بھٹو اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی ذات ان کے کردار پہ رقیق حملے کیے گئے، کردار کشی کی گئی وہ گری ہوئی اخلاق باختہ مہم چلائی گئی جس کی اس زمانے میں اور اس سے پہلے پاکستانی سیاست میں مثال ملنا مشکل تھی۔ پھر وقت گزرا، سیاسی حالات تبدیل ہوئے میاں صاحب اپنے خاندان کے ساتھ جلا وطن ہو کر دس سال تک سیاست سے باہر رہنے کا معاہدہ کر کے سعودی عرب منتقل ہو گئے۔

اسی دوران شہید محترمہ بینظیر بھٹو بھی خودساختہ جلاوطنی اختیار کر چکی تھیں، انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا ایک بڑا فیصلہ کیا اور اپنی اور اپنے خاندان کی کردارکشی کرنے، احتساب بیورو بنا کر جعلی مقدمات میں ملوث کر کے بدترین سیاسی انتقام لینے والوں اور انہیں ملک کے لیے سیکیورٹی رسک قرار دینے والے شریف خاندان سے سعودی عرب جا کر نہ صرف ملاقات کی بلکہ مشکل کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ ہمدردی اور یکجتی کا اظہار کر کے اعلیٰ ظرف اور برداشت و رواداری اور درگزر کرنے کی ایک بہت بڑی مثال قائم کی۔

پھر اہل سیاست نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جب شہید ذوالفقار علی بھٹو کے روشن خیال، بائیں بازو کے جمہوری نظریات کی اثاث نے ضیاء الحق کے روحانی اور آمریت پسند بائیں بازو کے مذہبی انتہا پسند خیالات کے ورثے کے وارثوں کے ساتھ ملک میں جمہوریت کی بحالی، استحکام اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے میثاق جمہوریت جیسے دستاویز پہ دستخط کیے۔ میثاق جمہوریت اصل میں نہ صرف شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی عظیم سیاسی جدوجہد اور ان کے جمہوری، ترقی پسندانہ، روشن خیال اسلامی نظریات، ان کے شہید والد کی چھوڑی ہوئی سیاسی وراثت کو سیاسی قوت عطا کرنے کی جانب ایک مثبت اور مستحکم اقدام تھا بلکہ شہید بی بی چاہتی تھیں کہ پاکستان کی سیاست میں تحمل، برداشت، رواداری، ایک دوسرے کو عزت احترام دینے، انتخابات میں اداروں کی سیاسی مداخلت اور دھاندلی روکنے، اپنے سیاسی مخالفین کے عوامی مینڈیٹ کو قبول کرنے اور سیاسی مخاصمت کی بنیاد پہ گری ہوئی گھٹیا ذاتی کردار کشی اور الزامات کی روایات کو ختم کر کے ایک اصلی اسلامی جمہوری مملکت کی جانب پیش رفت کی جائے۔

آج جب میثاق جمہوریت جیسے مقدس سیاسی دستاویز کا ذکر ہوتا ہے تو شہید بینظیر بھٹو کی مدبرانہ سیاسی قیادت کی کمی بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے، ان کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے 2008 کے انتخابات میں مل کر حکومت بنائی مگر پاکستان کی دو بڑی مضبوط سیاسی جماعتوں کو ایک ساتھ شریک اقتدار ہوتے دیکھ کر جن قوتوں کو اپنے چودھراہٹ کا خاتمہ نظر آتا تھا وہی قوتیں ایکبار پھر دونوں سیاسی جماعتوں کی مفاہمت کی سیاست کو 90 کی دہائی کی سخت سیاسی دشمنی کی سیاست کی جانب موڑنے کی کوششوں میں جت گئیں اور اس میں کامیاب بھی ہو گئیں۔

مسلم لیگ نون کی قیادت نے ایک بار پھر وہی لب و لہجہ اختیار کرنا شروع کر دیا جو وہ ماضی میں اختیار کرتی آئی تھی۔ وقت نے ایک بار پھر کروٹ لی 2018 کے دھاندلی زدہ، متنازعہ انتخابات نے اقتدار کا ہما عمران خان صاحب کے سر بٹھایا اور ایک بار پھر پیپلز پارٹی نے ہی تمام ذاتی رنجشیں بھلا کر، اپنی قیادت کے خلاف سخت ترین الزامات اور انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگی قیادت خاص طور پر میاں شہباز شریف صاحب کی جانب سے ذاتیات پہ مبنی غیر شائستہ الفاظ کی گولا باری کو پس پشت رکھ کر مسلم لیگ نون کی طرف دوستی اور شراکت داری کا ہاتھ بڑھایا اور اس بار اس کام کا بیڑا بی بی شہید کے لخت جگر نے اٹھایا اور ایسا اٹھایا کہ شریف خاندان اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان کے درمیان دہائیوں پہ محیط سیاسی دشمنی، سیاسی مخاصمت ایک نئے مثبت جمہوری اور اخلاقی ٹریک پہ لے کر آ گئے۔

چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مسلم لیگ نون کی نائب صدر و میاں نواز شریف کی دختر محترمہ مریم نواز شریف کو بڑی بہن کا درجہ دیا، اپنی شہید ماں کے ساتھ ان کے خاندان کی جانب سے روا رکھے گئے غیر اخلاقی سلوک، اپنے والدین کے خلاف بدترین سیاسی انتقام اپنے پارٹی کارکنوں کے ساتھ ظلم و زیادتیوں کو بھلا کر ایک نئے سیاسی اخلاقی رشتے اور اعتماد کی بنیاد رکھی۔ چیئرمین بلاول نے مریم نواز شریف کے اعزاز میں اسلام آباد میں افطار ڈنر سے اس نئی سیاسی مفاہمت اور اعتماد سازی کی ابتدا کی اور بتدریج اس کو اپنے حسن سلوک اور سیاسی دانشمندی سے آگے اس طرح بڑھایا کہ اہل سیاست نے اس منظر کا نظارہ کیا جب مریم نواز شریف شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو سمیت گڑھی خدابخش کے شہداء کی مزارات پہ حاضری اور ان کی روحوں کو ایصال ثواب پہنچانے کے لیے فاتحہ خوانی کرنے پہنچیں اور شہید بی بی کی برسی میں باقاعدہ شرکت کی اور بہت جاندار خطاب بھی کیا۔ یہ کرشمہ اس کرشماتی شخصیت کی مرہون منت ہے جس نے میثاق جمہوریت کر کے تمام سیاسی دشمنیاں ہمیشہ کے لیے دفن کر دینے کے کام کا آغاز کیا اور اب ان کے لخت جگر نے دو قدم آگے بڑھ کر اسے ایک نئی تاریخ ساز حیثیت دے دی۔

آج پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سیاسی مفاہمت کے ایسے رشتے میں جڑ گئے ہیں جو یقیناً ہر گزرتے وقت کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے گا، چیئرمین بلاول اور محترمہ مریم نواز شریف کی دانشمندی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کو معاشی، جمہوری اور اخلاقی طور پر ایک مضبوط و مستحکم پاکستان اور ایک مضبوط و مستحکم جمہوریت کی نئے سرے سے تشکیل کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر لے آئی ہے اور یہ مفاہمت انشاء اللہ مستقبل میں پاکستان کی مضبوط معیشت، سیاست، جمہوریت، اخلاقی اور اسلامی اقدار کی ضمانت بنے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).