آزادی انسان کا علمبردار: تھامس پین


Tom Paine at Burnham Park, Morristown, NJ

امریکہ کی جدوجہد آزادی ختم ہوئی تو آزاد ملک میں تھامس پین کا رتبہ مسلم ہو چکا تھا۔ وہ چاہتا تو اپنی جدوجہد کے صلے میں ایک آرام دہ اور پر تکلف زندگی بسر کرتا۔ جدھر سے نکلتا، سلام کو ہاتھ اٹھے ہوتے۔ اس کے بستر مرگ پر پادریوں، جرنیلوں اور سیاستدانوں کا جمگھٹا ہوتا۔ اس کی قبر پر توپوں کی سلامی دی جاتی لیکن اس نے نام نہاد اعزاز کی یہ مالا پہننے کی بجائے انسانوں اور سچائی کی خدمت جاری رکھی۔

خرد پسندی اور روشن خیالی کی روشنی پورے یورپ میں پھیل رہی تھی۔ اٹھارہویں صدی میں انسانیت ترقی کی نئی منزلیں طے کر رہی تھی، صدیوں سے سوچنے سمجھنے والوں نے بڑی قربانیاں دے کر جو بیج بوئے تھے ان پر برگ و بار آ رہا تھا۔ یورپ میں والٹیر اور اس کے ساتھیوں کے انتھک کام سے اوہام اور جہالت کے پردے چاک ہو رہے تھے۔ لوگوں نے سوچنا شروع کر دیا تھا اور کلیسا کی بنیادیں لرز رہی تھیں۔ آزادی کا نعرہ چہار سو گونج رہا تھا معجزوں کے انتظار میں بے سدھ، پڑے خاک بسر لوگ اٹھ رہے تھے اور اپنی پیشانیوں پر لگی دھول جھاڑ رہے تھے۔ ایسے میں تھامس پین کیونکر خاموش رہتا۔ وہ کشاں کشاں فرانس پہنچ گیا اور اپنی تمام تر توانائیاں انقلاب فرانس میں جھونک دیں۔ بنی نوع انسان کے عظیم اور سچے دوست کی حیثیت سے اس کی شہرت اس سے پہلے فرانس پہنچ چکی تھی۔ وہ مطلق العنان حکومت کا سخت مخالف اور جمہوریت کا متوالا تھا۔ یہاں اس نے اپنی بہترین تصنیف ”انسان کے حقوق“ کے ذریعے مطلق العنان کے نقائص اور خامیوں کی نشاندہی کی۔ یہ ایک مختصر سی کتاب ہے جس کا طرز تحریر فطری ہے، جس کے دلائل زور دار ہیں اور جس کی منطق لاجواب۔ ہر مرد اور عورت کو یہ چھوٹی سی کتاب ضرور پڑھ لینی چاہیے۔ اس کتاب میں تھامس پین نے مختلف حکومتی نظاموں، انسانی اعمال اور انسانی احترام کے سر چشموں پر پر مغز بحث کی ہے۔ انتہائی پیچیدہ سیاسی مباحث کو چند جملوں میں سمیٹ کے رکھ دیا ہے۔ نثر کی توانائی، بیان کی سلامت اور انسانیت سے پیار، اس تحریر کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ دنیا میں مقتدر لوگوں نے نا انصافی اور استحصال کے حق میں جو دلائل گھڑے ہیں، تھامس پین ایک ایک کر کے انہیں اٹھاتا اور بڑے بے دھڑک انداز میں انہیں بیان کرتا چلا جاتا ہے۔ ان دلائل میں غبارے کی طرح ہوا بھر کے تھامس پین ایک معصوم سے سوال کی سوئی چبھوتا ہے۔ اور جھوٹ کا طومار بھک سے فتیلہ چاٹ جاتا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا۔ یہ کتاب اس شخص نے لکھی تھی جس کا کہنا تھا ”ساری دنیا میرا گھر ہے اور انسانوں کی بہتری کے لیے کام کرنا میرا مذہب ہے۔“

1972 ءمیں فرانس کے رہنے والوں نے تھامس پین کو بیک وقت چار حلقوں سے قومی اسمبلی میں اپنی نمائندگی کے لئے منتخب کیا۔ قومی اسمبلی میں اسے فرانسیسی آئین کا مسودہ مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اگر انقلاب فرانس کے جوشیلے راہنماؤں نے تھامس پین کی رائے کا مسودہ مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اگر انقلاب فرانس کے جوشیلے راہنماؤں نے تھامس پین کی رائے پر کان دھرا ہوتا تو پیرس کی گلیوں میں لہو کا سیلاب نہ آتا۔ انقلاب فرانس بے مقصد مار دھاڑ کی نذر نہ ہوتا۔ شاید انقلاب فرانس نسل انسانی اہم ترین کامیابی قرار پاتا۔ مگر تھامس پین کے خیالات میں ضبط اور اصول پسندی کو دخل تھا اور انقلاب فرانس کے رہنما اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کے پرخچے اڑانے کے جنون میں مبتلا ہو چکے تھے۔ فرانس پر مطلق العنان بادشاہت نےصدیوں تک ایسے ظلم ڈھائے تھے کہ انقلاب فرانس میں تعمیر کی بجائے تخریب اور انصاف کی جگہ انتقام غالب آیا۔ تھامس پین سچا انسان دوست تھا۔ اسے مطلق العنان نظما حکومت سے بیر تھا۔ وہ کسی فرد کی موت میں ماضی کی نا انصافیوں کا ازالہ نہیں چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ماضی کو بھلا کر ایک نیا سماج تعمیر کیا جائے جس میں تمام شہریوں کو یکساں تحفظ حاصل ہو اور کسی کو خصوصی مراعات نہ ملیں۔ انقلابی اسمبلی میں ہر طرف بادشاہ سے انتقام کا غلغلہ تھا۔ انتقام کا جوار بھاٹا اس سطح کو چھو رہا تھا کہ اس پر جوش اکثریت سے اختلاف کا مطلب خود اپنی موت کو دعوت دینا تھا۔ لیکن تھامس پین میں انصاف کی تڑپ جتنی شدید تھی اس کی جرات بھی اتنی ہی بلند تھی۔ اس نے بادشاہ کو سزائے موت دینے کے خلاف ووٹ دیا۔ اس اصول پسندی انقلابیوں نے اسے گرفتار کر کے موت کی سزا سنا دی۔

انسانی تاریخ میں تھامس پین کی بے لوث اصول پسندی کی مثال مشکل سے ملے گی۔ وہ بادشاہت کا دشمن تھا۔ اسے مطلق العنانی سے نفرت تھی۔ وہ انسانی حقوق کا علمبردار تھا اور وہ ایک ایسے شخص کی جان بچانے کے لیے اپنی جان قربان کر نے کے لیے تیار تھا جس نے برس ہا برس تک فرانسیسی عوام پر ظلم ڈھائے اور جو ایک انقلاب کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہو کر قید خانے کی تنگ و تاریک کوٹھری میں پڑا تھا۔ یہ واقعہ تھامس پین کی سیاسی زندگی کی نقطہ عروج تھا۔ تھامس پین نے زندگی بھر انسانوں کی بہتری کے لیے جدوجہد کی تھی۔ اسے نہ دولت کی طلب تھی اور نہ ہی شہرت کی بھوک۔ اس نے اپنی خدمات کا صلہ نہیں مانگا، کسی عہدے کا تقاضا نہیں کیا۔ وہ تو انسانی آزادی اور ترقی کے قافلے میں ایک عام سپاہی کے طور پر پیش قدمی ہی کو اپنی معراج سمجھتا تھا۔ وہ اپنے وطن سے دور تھا اور اس غریب الوطنی میں ایک دھتکارے ہوئے شخص کے لیے اصولوں کی بنیاد پر اس کی حمایت کا یہ عالم تھا کہ وہ موت کے دہانے پر پہنچ گیا۔ اس نے جن انسانوں کے لئے اچھے کل کا خواب بننے میں عمر بتائی تھی انہی لوگوں نے موقع ملتے ہی اسے قید میں ڈال دیا۔ اگر اس کے مخالفین سے موت کی سزا دینے میں کامیاب ہو جاتے تو تھامس پین کا سفر ختم ہو جاتا۔ مگر وہ بچ نکلا۔ ابھی ایک معرکہ اور باقی تھا۔

اب تک اس نے بادشاہوں کی جبروت کو للکارا تھا لیکن اسے معلوم تھا کہ ہر آڑے وقت میں تاج شاہی کو منبر کے پیچھے پناہ ملتی رہی تھی۔ مذہبی پیشواؤں نے ہمیشہ حکمرانوں کی ہر زیادتی کو جواز فراہم کیا تھا۔ بادشاہت ختم ہونے کا مطلب یہ تھا کہ انسانوں کے جسم پر عائد مطلق العنانیت کی زنگ آلود بیڑیاں ٹوٹ چکی تھیں مگر ان کے ذہن ابھی تک پابجولاں تھے۔ تھامس پین نے گرجا گھر کی تقدس ماب دیواروں کے پیچھے جھانکنے کا بیڑہ اٹھایا۔ اس کی تحقیقات کا نتیجہ ”عہد عقل“ نامی کتاب کی صورت میں سامنے آیا۔ اس تصنیف کا منظرعام پر آنا تھا کہ تھامس پین پر چاروں طرف سے گالیوں کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ اس کی تمام تر خدمات کو آناً فاناً فراموش کر دیا گیا۔ اس کے دوست اس سے یوں کترانے لگے جیسے طاعون زدہ چوہے سے نفرت کی جاتی ہے۔ محفلوں میں اس کا نام آتے ہی غم و غصے کی چنگھاڑ فضا میں بلند ہوتی تھی۔ کلیسا کے عہدیداروں کی خوشنودی حاصل کرنے کا آسان طریقہ یہ تھا کہ تھامس پین پر تبرا کیا جائے۔ تھامس پین کے قلم میں ایسی کاٹ تھی کہ بھنائے ہوئے کلیسا نے اسے موت کے بعد بھی نہیں بخشا۔ ایک سے زیادہ کتابوں میں اس خیال پر خوشی کا اظہار کیا گیا ہے کہ تھامس پین کو غربت اور پردیس میں موت نصیب ہوئی۔ کلیسا کی زیادتیوں پر انگلی اٹھانا اتنا بڑا جرم قرار پایا کہ کسی کو تھامس پین کی دیانت داری پر داد دینے کی توفیق تک نہیں ہوئی۔ بنی نوع انسان کی آزادی کے لیے جو صعوبتیں تھامس پین نے برداشت کیں انہیں بیک جنبش قلم فراموش کر دیا گیا۔ اس کی اصول پسندی کسی کو یاد رہی نہ انسانی حقوق کے لئے اس کا جوش و جذبہ کسی کام آیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments