طارق فارانی: بانسری آپ کے ہجر میں روئے گی


Tariq Farani: photo by Yasir Usman

ایک بار میرے ایک شناسا ایک قصباتی علاقے سے ملنے کے لیے گورنمنٹ کالج میں تشریف لائے۔ میں انھیں چائے پلانے کے لیے کنٹین لے کر گیا۔ رستہ وہی تھا بخاری ہال کے سامنے والا کہ وہاں سے ہو کر کنٹین جانا ہوتا تھا۔ اس لیے اس رستے پر خاصی گہما گہمی رہتی تھی۔ بالائی منزل پر نذیر احمد میوزک سوسائٹی کا دفتر۔ جب ہم بخاری ہال کے سامنے سے گزرے تو سر اور تال کی آواز نیچے تک صاف سنائی دے رہی تھی۔ وہ صاحب ٹھٹک گئے اور حیرت سے پوچھا کہ یہ گانے بجانے کی آوازیں کہاں سے آ رہی ہیں۔ میں نے بتایا کہ کالج کی سوسائٹی ہے۔ وہ رک گئے اور حیرت سے ان کا منہ ابھی تک کھلا ہوا تھا۔ انھوں نے فوراً فیصلہ دیا کہ میں اپنا بچہ یہاں داخل نہیں کروا سکتا۔ میں نے ان کا ہاتھ تھام کر کہا فکر نہ کریں ادھر مجلس علوم اسلامیہ بھی ہے۔

موسیقی کے باب میں معاشرتی سطح پر قدرے تنفر بھرے ماحول میں فارانی صاحب نے بے نیازی سے اپنا کام جاری رکھا۔ وہ دفاع کرنے میں والوں میں سے ہرگز نہ تھے، تاویلات دینے والوں میں سے نہ تھے۔ ایک خاموش سمندر تھا جس کی تہہ میں کیا تھا، ہم نہ جان پائے۔ بس ان کے پاس بیٹھنے کو خواہ مخواہ جی چاہتا تھا۔ وہ داستاں گو بھی نہ تھے کہ قصہ کہانیوں کی آرزو ہمیں ان کے پاس لے جاتی۔ ہم موسیقی کی راہ کے مسافر بھی نہ تھے کہ کچھ سیکھنے کی طلب کھینچ کر لے جاتی۔ وہ کوئی با اثر افراد میں سے بھی نہ تھے کہ جاہ و طلب کی آرزو مندی ان کی چوکھٹ تک لے جاتی۔ کچھ تو ایسا تھا جو مقناطیس اور لوہے کے درمیان ہوتا ہے۔

ان کی شخصیت میں اور ان کے ماحول میں ایک غیر مرئی طاقت تھی جس کا اظہار بہ ظاہر چھوٹی چھوٹی چیزوں سے ہوتا ہے۔ ان کی میز پر رکھا ہوا ریڈیو سیٹ، فاوٹین پین، پانی پینے کے لیے مٹی کا پیالہ، مٹی سے بنی ہوئی ایش ٹرے، میز پر اہم شعرا کے شعری مجموعے، پرانے وقتوں کی شیلڈز اور ٹرافیاں، قدیم وضع کے کیلنڈرز، کھجور کی شاخ سے بنا ہوا ایک مٹیالا پنکھا، گوتم بدھ کا ایک چھوٹا سا مجسمہ اور بانسری، دیواروں پر آویزاں کلاسیکل اور نیم کلاسیکل گلوکاروں کی بلیک اینڈ وائٹ تصویریں، سامنے گورنمنٹ کالج سے وابستہ اہم فن کاروں کی تصاویر کا ایک گوشہ مانوس، گورنمنٹ کالج کی گوتھک عمارت کی سمت کھلنے والی ایک کھڑکی۔

ان سب چیزوں میں کوئی بناوٹ نہیں تھی، فیشن نہیں تھا، دکھلاوا نہیں تھا۔ زندگی بسر کرنے کی ایک غیر معمولی قدر تھی جو بڑی حقیقتوں سے منسلک تھی۔ ایک بار میں نے سوال کیا کہ اس دور میں آپ یہ فاوٹین پین کیوں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے لیے تو بہت تردد کرنا پڑتا ہے۔ بازار سے روشنائی منگوانا، قلم میں بھرنا وغیرہ وغیرہ۔ اب بال پوائنٹ کا زمانہ ہے بلکہ وہ بھی نہیں رہا۔ اس پر مسکرا کر دیکھتے اور کہتے ”میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔“

طارق فارانی صاحب کی پراسرار آنکھوں میں کبھی کبھی غصے کی بھی ایک دھار ابھر آیا کرتی تھی۔ ان کا مزاج غصیلا نہیں تھا لیکن بعض اوقات ان کو معمولی سی بات پر غصہ آ جاتا تھا کہ جس پر ہمیں ہنسی بھی آتی تھی۔ دراصل، بدذوقی انہیں گوارا نہ تھی۔ اعلیٰ معیارات سے کم تر درجہ پر وہ کچھ دیکھتے تو ان کی آنکھ میں ایک رگ سرخ ہو جاتی تھی لیکن کوشش کرتے کہ زبان سے اس کا اظہار نہ کریں۔ طلبہ و طالبات ان کے چہرے مہرے کے تغیرات سے بہ خوبی واقف تھے۔

بہت پہلے برسوں کی بات ہے شاید 1993 کے اوائل کی بات ہو گی۔ ہر جمعرات کے دن سہ پہر کو محفل موسیقی معمول تھا اور کالج کے طلبہ و طالبات بھی سامع کے طور پر جایا کرتے تھے، ایک دن ہم بھی چلے گئے۔ ان دنوں ہم نیو ہاسٹل میں مقیم تھے اور کالج میں ڈریس کوڈ وغیرہ سے ہم ناآشنا بھی تھے اور کوئی زیادہ سختی بھی نہیں تھی۔ ابھی معلوم ہی کیا تھا کہ یہاں کی روایات میں پطرس بخاری کی خوش لباسی کا بھی دخل ہے۔ بخاری ہال کی سیڑھیاں چڑھ کر مرکزی دروازے کے بغل میں گھومتی سیڑھیاں چڑھ کر بالائی منزل پر نذیر احمد میوزک سوسائٹی کے دفتر پہنچے تو ابھی محفل کا آغاز ہونا تھا۔

دفتر ایک ہال نما کمرہ سا ہے۔ دائیں اور بائیں سمت میں کرسیاں لگ چکیں تھیں جن پر طلبہ و طالبات براجمان تھے۔ درمیان میں سٹیج نما چبوترے پر آلات موسیقی رکھے ہوئے تھے۔ واپس آئیں تو کرسیوں کی پشت پر مشرقی سمت میں فارانی صاحب کی بھید بھری میز اور کرسی۔ کرسی کی جنوبی سمت میں کھلی ہوئی کھڑکی کہ جس سے گورنمنٹ کالج کی گوتھک عمارت اپنے پورے شکوہ کے ساتھ جلوہ گر۔ یہ کھڑکی میں نے سردی گرمی میں کھلی ہوئی دیکھی کہ فارانی صاحب کے نظارے کا یہ مستقل حصہ ہے۔

اب جب اوپر پہنچ گئے تو سب سے پہلا واسطہ فارانی صاحب سے ہوا کہ ان کی میز داخلی دروازے کے بالکل ساتھ رکھی تھی اور ہر آنے جانے والے کو اس میز کے نزدیک سے ہو کر آنا جانا پڑتا تھا۔ ابھی ہال نما دفتر میں رکھی ان کرسیوں کی جانب بڑھا ہی تھے کہ فارانی صاحب نے بلا لیا۔ ”ایدھر آ“ ہم میں سے ایک نے مودب ہو کہا ”جی“ ۔ فرمایا ”کیا کرنے آئے ہو“ ہم ان سے پہلی بار مل رہے تھے اور ہمیں ان کی آنکھ میں سرخ دھارے کا کہاں معلوم تھا۔

قریب ہی ایک نوجوان کھڑا تھا۔ اس نے فارانی صاحب سے کہا ”سر، میں بات کرتا ہوں“ اندازہ ہو گیا کہ کچھ غلط ہوا ہے لیکن کیا یہ معلوم نہ تھا۔ فارانی صاحب نے اس نوجوان کی بات کی نظر انداز کر کے اپنی ٹھوڑی اونچی کی اور سگریٹ کا ایک گہرا کش لیا اور جواب کے لیے نگاہیں ہم پر مرکوز کر دیں۔ اب کیا جواب دیتے۔ بس کہہ دیا کہ جی پتا چلا تھا موسیقی کی محفل تو آ گئے۔ انھوں نے مٹی سے بنی ہوئی سرخ رنگ کی ایش ٹرے میں گل جھاڑا، کھلی ہوئی کھڑکی سے گورنمنٹ کالج کی حسین عمارت کو دیکھا اور قدرے نالاں انداز میں مخاطب ہوئے۔

”اے باتھ روم اے، باتھ روم میں آئے ہو۔“ ہم سمجھ نہ سکے اور خاموش رہے۔ ہاتھ کے اشارے سے قریب بلایا اور پہلو میں رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ جانے کو کہا۔ ہمارے ذہن پر ’باتھ روم، باتھ روم‘ کا آرا چل رہا تھا۔ جب بیٹھ گئے تو قدرے اپنایت سے پوچھا ”گورنمنٹ کالج میں پڑھتے ہو“ ہم سب نے مریل سی آواز جواب دیا ”ہاں جی“ ۔ مسکرا کر کہا ”پنجاب کے ہو اسی لیے ’ہاں جی‘ کہا ورنہ ’جی ہاں‘ کہا جاتا ہے۔“ پوچھا ”کس کلاس میں پڑھتے ہو“ اس زمانے میں دو سال کا ایم۔اے اور دو سال کا بی۔ اے ہوا کرتا تھا۔ بتایا کہ ایم اے کے طالب علم ہیں۔ ذرا نزدیک ہوئے اور پیار بھرے لہجے میں بولے ”یہ جوتے صرف باتھ روم میں جانے کے لیے پہنے جاتے ہیں، گورنمنٹ کالج کو باتھ روم تو نہ بناؤ۔ تم اس کالج کے سنیئر طالب علم ہو۔ جونیئر طالب علم تم کو دیکھیں گے۔ تم کو سنیئر کے طور پر اپنا رول ماڈل بنائیں گے۔ یہ غیر مناسب ہے۔“ بعد میں ان سے جب ایک طور دوستانہ مراسم سے قائم ہو گئے تو میں نے یہ واقعہ انھیں سنایا تو مسکرا دیے اور کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5