ریڈیو پاکستان سے عابد علی تک!


ہمارے زمانہ طالب علمی میں گرد و پیش سے جان چھڑانے کے لیے فراریت کے دو تین ہی میڈیم ہوا کرتے تھے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، جاسوسی ناولز یا پھر کبھی کبھار بڑے پردے پر فلم۔ لہروں کے دوش پر جو صدا کار چھوٹے سے ریڈیو سیٹ سے ہم تک پہنچتے وہ خوابوں کی دنیا کے مسافر لگتے۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر جو ڈرامے پیش کیے جاتے وہ ہر وقت دل و دماغ پر چھائے رہتے۔ پھر بھی تشنگی کم نہ ہوتی تو ابن صفی کی عمران سیریز اور فریدی کی کہانیاں تخیل میں گھر کیے رہتیں۔

مگر شام ہوتے ہی ٹی وی ڈرامے کا انتظار شروع ہوجاتا۔ ایسے میں کچھ چہرے، ان کی آواز اور ایکسپریشن سحر طاری کر دیتے۔ ڈاکٹر انور سجاد، طلعت حسین، شفیع محمد، عابد علی اور جمیل ملک کے ڈراموں کا انتظار رہتا۔ ہمارے پڑوس میں ایک شاعر تھے تجمل حسین جو ریڈیو اور ٹی وی کے لیے نغمے اور گیت لکھا کرتے تھے۔ وہ سیف الدین سیف جیسے عظیم شاعر اور نغمہ نگار کے شاگرد تھے۔ ایک دن کہنے لگے تمہیں یونیورسٹی کے امتحانات کے بعد اگر فراغت ہو تو ریڈیو چلتے ہیں۔

نیکی اور پوچھ پوچھ۔ ہم ریڈیو پاکستان لاہور کی بلڈنگ میں آ گئے۔ وہاں داخل ہوتے ہی دائیں جانب ایک عمارت تھی، اسے سینٹرل پروڈکشن یونٹ یعنی CPU کہا جاتا تھا۔ سٹیشن ڈائریکٹر ایوب رومانی تھے اور سی پی یو کے ہیڈ سلیم خان گمی صاحب۔ ایوب رومانی بھری بھر کم شخصیت کے مالک تھے اور سلیم خان گمی ذرا کوتاہ قامت اور نظر کے فریم کے موٹے شیشوں والی عینک لگائے رکھتے تھے۔ ان کے کمرے میں ”مجھ سا تجھ کو چاہنے والا“ جیسے مشہور گانے کا سنگر رجب علی بیٹھا تھا۔

پاس ہی کلاسیکل فنکارہ ترنم ناز اور درویش منش میوزک کمپوزر اختر حسین اکھیاں بھی تھے۔ سانولی سی رنگت والا یہ میوزک کمپوزر زیادہ تر پان منہ میں رکھتا تھا۔ اس لیے گفتگو میں وقفے بھی آتے تھے مگر باکمال فنکار تھا۔ سلیم خان گمی صاحب سے میں نے ذرا جھجکتے ہوئے کہا کہ میں صدا کار بننا چاہتا ہوں۔ کہنے لگے اس کا آسان حل یہ ہے کہ ہمارے ہاں پروڈیوسر بن جاؤ۔ جاب بھی کرنا اور اپنے پروگرام میں صدا کاری بھی۔ جی پروڈیوسر کیسے بنتے ہیں؟

Salim Khan Gimmi

تم بن گئے۔ جی وہ کس طرح؟ وہ بعد میں بتاؤں گا۔ پہلے یہ چٹ سنبھال کر رکھ لو۔ چٹ پر لکھا تھا ”آپ پروڈیوسر بن جائیں گے“ ۔ کچھ بھی سمجھ میں نہ آیا۔ خوشی تو ہوئی مگر شدید حیرانی بھی۔ پھر گمی صاحب نے ایک پروڈیوسر صدا کار سے ملوایا۔ یہ ہیں مدثر شریف، ہمارے سٹار پروڈیوسر اور صدا کار۔ مدثر شریف بہت ہینڈسم تھا۔ اس کے شوبز میں بے تحاشا تعلقات تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے لے کر ایورنیو سٹوڈیو تک۔ دادا نذر الاسلام سے ٹی وی اور فلم کے بے شمار خوبرو چہروں تک۔

وہ کبھی کبھی ٹی وی ڈراموں میں لیڈ رول بھی کرتا تھا۔ خوبرو چہرہ۔ انتہائی خوبصورت آواز۔ مگر اسے ناکام کر دیا ان ”دیگر امور“ نے جو شوبز کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ مدثر شریف بھی اقبال ٹاؤن میں رہتا تھا اور میں بھی۔ تعلیم مکمل ہو چکی تھی اس لیے وقت کے اعتبار سے راوی نے چین ہی چین لکھا ہوا تھا۔ مدثر شریف کی فیملی ملتان میں تھی اور وہ لاہور میں اکیلا رہتا تھا۔ گھنٹوں ہم بیٹھے آواز۔ ایکسپریشن اور مائیک کے حوالے سے مکالمہ کرتے۔

پھر اخبار میں ریڈیو پروڈیوسر کی نوکری کا اشتہار آ گیا۔ بھاگم بھاگ اشتہار لے کر گمی صاحب کے پاس پہنچا۔ ریڈیو میں اپلائی ہو گیا۔ تحریری امتحان بھی پاس کر لیا۔ انٹرویو اسلام آباد میں تھا۔ ضیاء الحق کے زیر عتاب اور بعد میں مشرف کے ہم نوالہ، ہم پیالہ ائر کموڈور ظفر اقبال عرف زیڈ آئی صاحب نے اسلام آباد میں اپنے آراستہ فلیٹ میں ٹھہرنے کی دعوت دی اور ہم نے قبول کرلی۔ لاہور ریڈیو سٹیشن پر دوستوں نے انٹرویو کے لیے خاصا گائیڈ کیا مگر سلیم خان گمی صاحب نے تو وہ سوال بھی بتا دیا جو پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ڈائریکٹر جنرل جناب سلیم گیلانی امیدواروں سے کرنے والے تھے۔

یاد رہے کہ شہنشاہ غزل اور میرے لائف ٹائم فیورٹ مہدی حسن صاحب گیلانی صاحب کی دریافت تھے اور راجستھان کی کوئل ریشماں کو بھی وہی ریڈیو پر لائے تھے۔ گمی صاحب کہنے لگے وہ پوچھیں گے ”میوزک کے متعلق کیا جانتے ہو“ ؟ تم نے کہنا ہے ”جی یہ تو نہیں بتا سکتا کہ یہ میاں کی ملہار ہے، یہ خیال ہے، یہ ٹھمری ہے، مالکونس ہے، یہ تیکھے سر ہیں اور یہ کومل۔ یہ جے جے ونتی ہے، یہ انترا ہے، یہ مکھڑا اور یہ استھائی۔ مگر یہ ضرور بتا سکتا ہوں کہ جناب یہ گانے والا سر میں گاتا ہے یا نہیں“۔

بالکل ایسا ہی ہوا اور میں ریڈیو پروڈیوسر بن گیا۔ لاہور ریڈیو اسٹیشن میں پاکستان ٹیلی ویژن پر نظر آنے والے اداکار کثرت سے موجود ہوتے تھے۔ عتیق اللہ شیخ صاحب بہت سکہ بند پروڈیوسر تھے۔ ان کے ساتھ ٹی وی سٹار ثروت عتیق نظر آجاتی تھیں۔ مگر نہ جانے کیوں میری نظریں ہمیشہ جمیل ملک کی متلاشی رہتی تھیں۔ وہ مل بھی جاتے تو ان سے بات نہ ہو پاتی۔ ان کی شخصیت میں کچھ ایسی بات تھی کہ ان کو کبھی مخاطب نہ کر سکا۔ پھر ایک دن مدثر شریف مجھے جمیل ملک کے کمرے میں لے گئے۔

جب انہیں پتہ چلا کہ میں پروڈیوسر منتخب ہو چکا ہوں تو بس تکلف کی دیوار تحلیل ہو گئی۔ میں ان سے شوبز کی شخصیات کے متعلق کرید کرید کر پوچھا کرتا اور وہ مسکراتے ہوئے اپنی مخصوص ریڈیائی آواز میں حیرت انگیز قصے سناتے رہتے۔ ایک دن انہیں بتایا کہ مجھے عابد علی اور طلعت حسین بہت fascinate کرتے ہیں۔ کہنے لگے ”یہ ایک پورا مینر ازم ہوتا ہے۔ آواز۔ باڈی لینگوئج۔ چہرے کے تاثرات اور وہ کردار جو آپ پرفارم کر رہے ہو۔

سب کا آہنگ ایک ہو جائے تو جو تاثر ٹی وی پر آتا ہے وہ ناظرین کے دل میں گھر کر جاتا ہے۔ عابد علی کا تعلق کوئٹہ سے تھا اور شفیع محمد کا سندھ سے۔ دونوں لاہور میں اپنی اپنی منزل حاصل کرنے آئے تو جمیل ملک نے انہیں گھر میں جگہ دی، دل میں بھی اور شوبز میں بھی جگہ بنانے میں مدد دی۔ دونوں میں فطری ٹیلنٹ تھا۔ دونوں شدید محنتی تھے۔ محنت اگر درست سمت میں ہو تو کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ عابد علی اور شفیع محمد چھوٹی سکرین کے سٹار بن گئے۔ شفیع کراچی چلے گئے اور عابد علی نے لاہور کو اپنا مسکن بنا لیا۔

ریڈیو کی جاب نے ہمیں لاہور سے اسلام آباد بدر کر دیا۔ دارالحکومت کے سیکٹر H۔ 9 میں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی ایک اکیڈمی تھی جہاں نوجوان پروڈیوسرز کو براڈ کاسٹنگ، ایڈیٹنگ، مکسنگ اور تلفظ کے اسرار و رموز سمجھائے جاتے تھے۔ اس اکیڈمی میں لگتا تھا ایک منی پاکستان موجود ہو۔ سندھ، سرحد، بلوچستان، گلگت، سکردو، پنجاب سبھی جگہ کا ٹیلنٹ موجود تھا۔ یہاں تک کہ پنجاب کے فیصل آباد سے جی ٹی روڈ کے گکھڑ منڈی تک سے بھی نوجوان خواتین و حضرات موجود تھے۔

ہم سب کے گروپ بنا دیے جاتے۔ ہر گروپ کو ایک براڈ کاسٹنگ انجینئر بھی دے دیا جاتا۔ ہم خود ہی آئیڈیاز اور سکرپٹ بناتے اور پھر ہمارے گروپ سے کوئی ایک اس کو اپنی آواز میں پیش بھی کرتا۔ پھر تمام نوجوان پروڈیوسرز اکٹھے ہو جاتے اور ان کے اساتذہ بھی۔ پھر ہر پروگرام کا پوسٹ مارٹم ہوتا۔ تعریف کم کم اور تنقید زیادہ ہوتی۔ ہمارے انسٹرکٹر پاکستان کے پہلے براڈ کاسٹر مصطفیٰ علی ہمدانی کے بیٹے خوبرو صفدر علی ہمدانی تھے۔

اس وقت کی مقبول ترین ٹی وی نیوز کاسٹر ماہ پارہ صفدر ان کی اہلیہ تھیں۔ وہ اکیڈمی کے اندر ہی رہتے تھے۔ ایک دن لاہور سے والدہ کا فون آیا کہ تم نے پبلک سروس کا امتحان دیا تھا، اس کا اپوائنٹ منٹ لیٹر آ گیا ہے۔ بطور لیکچر پوسٹنگ ہو گئی۔ شش و پنج نے گھیر لیا۔ شام کو صفدر ہمدانی صاحب کے آگے لیٹر رکھا۔ کہنے لگے لیکچرر بن کر آپ ریڈیو میں بھی کام کر سکتے ہو اور سی ایس ایس کی تیاری بھی۔ میرا تجربہ تمہیں یہی نصیحت کرتا ہے کہ لیکچرر شپ میں چلے جاؤ۔

اکیڈمی کے پرنسپل کو سارا ماجرا بتایا تو وہ اصرار کرنے لگے کہ آپ اسی شعبے میں رہیں مگر ہم ریڈیو چھوڑ کر لاہور آ گئے۔ یہاں آ کر سلیم خان گمی صاحب کو بتانا اشد ضروری تھا کہ ہم نے ریڈیو کو خیرباد کہہ دیا۔ اگلے ہی دن ریڈیو پاکستان لاہور پہنچ گئے۔ سلیم خان گمی صاحب جس کمرے میں بیٹھے تھے وہ خاصا بڑا تھا۔ سامنے دیوار کے ساتھ ان کی کرسی اور ٹیبل ہوتی تھی اور اطراف میں ملاقاتیوں کے لیے صوفے لگے ہوتے تھے۔ اگر آپ باہر دھوپ اور روشنی سے آئیں تو آپ کو کمرے کی مصنوعی روشنی کے ساتھ سمجھوتہ کرنے میں وقت لگ جاتا ہے مگر زیادہ نہیں۔

کمرے میں داخل ہو کر سیدھے گمی صاحب کے پاس، ان سے ہاتھ ملا کر واپس اطراف پر لگے ہوئے صوفوں پر بیٹھنا چاہا تو حیرت میں ڈوب گیا۔ سحر انگیز فلم اسٹار محمد علی۔ بھاری بھرکم شخصیت کے مالک مصطفی قریشی۔ بے پناہ ایکٹر قوی خان اور وارث فیم شجاعت ہاشمی تشریف فرما تھے۔ سب سے ہاتھ ملا کر بیٹھ گیا مگر شدید امپریس حالت میں۔ اب گمی صاحب کی بولنے کی باری تھی ”یہ نوجوان شدید ریاضت سے گزر کر ریڈیو پروڈیوسر بنا اور کل اسے خیرباد کہہ کر لاہور آ گیا ہے۔

اس کا استعفیٰ ابھی منظور نہیں ہوا“ ۔ بس پھر کیا تھا۔ ہر طرف سے پروفیشنل نصیحتوں کا سیلاب اور سکتے کے عالم میں ہم۔ چاروں ہی یکتا پروفیشنل تھے۔ ہم کیا بولتے؟ جی۔ جی اور بس جی کی گردان تھی اور ہم تھے۔ محمد علی صاحب کی شخصیت کا سحر اور آواز کم نہ تھا کہ مصطفی قریشی صاحب نے بتایا کہ میں نے بھی کیریئر حیدر آباد ریڈیو سے ہی شروع کیا اور محمد علی صاحب نے بھی۔ ہم ان سے اصولی طور پر اتفاق کر کے اٹھے کہ ہم اپنا استعفیٰ واپس لے لیں گے۔

مگر ایسا نہ ہوسکا اور ہم لیکچرر شپ اور سی ایس ایس کی راہداریوں میں الجھتے چلے گئے۔ غالباً 2000 ء کی بات ہے بابائے سرکس میاں فرزند کے صاحبزادے میاں امجد فرزند نے دنیائے سرکس پر ایک ڈرامہ بنانے کا سوچا۔ میاں صاحب کے دوستوں میں ایک خوبرو ٹی وی اداکار ضیا خان بھی تھا۔ ضیا خان کے عابد علی سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ عابد علی۔ منو بھائی کے لکھے ہوئے ڈرامے دشت کی ڈائریکشن دے کر اس شعبے میں اپنا نقش بنا چکے تھے۔

عابد علی نے جس اگلے ڈرامے کی ڈائریکشن دی اس کا نام ”غرور“ تھا۔ منفرد کالم نگار اور بے پناہ قلم کار حسن نثار صاحب اس ڈرامے کے رائٹر تھے۔ اس ڈرامے میں ضیاء خان نے بھی پرفارم کیا تھا۔ جب امجد فرزند نے سرکس پر ڈرامہ بنانے کی ٹھانی تو ضیا خان نے حسن نثار صاحب سے درخواست کی اور وہ سرکس پر مبنی ڈرامہ لکھنے پر آمادہ ہو گئے۔ ڈرامے کا نام تھا ”ہوا پر رقص“ ۔ عابد علی کا نام بطور ہدایت کار طے پایا۔ ایک دن میری ملاقات راشد فرزند اور ضیاء خان سے ہوئی۔

ضیاء خان نے مجھے کہا کہ آپ حسن نثار صاحب کو اسسٹ کریں اس ٹی وی سیریل کے لیے۔ ضیاء خان نے ان سے ملوایا اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا میں لیکچر اور ڈرامے کے مراحل کے درمیان توازن رکھ پاؤں گا۔ مگر حسن نثار صاحب کے ساتھ کام کرنے کی دھن تھی کہ بس۔ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کب لیکچر ختم ہوا۔ کب پروڈکشن ہاؤس میں پہنچا اور کب رات گئے گھر واپس آیا۔ حسن نثار صاحب کہانی اور سکرپٹ کے خالق تھے۔ امجد فرزند فنانس کر رہے تھے۔

عابد علی ہدایت کار تھے۔ اس وقت ہالی ووڈ کا ایک ڈائریکٹر Titanic بنا کر ہر خاص و عام کی زبان پر تھا۔ اس کا نام تھا جمیز کیمرون۔ ڈرامے کی ٹیم میں سبھی عابد علی صاحب کو پیار سے جیمز کیمرون کہتے تھے۔ ٹیم کے سبھی افراد محنتی نہیں، شدید محنتی تھے۔ کہانی اور ون لائنر حسن نثار صاحب لکھ چکے تھے۔ اب سکرین پلے اور مکالمے لکھنے کا مرحلہ چل رہا تھا۔ عابد علی سکرین پلے لکھ کر یا لکھتے ہوئے حسن بھائی سے ڈسکس کرتے۔

مجھے وہ ساری ڈسکشن کے نوٹس لینے ہوتے اور پھر جب حسن صاحب مکالمے لکھواتے تو وہ ساری ٹپس اور نوٹس بھی ساتھ ڈسکس ہوتے۔ عابد علی صاحب کو ایک گمنام فلم ڈائریکٹر اسسٹ کر رہا تھا۔ اس کا نام مراد علی تھا۔ وہ بچپن میں چائلڈ سٹار ہوتا تھا اور بڑا ہو کر ڈائریکٹر بننے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ فلم انڈسٹری سے ایکسٹرا اداکار اور بونے بھرتی کرنے میں عابد علی صاحب کو اسسٹ بھی کرتا تھا۔

دوپہر ایک دو بجے تک سب آنا شروع ہوتے اور پھر رونق لگتی چلی جاتی۔ ڈرامہ پروڈکشن کا یہ آفس بالکل شاہ نور سٹوڈیو کے عقب میں یا قریب ترین تھا۔ مراد علی کا چونکہ بچپن بھی سٹوڈیو میں ہی گزرا تھا، تو وہ فلم اور فلمی شخصیات کی ڈائرکٹری تھا۔ کون فلم میں کام کر رہا ہے؟ کون چھوڑ گیا ہے؟ کون کتنے میں بک ہو گا؟ کس کے پاس ڈیٹس ہی نہیں۔ کون بالکل فارغ گھر بیٹھا ہے۔ ایسے میں سٹوڈیوز سے فنکار آتے رہتے اور کاسٹنگ بھی ہوتی رہتی۔

کچھ دیر کے لئے عابد علی صاحب اپنی معاونت کے لئے فلم کا ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھی بلایا۔ اس کے پاس کام کم تھا، سانولی رنگت اور بالکل سفید بالوں کے ساتھ وہ صحافی دانشور لگتا تھا۔ کام کو خوب سمجھتا تھا اور سکرپٹ کی تکنیک کو بھی۔ میں چونکہ اس دنیا میں بالکل نیا تھا ایسے میں وہ صاحب جن کا نام حسن زبیری تھا میرے کاغذوں کے پلندے کو سارٹ آؤٹ کرنے میں میری مدد کر دیا کرتے تھے۔ مراد علی آدھا کچا اور آدھا پکا ڈائریکٹر تھا۔

اس نے دیکھ کر کام سیکھا تھا۔ تعلیم یافتہ نہ تھا اس لیے عابد علی صاحب اسے اتنا ہی کام لیتے جتنا وہ کر سکتا۔ انہی دنوں ایک صحافی ایک مشہور بیوٹی پارلر کی مالکہ کے پیسوں سے ایک ٹی وی سیریل بنا رہے تھے۔ مراد چونکہ ان کے ساتھ کام کر چکا تھا اور مشہور تھا کہ وہ صحافی فلم میکنگ کا ڈپلومہ امریکہ سے لے کر آئے ہیں۔ ایسے میں مراد ان کے ساتھ کام کے تجربات کو ہم سے شیئر کرتا۔ کیمرہ، لائٹس اور ایکشن کے پیرائے میں ایسے ایسے لطیفے سناتا کہ ہم بہت دیر تک ہنستے رہتے۔

وہ صحافی آج کل ایک سکہ بند دانشور کے طور پر مشہور ہے۔ برادرم حسن نثار صاحب کی وجہ سے دفتر میں غیر فلمی مگر اپنے اپنے شعبوں کی مشہور شخصیات کی آمد و رفت جاری رہتی۔ میں چونکہ انہیں ہی اسسٹ کر رہا تھا تو پتہ چلتا کہ آج محمد علی درانی آ رہے ہیں۔ ”ان سے ملیے یہ امیر العظیم ہیں“ ۔ سر عمران خان کا فون ہے۔ ذرا قاضی حسین احمد کا نمبر دیکھیے اس ٹیلی فون بک میں۔ حسن بھائی فلاں سیاست دان بات کرنا چاہتا ہے۔ کالم وہ گھر سے لکھ کر آتے تھے۔

مگر کام شروع کرنے سے پہلے اکثر اس پر ہلکی پھلکی گفتگو ضرور کرتے۔ ایسے میں عابد علی جو کہ ادا کار ہونے کے علاوہ ایک پڑھے لکھے اور ذہین فنکار تھے شریک گفتگو رہتے۔ ایک دن حسن نثار صاحب کہنے لگے ”یہاں سے مون مارکیٹ کتنی دور ہے؟ میں نے کہا“ بس پانچ سے دس منٹ کا فاصلہ ہے ”۔“ وہاں پر ہارون الرشید صاحب انتظار کر رہے ہیں۔ آگے انہیں راستے کا پتہ نہیں۔ کوئی جا کر انہیں لے آئے۔ ”ہمارے تخیل میں ہیجان سا پیدا ہو گیا۔

“ جی میں لے آؤں ”؟ آپ چلے جائیں۔ میں ہارون صاحب کو لے کر دفتر واپس آ گیا۔ انہوں نے دفتر میں داخل ہونے سے پہلے پوچھا“ اندر اور کون کون ہے؟ جی سب جا چکے۔ میاں امجد فرزند۔ عابد علی صاحب حسن بھائی اور بس۔ اس کے بعد ہارون صاحب اس سلیکٹڈ سی کمپنی کا حصہ تھے۔ ہم خاموش سامع اور ناظر کی طرح ان سب کو دیکھ بھی رہے تھے اور سن بھی۔ خاص طور پر حسن صاحب اور ہارون صاحب کے مکالمے اور گفتگو کو۔

ڈرامہ سرکس پر مبنی تھا۔ سرکس میں واقعی ہوا پر ہی رقص ہوتا ہے۔ ایسے میں لیڈ رول کے لیے پہلے شان اور پھر معمر رانا کا انتخاب ہوا۔ ہیروئن کے لیے بہت سے نام زیر غور آئے۔ فرح شاہ تو باقاعدہ دفتر بھی آئیں مگر عابد علی صاحب سیمی راحیل کو اس رول کے لیے سب سے موزوں تصور کرتے تھے۔ جب بنیادی کرداروں کے لیے کاسٹنگ مکمل ہو گئی تو ایکسٹراز اور بونے منتخب کرنے کا وقت آیا۔ مراد علی سٹوڈیو سے کافی بونے اور ایکسٹرا ایکٹرز لے آیا۔

ایک بونا جس کا میں نام بھول گیا ہوں سب کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ خاص طور پر حسن نثار صاحب اور عابد علی کی۔ اس کی آنکھیں صرف سرخ نہیں بلکہ بہت زیادہ سرخ تھیں۔ سانولا رنگ کثرت سگریٹ نوشی سے سیاہی مائل ہو چکا تھا۔ اس وقت بھی وہ خاصا ابنارمل لگ رہا تھا۔ حسن نثار صاحب نے مسکراتے ہوئے اسے قریب بلایا اور گفتگو ہونے لگی۔ کہنے لگا میں شاعر بھی ہوں اور سنگر بھی۔ حسن بھائی نے مزید کریدا تو کہنے لگا اگر اجازت ہو تو میں اپنا تیار کردہ نغمہ آپ کی خدمت میں پیش کر سکتا ہوں۔ کسی طبلے یا ہارمونیم کی ضرورت نہیں۔ میں ایک دھاتی پلیٹ اور اٹھنی کے سکے سے کام چلا سکتا ہوں۔ گانے کے بول تھے ”برس رہا ہے پانی صنم۔ کوئی سنا دو کہانی صنم۔ پتہ نہیں سب متاثر ہوئے یا نہیں مگر سب ہنس پڑے۔ حسن بھائی نے اسے انعام بھی دیا۔

ایسے میں عابد علی نے اس سے مسکراتے ہوئے پوچھا ”سگریٹ پیتے ہو؟ اس جملے میں طنز بھی تھا اور مزاح بھی۔ بونے کا جواب سونے پر سہاگہ تھا۔“ جی سادے پیتا ہوں ”۔ مسلسل شوٹنگ ہوتی رہی۔ رائٹر اور ڈائریکٹر مسلسل ڈسکشن کرتے۔ سکرین پلے میں تراش خراش ہوتی۔ حسن صاحب کو نیا آئیڈیا آتا، وہ عابد علی سے گفتگو کرتے۔ مکالموں کو اور پالش کیا جاتا۔ میاں امجد فرزند اپنی تجاویز دیتے مگر ماننا نہ ماننا پروفیشنلز کا کام تھا۔ سبھی نے بڑی محنت کی۔ عابد علی صاحب ایڈیٹنگ اور مکسنگ کے مراحل میں شامل رہے ہر پروفیشنل ڈائریکٹر کی طرح۔ بعد میں ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ کم سے کم تر ہوتا چلا گیا۔ حسن نثار صاحب سے ملاقاتیں اور قربتیں بڑھتی چلی گئیں۔

میرا خیال ہے ”ہوا پہ رقص“ کی ٹیم میں سے ضیاء خان ہی عابد علی صاحب سے رابطے میں رہا۔ عابد علی صاحب کے ساتھ روزانہ اتنا وقت گزارا۔ ان کی شخصیت کے وہ پہلو سامنے آئے جو سکرین سے بالکل الگ تھے۔ مشہور ادا کارہ ایمان علی ان کی صاحب زادی ہیں۔ عابد علی جب ٹی وی میں کامیابی کی ابتدائی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے تو انہوں نے اپنی ایک ”کو آرٹسٹ“ حمیرا علی سے شادی کر لی۔ عابد علی صاحب بہت سینئر تھے اور میں بہت جونئیر۔

عابد علی پر جو تبصرہ حسن نثار صاحب نے کیا تھا وہ حاصل کلام ہے۔ ”عابد علی بہت ہی TODAY قسم کا پریکٹیکل سا آدمی تھا۔ شاید یہی وجہ اس کی خوبی یا خامی تھی۔ لاہور آیا تو کوئٹہ بھول گیا۔ کراچی شفٹ کیا تو لاہور بھول گیا۔ وہ بے پناہ قوت برداشت کا مالک تھا جو زندگی میں بے شمار پرسنل اور پروفیشنل دھچکے کامیابی سے برداشت کر گیا۔ جن کی تفصیل میں جانا ضروری ہے اور نہ مناسب“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments