کورونا پر سنجیدہ دانشوری


ساقی کسی ہسپتال میں ڈاکٹر نہیں ہیں۔ حکمت تو وہ سیکھنے گیا تھا لیکن بہتر حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے نکال دیا گیا۔ لیکن کورونا پر ان کی تحقیق قابل دید ہے۔ چائے کے کھوکھے میں بیٹھ کر وہ ڈبلیو، ایچ، او اور پاکستان ہیلتھ آرگنائزیشن کی کارکردگی کا جائزہ پرانے اخبارات سے لیتے رہتے ہیں۔ ایک دفعہ میں ان سے ملاقات کر چکا ہوں۔ جس میں انہوں نے ”وائرس یا وائرلیس“ پر اپنا تفصیلی علمی اور تنقیدی نقطہ نظر پیش کیا تھا۔ جس کا اثر کسی پر نہیں ہوا۔

آج کورونا کی دوسری لہر آ گئی ہے۔ جس نے لوگوں کی سوچ پر ذرہ برابر بھی اثر نہیں کیا۔ آج کھوکھے پر یوں لگ رہا تھا کہ جیسے تجاوزات والے چکر لگا گئے ہوں۔ خاموشی وائرس کی طرح پھیلی ہوئی تھی لیکن ایسا نہیں تھا، آج چائے کی بجائے ساقی نے بھی ماسک بیچنا شروع کر دیے تھے۔ پانچ روپے کے دو ماسک ، میں نے کہا ساقی یہ تو نقصان ہے۔ کہنے لگا نقصان تو منافع کمانے والوں کا ہوتا ہے۔

میں ساقی کے قریب ہوا تو ساقی نے بھی ماسک لگا لیا حالانکہ ضرورت نہیں تھی۔ کہنے لگا نئی لہر نئی دلی سے آئی ہے۔ میں نے کہا ساقی دلی سے پاکستان میں ہوا نہیں آ سکتی۔ وائرس کیسے آ گیا؟ کہنے لگا جس طرح امریکہ سے چین چلا گیا بالکل اسی طرح یہ عمل بھی ہوا ہے۔ میں نے کہا یہ ہاتھ جوڑ کر لاک ڈاؤن کی منتیں کرنے والے آج جلسے کیوں کر رہے؟ ساقی کہنے لگا پہلا کام ناکامیاں چھپانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اور دوسرا کام مجرموں کو بچانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ جو کچھ الیکشن میں ہو چکا ہے دھواں تو اٹھے گا۔

میں نے کہا کورونا کو ایک سال ہو گیا ہے۔ اس کی برتھ ڈے کون منائے گا؟ ساقی کہنے لگا کورونا کی ماں ہی اس کا برتھ ڈے منائے گی۔ میں نے کہا آب کرمانیہ کو یہ سب کرنا زیب تو نہیں دیتا۔ ساقی کہنے لگا کرمانیہ نے تو پیدا کر کے اسے پھینک دیا تھا۔ پرورش تو چائنا نے کی ہے۔ جنس کے اعتبار معلوم نہیں چائنا کون ہیں؟ شکل سے بھی ان کی جنس کا اندازہ نہیں ہوتا۔ اس تشویش ناک صورتحال میں بھی کیک چین کو ووہان شہر کے اندر کاٹنا ہو گا۔ میں نے کہا ساقی ووہان شہر والے تو کورونا سے اس طرح تنگ ہیں جیسے ہم پاکستانی شریفوں سے تنگ ہیں۔ ساقی کہنے لگا جو تنگ ہوں وہی کاٹتے ہیں کیک ہو یا گردن ۔

میں نے کہا ساقی تم سیاست میں غوطہ زن ہو رہے ہو۔ میرا ارادہ تھا کہ ماسک کی قیمت بڑھائی جاتی تاکہ آپ جیسے ڈاکٹروں کی روزی روٹی کا بندوبست ہو جاتا۔ ساقی کہنے لگا اس کے لیے زلفی بخاری سے کہو کہ تافتان بارڈر سے کورونا کی نئی قسم داخل کرے۔ میں نے کہا تجویز تو بجا ہے۔ یہ جنازوں سے کام نہیں چلے گا؟ ساقی کہنے لگا یہ لاہور مینار پاکستان والے جنازے کی بات کر رہے ہو؟ میں نے کہا بالکل آپ تو سمجھدار ہیں۔ ساقی کہنے لگا مولوی اس وائرس کے خاص لگتے ہیں۔ مولویوں کو کیا پریشانی انہوں نے تو جنازہ پڑھانا ہے اور جنازہ زندہ انسان کا ہو نہیں سکتا۔

میں نے کہا ساقی یہ سستے ماسک بیچنے کے علاوہ تازہ خبریں بھی سن لیا کرو۔ پچھلے دنوں مولانا طارق جمیل کو کورونا وائرس ہو گیا تھا۔ ساقی بولا طارق جمیل مولوی تو نہیں ہے۔ میں نے کہا تو پھر کیا وہ موٹیویشنل اسپیکر ہیں جن کی بات سنی تو زیادہ جاتی ہے عمل کوئی نہیں کرتا۔ ساقی بولا وہ تو صوفی لوگ ہیں۔ مولویوں سے ان کا کیا تعلق؟ الٹا مولوی ان سے تعلق بنانا چاہتے ہیں تاکہ ان کا اپنا امیج بہتر ہو سکے۔ میں نے کہا میں چند دنوں سے مسجد میں ماسک پہن کر جا رہا ہوں۔ یہ نمازی مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے بھیڑوں کے ریوڑ میں کوئی بکرا آ نکلا ہو۔ ساقی کہنے لگا یہ نمازی تو اللہ لوک ہوتے ہیں۔ آپ مولویوں کے پیچھے چلیں گے تو پھر انجام وہی ہے کہ ویکسینیشن کرنی پڑے گی۔ میں نے کہا کن کی ویکسینیشن؟ کہنے لگے مولویوں کی اور کیا نمازیوں کی؟ یہ تو سیدھی صف نہیں بنا سکتے۔

ساقی نے سینی ٹائزر کی بجائے ڈیٹول صابن کا پانی بنا کر رکھا ہوا تھا جس سے وہ عالمی وبا کا مقابلہ کر رہا تھا۔ ساقی نے ہاتھوں کو وائرس سے پاک کیا اور کہنے لگا یہ حکومتی لوگوں کو اپوزیشن کے جلسوں کے ساتھ کورونا ایسے یاد آتا ہے جیسے کڑاہی کے ساتھ چٹنی یاد آتی ہے اور خود یہ ایسے کام کر رہے ہیں کہ وبا پھیلے نہ پھیلے عوام ان کے گرد ضرور پھیل جائے گی۔ میں نے کہا ساقی یہ عمران خان تو کہتا ہے کہ معیشت ٹھیک جا رہی ہے۔ ساقی کہنے لگا یہ باتیں اسحاق ڈار بھی کرتا تھا وہ تو ہارڈ ٹاک والے نے انیل کپور بن کر نائیک کی طرح اس کا ڈراپ سین کیا۔ ورنہ یہاں کچھ لوگ ابھی بھی کہہ رہے تھے کہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کو لے آؤ۔

میں نے کہا ساقی صاحب معیشت اور کورونا کا حل آپ سے بہتر کون جانتا ہے۔ ویسے یہ مزاح تھا پھر بھی آپ بتا دیں۔ ساقی کہنے لگا قرض سے ملک نہیں چلتے ، جس طرح کٹھ پتلیوں سے نہیں چلتے۔ جنہوں نے ملک لوٹا ہے اب ملک کی باری ہے کہ انہیں لوٹے۔ اور کورونا کا حل کیا ہے؟ ساقی ذرا سوچ میں پڑ گیا، اچانک لبوں کو جنبش دی اور کہنے لگا کہ سازشیں ختم کر دو یہ خود ہی ختم ہو جائے گا، میں نے کہا کیا ارطغرل غازی کو بلانا پڑے گا؟ ساقی کہنے لگا اس کے ساتھ تو خود لاہور میں فراڈ ہو گیا ہے۔

میں نے کہا ساقی یہ سمارٹ لاک ڈاؤن کون سی فلم تھی۔ ساقی کہنے لگا یہ ”ان لکی کی لکی سٹوری ہے“ ۔ ایک کھلاڑی نے نئی ڈلیوری ڈالی اور وہ کام کر گئی۔ سیاست دان تو ویسے بھی ہاتھ جوڑنے میں مصروف تھے تاکہ امداد پر ہاتھ کھولے جا سکیں۔ میں نے کہا ساقی یہ سازشوں کی بے لگام گھوڑی کہاں تک پہنچی۔ ساقی لگام جیسا منہ بنا کر بولا سازش ضرور موجود ہے۔ دیکھو دوسری لہر وہیں دوڑ رہی ہے جہاں پہلے اموات کم ہوئی تھیں۔ یہ تو چھو چھو والے پیروں کا کرم ہے ورنہ بل گیٹس صاحب تو دوسرا میانی صاحب بنانے کا ارادہ ظاہر کر چکے تھے۔ اور دوسری بات یہ جو NCOC ہے۔ اس کا کام صرف عورتوں کی طرح باتیں کرنا ہے۔ ان کا کام تو آج تک اسد عمر کی سمجھ میں نہیں آیا جو اس کمانڈ کی صدارت کرتے ہیں۔ میں نے کہا ساقی چھوڑو ان غیر مطلقہ افراد کو۔ سال ختم ہو رہا ہے۔ کون کون سی بری تمنائیں آپ کی اگلے سال سے وابستہ ہیں۔ کہنے لگا ماسک کا کام کہتے ہیں ختم ہو جائے گا۔ ہم دانشور ہمیشہ کی طرح دربدر کی ٹھوکریں کھائیں گے۔ آپ جیسے جاہل لکھاری مل جائیں گے۔ جن سے مزاح لکھا تو جاتا نہیں بس پطرس بخاری کی روح تڑپانے کے لئے ضد میں کچھ نہ کچھ لکھ بیٹھتے ہیں۔ اور پھر سوچتے ہیں کہ پبلشر کو بھیجیں یا نہیں۔

میں نے کہا ساقی ایسے ہی تو انسان سیکھتا ہے۔ کہنے لگا سیکھتا وہ ہے جو کچھ جانتا بھی ہو۔ صلاحیت بھی ہو۔ رونا دھونا نہ ہو کہ ہمیں ٹیم بنانے کے لئے وقت ملنا چاہیے تھا۔ اور پھر کہتے ہیں کہ جی اس طرح میدان میں بغیر پریکٹس کے نہیں آنا چاہیے تھا۔ میں نے کہا ساقی آپ ڈاکٹری سے زیادہ آج میر صاحب والی گفتگو کر رہے ہیں کہیں لفافے آپ کی طرف بھی تو نہیں آتے؟ وہ لاڈلے ہیں کچھ بھی کہ سکتے ہیں اور کر بھی سکتے ہیں۔ جس طرح لفافے والے لاڈلے ہوتے ہیں۔ ساقی صاحب بولے یاد رکھنا ماں باپ اور خاندان کو بھی سب سے زیادہ ذلیل لاڈلا ہی کرتا ہے۔

میں نے کہا ساقی میں چلتا ہوں، یہ کورونا ختم ہو نہ ہو تمہارے کھوکھے سے آنے والی بدبو اور خوشبو مجھے ختم کر دے گی۔ بعد میں پتا چلا ساقی ڈاکٹروں کے استعمال شدہ ماسک فری میں لا کر انہیں عطر لگا کر بیچتا ہے۔ کوئی گاہک پوچھ لے کہ یہ ہسپتال کی خوشبو تو ساقی پکا منہ بنا کر کہتا ہے یہ میڈیکل ماسک ہے۔ شکر کرو تم جیسے جاہل گنوار کو دے رہا ہوں ورنہ تو MBBS ڈاکٹر یہ ماسک استعمال کر چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).