نونہالانِ عصر حاضر کی چیدہ چیدہ اقسام


ویسے تو پطرس بخاری کا بچوں کے حوالے سے ایک مضمون اردو ادب میں موجود ہے، جس میں نہایت جامع انداز میں بچوں کی اقسام، عادات و اطوار، اور ہمسایوں پہ اس کے اثرات تفصیلی طور پر بیان کیے گئے ہیں اور اس کے بعد اس موضوع پہ مزید لکھنے کی گنجائش نہیں لیکن بخاری صاحب کی روح سے پیشگی معذرت کے ساتھ میں اس موضوع پہ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں کیونکہ معروضی حالات بدل چکے ہیں اور بچوں کی کئی نئی اقسام وجود میں آ چکی ہیں، ان پر کچھ نہ کچھ لکھنا بنتا ہے۔ باری باری ہم ان مختلف اقسام پہ روشنی ڈالتے جائیں گے ، اگر کسی قسم کا کوئی بچہ رہ جائے تو لیفٹ آؤٹ محسوس نہ کرے اور اگلے مضمون کا انتظار کرے۔

بلیک میلر بچے

جب کووڈ 19 وبا کی وجہ سے تمام بچے گھروں کے ہو کر رہ گئے ہیں اور سکول کئی ماہ بند رہے، تو بچے وہ اودھم بلکہ کہرام مچاتے رہے گھروں میں کہ الامان و الحفیظ۔ اس کے پیش نظر میں نے اور میری ”بہتر نصف“ (Better half) نے فیصلہ کیا کی صبح کو بیٹی کو وہ پڑھائے گی اور شام کو میں۔ جب شام میں، میں نے اپنی بیٹی کو پڑھنے کے لئے بلایا تو اس نے ٹال مٹول سے کام لیا لیکن جب اسے اندازہ ہوا کہ میں ٹلنے والا نہیں تو چار و ناچار بستہ لے کر بیٹھ گئی۔

میں نے اسے ABC کی مشق کروانا تھی۔ میں نے اسے A لکھ کر دکھایا اور میں سمجھ رہا تھا کہ اب وہ خود لکھے گی لیکن ردعمل ندارد۔ میں نے پھر اسے لکھنے پہ مائل کیا پر نتیجہ صفر۔ ایک اور کوشش کی ، اسے لکھنے کی طرف راغب کیا پر ڈھاک کے وہی تین پات۔ میرا حوصلہ جواب دے گیا تو میں نے اسے ڈانٹا اور پھر اس نے جذباتی پتا کھیلا اور روہانسا سا منہ بنا کر کہا کہ ”میری ماما مجھے پیار کرتی ہے لیکن تم نہیں“ ۔ اگلے روز جب میں دفتر جا رہا تھا تو میری بیگم اسے صبح میں پڑھا رہی تھی اور اس کا حوصلہ جب جواب دینے لگا تو اس نے جب ڈانٹنا شروع کیا تو میرے کانوں میں یہ آواز پڑی ”میرے بابا مجھ سے پیار کرتے ہیں لیکن تم نہیں“ تو ایسے ہوتے ہیں بلیک میلر بچے۔

میسنے بچے 

یہ وہ بچے ہیں جو ہوتے کچھ اور نظر آتے کچھ ہیں۔ یہ بچوں کی وہ قسم ہے جو آپ کو ہر دور، ہر جگہ، یہاں تک کہ اپنے گھر میں بھی ملے گی۔ سب بہن بھائیوں میں ایک بہن یا بھائی نہایت ”میسنا“ ہوتا ہے یا ہوتی ہے۔ یہ میسنا بچہ خود کو ماحول کے مطابق ڈھال لیتا ہے، جس کی وجہ سے ماں باپ، اساتذہ، محلے دار، اعزہ و اقارب اسے باقیوں کی نسبت اچھا سمجھتے اور بہتر گردانتے ہیں۔ گو کہ میں ”میسنا“ کہلوانا پسند نہیں کرتا لیکن پھر بھی میرے بارے میں میرے بہن بھائیوں کے یہی تأثرات ہیں اور میں نے کبھی اس بات پہ غرور بھی نہیں کیا۔

لاپروا بچے 

سورج مغرب سے نکلے یا بھینس انڈے دینا شروع کر دے، زلزلہ، آندھی یا طوفان آئے ان بچوں نے کبھی پروا نہیں کی۔ جو ان کے جی میں آیا بس کر گزریں گے۔ اس قسم کا ایک بچہ بہن بھائیوں میں ضرور ہوتا ہے۔ اسے نہیں پروا کہ کوئی اس کے بارے میں کیا سوچ رہا ہے ، بس وہ اپنے من میں مست ہے اور اپنی لگن میں مگن ہے۔

اگر تمام ممالک کو بچے تصور کر لیں اور ان میں سے لا پروا بچے کو چننا ہو تو ”سب سے پہلے پاکستان“ کا نام ذہن میں آتا ہے۔ ویسے جو ”سب سے پہلے پاکستان“ نعرے کا خالق ہے ، اس کا شمار بھی ایسے ہی لا پروا بچوں میں ہوتا ہے۔

سچے بچے 

یہ نونہالان کی وہ قسم ہے جن کو پتا ہی نہیں کہ دنیا میں جھوٹ بھی بولا جا سکتا ہے اور اس کے فوائد کیا کیا ہیں۔ ایسا شاہکار بھی آپ کو سب سے پہلے اپنے بہن بھائیوں، نہیں تو کزنوں میں تو ضرور ہی مل جائے گا۔ ایسا بچہ ماں باپ کے لئے مخبر کا کام کرتا ہے۔ بہن بھائیوں کی اگر کوئی ’حرام توپیاں‘ چل رہی ہوں تو والدین اس بچے کو بلا کر سارے راز اگلوا لیتے ہیں۔ ایسا بچہ جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتا، بس اس کی فطرت میں ہی نہیں ہوتا جھوٹ بولنا تو وہ کیا کرے۔

پیٹ کے کچے اور پکے بچے

جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ پیٹ کا کچا بچہ کیا کام کرتا ہو گا۔ تو بس ایسے بچے کو کوئی بات پتا چلنے کی دیر ہے، ایسا مروڑ اسے اٹھے گا جو اسے تب تک آرام سے بیٹھنے نہیں دے گا جب تک کہ وہ یہ بات کسی اور کو آگے بتا نہ دے اور ساتھ یہ بھی کہہ دے گا یا دے گی کہ میں نے بہت اعتماد کر کے تمہیں بتایا ہے بس تم نے آگے نہیں بتانا۔ اس کے بعد اگلا بچہ پہلے اپنے دوست سے حلف لے گا کہ اگر تم آگے کسی کو نہ بتاؤ تو تمہیں ایک بات بتاؤں؟ مارے تجسس کہ وہ وعدہ کر لیتا ہے اور یوں پیٹ کا کچا بچہ ہلکا ہو جاتا ہے اور حلف برداری کا نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد آتے ہیں پیٹ کے پکے بچے۔ یہ بہت ہی نایاب قسم ہے بچوں کی۔ پورے پاکستان میں 22 کروڑ کی آبادی میں آپ کو 20 سے زیادہ ایسے سچے بچے نہیں ملیں گے۔ ان بچوں کو آپ کچھ لالچ دے کر دیکھ لیں، دھونس، دھمکی دے کر دیکھ لیں، یہ آپ کو راز کی بات نہیں بتائیں گے۔

برگر بچے

ان بچوں کے پاپا اکثر abroad ہوتے ہیں، ان کا فیورٹ ہیرو Johnny Depp ہو گا، اکثر Harry Potter سیریز کے کردار کلاس میں ڈسکس کرتے ہوں گے اور ان کی ماما اکثر و بیشتر 36 چک، چیچہ وطنی کی نکلتی ہیں۔ ساگ، مکھن، لسی، کلچہ یہ نام تو انہوں نے کبھی سنے ہی نہیں ہوتے، بقول ان کے Accent والی انگریزی بولتے ہیں، مادری زبان اور اس کے لہجے کو جس حد تک ممکن ہو، چھپاتے ہیں۔ ان تک پہنچتے پہنچتے امی، ممی بن گئی اور ابو ڈیڈی بن گئے۔خالہ، پھوپھی، تائی آنٹ بن گئی اور تایا، ماموں اور چچا انکل بن گئے اور بھائی Bro بن گیا۔ السلام علیکم یا سلام ان کا Supp بن گیا اور ہنسنا ان کا Lol اور ROFL بن گیا۔ ابھی واپس آتا ہوں، ان کا BRB بن گیا۔ اور وہ تعارف اس طرح کرواتے ہیں ”یہ ہماری کارر ہے، یہ میں ہوں، اور یہ ہماری پارری (پارٹی ) ہو رہی ہے“

ضدی بچے

جیسے کچھ جراثیم اینٹی بائیوٹکس کے خلاف قوت مزاحمت پیدا کر لیتے ہیں، اسی طرح کچھ بچے ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ، لعنت پھٹکار اور مار کے باوجود بھی ضدی ہو جاتے ہیں۔ یہ ضدی بچے اکثر ایبٹ آباد چلے جاتے ہیں اور آگے میرا دماغ کام نہیں کر رہا۔ ان بچوں کی اکثریت عسکریت سے لیس ہوتی ہے اور فوج میں جانا پسند کرتی ہے۔

ایسے بچے اوائل عمری سے ہی آمر مطلق ہوتے ہیں اور ہم ان کے خداداد غلام، جو ان کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ وہ بھی آپ کا کہا مانیں۔ اور اگر آپ جرأت کر کے سختی کر بھی لیں تو وہ راگ درباری چھڑتا ہے کہ آپ کو ایک مشہور کرکٹر کی طرح یو ٹرن لینے میں ہی عافیت نظر آتی ہے۔

میلینئل کڈز/ ہزاری بچے

ہزاری بچے وہ بچے ہیں جو سن 2000 یا اس کے بعد پیدا ہوئے نئی ہزاری یا نیو میلینئم Millennium میں، تو اسی مناسبت سے ہم انہیں ہزاری اطفال یا ہزاری بچے کہہ سکتے ہیں۔ یہ بچے نت نئی ٹیکنالوجی میں بہت ماہر ہیں۔ smileys ان کے جذبات کی عکاسی کرتی ہیں، پرائیویسی (privacy) کی شدید بیماری لاحق ہے ان کو۔ Giphys & memes ان کی دوسری زبان ہے۔

جیسے گلدستے میں ہر رنگ کا پھول ہوتا ہے ، ایسے ہی بچوں کی یہ تمام اقسام بھی ایک گلدستے کی مانند ہیں۔ یہ تنوع ہی گلدستےکی خوبصورتی بڑھاتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں حوصلہ دے کہ ہم ان سب اقسام بچوں کی صحیح معنوں میں تربیت کر سکیں تاکہ کل کو یہ اس ملک کے کار آمد شہری بن سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments