جنوبی ایشیا کی تہذیب و تاریخ اور جدید پاکستانی تاریخ دان


مٹی، پانی، آگ اور ہوا کے اشتراک سے وجود پانے والی شے انسان ہے۔ چار اشیاء کا مرکب ہونے کی وجہ سے ہر انسان طبیعت میں دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ اس مختلف پن کی وجہ سے ہر انسان کا مظاہر فطرت کو دیکھنے اور پرکھنے کا انداز بھی جدا ہے۔ میشل فوکو کے بقول انسانی فکر ثقافتی تشکیل کی مرہون منت ہے۔ میرے خیال میں انسان فطرتاً دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو فوکو کی بات کو سچ ثابت کرتے نظر آتے ہیں جو مادی دنیا میں اکثریتی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔

دوسرے اقلیت میں ہونے کے باوجود اپنی فطرتی فکر رکھنے کی وجہ سے پہلی قسم سے مختلف ہوتے ہیں۔ کیوں کہ وہ عام ڈگر سے مختلف سوچتے ہیں اور اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔ میرے مطابق دوسری قسم کو مشہور تاریخ دان آرنلڈ ٹائن بی کے creative minority نظریہ سے تشبیہہ دینا زیادہ مناسب رہے گا۔

یہ گروہ بے لوث ہو کر ملک و قوم یا انسانیت کی خدمت کر رہا ہوتا ہے۔ اس میں مزدور سے لے کر کوئی بھی شامل ہو سکتا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کو اس گروہ کی فعالیت اور تعداد میں اضافہ کی اشد ضرورت رہتی ہے۔ کیوں کہ ان کو اپنے ممالک میں اپنے لوگوں میں سے ایک ایسے گروہ کا سامنا ہوتا ہے جو comprador کلاس اور ان کی تنخواہ پر اپنی مجبوریوں کے ہاتھوں چلنے پر ( پیٹ کی ضروریات، لالج، معاشرتی یا سماجی ظاہر داری) مجبور دکھائی دیتے ہیں، پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ گروہ تیسری دنیا کے ملک کو عالمی طاقتوں کے جنگل سے آزادی دلا کر اپنی مٹی زبان، ہیروز، ثقافت، تہذیب و تمدن کی بناء پر شناخت دلا سکتے ہیں۔

پاکسان بھی تیسری دنیا کا ملک ہے جہاں ریاست اور عوام کے درمیان ایک بہت بڑا خلا پایا جاتا ہے اور وقت کے ساتھ کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ جو کسی ملک کی سالمیت اور بقا کے لیے خطرناک ہے۔ پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ کہا جاتا ہے۔ مگر اب یہ صرف اسلام کی تجربہ گاہ نہیں بل کہ سائنس کے علاوہ ہر قسم کی تجربات کی لیباٹری بن چکی ہے، اور اس میدان میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔

عالمی طاقتیں اپنے اقتدار کے بل پر مغلوب اقوام کو تاریخی اعتبار سے ان کی اپنی نظروں میں نیچا دکھانے کا اہتمام کرتی رہی ہیں۔ یعنی خود کو برتر اور دوسروں کو ہر سطح پر کم تر دکھانا۔ جن اقوام نے آزادی کے بعد نو آبادیاتی تاریخ کو از سر نو دوبارہ سے دیکھا اور پرکھا یا وہ اس کی کوشش شروع کرتے ہیں تو وہ اپنی کھوئی ہوئی شناخت کے راستے ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں مگر جو اس طرف توجہ نہیں دیتیں ان کا حال ہمارے جیسا ہی نظر آتا ہے۔

تاریخ ایسا مضمون ہے جو سامنے والے سے صرف ایک چیز کی طلب کرتا ہے کہ من و عن قبول کر کے اصلاحی سبق حاصل کیا جائے مگر پاکستان جیسے ملکوں میں ابھی تک الٹ چل رہا ہے جس کی وجہ سے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ کیا یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا یا تاریخ سے کبھی سبق سیکھا جائے گا؟

تاریخ نویسی ایک مسلسل عمل یا کوشش کا نام ہے اور یہ تب تک جاری رہتی ہے جب تک سو فیصد سچ تک پہنچا نہ جائے۔ تاریخی عمل جہاں ختم ہوتا ہے وہاں سے سائنسی علم کی ایجادات سامنے آتی ہیں۔

نئے سال کے آغاز میں ایک بہت بڑی خوش خبری تاریخ کے اساتذہ، طالب علموں اور عام قاری کے لیے سامنے آئی ہے۔ اس

خوش خبری کی محرک پاکستان کی ریاست کو بننا چاہیے تھا مگر انہیں ایسے تعمیراتی کاموں سے کیا لینا دینا۔

ترکی سے حال ہی میں ایک کتاب ”Islamic History and Civilization:South Asia“ انگریزی زبان میں چھپی ہے۔ جس کو مرتب دو پاکستانی اساتذہ ڈاکٹر خرم قادر (آپ کا تعلق ایک علمی و ادبی خانوادے سے ہے۔ آپ کی خوش قسمتی کہ پی ایچ ڈی میں آپ کو احمد حسن دانی صاحب جیسے اساتذہ کا ساتھ ملا اور آپ ان کے خاص شاگردوں میں سے تھے اس کے علاوہ آپ سر عبدالقادر کے پوتے ہیں۔ جنہوں نے علامہ اقبال کی کتاب ”بانگ درا“ کا دیباچہ لکھا) جو سلطنت پیریڈ پر عبور رکھتے ہیں اور پروفیسر ڈاکٹر فراز انجم (آپ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں بطور پروفیسر اپنی تدریسی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور مغل تاریخ پر ان کا معیاری کام سامنے آ چکا ہے ) نے کیا ہے۔

یہ کتاب IRCICA کے ادارے نے شائع کی ہے۔ جو OIC کا ذیلی ادارہ ہے جس کا بنیادی مقصد اسلامی تاریخ، کلچر اور آرٹ کو سامنے لانا اور ان کی ترقی کے لیے کوشش کرنا ہے۔ جس کے مقصد یہ ہے کہ  اسلامی تہذیب اور تاریخ کو ازسر نو دیکھا اور پرکھا جائے۔ اس میں بیس لکھنے والے ہیں۔ جن میں سے تیرہ پاکستانی، تین ہندوستانی، ایک ساؤتھ افریقہ، ایک بنگلہ دیش، ایک نالنڈا یونیورسٹی، ایک ساکاریا یونیورسٹی سے شامل ہیں۔ یہ کتاب تعارف کے علاوہ چھے ابواب پر مشتمل ہے جو جنوبی ایشیا میں اسلامک تہذیب اور تاریخ کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ پہلا باب بعنوان ” Muslim Inroads in South Asia,the Early
Phase ” ہے، جو سندھ ( 861۔ 841 ) ، غوری سلاطین ( 1235۔ 1011 ) ، سلاطین دہلی ( 1526۔ 1206 ) ، سندھ ( 1591۔ 1024 ) ، سلاطین بنگال ( 1576۔ 1210 ) ، سلاطین کشمیر ( 1588۔ 1339 ) کے ادوار کی سیاسی، ریاستی انتظامی، معاشرتی و معاشی، سائنس، تعلیم، کلچر، آرٹ اور آرکیٹیکچر کی تاریخ بتاتی ہے۔

دوسرا باب ”Fragmentation of Muslim polity۔ Phase I“ مقامی سلاطین:بھارت۔ دکن کی تقسیم، ملکی پالیسیز، انتظامی، معاشی، سیاسی نظام اور کلچرل پر سیر حاصل گفتگو کرتا ہے۔ یہ باب 1334ء سے 1573ء کے درمیانی دور پر مشتمل ہے۔

تیسرا باب”Fragmentation of Muslim polity-Phase II“ مقامی سلاطین:دکن کی تقسیم کی توڑ پھوڑ جس میں بارید شاہی، عادل شاہی، نظام شاہی، عماد شاہی اور قطب شاہی کی تاریخ 1487 ء سے 1687 ء تک کی بیان ہوئی ہے۔

چوتھا باب ”Muslim Polity in Bharat and The Deccan ہے جس میں بابری/مغل سلطنت کی سیاسی تاریخ بابر ( 1526 ) سے لے کر جنگ آزادی ( 1857 ) ، مرکزی ریاستی انتظامیہ، فوج، عدالتی نظام، تعلیم، سانئس، کلچر، آرٹ، آرکیٹیکچر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

پانچواں باب ”Minor State: Mughal Decline and After“ میں سرحد(اب پختون خوا)، بلوچستان، سندھ، بھوپال، حیدرآباد، اودھ، افغان ریاست، میسور کے سلاطین، بہاول پور، انگریز دور کی چھوٹی مسلم ریاستیں کی تاریخ اور معاشرتی و معاشی ڈھانچہ، انتطامیہ، ٹرانسپورٹ اور انفراسٹرکچر، ملٹری اسٹیبلشمنٹ، درمیانی جدیدیت، خارجہ تعلقات، اور اسلامک انتظامیہ کی طرف سفر کے آغاز پر بات شامل ہے۔

آخری باب میں جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو انگریز دور حکومت یعنی کالونیل ازم کے زیر اثر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پہلا ایسٹ انڈیا کمپنی کا دور اور دوسرا جنگ آزادی 1857 کے بعد تاج برطانیہ کے دور حکومت میں کس طرح مسلمان جدیدیت اور بنیاد پرست دو گروہ میں بٹ گئے۔ جدید گروہ کی علامت سر سید احمد خان کی تحریک علی گڑھ اور دوسری طرف رجعت پسند دارالعلوم دیوبند ۔ مذکورہ دونوں طبقات کے اختلاف کی وجہ سے ایک تیسرہ گروہ ندوہ العلماء لکھنو وجود میں آیا۔ ان سے مسلمانوں کے سیاسی تشخص کی ڈولپمنٹ، پان اسلام ازم یا وحدت اسلامی کا آغاز، انگریزی امپیرئیلزم کی مخالفت اور مسلمانوں کی حریت اور علاحدہ تشخص، برصغیر کے مسلمانوں کے خلافت عثمانیہ اور خلفا سے تعلقات، برصغیر میں اسلامک کلچر پر مشاہدات پر نتیجہ خیز گفتگو کی گی ہے۔

یہ کتاب مسلم تاریخ نویسی کو تاریخ کے میدان میں بانی گردانتے ہوئے آگے بڑھتی ہے۔ ابو جعفر محمد ابن جریر الطبری ( 923۔ 839 ) سے شروع ہو کر ابو زید عبدالرحمن ابن محمد المعروف ابن خلدون کی تاریخ نویسی میں کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے پھر عربوں کی ہندوستان آمد کو محمد بن قاسم سے پہلے بیان کرتی ہے۔ یہ کتاب اصل میں برصغیر میں تمام مسلم ریاستوں کی سیاسی، معاشرتی، معاشی، ثقافتی اور مذہبی تاریخ کا ایک انسائیکلو پیڈیا ہے جو پانچوں حملہ آور فاتحین اقوام : عرب، ایران، افغان، منگول، اور ترک کے نظام حکومت کا تقابلی جائزہ بھی پیش کرتی ہے۔ اس میں جغرافیے کے حوالے سے تمام ریاستوں اور حکمرانوں اور ان کے زیر اثر علاقوں کو حقائق، ترتیب زمانی اور تنقیدی تجزیے سے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ قاری کو برصغیر کو تین حصوں :بھارت، دکن، اور مسلم ریاستوں میں تقسیم کر کے ان کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی عروج و زوال کی داستان سناتی کرتی ہے۔ اس کتاب کے بیانیے کے مطابق یہ تینوں ہمیشہ سے الگ خطے رہے ہیں چاہے سیاسی حوالے سے کبھی کسی حد اکٹھے ہوئے بھی تو کبھی بھی ایک شناخت کے طور پر سامنے نہ آ سکے۔

بھارت میں مسلم تہذیب کو خوش آمدید کہا گیا۔ یہ علاقہ نرسری کے طور پر سامنے آیا۔ جس میں اقلیتی گروہ کے مسلمان گروہ نے اکثریتی گروہ پر حکومت کی۔ مختلف اقوام کی حکمرانی سے کلچر اور ثقافت کا تبادلہ ہوتا رہا۔ جس سے فنون لطیفہ پروان چڑھا۔ باہمی ثقافتی کردار کے تحت فن مصوری، موسیقی، اور شاعری اپنے بام عروج پر پہنچی۔

التمش وہ پہلا سلطان تھا جس نے ریاست کو لاہور سے لکھنو اور بنگال سے سندھ تک centralised کیا تھا جب کہ علاءالدین خلجی وہ پہلا سلطان تھا جس نے ریاست کو مقامی بنیادوں پر دیکھنے کی کوشش کی۔ وہ مقامی کلچر کو ساتھ لے کر چلا اور بعد میں اکبر کے دور حکومت میں مذہبی رواداری پروان چڑھی، انتہا پسندی کا خاتمہ ہوا۔ جس کی وجہ سے تکثیریت پر مبنی فضا ہندوستانی معاشرے میں نظر آئی۔

یہ والیم خاص طور سے چھوٹی ریاستوں کے کردار کو واضح طور پر قاری کے سامنے لاتا ہے مثلاً جون پور کی ریاست اپنے علم اور موسیقی کے ادارے کی وجہ سے بہت مشہور تھی۔ ایک دل چسپ بات یہ تھی کہ جو ریاست کا حکمران ہوتا تھا وہ بہت بڑا موسیقار بھی تھا۔ اس ریاست پر شرقی خاندان کی حکومت کافی عرصہ رہی۔ اس کے علاوہ یہ کام سلاطین اور مغل ادوار کا تقابلی جائزہ بھی پیش کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ برصغیر میں ترک یا افغان ریاستوں اور ان کے زیر اثر مسلمانوں کی معاشرتی اور ثقافتی ترقی کیسے وقوع پذیر ہوئی پر بات کرتا ہے۔ غیر مسلموں کے مسلمان ہونے کے عمل میں تیزی اور اس کے پیچھے عوامل کو سامنے لاتی ہے جس میں صوفی اور ان کے سلاسل:سہروردیہ (وادی سندھ میں مقبولیت حاصل کی) ، چشتیہ (Gangetic plain) ، اور فردوسیہ (بہار) کا کردار نمایاں دکھایا گیا ہے۔

یہ کتاب ترکوں کے ذریعے سنی اور ایرانیوں اور افغانیوں سے شیعہ فرقہ کیسے پروان چڑھا اور اس تناظر میں ہونے والی دکن کی طرف ہجرت اور اس کے پیچھے کارفرما عوامل اور تبدیلیوں کو بھی تفصیل سے سامنے لاتی ہے۔ یہ کتاب باریک سے باریک نکتے کو قاری کے سامنے لاتی ہے کہ حکمران کون کون سے ٹائیٹل مختلف ادوار میں اپنے لیے استعمال کرتے تھے۔

اس کے ساتھ یہ سلطان اور بادشاہ کے فرق اور طاقت کو اتنی تفصیل سے بیان کرتی ہے کہ قاری مکمل طور پر سمجھ جاتا ہے کہ ان دونوں میں بنیادی فرق کیا تھا مثلاً سلطان کے لیے شریعت کا پابند ہونا لازم تھا جب کہ بادشاہ اس سے مبرا تھا۔ سلطان کبھی مسلم ریاست پر حملہ نہیں کرتا جب کہ بادشاہ کر سکتا تھا۔

اس میں نقشوں کا استعمال کیا گیا ہے تاکہ جغرافیہ کی مدد سے تاریخ اور مقام کو آسانی سے سمجھا جا سکے۔ مختصراً اگر اس کام کے بنیادی تبادلہ خیال (argument) کی بات کریں تو یہ بتاتا ہے کہ برصغیر میں مسلم تہذیب بہت پھیلی ہوئی تھی جس میں تنوع ہونے کے ساتھ ساتھ اتحاد بھی نظر آیا یعنی ”unity in diversity“ ۔ یہ برصغیر میں مسلم تاریخ پر ایک مستند اور جامع کام ہے۔ جس کی بنیادی وجہ اس کو مرتب کرنے والے دوحقیقی محقق میری مراد ڈاکٹر خرم قادر اور ڈاکٹر فراز انجم ہیں۔

آپ دونوں برصغیر کی تاریخ پر عبور رکھتے ہیں اور نئی اور پرانی اسکالر شپ سے اچھی شناسائی ہونے کی وجہ سے آپ نے جن تاریخ دانوں کو اس پروجیکٹ میں شامل کیا، وہ سبھی خالص یا اصلی کام کرنے والے تاریخ دان ہیں۔  وہ چاہے ڈاکٹر حسین احمد خان ہوں یا ڈاکٹر نعمامہ کرن یا باقی لکھنے والے ، سبھی اپنے اپنے میدان میں کام سے شناخت بنا چکے ہیں۔ دونوں نے کوشش سے اس بات کو ممکن بنایا کہ جس علاقے یا ریاست کی تاریخ لکھوائی جا رہی ہے ، اسے لکھنے والا مقامی ہو تاکہ مٹی سے محبت کا عنصر کام میں مزید نکھار لا سکے ، ان کی یہ کوشش مکمل طور کام یاب نظر آتی ہے۔

اب اہم ہے کہ اس کا قومی و مقامی زبانوں میں ترجمہ کروایا جائے تاکہ نئے زاویوں سے دیکھی جانے والی اس تاریخ کو عام قاری کے لیے آسان بنایا جائے اور اسی طرح کی محنتی اور اپنے مضمون سے عشق کرنے والی اسکالر شپ کی مدد سے اس سے آگے ہماری ریاست کو چاہیے کہ ملکی تاریخ کے متعلق باقی رہ جانے والا کام مکمل کروایا جائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ کالونیل دور کی تاریخ کا از سر نو جائزہ لیا جائے اور اسے جوابی کارروائی کے لیے متبادل شواہد کی روشنی میں تاریخ قلم بندکی جائے تاکہ اس کی روشنی میں ہم اپنے ماضی پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کر سکیں۔ ہمیں اب کالونیل تاریخ کے چھپے ہوئے چہرے کو بھی ننگا کرنے کی ضرورت ہے مثلاً انگریز نے جہاں شخصی آزادی کا پرچار کیا وہیں اس نے اپنے طے کردہ قوانین و ضوابط کا قیدی بنانے کا پورا پورا بندوبست کیا اور آج comprador class اسی کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).