انڈیا: مہاجر مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی نودیپ کور کون ہیں؟


’ہم نے اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے لڑنا سیکھا ہے۔ جدوجہد ہماری زندگی کا حصہ رہا ہے۔ بچپن سے ہمیں اپنی زندگی کے ہر قدم پر جدوجہد کرنی پڑی ہے۔‘

یہ کہنا ہے انڈیا کی ریاست ہریانہ کی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والی نودیپ کور کی بہن راجویر کور کا۔ ہریانہ کے ضلع سونی پت سے تعلق رکھنے والیراجویر کی بہن نودیپ کور پچھلے کئی دنوں سے جیل میں ہیں۔

سماجی کارکن نودیپ کور پچھلے کچھ عرصے سے کنڈلی صنعتی علاقے (کے آئی اے) میں کام کرنے والے مہاجر مزدوروں کے واجبات کی ادائیگی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔

ہریانہ پولیس نے بارہ جنوری کو انڈین پینل کوڈ کی مختلف دفعات کے تحت ان کے خلاف مقدمہ درج کیا۔

نودیپ کور پر مبینہ طور پر دھمکی دے کر پیسے وصول کرنے کا الزام لگایا گیا ہے اور ان پر انھیں ایسا کرنے سے روکنے والے پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے کا بھی الزام ہے۔

وہیں دوسری طرف نودیپ کور کے خاندان والے ان الزامات کو غلط قرار دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ نودیپ کور کی گرفتاری کے خلاف دنیا بھر میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

5000 روپے کے لیے مزدور کو زندہ جلانے کا واقعہ، وجہ کیا جبری مزدوری بنی؟

’قسم کھائی ہے، کبھی دلی واپس نہیں جائیں گے‘

کیا لال قلعہ واقعہ انڈین کسانوں کی تحریک کو کمزور کرنے کا باعث بنے گا؟

انڈیا ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی نودیپ کور کی گرفتاری پر لوگ سوال اٹھا رہے ہیں۔

امریکی نائب صدر کملا ہیرس کی بھتیجی مینا ہیرس نے سوشل میڈیا پر نودیپ کور کی گرفتاری کے بارے میں سوال اٹھایا۔

مینا ہیرس نے پولیس حراست میں نودیپ کور کے ساتھ جسمانی اور جنسی زیادتی کے بارے میں ٹویٹ کیا۔

https://twitter.com/meenaharris/status/1357769238954479616?s=20

وہیں برطانیہ کے رکن پارلیمان تنمنجیت سنگھ نے بھی نودیپ کور کے بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے ان کی گرفتاری پر تنقید کی ہے۔

https://twitter.com/TanDhesi/status/1359264714463805441?s=20

خاندانی پس منظر

نودیپ کور کا تعلق پنجاب کے مکتسر صاحب ضلع میں گندھار گاوں سے ہے۔ ایک دلت خاندان میں پیدا ہونے والی نودیپ کور نے بارہویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے، جس کے بعد وہ دلی یونیورسٹی سے گریجویشن کرنا چاہتی ہیں۔

ان کی بہن راجویر کور دلی یونیورسٹی سے پاکستانی پنجاب کے شاعری ادب پر پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔

اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں بات کرتے ہوئے راجویر کور نے بتایا، ’ہم لوگ ایسے خاندان سے ہیں جہاں گنے چنے بچے ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کر پاتے ہیں کیونکہ انھیں روٹی کی زیادہ فکر ہوتی ہے۔ اس کے باوجود بھی ہم لوگوں نے روٹی کمانے کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ پڑھائی جاری رکھی۔ یہ جدو جہد اب بھی جاری ہے۔‘

راجویر کور نے بتایا کہ ان کی چار بہنیں ہیں اور دو بھائی ہیں۔ ان کے والد جنوبی ریاست تیلنگانہ کی ایک فیکٹری میں کام کرتے ہیں جبکہ ان کی والدہ گاوں میں کھیتوں میں مزدوری کرتی ہیں۔

انڈیا

نودیپ کور کی بہن راجویر کور دلی یونیورسٹی سے پاکستانی پنجاب کے شاعری ادب پر پی ایچ ڈی کر رہی ہیں

راجویر کور کے مطابق دونوں بہنیں کافی عرصے سے دلی میں مقیم ہیں۔ نودیپ کور ایک فیکٹری میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ مزدوروں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔

دلی آنے سے پہلے نودیپ پنجاب میں زرعی مزدوروں کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم سے جڑی تھیں۔

راجویر کور کے مطابق ان کے والدین نے مزدوری کر کے بھائی بہنوں کو پالا ہے۔ ساتھ ہی نودیپ کور نے کام کر کے اپنی تعلیم کا خرچہ اٹھایا۔

راجویر کور کے مطابق کھیتوں میں محنت مزدوری کر کے کچھ پیسے بچا کر دونوں بہنوں نے بارہویں تک کی پڑھائی پوری کی اور اس کے بعد کام کرنے کے لیے دلی چلی گئیں۔

راجویر کور نے کہا ہے کہ ’ذات کی بنیاد پر تفریق اور معاشرتی غفلت ہم لوگ بچپن سے ہی جھیلتے آ رہے ہیں۔ اس وجہ سے ہم لوگ گھبرائے نہیں ہیں۔ گاوں میں ابھی بھی ہمارا کچا گھر ہے۔ ماں اب بھی کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔‘

راجویر کور نے یہ بھی بتایا کہ ان کا پورا خاندان نودیپ کے ساتھ ہے۔

نودیپ کور جیل میں کیوں ہیں؟

راجویر کور کا کہنا ہے کہ ان کی بہن نودیپ کور کنڈلی صنعتی علاقے (کے آئی اے) میں مزدور کے طور پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ مہاجر مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہیں۔

نودیپ کور مزدوروں کے حقوق کی تنظیم مزدور ادھکار سنگٹھن کی رکن ہیں اور بقایا واجبات کی ادائیگی سے انکار کرنے والے صنعتی یونٹس کے سامنے دھرنے منعقد کرنے میں بھی فعال تھیں۔

راجویر کور نے کہا کہ جب نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا سنگھو سرحد پر دھرنا شروع ہوا تو صنعتی یونٹ کے مزدوروں نے بھی کسانوں کا ساتھ دیا۔

راجویر کور کہتی ہیں ’میری بہن کو کسان تحریک کی حمایت کرنے کی وجہ سے نوکری سے نکال دیا گیا۔‘

نودیپ کور پر پولیس کارروائی کے بارے میں راجویر کور نے بتایا کہ ’مقامی پولیس نے کنڈلی انڈسٹریل ایریا میں واجبات کی وصولی کے بارے میں کسی بھی دھرنے کو روکنے کے لیے ایک کیوک ریسپانس (فوری ردعمل) ٹیم بنائی۔ 28 دسمبر کو مزدور ادھیکار سنگٹھن جب اپنے مطالبات کے سلسلے میں دھرنے کا انعقاد کر رہا تھا تب کیویک ریسپانس ٹیم نے دھرنے پر بیٹھے لوگوں پر حملہ کر دیا اور مظاہرین کو منتشر کر دیا۔‘

’کؤیک ریسپانس ٹیم کے ارکان کی کارروائی کی شکایت سونی پت کے ایس پی سے کی گئی لیکن ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔‘

راجویر کور کے مطابق 12 جنوری کو نودیپ کور کنڈلی انڈسٹرئیل ایریا میں مزدور ادھیکار سنگٹھن کے دیگر ارکان کے ساتھ دھرنے پر بیٹھی تھیں، تب پولیس نے آ کر احتجاج کے مقام سے انھیں گرفتار کر لیا۔

راجویر کور نے الزام لگایا، ’نودیپ کو صرف مرد پولیس اہلکار اٹھا کر لے گئے۔ حراست میں بھی اسے مرد پولیس اہلکاروں نے مارا پیٹا ہے۔‘

راجویر کور نے یہ بھی بتایا کہ نودیپ فی الحال کرنال جیل میں بند ہیں۔

راجویر کور کے مطابق ان کی بہن کے لیے دنیا بھر کے لوگوں نے آواز اٹھائی ہے۔ ’یہ ایک اچھی بات ہے کیونکہ ابھی بھی جیل میں بہت بڑی تعداد میں لوگ بند ہیں جن کی قانونی مدد کرنے والا کوئی نہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ انھیں ابھی تک نودیپ کے خلاف درج کی جانے والی ایف آئی آر کی کاپی اور ان کی میڈیکل رپورٹ نہیں ملی ہے۔

وہیں دوسری طرف سونی پت پولیس نے نودیپ کور کے معاملے میں اپنا مؤقف بھی سامنے رکھا ہے۔

سونی پت پولیس کے ایس پی جشن دیپ سنگھ رندھاوا کے مطابق نودیپ کور کو تب گرفتار کیا گیا جب انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک فیکٹری کو گھیر لیا تھا اور پولیس کے وہاں پہنچنے پر ان پر حملہ کر دیا تھا، جس میں کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

انھوں نے کہا ’نودیپ کور کو اسی وقت گرفتار کیا گیا تھا۔ انھیں اسی دن مقامی عدالت میں پیش کر دیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ کسی طرح کی بدسلوکی اور مارپیٹ نہیں ہوئی تھی۔‘

اس معاملے کی میڈیا کوریج کے بعد پنجاب راج شیڈیولڈ کاسٹ کمیشن نے از خود نوٹس لیتے ہوئے ریاست کے محکمہ داخلہ کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری سے اس بارے میں مداخلت کی اپیل کی ہے تاکہ نودیپ کور کو جلد سے جلد مدد مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp