طارق فارانی: بانسری آپ کے ہجر میں روئے گی


Photograph by Yasir Usman

ان کی یہ کاوش عشق سے جڑی تھی۔ انھوں نے اپنے قطرہ خون جگر سے سل کو دل بنا دیا تھا۔ ایک نسل پیدا کردی تھی کہ جو مشرقی موسیقی کا شستہ ذوق لے کے گورنمنٹ سے نکلی۔ شفقت امانت علی کا نام ان کے طلبہ میں نہایت ممتاز ہوا۔ شفقت کے گھرانے کی میراث اپنی جگہ لیکن اس میراث سے عشق کرنا اس نے فارانی صاحب سے سیکھا۔ شفقت جب بھی گورنمنٹ کالج آتے، سب سے پہلے فارانی صاحب کے پاس جاتے۔ ان کے قدم بوسی کرتے۔ میں نے شفقت کو بارہا فارانی صاحب کے ہاں دیکھا۔

وہ کبھی فارانی صاحب کے سامنے رکھی ہوئی نشست پر نہ بیٹھتے اور نہ ہی کبھی ان کے برابر چلتے۔ ان کا طرز عمل ایک چیلے کا سا ہوتا۔ یہ سب دیکھ کر اندازہ ہوتا کہ گھرانوں سے وابستہ لوگ اگر کسی کو احترام دیتے ہیں تو صرف فن کی بنیاد پر دیتے ہیں۔ ہمیں فارانی صاحب کے فن کا اندازہ ہو ہی نہیں سکتا تھا لیکن شفقت ایسے لوگ فارانی صاحب کی قدر جانتے تھے اور اس قدر کا اظہار کرتے تھے۔

فارانی صاحب نے نواز تھے۔ بڑے سائز کے بانس سے تراشیدہ پرانی سی بانسری ان کی میز پر ہر وقت دھری رہتی تھی لیکن میں نے اس طویل عرصے میں کبھی انھیں بانسری بجاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بارہا جی چاہا کہ ان سے بانسری بجانے کی فرمائش کی جائے لیکن ان کی شخصیت میں ایک آڑ تھی کہ یہ کہنے کا کبھی حوصلہ نہ پڑا اور نہ ہی وہ ان لوگوں میں سے تھے کہ جو بے وقت کا راگ الاپنے بیٹھ جاتے ہیں۔ مولانا روم میں اپنی بے مثل تصنیف ’مثنوی معنوی‘ کا آغاز بانسری کے ذکر سے کیا ہے کہ سنو بانسری کیا کہتی ہے اور وہ جدائی کی کیا شکایت بیان کرتی ہے کہ جب سے مجھے بانس کے جنگل سے کاٹ کر الگ کیا گیا تو اس جدائی سے میرے یہ نالے سن کر مرد اور عورت سب روتے ہیں۔

بانسری کہتی ہے کہ میں بجانے والے سے ایسا سینہ چاہتی ہوں جو جدائی سے ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہو تاکہ میں عشق کے درد کی تفصیل سناؤں۔ ہر وہ چیز جو اپنی اصل سے دور ہو جاتی ہے، وہ اپنے وصل کا زمانہ تلاش کرتی ہے۔ میں (بانسری) ہر مجمع میں روئی، خوش احوال اور بداحوال لوگوں کے ساتھ رہی۔ ہر شخص اپنے خیال کے مطابق میرا دوست بنا لیکن اس نے میرے اندر سے میرے رازوں کی جستجو نہ کی۔ بانسری کی یہ آواز آگ ہے، ہوا نہیں ہے۔

یہ عشق کی آگ ہے جو بانسری میں لگی ہے۔ بانسری اس کی ساتھی ہے جو یار سے کٹا ہے۔ اس کے راگوں نے ہمارے دل کے پردے چیر دیے ہیں۔ بانسری جیسا زہر اور تریاق کس نے دیکھا ہے؟ بانسری جیسا ساتھی اور عاشق کس نے دیکھا ہے؟ یہ تمہید میں نے فارانی صاحب کو ایک بار سنائی تو انھوں نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ میرا خیال تھا کہ اس پر گفتگو کریں گے اور بانسری کی طرف اپنے سفر کو مولانا رومی کے ساتھ جوڑ کر کچھ بتائیں گے لیکن وہ خاموش رہے اور فرش کو تا دیر دیکھتے رہے۔

ان کی اس خامشی میں ایک جواب تھا جو دل سے نکلا اور متوجہ دل میں اتر گیا۔ مولانا رومی کی حکایات پر اکثر ان سے بات ہوتی تھی۔ وہ خاموش رہتے تھے۔ ان کی آنکھ اور ابرو بات کر جاتے تھے۔ ایک حکایت پر بہت چونکے اور فرمائش کی کہ اس حکایت کا متن انھیں دیا جائے۔ یہ حکایت ’مثنوی معنوی‘ کے دفتر اول میں ’داستاں پیر چنگی کہ در عہد عمرؓ از بہر خداوند تعالیٰ در گورستان در روز بے نوائی چنگ میزد‘ (سارنگی بجانے والے بوڑھے کا قصہ جو حضرت عمرؓ کے زمانے میں فاقہ کے روز اللہ واسطے سارنگی بجاتا تھا)۔ بانسری، موسیقی سے جڑی ہوئی حکایات اور روایات سے فارانی صاحب خوب آشنا تھے اور قدرے دکھ کے ساتھ کہتے کہ لوگوں کو یہ سب پڑھانا چاہیے اور لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ موسیقی کے بارے میں صوفیا کیا نازک اور لطیف خیالات کا اظہار کر گئے ہیں۔

فارانی صاحب نمود سے بہت پرے رہنے والوں میں سے ایک تھے۔ کبھی سٹیج پر نہیں گئے۔ تقریب کے دوران سب سے آخری لائن میں رکھی ہوئی کرسی پر جا بیٹھتے اور وہیں سے ہدایات دیتے رہتے جو ایک طالب علم جا کر سٹیج پر پہنچا آتا کہ طبلہ کی آواز باہر نکل رہی ہو، ہارمونیم کی آواز دب رہی ہے۔ گانے والوں کا مائیک تھوڑا سا دور ہے وغیرہ وغیرہ۔ اشفاق احمد سے وابستہ ایک قول ہے کہ انھوں نے دانا کی یہ تعریف کی کہ دانا وہ ہے جو خطرے کے وقت سب سے آگے ہو اور انعام لیتے ہوئے سب سے پیچھے۔

فارانی صاحب اس جملے کی چلتی پھرتی مثال تھے۔ انھیں تعریف و توصیف سے، انعام سے کچھ غرض نہ تھی۔ سٹیج پر گاتے ہوئے طلبہ ہی ان کا سب بڑا انعام تھے۔ گورنمنٹ کالج تقریبات کا ہمیشہ سے مرکز رہا ہے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اہم ترین افراد تقریبات میں آتے رہتے ہیں۔ میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ اہم تر ین افراد کی گورنمنٹ کالج میں آمد پر بھی فارانی صاحب نے کبھی اپنی وضع نہیں بدلی۔ کبھی آگے نہیں بڑھے۔ کبھی شاباشی وصول کرنے کی تمنا ان میں نہیں دیکھی۔ انھیں گورنمنٹ کالج میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ملا۔ ایوارڈ وصول کیا اور ڈھیلے ڈھالے انداز میں لے کر سٹیج سے اتر گئے۔

کرونا وائرس کی وبا کے سبب تعلیمی ادارے بند ہوئے تو ان دنوں راقم کی رہائش گورنمنٹ کالج کے اندر تھی۔ اس بندش کے سبب ہماری سماجی زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ گورنمنٹ کالج کا ایمفے تھیٹر، محرابی راہداریاں، اوول کا کشادہ سینہ، بخاری ہال کی طرف جانے والی روش جو پھیلی ہوئی بانہوں کا منظر پیش کرتی ہے، بلند تر ٹاور، پیپل اور برگد کے بزرگ اس ویرانی میں اپنے لوگوں کو یاد کرتے ہیں کہ لوٹ آؤ ہم اکیلے ہیں۔

کھا جانے والی خاموشی ہر سمت تھی۔ گورنمنٹ کالج سے وابستہ لوگ ہی نہیں، خود گورنمنٹ کالج ان دنوں بہت اداس تھا۔ فارانی صاحب ان دنوں میں اپنی ضعیفی کے باوجود ایک دو ہفتے بعد تشریف لے آتے۔ کار پارکنگ کے ساتھ کچھ گھنے درختوں کی شاخیں بلندی کی طرف جانے کی بجائے زمین کی طرف جھک کر چھتری سی بناتی ہیں۔ فارانی صاحب ان درختوں کی چھاؤں تلے ایک کرسی بچھا کر بیٹھے رہتے۔ پہلی بار جب میں نے انھیں وہاں بیٹھے دیکھا تو آگے بڑھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5