شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ قید سی آئی ڈی کے جاسوس راجہ انار خان کی یادداشتیں


اس بڑے ٹینک کو آرمی کے ٹرالے میں لاد کر لانے کے لیے کافی تگ و دو کرنی پڑی۔ دو بڑی کرینیں استعمال کی گئیں تھیں۔ ایک کرین کی مدد سے ٹینک کی بیرل کو آگے سے اٹھایا گیا۔ نیچے لکڑی کے بڑے ریڑھے رکھے گئے جبکہ پیچھے سے ایک دوسرے ٹینک کے ذریعے شرمن کو دھکا لگایا گیا۔

اب جس سڑک کے ذریعے اسے لا رہے تھے اس کی حالت کوئی اتنی اچھی نہیں تھی۔ چھمب سے کھاریاں کینٹ واپس آتے ہوئے خراب سڑک اور ٹینک کے زیادہ وزن کی وجہ سے ٹرالے کے دو ٹائر پھٹ گئے۔ اتنے بڑے سائز کے ٹائر فوری طور پر ملنے بڑا مشکل کام تھا ہم نے بڑی کوشش کر کے مقامی ریڑھوں سے ٹائر اتروا کر ٹرالے کو لگوائے اور جوں توں کر کے دن کے چلے شام تک ہم یہ شرمن ٹینک لے کر کھاریاں کینٹ پہنچے۔

آرمی کی دو مربعے زمین پر قبضہ میں نے چھڑوا کر دیا

تھانہ کھاریاں کینٹ میں بطور ایس ایچ او کام کرتے ہوئے آرمی کے متعلقہ افسران سے ایک اچھی ورکنگ ریلیشن شپ بن گئی تھی۔ انہی میں لیفٹیننٹ جنرل رانا بختیار کے علاوہ میجر چوہدری محمد حسین بھی تھے۔ محمد حسین صاحب ایک دن کہنے لگے کہ کھاریاں کینٹ کے سامنے آرمی کی دو مربعے زمین لیز پر دی گئی تھی۔ اب لیز کی میعاد ختم ہوئے بھی کافی عرصہ گزر چکا ہے۔ جنھیں زمین دی گئی تھی وہ زمین پر قابض ہو گئے ہیں۔ ہم انہیں نوٹس وغیرہ دینے کے سارے قانونی تقاضے پورے کر چکے ہیں۔ مگر زمین کی واپسی کی کوئی کوشش کارگر ثابت نہیں ہو رہی۔

وجہ یہی معلوم ہوئی کہ زمین پر قابضین ڈپٹی اسپیکر چوہدری فضل الہی کے قریبی عزیز ہیں۔ چوہدری فضل الہی خود تو شریف آدمی تھے۔ مگر شاید اپنے عزیزوں کے آگے بے بس تھے۔ جو فوج کی زمین لیز پر لینے کے بعد اب اسے واپس کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ اس دو مربع زمین کے اندر انہوں نے کئی مقامات پر کچے پکے ڈیرے بھی بنا رکھے تھے۔

میجر چوہدری محمد حسین نے مجھے ذاتی طور پر کہا کہ آپ اس معاملے کو سلجھانے میں ہماری مدد کریں۔ میں نے جب اس سلسلے میں متعلقہ قابضین سے رابطہ کیا اور انہیں کہا کہ وہ فوج کی زمین پر اپنا قبضہ چھوڑ دیں۔ مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اس پر میں نے میجر محمد حسین سے کہا کہ اگر مجھے پولیس کی کچھ اور نفری مل جائے تو مسئلہ حل کروا دوں گا۔

انہوں نے فوری طور پر ایس پی گجرات سے بات کی۔ گوناگوں خوبیوں کے مالک ارباب ہدایت اللہ خاں ان دنوں گجرات میں ایس پی تعینات تھے۔ ارباب صاحب نے اضافی نفری کھاریاں بھیجنے کے لیے احکامات جاری کیے۔ دوسرے دن کوئی بیس پچیس کے قریب پولیس کے جوان ہمارے پاس پہنچ گئے۔ کوئی دس سے پندرہ ہمارے پاس تھے۔ اس طرح تیس پینتیس کے قریب پولیس کی نفری میری قیادت میں قابضین کے ڈیرے پر پہنچ گئی۔

پہلے انہیں وارننگ دی کہ وہ اپنا قبضہ ختم کر دیں۔ جب وہ راضی نہ ہوئے تو ہم نے انہیں سنبھلنے کا موقع دیے بغیر ایکشن کرتے ہوئے ان کے مویشیوں کو کھونٹوں سے کھول دیا اور ان کا سامان کمروں سے باہر نکال کر بلڈوزر کے ساتھ ڈیرہ گرانا شروع کر دیا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے ساری زمین میں قائم ڈیرے گرا کر زمین ہموار کر دی۔ اور زمین کا قبضہ آرمی کے حوالے کر دیا۔

قبضہ گروپ کے پاس اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اپنا سامان اور مال مویشی سمیٹ کر نکل جائیں۔ اس طرح کتنے ہی عرصے سے لٹکا یہ معاملہ پرامن حل پر انجام پذیر ہو گیا۔

جب میں نے اپنے ایس پی کو تھپڑ دے مارا

نومبر 1965 میں ارباب ہدایت اللہ گجرات سے تبدیل ہو گئے اور ان کی جگہ سردار وکیل خاں گجرات میں آ کر ایس پی لگے۔ ارباب ہدایت اللہ خاں نے ٹرانسفر ہونے سے پہلے ایک دن مجھے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ ”جنگ چونکہ اب ختم ہو چکی ہے۔ تھانہ کھاریاں کینٹ میں اب تمہارے کرنے کا کوئی خاص کام نہیں ہے۔ میں تمہارا تبادلہ تھانہ پھالیہ میں بطور ایس ایچ او کر دیتا ہوں اور تمہارے ساتھ ایک سب انسپکٹر اٹیچ کر دوں گا۔ جو تھانے کا سارا کام کرے گا۔ تم صرف نگرانی کرنا۔ اس طرح تم کچھ ماہ ریسٹ کر لو گے۔ اس وقت کے حالات کے مطابق یہ غیر معمولی بات سمجھی جاتی تھی کہ ایک ہی تھانے میں بیک وقت دو سب انسپکٹر تعینات ہوں۔

اس طرح انہوں نے میرا تبادلہ پھالیہ کر دیا۔ بعد ازاں میں تھانہ پاہڑانوالی میں بھی میں ایس ایچ او تعینات رہا۔ پاہڑانوالی تھانے میں ان دنوں بجلی نہیں تھی۔ ہم بغیر بجلی کے لالٹینیں یا پھر گیسی لیمپ جلا کر کام چلاتے تھے۔

میں نے ذاتی طور پر کوششیں کر کے تھانے میں بجلی کا کنکشن لگوایا۔ اس سے قبل تھانہ اس کے ساتھ ملحقہ مسجد اور سٹاف کی رہائش گاہوں میں بجلی کی نئی وائرنگ کروائی گئی۔ بغیر بجلی کے کام کرنے اور اس کے بغیر رہنے والوں کے لیے ان دنوں یہ بہت بڑی بات تھی۔ تھانہ، مسجد اور تھانے کے سٹاف کی رہائش گاہیں رات کے وقت بجلی کے قمقمے لگنے کے باعث روشنی سے جگمگ جگمگ کرتیں نظر آتیں۔ ایسے میں ایک دن اطلاع آئی کہ نئے تعینات ہونے والے ایس پی گجرات سردار وکیل خاں آج کسی وقت ہمارے تھانے کے معائنے کے لیے آئیں گے۔ وہ جب تھانے پہنچے تو شام گہری ہو رہی تھی اور اندھیرا پھیلنا شروع ہو گیا تھا۔

اسی اثناء میں بدقسمتی سے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اچانک بجلی چلی گئی۔ اور تھانے میں اندھیرا چھا گیا۔ افراتفری میں تھانے میں موجود لال ٹینیں اور گیسی لیمپ جلائے گئے۔ تاہم اسی دوران ایس پی صاحب کا موڈ خراب ہو گیا۔ وہ اپنی آمد کے فوراً بعد اس طرح اچانک بجلی کے چلے جانے کا براہ راست ذمہ دار مجھے قرار دے رہے تھے۔ اور اس امر کا اظہار سارے تھانے کے سامنے کر رہے تھے کہ میں (راجہ انار خاں ) نے اس لیے بجلی بند کروائی ہے تاکہ ایس پی تھانے کا معائنہ نہ کر سکیں۔

اور اس طرح کرنے سے میری کمزوریاں اور کوتاہیاں اندھیرا ہونے کی وجہ سے چھپی رہیں گی۔ ان کا صاف کہنا تھا کہ میں نے جان بوجھ کر بجلی بند کروائی ہے۔

راجہ انار خاں کا کہنا تھا کہ میں نے ایس پی صاحب کو تکریم کے دائرے میں رہتے ہوئے بتانے کی کوشش کی کہ یہ محض اتفاقاً ایسا ہوا ہے۔ کسی نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔ مگر ایس پی سردار وکیل خاں میرے وضاحت کرنے پر مزید طیش میں آ گئے۔ اور میری بات کے بیچ میں ہی بول پڑے ”او توں بوہتی بک بک نہ کر ، چپ رہ“ ۔ سب کے سامنے ان کا اس طرح کا انداز گفتگو اور خصوصاً ”بک بک نہ کر “ کہنے پر میرا ماتھا گھوم گیا۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، آگے بڑھ کر پورے زور سے ایس پی صاحب کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ مار دیا۔

تھپڑ لگنے سے ان کی ٹوپی زمین پر گر گئی۔ ارد گرد ان کے سٹاف اور تھانے کے کھڑے لوگ سکتے میں آ گئے۔ موقع پر موجود کوئی بھی شخص مجھ سے اس قسم کے ردعمل کی توقع ہرگز نہیں کر رہا تھا۔ میری جانب سے اتنے اچانک اور شدید ردعمل سے ایس پی صاحب اس قدر حواس باختہ ہوئے کہ زمین پر گری ہوئی اپنی ٹوپی اور ٹیبل پر رکھی چھڑی وہیں چھوڑ کر اچانک باہر کی جانب بھاگ کھڑے ہوئے اور سیدھے جا کر اپنی جیپ میں بیٹھ گئے۔

میں نے زمین سے ایس پی صاحب کی گری ہوئی ٹوپی اور سٹک اٹھائی اور ان کے پیچھے جیپ کے پاس جا کر پہلے انہیں سیلوٹ کیا۔ اور پھر دونوں چیزیں عزت کے ساتھ ان کے حوالے کیں۔ نہ انہوں نے کسی اشارے سے میرے سیلوٹ کا کوئی جواب دیا اور نہ ہی زبان سے کوئی لفظ نکالا۔ بس ڈرائیور کو تیزی سے چلنے کا اشارہ کیا۔ اشارہ ملتے ہی ڈرائیور نے گاڑی بھگا دی۔ ایس پی صاحب معائنہ ادھورا چھوڑ کر واپس گجرات لوٹ گئے۔

مجھے اب ایس پی صاحب کی جانب سے ان کے جوابی ردعمل کا انتظار تھا۔ میں بغیر کسی خوف کے اپنے آپ کو ذہنی طور پر ہر اقدام کے لیے تیار کر چکا تھا۔ وہ رات گزری اور الصبح چھ بجے ایس پی آفس گجرات سے ایک اہلکار دستی ٹیلی پرنٹر پر آیا پیغام مجھے تھما گیا۔ جس کے مطابق میرے نہ صرف ضلع گجرات سے بلکہ پولیس ریجن سے بدری کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔

ان دنوں ضلع گجرات، ضلع جہلم، اور سرگودھا ضلع، راولپنڈی پولیس ریجن کے ساتھ منسلک تھے۔ ایس پی کی سفارش پر ڈی آئی جی راولپنڈی پولیس نے نہ صرف میرا تبادلہ کر دیا تھا۔ بلکہ اپنے ریجن سے بطور سزا میری خدمات ڈی آئی جی سپیشل برانچ مغربی پاکستان لاہور کے حوالے کر دی تھیں۔ اس طرح پولیس ڈپارٹمنٹ ضلع گجرات میں میرا چھ سالہ قیام 1966 میں اختتام پذیر ہوا۔

سپیشل برانچ آمد

راجہ انار خاں کے بقول اب سپیشل برانچ کی نئی دینا میری منتظر تھی۔ پولیس ڈپارٹمنٹ اور سپیشل برانچ دونوں میں مجموعی طور پر میں نے 39 سال ( 1960۔ 1999 ) سروس کی۔ اور 1999 میں بطور سپرنٹنڈنٹ آف پولیس بیماری کے باعث میں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔

سپیشل برانچ کے انٹیلی جنس افسر کے طور پر راجہ انار خاں شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ میانوالی اور فیصل آباد جیل میں کئی ماہ ان کے ہمراہ رہے۔ وہ اپنی شناخت چھپا کر بطور مشقتی جیل سیل میں اس وقت تک ان سیکورٹی افسر کے طور پر رہے جب تک وہ 1972 ء میں مشرقی پاکستان روانہ نہیں ہو گئے۔

سقوط ڈھاکہ کے چند دنوں بعد شیخ مجیب الرحمٰن کو میانوالی جیل میں قتل کرنے کا ایک منصوبہ بھی بنایا گیا تھا۔ منصوبے کی رو سے شیخ مجیب الرحمن سمیت ان کے سیل میں ان کی حفاظت پر مامور راجہ انار خاں کو بھی قتل کیا جانا شامل تھا۔ جیل کے قیدیوں کی جانب سے شیخ مجیب الرحمٰن کو قتل کرنے کی سازش میں جیل کے عملے کے بعض اہلکار بھی شامل ہو گئے تھے۔ عملے میں سے کسی نے اس سازش کی اطلاع جیل سپرنٹنڈنٹ کو کر دی، جنھوں نے فوری طور پر سپیشل برانچ کو اس سازش سے آگاہ کیا تھا۔ اس کی اطلاع عین وقت پر سپیشل برانچ ہو گئی تھی جس وجہ سے شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کی حفاظت پر مامور راجہ انار خاں اور دیگر افراد کو سیل سے نکال لیا گیا تھا۔

راجہ انار خاں نے بتایا کہ ”سپیشل برانچ اور پاک فوج کے فیلڈ انٹیلی جنس یونٹ (ایف آئی یو) کے ساتھ مل کر ہم نے بھارت سے پاکستان آنے والے کوئی ساڑھے چار سو کے قریب بھارتی جاسوس پکڑے۔ بھارت سے پاکستان داخل ہونے والے زیادہ تر جاسوسوں کو ان دنوں بھارتی ملٹری انٹیلی جنس کا کرنل ہری کرشن بھٹی تیار کر کے بھیجتا تھا۔ امریک سنگھ نامی ایک بھارتی جاسوس بھی ہم نے ایف آئی یو کے ساتھ مل کر پکڑا جو بعد میں ڈبل ایجنٹ بن گیا۔ جس کے ذریعے ہم نے بہت سے دیگر جاسوس پکڑے۔ ان میں سے اکثر کی تفتیش میں نے کی۔ سپیشل برانچ میں مجھے“ جاسوسوں کی تفتیش کا ایکسپرٹ ”مانا جاتا تھا۔

مغربی پاکستان میں اور بعد ازاں پنجاب میں اہم تفتیشی سرگرمیوں کے مرکز شاہی قلعہ لاہور کا میں 1967 تا 1972 سپیشل برانچ کا انچارج بھی رہا۔ بھٹو دور میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کو تفتیش کے لئے شاہی قلعے میں لایا گیا جن پر ملک دشمنی کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس وقت کے آئی جی چاہتے تھے کہ غلام حیدر وائیں کو اس الزام کے تحت پھنسایا جائے۔ میں نے میرٹ پر تفتیش کی اور انہیں بے گناہ قرار دیا۔ آئی جی پولیس میری اس تفتیش سے اس قدر سیخ پا ہوئے کہ ان کے سامنے تفتیشی رپورٹ لے کر جانے والے ہمارے ایک کولیگ عظیم خان درانی خوفزدہ ہو کر تھر تھر کانپنے لگے۔

آئی جی نے اسے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ”جاؤ مجھے“ پرفیکٹ ”رپورٹ چاہیے“ ۔ جب مجھے دوبارہ کہا گیا کہ رپورٹ تبدیل کریں تو میں نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں ایک بے گناہ کو گنہگار کیسے قرار دے دوں۔ جب مجھ پر زیادہ پریشر ڈالا گیا اور میرے مسلسل انکار پر مجھے چار ماہ کی رخصت پر گھر بھیج دیا گیا۔

راجہ انار خاں :ایک سوریا ونشی راجپوت

بہت سے بھارتی جاسوس تفتیش کے لئے شاہی قلعہ لاہور لائے جاتے تھے۔ ان میں سے اکثر کی تفتیش میں نے کی۔ اکثر بھارتی جاسوسوں کے کیس عدالتوں میں لے جا کر انہیں سخت سزائیں دلوائیں۔

ایک بھارتی جاسوس موہن لال بھاسکر نے پاکستانی جیلوں میں اپنی قید کاٹ کاٹی اور واپس جا کر
”An Indian Spy In Pakistan“

کے عنوان سے اپنی سوانح عمری لکھی۔ اور پورا ایک باب بعنوان ”راجہ انار خاں : ایک سوریا ونشی راجپوت“ لکھا۔ بھاسکر نے راجہ انار خا‍ں کے طریقہ تفتیش کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ”Living Terrorist“ کے نام سے یاد کیا۔

راجہ انار خاں نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے موہن لال بھاسکر کی کتاب پڑھی ہے اس نے اپنی کتاب بہت زیادہ جھوٹ لکھا ہے۔ ایک ڈبل ایجنٹ کے ذریعے ہمیں اس کے پاکستان میں داخل ہونے کی اطلاع ہمیں مل چکی تھی کہ وہ کہاں پر ٹھہرے گا۔ ہم نے اس کی لاہور میں آمد کے دوسرے ہی دن اسے گرفتار کر لیا تھا۔ اس جاسوس کی تفتیش میں نے شاہی قلعہ لاہور میں کی تھی۔ وہ پڑھا لکھا جاسوس تھا۔ اس پر ہمیں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی تھی۔ جلد ہی وہ سب کچھ مان گیا تھا۔ عدالت سے ہم نے اسے سزا دلوائی تھی۔ اس نے واپس جا کر محض سستی شہرت اور کتاب کی مارکیٹنگ کے لیے واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا اور محض سنسنی خیزی پیدا کی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments