جرات اظہار (افسانہ)


رمیز اور اس کے دادا معمول کے مطابق صبح کی ورزش کے لئے گھر سے نکلے، نزدیکی باغ میں تھوڑی دیر دوڑنے کے بعد دادا نے پارک کی ایک بینچ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ میں تھک گیا ہوں۔

رمیز نے ہوں کہا اور دوڑتا رہا، چند چکر لگانے کے بعد وہ دادا کے پاس آ کر بیٹھ گیا، اور پوچھا دادا آپ ٹھیک تو ہیں۔

دادا نے مسکراتے ہوئے کہا، میں بالکل ٹھیک ہوں برخودار، بس تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے کہ عمر کا تقاضا ہے۔ رمیز مسکرا دیا۔

چند ثانیے بیٹھنے کے بعد رمیز نے کہا، چلیں گھر چلتے ہیں، ورنہ دفتر سے دیر ہو جائے گی۔

دونوں خراماں خراماں گھر کی طرف گامزن ہوئے، راستے میں دادا نے کہا، مرنے سے پہلے تمہاری شادی دیکھنا چاہتا ہوں، رمیز کو ہنسی آ گئی، میری شادی ۔۔۔ اس کی ہنسی رک نہیں رہی تھی۔

دادا نے ناگواری سے جھڑکا، اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے، چونتیس سال کے ہو رہے ہو، میں اس عمر میں پانچ جوان ہوتے بچوں کا باپ تھا اور تمہارا باپ تین بچوں کا اور تم ابھی تک کنوارے گھوم رہے ہو، مجھے حیرت ہے تم کو شادی کا خیال کیوں نہیں آتا۔

دادا بنا رکے کہتے چلے گئے۔

رمیز چپ ہو گیا، چند ثانیے بعد سنجیدگی سے گویا ہوا، دادا آپ کو فرق محسوس نہیں ہوتا، دنیا کتنی بدل چکی ہے، محض پچاس سال پہلے حالات کچھ اور تھے، آپ چوراسی برس کے ہیں، آپ خود گواہ ہیں کہ آپ کے بچپن و جوانی میں ٹیکنالوجی کا وجود نہ تھا، اب دیکھیے دنیا صرف اشاروں پر آ گئی ہے چند اعداد لکھ کر، چھو کر ہم کیا سے کیا کر لیتے ہیں، بڑی سے بڑی رقمیں ادھر سے ادھر منتقل کر دیتے ہیں، رابطے کتنے آسان ہو گئے ہیں، علاج کتنا آسان ہو گیا ہے، لیکن آپ لوگ وہی دقیانوسی روایات میں الجھے ہیں، شادی کیوں نہیں کر رہے، بچے پیدا کیوں نہیں کر رہے۔

دادا نے غور سے اسے دیکھا اور گویا ہوئے انسان کا دماغ، جذبات اور اس کی مخصوص انسانی فطرت ہے اور وہ ہمیشہ انسان کے ساتھ رہے گی، کھانا پینا، بھوک، برتاو، رویے اور ساتھی کی ضرورت۔

رمیز نے بھی دادا کی بات غور سے سنی اور بولا، نہیں انسان بھی بہت بدل گیا ہے، پہلے انسان جنگ و جدل پسند کرتا تھا، بے آرامی اور سفر اس کے مزاج کا خاصہ تھا، دوسروں سے نفرت بھی زیادہ کرتا تھا، اب دیکھیے انسان محبت کرنا سیکھ رہا ہے، جنگ سے گھبراتا ہے، سفر کے بجائے سکون سے اپنے گھر میں بیٹھ کر اسمارٹ فون سے حظ اٹھاتا ہے، ویب ٹی وی سے لطف اندوز ہوتا ہے اور سوشل میڈیا پر اظہار خیال بھی کر دیتا ہے ، اس طرح اس کی بحث مباحثے کی فطری جبلت بھی تسکین پاتی ہے اور لڑائی جھگڑا بھی نہیں ہوتا، زندگی آسان ہو گئی ہے۔ رہی ساتھی کی ضرورت تو ساتھی کی ضرورت صرف جسمانی خواہش پوری کرنے کے لئے نہیں ہونی چاہیے بلکہ ساتھی ایسا ہو جس کے ساتھ انسان ذہنی طور پر بھی پرسکون محسوس کرے۔ نہ کہ پچھلی نسلوں کے انسانوں کی طرح ذہنی سکون کے لئے چور راستے تلاش کرے اور پھر جسمانی بے راہ روی میں بھی پڑ جائے۔

دادا نے ہنکارا بھرا۔ ہوں

وہ گھر کے قریب پہنچ چکے تھے، رمیز دادا کو سہارا دے کر گھر کے اندر لے آیا اور ان کی آرام کرسی پر بٹھا دیا، خود دفتر کے لئے تیار ہونے اپنے کمرے میں چلا آیا، تیار ہونے کے بعد نیچے آیا تو گھر کے ہی افراد ناشتے پر موجود تھے، خوشگوار ماحول میں ناشتہ کر کے وہ آفس پہنچ گیا۔

رمیز ایک بین الاقوامی بنک میں ذمہ دار عہدے پر فائز تھا، آج شہر میں موجود بنک کی لا تعداد برانچز کے مینیجرز کی میٹنگ تھی، اس کے اسسٹنٹ نے یاد دلایا، وہ دفتری امور نمٹا کر اسسٹنٹ کے ساتھ میٹنگ روم میں پہنچا، تمام برانچز کے مینیجرز موجود تھے، میٹنگ میں ایک خاتون موجود تھی، رمیز کے استفسار پر معلوم ہوا کہ ایک بنک مینجر دل کی تکلیف کے باعث اسپتال میں داخل ہیں لیکن اپنی اسسٹنٹ کو بھیج دیا ہے، رمیز نے باری باری ہر برانچ مینیجر سے بینکاری و کاروباری گفتگو کی پھر خاتون اسسٹنٹ سے بھی تبادلہ خیال کیا، اور اس کے پیشہ ورانہ انداز و اطوار سے متاثر ہوا، ورنہ عموماً خواتین اسے بینکاری کے شعبے میں بھاتی نہ تھیں۔

چند ہفتے کے بعد پھر ایک میٹنگ میں اس کی ملاقات اس اسسٹنٹ سے ہوئی جس کا نام نوین تھا۔
رمیز ایک بار پھر متاثر ہوا۔

ایک دن صبح کے وقت دادا نے واک کرتے ہوئے اسے پھر شادی کے لیے کہا، رمیز کے ذہن میں نوین کی شبیہہ روشن ہوئی، اس نے دادا سے کہا سوچ رہا ہوں کہ شادی کر لوں، دادا بہت خوش ہوئے، گھر پہنچنے پر سب کو بتا بھی دیا۔ ناشتے پر رمیز کے والدین بھی شادی کو زیر بحث لے آئے، چھوٹی بہن اور چھوٹا بھائی بھی پر جوش دکھائی دینے لگے۔

رمیز کو ہنسی آ گئی، اس نے اعلان کرنے کے سے انداز میں کہا، شادی کرنے کا ابھی صرف سوچا ہے، مکمل فیصلہ نہیں کیا ہے نہ ہی کوئی لڑکی سامنے ہے، دادا نے حیرانی سے کہا لو میں سمجھا تم فیصلہ کر کے بتا رہے ہو، ماں بھی فوراً بولی، نظر میں کوئی لڑکی ہے یا لڑکی بھی ہم ڈھونڈنا شروع کریں۔ رمیز مسکرانے لگا۔

رمیز کا باپ بھی بولا، بھئی لڑکی بھی ہم ڈھونڈیں یہ تو مشکل کام ہے، تم خود ہی یہ نیک فریضہ انجام دو تاکہ کل کو ہمارے اوپر ذمہ داری نہ آئے۔

بہن تنک کر بولی بھلا یہ کیا بات ہوئی پاپا، ہم دیکھیں گے لڑکیاں، اتنی اچھی اچھی سہیلیاں ہیں میری۔ رمیز نے ہاتھ اٹھا دیے، بس بس میں کچھ دن بعد سب کو بتا دوں گا، تھوڑا وقت دیں، پھر وہ آفس آ گیا۔

آفس میں بھی وہ سوچتا رہا کہ کس طرح نوین کو اشارہ دے، کہیں وہ برا نہ مان جائے، ویسے لڑکیاں تو خوش ہوتی ہیں ایسے مواقع پر لیکن وہ ٹیپیکل لڑکی بھی تو نہیں، آخر کیسے بات کی جائے، وہ سوچتا رہا اور سارا دن گزار دیا بلکہ کئی دن گزار دیے، اس دوران ماہانہ میٹنگ میں ایک بار نوین سے اس کا سامنا بھی ہوا لیکن وہ بات نہ کر سکا، اسے اندازہ ہوا کسی سے پسندیدگی کا اظہار کرنا بھی مشکل کام ہے۔ اس نے کئی بار موبائل پر میسج ٹائپ کیے ، لیکن نوین کو بھیجے نہیں بلکہ ڈیلیٹ کر دیے۔

ایک دن دادا نے پھر احساس دلایا، تو رمیز ہمت مجتمع کر کے بہانے سے نوین کی برانچ کے دورے پر پہنچ گیا، جب وہ وہاں پہنچا، تو سب مٹھائی کھا رہے تھے، حتی کہ برانچ مینیجر بھی اپنے کمرے سے باہر ورکرز کے ساتھ موجود تھے اور خوش گپیاں کر رہے تھے۔ نوین بھی ایک کرسی پر سمٹی ہوئی بیٹھی تھی، رمیز کو دیکھ کر سب اپنی جگہ ساکت و حیران ہو گئے اور اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے، مینیجر رمیز کو اپنے آفس کی طرف لے کر چلے اور کہا تشریف رکھیے، آپ کی اچانک آمد حیران کن ہے۔ رمیز نے کہا، آپ کی طبعیت پوچھنے آ گیا بس، مینیجر نے شکریہ ادا کیا۔

تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد مینیجر نے چپراسی سے کہا، صاحب کے لئے چائے اور مٹھائی بھی لے آو، رمیز نے پوچھا مٹھائی کس خوشی میں ہے، مینیجر نے بتایا کہ نوین کی شادی کی تاریخ طے ہو گئی ہے ، بہت اچھی اور محنتی لڑکی ہے آپ تو جانتے ہی ہیں۔ مجھے تو اپنی بہنوں کی طرح عزیز ہے، شکر ہے اچھی جگہ اس کا رشتہ طے ہوا ہے۔

رمیز چپ رہ گیا۔ بنا چائے پیے اٹھ آیا۔
گھر آ کر بھی وہ چپ رہا۔ دادا نے محسوس کیا لیکن کچھ پوچھا نہیں۔

دوسرے دن صبح کی سیر کے دوران دادا نے پوچھا کیا اس نے انکار کر دیا، رمیز چونکا کس نے دادا۔ اسی لڑکی نے جس سے شادی کا ارادہ کیا تھا ۔ برخودار ہم تمھارے دادا ہیں، تمھارے ہر رنگ سے واقف ہیں۔ رمیز نے جھلا کر کہا، اظہار و انکار کی نوبت ہی نہ آئی، کل اسی مقصد کے لئے اس کی برانچ میں گیا لیکن وہاں تو شادی کی تاریخ طے ہونے کی مٹھائی کھائی جا رہی تھی۔

دادا نے اس کی صورت دیکھی پھر کہا، اس جدید دور میں محبت کا اظہار آسان ہے، تم ایک میسج بھیج دیتے۔
رمیز نے افسردگی سے کہا، میسج لکھ لکھ کر ڈیلیٹ کر دیے۔
دادا ہنسے۔ ہم اپنے دور میں خط لکھتے تھے جو پوسٹ نہیں کر پاتے تھے۔
تمھارے باپ نے کئی ای میل لکھیں لیکن وہ بھی بھیجی نہیں۔

اب تم ایک چھوٹا سا میسج نہیں بھیج سکے۔ دیکھو میاں۔ اس جدید دور میں بھی انسانی فطرت وہی ہے جو ہر دور میں تھی۔ اظہار کے لئے جرات ہونی چاہیے جو کہ تم میں نہیں ہے حالانکہ بہت آسان تھا، چلو جو قسمت کو منظور۔

رمیز پھیکی ہنسی ہنسا پھر کسرت شروع کر دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).