کیا سعادت حسن منٹو روایت شکن تھا؟


کچھ شاعر، دانشور اور ادیب روایات کے پجاری ہوتے ہیں اپنی ساری زندگی وہ اسی روایتی فریم آف مائنڈ میں مشغول رہ کر کچھ ادب تخلیق کر کے رخصت ہو جاتے ہیں۔ مگر کچھ دانشور اور ادیب روایتی سرکل آف لائف سے مطمئن نہیں ہوتے ایسے لوگ روایات کو چیلنج کرتے ہوئے جیتے ہیں اور ایک ایسا ادب تخلیق کر جاتے ہیں جو ان کے وقت کے لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتا اوروہ ان تصورات و ادب کو فضول گردانتے ہوئے رد کر دیتے ہیں مگر ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد وہ لوگ ادبی دنیا میں زندہ ہو جاتے ہیں اوران کا کام ری ڈسکور ہوجاتا ہے۔

مغرب میں بھی ایسے دانشور تھے جنہوں نے ادبی دنیا میں بھونچال پیدا کر دیا تھا وہاں پر فلسفے کی روایت میں انقلاب پیدا کرنے والی اوراس فلسفے کی دھارا کو مذہب کی بجائے سیکولرازم، ہیومن ازم، سائنس اور نفسیات کی طرف موڑنے میں چاراہم شخصیات نے بہت بڑا کردار ادا کیا ان چار شخصیات میں چارلز ڈارون، کارل مارکس، سگمنڈفرائیڈ اور فریڈرک نطشے شامل ہیں۔ بالکل اسی طرح مشرق میں بھی منٹو نے ادبی روایات کو چیلنج کرتے ہوئے ادب کی ایک نئی دھارا کو جنم دیا اور سماجی منافقتوں کو ننگا کر کے ادبی دنیا میں انقلاب برپاکر دیا۔ میں یہاں پرنطشے کی دو کوٹیشن کا حوالہ دینا چاہوں گا جو منٹو کی شخصیت اور کام پر بھی صادر آتی ہیں۔

I want to say in ten sentences, what other writer say in the whole book or may not even say in the whole book.

میں دس جملوں میں وہ سب کچھ کہنا چاہتا ہوں جو دوسرے لکھاری پوری کتاب میں بیان کرتے ہیں یا پوری ایک کتاب میں بیان نہیں کر پاتے۔

My time has not come yet, some are born posthumously.

میرا وقت ابھی نہیں آیا، بعض فلاسفر مرنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔

نطشے کی یہ دونوں کوٹیشن سعادت حسن منٹو کی شخصیت کی آئینہ دارہیں اس کو جیتے جی زندہ رہنے کی سزا دی گئی اورمرنے کے بعد بیسویں صدی کا عمدہ ترین لکھاری اور سرکار پاکستان کی طرف سے بھی نشان امتیاز سے نوازا گیا۔ اس میں کوئی اچنبے والی بات نہیں ہے کیونکہ یہ ہماری روش رہی ہے کہ ہم اپنے ادبی یا سائنسی سرمایہ کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرتے جب تک دنیا انہیں تسلیم کرنے میں پہل نہ کر لے۔ منٹوکو معاشرتی سرجن بھی کہا جاتا ہے وہ دو لفظوں میں وہ ساری بات کہہ ڈالتا ہے جس بات کو کہنے میں لوگ درجنوں صفحے سیاہ کر دیتے ہیں اسی بے باکی اور معاشرتی سرجری کی وجہ سے اسے عدالتوں میں گھسیٹا گیا مگرقانون اسے اور اس کی بے باکی کو پابند سلاسل نہ کر سکا اور ایسا ایک بار نہیں بلکہ کئی بار اسے معاشرتی سچ کو عریاں انداز میں پیش کرنے پر راندہ درگاہ ہونا پڑا، اس نے معاشرے کے دوغلے پن اور منافقت کاپردہ چاک کر کے معاشرتی پرہیزگاروں کا حقیقی چہرہ دکھانے کی بھرپور کوشش کی۔

منٹو باتوں کو معاشرتی منافقوں کی طرح چبا چبا کر کرنے کا عادی نہیں تھا بلکہ جو اس کے دل و دماغ میں ہوتا تھا وہ سب کہہ ڈالتا تھا۔ اس نے وہ سچ لکھا جو فادر، پنڈت، ملا اپنی زبان پر لانے سے بھی ڈرتے ہیں اور اسی تقدسی پرسوناکی آڑ میں خفیہ طور پر وہ سب کچھ کرتے ہیں اور اپنا پرہیز گاری کا بھرم بھی نہیں توڑتے مگر منٹواس برائے نام پرہیز گاری کا پردہ چاک کرنے سے بھی بالکل نہیں گھبراتا۔ اس بیسویں صدی کی متنازع فیہ مگر عظیم شخصیت نے طوائفوں، دلالوں اور انسانی فطرت پر قلم اٹھایا اور بغیر کسی گناہ و ثواب کے چکر میں پڑے وہ سب کڑوے سچ لکھ ڈالے جنہیں شاید مصلحت کی آڑ میں صدیوں سے جان بوجھ کر چھپایا گیا تھا مگر منٹو معاشرتی پارساؤں کے ہتھے چڑھ گیا جنہوں نے اپنی تنگ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے اس پر کفریہ ٹیگ لگائے مگر منٹو نے اس کی پرواہ نہیں کی اور اس نے نطشے کی طرح وہ سب کچھ چند جملوں میں کہہ ڈالا جسے مختلف مصنفین پوری پوری کتاب میں بھی نہیں کہہ پاتے۔ وہ معاشرتی عکاسی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

”میں جب طوائف کے کوٹھے پر جاتا ہوں تو کبھی اپنے منہ کو لحاف سے نہیں چھپاتا اور جب شراب پیتا ہوں تو منہ میں الائچی نہیں رکھتا ”

ان دو لائنوں میں منٹو اپنی ذات کے سچ کو بغیر کسی رکھ رکھاؤ کے پیش کر دیتا ہے اور کسی بھی قسم کا مقدس چولا نہیں پہنتا جو اپنی ذات کے حوالہ سے اتنا کھرا ہو کیا وہ معاشرتی کچرے کو مصلحت کے لحاف میں لپیٹ کر پیش کر سکتا ہے؟

منٹو معاشرتی شرفاء کامنافقت والا چہرہ واضح طورپردکھانے کی کوشش کرتا ہے وہ منافقت کے تمام استعارے لکھ ڈالتا ہے جسے لکھتے ہوئے دوسروں کے پر جلتے ہیں وہ سماج کا بھیانک چہرہ دکھا کر یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ پارسائی کا دکھاوا کرنے والے یہ لوگ اپنی پارسائی کابھرم رکھنے کے لیے کیا کیا اللے تللے کرتے ہیں دن کو پارسانظر آنے والے یہ لوگ رات کی تاریکی میں منہ لپیٹ کر طوائف کے کوٹھے کا طواف کرتے ہیں اور اپنی جنسی بھوک مٹانے کا بندوبست کرتے ہیں اور دن کی روشنی میں شرفاء کا بھیس پہن کر طوائف کو کنجری اور بازاری عورت کہنے سے بھی باز نہیں آتے۔ دوسری جگہ منٹو فرماتے ہیں کہ

”ہر عورت طوائف نہیں ہوتی مگر طوائف عورت ضرور ہوتی ہے ”

ان چند جملوں میں عورت کے حوالہ سے منٹو نے وہ تصویر کشی کر دی جسے شاید کوئی دوسرا نہیں کر سکتا وہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ کوئی عورت پیدائشی طوائف یا بری نہیں ہوتی بلکہ معاشرتی جبر اسے ایسا بننے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ہر نارمل عورت کی طرح وہ بھی ایک دھڑکنے والا دل اور احساسات رکھتی ہے اور سب سے بڑھ کر کہ وہ ایک انسان ہے۔ اسی تصور کو ڈاکٹر سیدہ عارفہ زہرہ کچھ یوں بیان کرتی ہے

”جن لوگوں کی بے بسی کو کچھ لوگوں کے تکبرنے خریدا اور اپنے نفس کی پرورش بنایا ان کی روح گندی ہے وہ بدن گندے نہیں ہوئے ”

منٹو معاشرتی پارساؤں کو یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ معاشرتی جبر اور نا انصافیوں کی وجہ سے سیکس ورکر بنتی ہے اورکئی شرفاء کی گندگی کو سمیٹتی ہے مگراسکے باوجود ان برائے نام شرفاء کی نظرمیں وہ ایک گھٹیا عورت ٹھہرتی ہے اور المیہ یہ ہے کہ یہ راحت حاصل کرنے والے شرفاء معززین سماج کہلاتے ہیں۔ منٹو کی عظمت یہ ہے کہ وہ اپنی تحریروں کا خود بھی ناقد تھا اور اپنے کچھ افسانوں کے بارے میں وہ خود ہی کہتا ہے کہ

”یہ وہ افسانے ہیں جو میرے دماغ نے میرے پیٹ میں گھس کر لکھے ہیں یعنی میری بھوک نے مجھ سے یہ افسانے لکھوائے ہیں ”

منٹو نے ساری زندگی خود کو کسی گروپ کے ساتھ نہیں جوڑا البتہ لیفٹ والے اسے اپنا کہتے رہے اوررائٹ والے منٹو کو اپنا سمجھتے رہے مگرمنٹو نے اپنی فکرکو رائٹ اور لیفٹ کے دائرے میں قید نہیں کیا۔ حالانکہ منٹو پر ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب اسے سب دھتکار کر گزرجاتے تھے۔ سستی شراب نے منٹو کو بالکل لاغرکر دیا تھا اور بہت سے اس کے اپنے بھی دامن بچا کر نکل جاتے تھے۔ اسے کیا پتہ تھا کہ اس کا پاکستان جانے کا فیصلہ اسے کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ بہرحال اس نے جو بھی لکھا بغیر دباؤ کے لکھا اور آزادانہ لکھا۔ منٹو مصلحت پرست نہیں تھا بلکہ وہ روایت شکن تھا اس نے روایات کی بیڑیاں پہننے کی بجائے آزادی فکر کو چنا اور اپنے قلم کو معاشرتی منافقت کا حصہ نہیں بننے دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).