ملتان کے ایک ہی خاندان کے تین ڈاکٹروں کی اچانک موت کا معمہ، وجہ گھریلو ناچاقی یا کچھ اور؟


22 جنوری بروز جمعہ صبح 11 بجے کے قریب گھر کا دروازہ کھلتا ہے اور ایک شخص کرنسی کے نئے نوٹ دے کر چلا جاتا ہے جو اوپر والی منزل پر رہنے والے مکین کے حوالے کر دیے جاتے ہیں۔

آج یہ نئے نوٹ کروڑ پتی باپ نے اپنی اکلوتی بیٹی کے لیے منگوائے ہیں کیونکہ وہ اگلے روز کراچی ایک امتحان کے لیے جا رہی ہے اور باپ کو خدشہ ہے کہ کہیں بیٹی دوسرے شہر میں استعمال شدہ نوٹوں سے کورونا وبا میں مبتلا نہ ہو جائے۔

تقریباً 40 منٹ بعد اوپر والی منزل پر اسی کمرے میں جہاں اپنی بیٹی کو بے پناہ پیار کرنے والا باپ روزانہ پڑھاتا ہے، وہیں ایک گولی چلتی ہے اور اس کی اکلوتی بیٹی جو خود تین بچوں کی ماں ہے، خون میں لت پت بیڈ پر گر جاتی ہے جسے فوراً ہسپتال لے جایا جاتا ہے لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ جاتی ہے کیونکہ گولی اس کی کنپٹی پر لگ کر آر پار ہو چکی ہے۔

کچھ دیر بعد جب باپ کا کمرہ دیکھا جاتا ہے تو وہ اندر سے بند ملتا ہے اور مسلسل دستک کے بعد بھی نہیں کھلتا۔ اسی دوران پریشانی کے عالم میں پولیس کو بلا لیا جاتا ہے جو دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوتی ہے اور باپ کی لاش ملتی ہے جس کی کنپٹی پر گولی لگنے سے موت ہو چکی ہے۔

پولیس کے مطابق ملتان کے مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر اظہر حسین نے بظاہر اپنی لاڈلی بیٹی ڈاکٹر علیزہ جسے وہ پیار سے پنکی کہتے تھے، کو مبینہ طور پر دانستہ یا غیر دانستہ قتل کر کے خود کشی کر لی ہے۔

ڈاکٹر اظہر حسین نشتر ہسپتال ملتان کے شعبہ نفسیات سے ریٹائر ہو کر گذشتہ کئی برسوں سے اپنا کلینک چلا رہے تھے اور روزانہ درجنوں مریضوں کا چیک اپ کرتے تھے۔

گذشتہ کچھ عرصے سے صبح دس سے تین بجے تک ڈاکٹر اظہر حسین مریضوں کو دیکھتے اور بعد میں ان کی بیٹی علیزہ تین سے شام چھ بجے تک مریضوں کا چیک اپ کرتی تھیں۔ وہ پچھلے ڈیڑھ دو سال سے اپنے والد کے کلینک پر پریکٹس کر رہی تھی۔

ابھی اس لاڈ، پیار سے پالی اس سلجھی اور سمجھدار بیٹی کی مبینہ طور پر باپ کے ہاتھوں موت اور اس کے نتیجے میں ڈاکٹر اظہر حسین کی بظاہر خودکشی کی خبر کو محض ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ 29 جنوری کو ڈاکٹر اظہر حسین کے ایک چھوٹے بھائی ڈاکٹر محب سلیم کی بھی سخی سلطان کالونی میں واقع ان کے گھر سے جلی ہوئی لاش برآمد ہوئی۔

سی سی ٹی وی کیمروں میں ڈاکٹر محب سلیم کو نہ صرف ایک پمپ سے پٹرول خریدتے دیکھا گیا بلکہ اپنے گھر میں خود سوزی کرتے بھی دیکھا گیا جس کے بعد پولیس اس نتیجے پر پہنچی کہ انھوں نے بھی خود کشی کی۔

ڈاکٹر اظہر
ڈاکٹر اظہر حسین نشتر ہسپتال ملتان کے شعبہ نفسیات سے ریٹائر ہو کر گذشتہ کئی برسوں سے اپنا کلینک چلا رہے تھے

ڈاکٹر محب سلیم بھی نشتر ہسپتال ملتان سے ریٹائر تھے اور ایک نجی ہسپتال میں پڑھا رہے تھے۔ ڈاکٹر محب سلیم پندرہ سال قبل پہلی بیوی کو طلاق دیکر دوسری بیوی لیفٹینٹ کرنل رخسانہ جو کہ سی ایم ایچ ملتان میں تعینات ہیں اور ایک 14 برس کے بیٹے کے ساتھ ملتان کینٹ میں رہائش پذیر تھے۔

اوپر تلے ایک ہی خاندان کے ان تین ڈاکٹروں کی اس طرح اچانک اموات نے نہ صرف ملتان میں غم کی لہر دوڑا دی بلکہ آس پاس کے علاقوں میں بھی ایسی ہی کیفیت رہی کیونکہ ڈاکٹر اظہرحسین نہ صرف ملتان بلکہ پورے جنوبی پنجاب میں ایک نامور ماہر نفسیات تھے۔

شہر میں کوئی یہ یقین کرنے پر تیار ہی نہیں کہ ڈاکٹر اظہر حسین کے ہاتھوں مبینہ طور پر بیٹی کا قتل ہو گیا ہے اور اس کے نتیجے میں انھوں نے بھی خود کشی کر لی ہے۔ اسی طرح سب حیران ہیں کہ ایسی کیا وجوہات بن گئیں کہ ان کے بھائی ڈاکٹر محب سلیم نے بھی مبینہ طور پر خود سوزی کر لی۔

لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک باپ جو اپنی اکلوتی بیٹی سے اس قدر پیار کرتا ہو، اسے کیسے مار سکتا ہے۔ ایسی کیا بات ہو گئی جو ڈاکٹر اظہر حسین کو پستول نکالنا پڑ گیا، کیا یہ محض ایک حادثہ تھا یا کچھ اور۔۔۔ اور ڈاکٹر سلیم نے خود سوزی کیوں کی، ایسے کیا حالات تھے جن سے تنگ آ کر انھوں نے خود سوزی کی، ہر کوئی سوالوں کی پٹاری کھولے بیٹھا جوابات کی راہ دیکھ رہا ہے۔

بی بی سی نے اس کیس سے جڑے مختلف پہلوؤں کو جاننے کے لیے ملتان میں ڈاکٹر اظہرحسین کے خاندان کے لوگوں، پولیس اور ماہر نفسیات سے بات کی ہے۔

باپ بیٹی اک جان دو قلب

پنکی کے خاوند اور ڈاکٹر اظہر حسین کے داماد ڈاکٹر عدنان اعجاز، ڈاکٹر اظہر حسین کی بیوہ بشریٰ بیگم، ڈاکٹر اظہر حسین کے بھائیوں علی حسن اور اشرف ضیا اور پنکی کے نشتر میڈیکل کالج میں استاد اور شعبہ نفسیات کے سربراہ ڈاکٹرنعیم ﷲ لغاری سب اس بات پر متفق ہیں کہ باپ، بیٹی کا رشتہ انتہائی شاندار تھا۔

ڈاکٹر اظہر حسین نے اپنی اکلوتی بیٹی کو بڑے لاڈ اور پیار سے پالا تھا اور والدین کی جان ان میں اٹکی ہوئی تھی۔ ابھی کچھ ماہ قبل ہی بیٹی کو اپنے گھر کے بالکل سامنے کروڑوں روپے مالیت کا کا گھر بنا کر دیا تاکہ وہ ہر وقت آنکھوں کے سامنے رہے۔

دوسری طرف علیزہ نے بھی باپ کے اصرار پر نہ صرف ماہر نفسیات بننے کی راہ چنی بلکہ شادی کے باوجود گذشتہ سات برسوں سے روزانہ بیچ ویلاز میں واقع اپنے سسرال کے گھر سے جسٹس حمید کالونی میں واقع والدین کے گھر آتی اور اب تو پچھلے کچھ عرصے سے اپنے والد کے کہنے پر وہیں پریکٹس بھی شروع کر دی تھی۔

علیزہ
ڈاکٹر اظہر حسین نے اپنی اکلوتی بیٹی علیزہ کو بڑے لاڈ اور پیار سے پالا تھا اور وہ ایسا طوطا تھی جس میں والدین کی جان اٹکی ہوئی تھی

ڈاکٹر اظہر حسین کی بیوہ بشریٰ بیگم نے بی بی سی کو بتایا کہ حادثے والے دن صبح دس بجے کے آس پاس انھیں ہر روز کی طرح پنکی کا فون آیا کہ انھیں سسرال سے پک کر لیں۔

’ہم بیٹی کو پیار سے پنکی کہتے تھے اور ان کے والد نے جب یہ پیدا ہوئی تب سے یہ نام رکھا ہوا تھا کیونکہ وہ کہا کرتے تھے کہ جس طرح بے نظیر، ذوالفقار علی بھٹو کی پنکی ہے اسی طرح علیزہ میری پنکی ہے۔‘

بشریٰ بیگم کے مطابق جب وہ بیٹی کو لانے کے لیے نکلنے لگیں تو ان کے شوہر نے انھیں پیٹرول کے لیے تین ہزار روپے دیے اور بعد میں دو ہزار اور دے دیے اور کہا کہ جاتے ہوئے ہی پیٹرول ڈلوا لینا تاکہ واپسی پر بیٹی کو کسی پمپ پر نہ کھڑا ہونا پڑے۔

’جب میں بیٹی اور تینوں نواسے، نواسیوں کو لیکر گھر آئی تو ہر روز کی طرح انھوں نے بیٹی کا استقبال کیا۔ وہ ہمیشہ بیٹی کو سلام میں بھی پہل کرتے اور اسے ہر روز ایسے ہی ملتے جیسے برسوں بعد ملے ہوں۔‘

بشریٰ بیگم کے مطابق چونکہ پنکی نے ایف سی پی ایس کے امتحان کے لیے 23 جنوری کو کراچی جانا تھا اس لیے کہنے لگی کہ ماں آپ بچوں کو لیکر کمرے میں بیٹھ جائیں مجھے تھوڑی تیاری کرنی ہے اس لیے وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔

بشریٰ بیگم نے بتایا: ’میں ابھی بچوں کو ناشتا کروا رہی تھی کہ مجھے دھماکے جیسی آواز آئی، میں نے گھبرا کر ملازموں سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے۔ اتنی دیر میں پنکی کے کمرے سے میرے شوہر نکل رہے تھے میں نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے، جس پر وہ کہنے لگے کہ مجھ سے گولی چل گئی ہے۔ میں نے پوچھا کہاں لگی ہے گولی، تو کہنے لگے چھت پر اور یہ کہہ کر اپنے کمرے کی طرف چلے گئے۔‘

’میں گھبرا گئی اور اتنی دیر میں ملازمہ نے آ کر بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے پنکی باجی کو گولی مار دی ہے جس کے بعد میں چیختے چلاتے اس کے کمرے میں گئی تو دیکھا کہ میری بیٹی خون میں لت پت بیڈ پر پڑی ہے، جس کے بعد میں نے اپنے دیور علی حسن جو نیچے فارمیسی میں کام کرتے ہیں انھیں بلایا۔ ان کے ساتھ مل کر ہم نے فوراً پنکی کو گاڑی میں ڈالا اور اسے لیکر نشتر ہسپتال چلی گئی جہاں بتایا گیا کہ وہ راستے میں ہی دم توڑ چکی تھی۔‘

’میں جاتے ہوئے اپنے دیور علی کو کہہ گئی تھی کہ وہ اپنے بھائی کو دیکھے کہیں وہ خود کو کچھ کر نہ لیں لیکن جب تھوڑی دیر بعد واپس گھر آئی تو علی نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب دروازہ نہیں کھول رہے اور انھوں نے کمرے کو اندر سے بند کر لیا ہے۔‘

بشریٰ بیگم
ڈاکٹر اظہر حسین کی بیوہ بشریٰ بیگم نے بتایا کہ حادثے والے دن صبح دس بجے کے آس پاس انھیں ہر روز کی طرح پنکی کا فون آیا کہ انھیں سسرال سے پک کر لیں

’اسی پریشانی میں پھر پولیس کو بلا لیا جنھوں نے دروازہ توڑا تو دیکھا کہ ڈاکٹر اظہر کے سر میں گولی لگی ہوئی تھی جس سے ان کی موت ہو چکی تھی۔ میرے لیے تو یہ قیامت کے مناظر تھے۔ پل بھر میں میرا سارا گھر اجڑ گیا۔ کوئی بلا آئی اور میری سب خوشیاں کھا گئی۔‘

بشریٰ بیگم خود یہ سمجھ نہیں پا رہیں کہ پل بھر میں یہ سب کیسے ہو گیا، کیوں ان کے خاوند نے اپنی اکلوتی بیٹی کو مبینہ طور پر گولی مار دی اور پھر خودکشی کر لی۔

باپ، بیٹی کے تعلق کے بارے میں وہ بتاتی ہیں کہ چونکہ پنکی انکی اکلوتی اولاد تھی، اس لیے شروع سے ہی ڈاکٹر اظہر حسین اپنی بیٹی سے بہت پیار کرتے تھے اور ہمیشہ اس کی ہر خواہش پوری کرتے تھے۔

بشریٰ بیگم کے بقول ان کے خاوند بیٹی سے اتنا پیار کرتے تھے کہ جب سے اسکی شادی ہوئی، تب سے بیٹی کو پابند کیا ہوا تھا کہ روزانہ صبح اٹھ کر میسج کر کے انھیں اپنی خیریت بتایا کرے۔

’پچھلے سات سال سے روزانہ پنکی صبح اٹھتے ساتھ ہی انھیں میسج کرتی I’m ok اور اس میسج کے انتظار میں وہ صبح سات بجے اٹھ جاتے اور جب تک میسج نہ آتا، بے چین رہتے۔ میں جب بھی اس بے چینی کے متعلق پوچھتی تو کہتے کہ جب میری آنکھ کھلتی ہے تو میں بے چین ہو جاتا ہوں کہ پتا نہیں بیٹی نے رات کیسے گزاری ہے۔‘

وہ مزید بتاتی ہیں کہ اپنے نواسے، نواسیوں سے انھیں اس قدر پیار تھا کہ زمین سے تنکے، کاغذ اور دھاگے وغیرہ خود چنتے کہ بچے چھوٹے ہیں کہیں کوئی چیز منہ میں نہ ڈال لیں۔

ڈاکٹر اظہر گھر

ڈاکٹر اظہر حسین اور کورونا فوبیا

بشریٰ بیگم کے مطابق ان کے خاوند کو کورونا فوبیا تھا اور انھوں نے کورونا کے دنوں میں گھر سے باہر نکلنا مکمل طور پر چھوڑ دیا تھا۔

بشریٰ بیگم نے مزید بتایا کورونا کی وجہ سے ان کے شوہر بہت پریشان تھے اور گذشتہ کچھ ماہ سے خود کو بالکل الگ تھلگ کر لیا تھا۔

’وہ کسی سے بھی ملتے جلتے نہیں تھے، نہ ہی رشتہ داروں سے اور نہ ہی مریضوں سے۔ مریضوں کو سٹاف چیک کر کے انھیں انٹر کام پر اطلاع دیتا اور وہ دوائی لکھوا دیتے۔ گھر میں بیٹی کے لیے سینیٹائزر کی بوتلیں اور N-95 ماسک کے کئی کاٹن لا کر رکھے ہوئے تھے۔‘

دوسری طرف ڈاکٹر اظہر حسین کے داماد ڈاکٹر عدنان اعجاز کے مطابق ان کے سسر بعض نفسیاتی امراض میں مبتلا تھے لیکن انھوں نے کبھی بھی ٹیسٹ نہیں کروایا اور ایسے لوگ اس لیے بھی ٹیسٹ نہیں کرواتے تاکہ پکڑے نہ جائیں لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ان کے حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ انھیں یہ مسئلہ تھا۔

ڈاکٹر اظہر حسین کے نفسیاتی مسائل پر بات کرتے ہوئے ان کے بھائی علی حسن کا کہنا تھا کہ بھائی کورونا سے حفاظت کے لیے احتیاط تو کر رہے تھے اس لیے ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ ذہنی مریض بن گئے تھے۔

’وہ اب بھی مریضوں کا علاج کر رہے تھے، انھیں دوائی دے رہے تھے اور وہ شفایاب بھی ہو رہے تھے۔‘

میاں بیوی کے جھگڑے اور طلاق کی نوبت

بشریٰ بیگم دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں اور نہ ہی باپ، بیٹی میں کوئی اختلاف تھا اور دونوں میاں، بیوی کے درمیان بھی کسی بات کو لیکر کوئی جھگڑا نہیں چل رہا تھا لیکن پولیس کی تفتیش کچھ اور کہانی بتاتی ہے۔

ایس ایچ او تھانہ چہلیک انسپکٹر بشیر ہراج نے بی بی سی کو بتایا کہ تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ڈاکٹر اظہرحسین نے 2016 میں کنیز فاطمہ نامی ایک لڑکی سے دوسری شادی کر رکھی تھی جو بطور سٹاف ان کے کلینک پر کام کرتی تھی۔

بشیر ہراج کے مطابق ان کی کنیز فاطمہ سے بات ہوئی ہے جس نے بتایا کہ ان کی شادی نومبر 2018 تک چلی کیونکہ ان کی پہلی بیوی بشریٰ بیگم کو جب اس بارے میں پتا چلا تو انھوں نے کنیز فاطمہ کو بہت تنگ کرنا شروع کر دیا، جس کے بعد دونوں نے باہمی رضا مندی سے علحیدگی اختیار کر لی اور طلاق ہو گئی۔

ایس ایچ او بشیر ہراج کے مطابق کنیز فاطمہ اب اسلام آباد میں رہتی ہیں اور بطور ماہر نفسیات کسی کلینک پر کام کر رہی ہے۔

بشریٰ بیگم، ڈاکٹر اظہر
بشریٰ بیگم دعویٰ کرتی ہیں کہ دونوں میاں، بیوی کے درمیان کسی بات کو لیکر کوئی جھگڑا نہیں چل رہا تھا

دوسری طرف علی حسن بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کنیز فاطمہ نام کی ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر اظہر حسین کے کلینک پر بطور سٹاف کئی سال کام کرتی رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ نہیں کہہ سکتے کہ کنیز فاطمہ اور ان کے بھائی کا کوئی افیئر تھا یا شادی کیونکہ ان کے بھائی کبھی کچھ بتاتے نہیں تھے۔

علی حسن 22 جنوری کے اس افسوسناک دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ہر روز کی طرح کلینک پر موجود تھے اور مریضوں کی ہسٹری بنا رہے تھے لیکن انھوں نے ایک بار بھی گولی چلنے کی آواز نہیں سنی۔

’اس روز ہو سکتا ہے کہ انھوں نے پستول دیکھنے کے لیے یا صاف کرنے کے لیے نکالی ہو کیونکہ سب کراچی جا رہے تھے تو وہ اپنی حفاظت کی غرض سے اسے چیک کرنا چاہ رہے ہوں اور غلطی سے فائر ہو گیا ہو۔ یہ ایک حادثاتی معاملہ لگتا ہے نہ کہ بھائی نے اس بیٹی کو جس پر وہ جان نچھاور کرتے تھے، اسے جان بوجھ کر مار دیا ہو۔‘

علی حسن نے مزید بتایا کہ ان کے بھائی ڈاکٹر اظہر حسین بہت زیادہ خیرات کرتے تھے اور ہر سال نشتر ہسپتال میں 100 مستحق طلبا کے لیے لاکھوں روپے کی کتابیں منگوا کر دیتے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ ایک مریض نے ان کی گاڑی کی ونڈ سکرین توڑ دی لیکن انھوں نے مریض کو کچھ نہیں کہا۔

بشریٰ بیگم کے بقول پڑھائی اور مریض یہی ان کے خاوند کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔

بشریٰ بیگم نے بتایا کہ ان کے شوہر نے پستول آج سے کئی سال قبل اس وقت خریدا جب ایک روز ان کے گھر میں چور گھس آئے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ڈاکٹر محب سلیم کے گھر ابھی تک نہیں جا سکیں اور نہیں پتا کہ ان کے دیور نے خودسوزی کیوں کی۔

پنکی کے شوہر اور ڈاکٹر اظہر حسین کے داماد ڈاکٹر عدنان اعجاز نے بتایا کہ روزانہ کی طرح ان کی بیگم نے اس روز بھی اپنے والدین کے گھر جانے سے پہلے انھیں اٹھا کر خدا حافظ کہا اور چلی گئیں۔ اس کے بعد وہ دفتر جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے جب بارہ بجے کے قریب چچا علی حسن کا فون آیا کہ پنکی کو کچھ ہو گیا ہے آپ جلدی آ جائیں۔

اشرف ضیا اور اظہر حسین
اشرف ضیا (دائیں) اور اظہر حسین (درمیان)

’میں نے جلدی سے گاڑی نکالی اور سسرال کی طرف نکل پڑا اور راستے میں ان سے پوچھتا رہا کہ بتائیں کیا ہوا ہے لیکن وہ کہتے رہے کہ بس آپ آجاؤ ابھی بحث کا وقت نہیں۔ راستے میں ٹریفک بلاک تھی تو مجھے تھوڑا وقت لگ گیا اور میرے بار بار اصرار پر انھوں نے بتا دیا کہ پنکی کو ابو نے گولی مار دی ہے اور اسکی موت ہو گئی ہے۔‘

’میرے پاؤں کے نیچے سے جیسے زمین نکل گئی ہو اور میں یقین ہی نہیں کر پا رہا تھا کہ یہ کیا ہو گیا ہے کیونکہ 11:30 تک تو وہ میری بہنوں کے ساتھ فون پر ہنسی مذاق اور باتیں کر رہی تھی اور ساتھ ہی اس نے پانچ، چھ مریض بھی چیک کیے تھے۔

’مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ پنکی اب اس دنیا میں نہیں رہی اور اس کے ساتھ ابو ایسا کر سکتے ہیں اور وہ بھی کس وجہ سے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ان کے بچوں کا برا حال ہے کیونکہ وہ حادثے کے وقت اس گھر میں موجود تھے۔

دونوں بھائیوں کے کیس خود کشی قرار

ایس ایس پی انویسٹیگیشن ملتان عامر خان نیازی نے بی بی سی کو بتایا کہ ابھی تک موجود شواہد سے یہ خود کشی کے کیس ہی لگتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر اظہر حسین سے دانستہ یا غیر دانستہ گولی چل گئی اور بیٹی کی موت ہو گئی تو اس کے بعد انھوں نے بھی اس غم یا اس احساس کہ ان کے ہاتھوں اپنی اکلوتی بیٹی کی جان چلی گئی، خود کو بھی گولی مار لی۔

ایک سوال کے جواب میں عامر خان نیازی کا کہنا تھا کہ پولیس لوگوں کے نجی معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکتی کہ یہ پتا کرتی پھرے کہ ان دونوں کے درمیان کیا مسائل چل رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ اس کیس میں انھیں کوئی پیسے یا لالچ والا معاملہ بھی نہیں لگتا لیکن وہ میاں، بیوی کے تعلق سمیت مختلف پہلوؤں پر تفتیش کر رہے ہیں۔

’ضروری نہیں سائیکالوجی پڑھانے والا خود بھی ذہنی طور پر ٹھیک ہو۔ جس طرح کورونا کے بعد سے ڈاکٹر اظہر حسین مکمل طور پر آئسولیشن میں چلے گئے تھے ہم اس پہلو کو بھی دیکھ رہے ہیں کیونکہ اتنے عرصے سے نفسیاتی مریضوں کا علاج کرتے کرتے بعض اوقات ڈاکٹر خود بھی مریض بن جاتے ہیں۔‘

ڈاکٹر محب سلیم کی مبینہ خودسوزی کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی خودکشی ہی ہے کیونکہ ابھی تک سی سی ٹی وی فوٹیج سمیت جو شواہد سامنے آئے ہیں، ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر سلیم نے بھی خود کشی کی۔

ڈاکٹر محب سلیم
ڈاکٹر محب سلیم بھی نشتر ہسپتال ملتان سے ریٹائر تھے اور ایک نجی ہسپتال میں پڑھا رہے تھے

انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹر سلیم کے کیس میں تو ایف آئی آر بھی درج نہیں کی گئی کیونکہ ان کی بیوی رخسانہ نے مزید کارروائی کروانے سے منع کر دیا ہے۔

اس کیس کی تفتیش سے منسلک ایک اور سینئر پولیس افسر کے بقول ان دونوں کیسیز میں وہ ابھی تک Why (کیوں) کا جواب تلاش نہیں کر پائے کہ آخر ڈاکٹر اظہر حسین نے ایسا کیوں کیا، پستول نکالنے کی ضرورت کیوں پڑی اور بیٹی پر گولی کیوں چلی اور بعد میں خودکشی۔

اسی طرح، سینئیر افسرکے بقول ڈاکٹر محب سلیم کو آگ لگا کر خودکشی کی ضرورت کیوں پڑی؟

پولیس افسر کے مطابق ان ’کیوں‘ کے جوابات کے بغیر ان کیسیز کا آگے بڑھنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

مینٹل ہیلتھ پروفیشنلز خطرے میں؟

نشتر ہسپتال کے شعبہ نفسیات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نعیم اﷲ لغاری جو ڈاکٹر اظہر حسین کے شاگرد اور ان کی بیٹی پنکی کے استاد تھے، نے بی بی سی کو بتایا کہ اس واقعے کے بعد اب خود انھیں بھی ڈر لگنے لگا ہے کیونکہ ان جیسے پروفیشنلز جو ایسے نفسیاتی مریضوں کا علاج کرتے ہیں ان میں ایک غلط قسم کا یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ اگر انھیں کوئی مسئلہ ہوا بھی تو وہ خود ہی سنبھال لیں گے اور انھیں کسی دوسرے پروفیشنل کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

انھوں نے کہا ’جب ایک ڈاکٹر اپنے کسی عزیز کی سرجری نہیں کر سکتا تو ایک ڈاکٹر اپنا نفسیاتی علاج کیسے کر سکتا ہے، ہمیں اس وہم سے نکلنے کی ضرورت ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا’اس غلط تاثر سے نکلنے کی ضرورت ہے کہ ہم ذہنی امراض کے ماہرین کو کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہم سب غیر محفوظ ہیں۔‘

’حقیقت میں ہم بھی کسی کو نہیں بتا پاتے کیونکہ یہ پریشانی ہوتی ہے کہ اتنا سینئیر بندہ ہو کر کسی اور کو بتائے کہ اسے بھی کوئی مسئلہ ہے۔ یہ ہمارے معاشرے میں بدنامی کا باعث بنتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا ’کورونا وبا کی پہلی لہر کے دوران نشتر ہسپتال میں بڑی اموات ہو رہی تھیں اور پورے شہر میں ایک خوف کا عالم تھا، ڈاکٹر اظہر حسین نے خود کو آئسولیٹ کر لیا تھا، باہر نکل نہیں رہے تھے اور نہ کسی کو بتا پا رہے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹر اظہرحسین ان کے استاد تھے اور پورے جنوبی پنجاب میں سب سے سینیئر ماہر نفسیات تھے۔

’بڑے شائستہ، ہمیشہ مسکرانے والے جن کو کبھی بھی غصے میں نہیں دیکھا۔ ان کے بقول حالت و واقعات سے لگتا ہے کہ ڈاکٹر اظہر حسین پریشانی میں تو تھے۔‘

دونوں بھائیوں کے کیس سے متعلق بات کرتے ہوئے ڈاکٹر نعیم اﷲ لغاری نے بتایا کہ ’خود کشی دو اقسام کی ہوتی ہے: ایک impulsive(فطری) اور دوسری Rational (سوچ سمجھ کر)۔ ان دونوں ڈاکٹر بھائیوں کے کیس میں بھی ڈاکٹر اظہر حسین کی بظاہر خودکشی فطری ہے جہاں اپنی اکلوتی بیٹی کی موت کے بعد وہ انپی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں جبکہ ان کے بھائی ڈاکٹر محب سلیم کی خودسوزی ایک سوچا سمجھا عمل ہے جس میں وہ پورے اہتمام کے ساتھ پیٹرول لیکر آتے ہیں اور خود کو آگ لگا لیتے ہیں۔‘

ڈاکٹر نعیم اﷲ لغاری کے بقول اس کیس میں ہماری نفسیات نہیں بلکہ سوشیالوجی فیل ہوئی ہے جس کے لیے ہمیں اپنے طرز زندگی کو دیکھنا ہو گا جو تیزی سے بدل رہا ہے، روایات بدل رہی ہیں اور لوگوں کا ملنا جلنا بدل رہا ہے۔

ان کے بقول ڈاکٹر اظہر حسین کے کیس میں نفسیاتی اور سماجی معاملات کا بحران تھا کیونکہ وہ نہ صرف کورونا کے خوف کی وجہ سے علحیدگی اختیار کیے ہوئے تھے بلکہ ان کا اپنے بہن بھائیوں سے بھی کئی برسوں سے رابطہ نہیں تھا۔

انھوں نے کہا ’اگر ڈاکٹر صاحب کوئی سماجی سپورٹ لیتے تو یقیناً اس تناؤ اور بحرانی کیفیت سے باہر نکل سکتے تھے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ہماری تنظیم اس مسئلے کو اٹھائے گی تاکہ ہم جیسے پروفیشنلز کا بھی ایک خاص عرصے بعد معائنہ ہوتا رہے کہ کہیں کوئی مسئلہ تو جنم نہیں لے رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں ڈاکٹروں میں سب زیادہ خود کشیوں کا رحجان نفسیاتی بیماریوں کے علاج کرنے والے ڈاکٹروں میں ہے جس کے بعد اینستھیزیا والوں کا نمبر ہے۔

ان کے بقول پولیس کو ایسے کیسیز کو صرف خودکشی قرار دیکر جان نہیں چھڑانی چاہیے بلکہ ان تمام محرکات کا پتا لگانا چاہیے جو ایسے واقعات کا مؤجب بنتے ہیں کہ ایک انسان خودکشی پر مائل ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp