شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ قید سی آئی ڈی کے جاسوس راجہ انار خان کی یادداشتیں


جیل میں شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ بطور سیکورٹی افسر 

شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ میانوالی اور فیصل آباد جیلوں میں بطور انٹیلی جنس اور سیکورٹی افسر تاہم مشقتی کے روپ کس طرح ڈیوٹی شروع ہوئی کے جواب میں راجہ انار خاں نے بتایا کہ وہ ان دنوں بطور سب انسپکٹر سپیشل برانچ شاہی قلعہ لاہور میں بطور تفتیشی افسر کام کر رہے تھے۔ جب ایک دن سپیشل برانچ میں تعینات ان کے باس اور ڈی۔ ایس۔ پی سپیشل برانچ خواجہ طفیل (خواجہ طفیل جماعت اسلامی کے رہنما مرحوم حافظ سلیمان بٹ کے والد تھے ) نے انہیں ایک دن بتایا کہ ”وہ اور ایس پی سپیشل برانچ شیخ عبدالرحمن کل ایک اہم کام کے سلسلے میں میانوالی جا رہے ہیں تمہیں (راجہ انار خاں ) کو بھی ہمارے ساتھ چلنا ہے“ ۔

اگلے روز سرکاری جیپ میں ہم میانوالی میں ڈی ایس پی پولیس ہیڈ کوارٹر کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ وہیں پر مجھے بتایا گیا کہ اب مجھے مشرقی پاکستان سے غداری کیس میں ٹرائل کے لیے لائے گئے سیاسی قیدی شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ میانوالی جیل میں بطور سیکورٹی افسر رہنا ہے۔

مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ جیل کے جس سیل میں شیخ مجیب الرحمٰن کو رکھا گیا ہے وہاں ان کی حفاظت کی ذمہ داری کے علاوہ ان سے متعلق اہم باتوں کی ڈائری روزانہ کی بنیاد پر مجھے اپنے اعلیٰ افسران کو دینی ہو گی۔ اس دوران میری محکمانہ شناخت خفیہ رہے گی۔ اور ظاہری طور پر جیل سیل میں، میں شیخ مجیب الرحمٰن کے مشقتی کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دوں گا۔

شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ جیل میں بطور مشقتی میری شناخت میرے اصل نام کی بجائے ”راجے خاں“ کے نام سے کرائی گئی۔ اسی نام سے میری قیدی کی فائل تیار کی گئی۔ فائل میں میرا جرم کسی لڑکی کو اغواء کرنا لکھا گیا تھا۔

راجہ انار خاں نے شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ جیل میں کئی ماہ گزارے۔ وہ شیخ مجیب کے جیل میں ہونے والے ٹرائل سے لے کر اس کی اسلام ائرپورٹ سے مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) روانگی تک اس کے ساتھ رہے۔ راجہ انار خاں نے ایک اہم ذمہ داری نبھاتے ہوئے ایک چشم دید کے طور پر پاکستان کی بنتی بگڑتی سیاسی تاریخ اس کے کئی کرداروں اور المیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

راقم الحروف سے کئی نشستوں پر مشتمل اپنے واٹس اپ انٹرویو کے دوران مضبوط اعصاب اور غضب کی یادداشت رکھنے والے 86 سالہ راجہ انار خاں کی کھنک دار آواز بالکل نہیں بھرائی۔ تاہم مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے کے واقعات کی سرگزشت بیان کرتے ہوئے وہ کئی بار آبدیدہ ہوئے۔

شیخ مجیب الرحمن: محب وطن یا غدار

راجہ انار خاں نے شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ جیل سیل کے اندر گزرے اپنے ایام کے متعلق بتایا کہ ”فیصل آباد جیل میں شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ میرا پہلا تعارف بطور مشقتی ‘راجے خاں’ ہوا۔ ابتداء میں انہیں میرے متعلق تھوڑا شک گزرا کہ میں وہ نہیں ہوں جو ظاہری طور پر ہوں۔ مجھ سے پوچھنے لگے کہ“ تمہیں کس جرم میں سزا ہوئی ہے؟ ”میں نے وہی سرکاری کہانی بیان کی جو میری جیل کے لیے تیار کی گئی فائل میں تھی۔ یعنی لڑکی کے اغواء کا کیس۔ یہ کہانی سننے کے بعد ہنس کر کہنے لگے کہ“ عجیب بات ہے کہ جو بھی مشقتی قیدی میرے ساتھ سیل میں بھیجا جاتا ہے، وہ لڑکیوں کے اغواء میں ہی ملوث ہوتا ہے ”۔

راجہ انار خاں نے بتایا کہ مجھ سے پہلے ایک پٹھان قیدی شیخ مجیب الرحمن کے لیے ان سیل میں بطور خانساماں کام کرتا تھا اس نے بھی شیخ مجیب الرحمٰن کو کسی لڑکی کے اغواء والی سٹوری ہی سنا رکھی تھی۔

راجہ انار خاں نے شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ پچاس برس قبل میانوالی جیل میں گزارے اپنے نو ماہ کی یادداشتیں بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جیل میں شیخ مجیب الرحمٰن کے لیے مختص کیے گئے سیل کے کمروں کی چابیاں ان کے پاس ہوتی تھیں۔ انہیں سیل کے اندرونی حصے سے صبح مقررہ وقت پر باہر نکالنا اور پھر شام کے وقت واپس سیل میں بند کرنا ان کے فرائض میں شامل تھا۔

سارا دن میں انہی کے ساتھ گزارتا تھا۔ رات کے وقت انہیں سیل میں بند کرنے کے بعد میری روٹین تھی کہ میں سیل کی چابیاں اپنے ساتھ رکھنے کی بجائے انہیں ہر روز مختلف جگہوں پر چھپا دیتا۔ کبھی زمین کے اندر مٹی کھود کر اور کبھی کسی دوسری جگہ جو صرف میرے علم میں ہوتی تھی۔ روزانہ ایسا میں شیخ مجیب الرحمٰن کی حفاظت اور سیکورٹی کے نقطہ نگاہ سے کرتا تھا۔ سیل سے الگ اپنے لیے مخصوص کمرے میں رات کو سوتے ہوئے میں نے چابیاں کبھی اپنے سرہانے یا کمرے کے اندر نہیں رکھی تھیں۔ شیخ مجیب الرحمٰن کے سیکورٹی افسر کے طور پر ان کے متعلق تمام معاملات میرے ذریعے سے روزانہ کی بنیاد پر اوپر سپیشل برانچ کو ڈائری کی صورت میں جاتے تھے۔ علاوہ ازیں شیخ مجیب الرحمٰن جیل میں فراہم کی جانے والی کرسی کے نیچے بھی ایک خفیہ ٹرانسمیٹر نصب تھا جس سے اس کی گفتگو ریکارڈ کی جاتی تھی۔

جن دنوں جیل کے اندر شیخ مجیب الرحمٰن کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جا رہا تھا۔ وہ بعض اوقات مقدمے کی کارروائی میں حصہ لینے سے انکار کر دیتے تھے۔ ضد پر آ جاتے، تو اڑ جاتے کہ جاؤ جو کرنا ہے، کر لو میں کارروائی میں شریک نہیں ہوں گا۔ سپیشل برانچ کے اعلیٰ حکام خصوصاً ایس پی شیخ عبدالرحمن اور ڈی ایس پی خواجہ طفیل مجھے کہتے، ”انار خاں کچھ کرو یار، اس کو مناؤ۔ یہ تمہاری بات مان لے گا“ ۔

ماسوائے شروع دنوں کے جب میری ڈیوٹی شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ شروع ہوئی تھی تھوڑا کھچے کھچے رہتے تھے۔ مجھے بھی مشکوک گردانتے تھے۔ بعد میں میرے متعلق ان کا شبہ دور ہوتا چلا گیا۔ اور ایک طرح سے وہ مجھ پر اعتماد کرنے لگے۔ میں دلائل دے کر جو بات انہیں سمجھاتا بحث و مباحثے کے بعد آخر میں مان جاتے۔ انہوں نے کئی ایک مواقع پر میرے اصرار کرنے پر اپنے خلاف مقدمے کی کارروائی میں حصہ لیا۔ میں انہیں ”بابا“ کہہ کر مخاطب کیا کرتا تھا۔

شیخ مجیب کے خلاف غداری کے مقدمے میں حکومت کی جانب سے ان کے خلاف ایک بنگالی برگیڈیر کو بطور گواہ پیش کیا گیا۔ جو بڑی خستہ حالت میں ہوتا تھا۔ سلوٹیں پڑی وردی میں وہ جیل میں لایا جاتا۔ شیخ مجیب الرحمٰن اپنے خلاف اس کی گواہی سے زیادہ اس کی بیچارگی اور حالت زار پر افسوس کا اظہار کرتے اور کہتے کہ پتہ نہیں اس کو کہاں سے پکڑ کر لے آئے ہیں۔ یہ کہیں سے بھی برگیڈیر نہیں لگتا۔

شیخ مجیب الرحمٰن کے خلاف غداری کے مقدمے کی ساری کارروائی کے دوران میں ان کے ہمراہ ہوتا تھا۔ ایک لحاظ سے میں ان کے خلاف غداری کے مقدمے کی کارروائی کا چشم دید ہوں۔

ان دنوں سیاسی محاذ پر یا مشرقی پاکستان میں کیا ہو رہا تھا۔ شیخ مجیب الرحمٰن اس سے بالکل بے خبر تھے۔ کبھی کبھار جب جنگی جہاز جیل کے اوپر سے اپنی گرجدار آوازوں کے ساتھ گزرتے تو شیخ مجیب الرحمٰن مجھ سے استفسار کرتے کہ یہ کیا ہو رہا ہے، سب خیریت تو ہے نا؟ میں بات ٹالتے ہوئے انہیں کہہ دیتا کہ ایسے جنگی مشقیں وغیرہ ہو رہی ہیں۔

راجہ انار خاں بتاتے ہیں کہ جب مشرقی پاکستان میں باقاعدہ جنگ شروع ہو گئی۔ اور کئی مواقع پر بھارتی جنگی طیارے میانوالی جیل کے اوپر سے بھی گزرے تو جیل میں نہ صرف طیارہ شکن توپ نصب کی گئی بلکہ شیخ مجیب الرحمٰن کی حفاظت کے لیے ان کے سیل کے ساتھ مورچہ بھی کھودا گیا۔ مورچے کو ۔ کھودتے دیکھ کر ایک موقع پر وہ انتہائی خوفزدہ ہو گئے اور مجھے کہنے لگے کہ ”راجے خاں! لگتا ہے کہ انہوں نے مجھے پھانسی دے کر یہیں دفن کرنے کا پروگرام بنایا ہے“ ۔

ان دنوں فضائی حملے کے خطرے کے پیش نظر مورچے کی کھدائی کا کام رات گئے بھی جاری رہتا اور عموماً یہی ٹائم یعنی تین چار بجے عام طور پر جیلوں میں پھانسی دینے کا ہوتا تھا۔ اسی بات کے پیش نظر شیخ مجیب اندر سے ڈر گئے تھے۔ تاہم میں نے صرف اتنا بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ ویسے ہی کسی تعمیر کے سلسلے کھدائی ہو رہی ہے۔ مشرقی پاکستان شروع ہوئی بغاوت اور بعد ازاں جنگ، مورچہ کھودنے کی اصل وجہ اور فضائی حملے کے خطرے کی میں نے انہیں بھنک تک نہیں پڑنے نہیں دی۔ وہ بیرونی حالات سے بالکل بے خبر تھے۔

(وہ الگ بات ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے پاکستان سے واپس ڈھاکہ براستہ لندن جاتے ہوئے وہاں بی بی سی کے نمائندے ڈیوڈ فراسٹ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں مبالغہ آمیزی کی تھی۔ اور کہا تھا کہ میانوالی جیل میں ان کی قبر تیار کر لی گئی تھی۔ راجہ انار خاں کے بقول قطعاً ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ یہ محض ایک 8 فٹ لمبا اور 5 فٹ گہرا مورچہ تھا جو فضائی حملے کی صورت میں ان کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا)

جیل میں اسیری کے دوران شیخ مجیب الرحمٰن کے منہ سے آپ نے کبھی مغربی پاکستان سے علیحدگی کی بات سنی تھی؟ اس سوال کے جواب میں راجہ انار خاں کا کہنا تھا کہ میں نے کبھی بھی ان کے منہ سے پاکستان سے علیحدہ ہونے کی بات نہیں سنی۔ جب سے وہ مجھ پر اعتماد کرنے لگے تھے اور تاریخ سے میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے وہ اکثر کھل کر مجھ سے بات چیت کر لیتے تھے۔ اردو زبان پر ان کی بڑی اچھی دسترس تھی۔ وہ ہمارے ساتھ ہمیشہ اردو میں گفتگو کرتے تھے۔ وہ اکثر اپنے حوالے سے کہا کرتے تھے کہ ”میں نے پاکستان کے لیے اپنا کیریر تباہ کیا ہے۔ اپنی زندگی پاکستان کو دی ہے۔ جب میں کالج میں پڑھتا تھا تو بعض اوقات دو چار آنے ہی جیب میں ہوتے تھے۔ اس دوران تحریک پاکستان زوروں پر تھی۔

ہم قیام پاکستان کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے کشتیوں میں بیٹھ کر گاؤں گاؤں جاتے اور لوگوں کو جوش دلاتے تھے۔

شیخ مجیب الرحمٰن کے مشہور زمانہ چھ نکات کے حوالے سے سوال کے جواب میں راجہ انار خاں کا کہنا تھا کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے انہیں کئی مواقع پر بتایا تھا کہ چھ نکات ان کے نہیں تھے۔ یہ عوامی لیگ نے پیش کیے تھے۔ جن پر انہوں نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ چھ نکات میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جو علیحدگی کا باعث بنتی۔ زیادہ تر ان نکات میں صوبائی خود مختاری کی بات کی گئی تھی۔

بنگالی لیڈر تاج الدین کے حوالے سے شیخ مجیب کا کہنا تھا کہ انہیں اس کے متعلق نہ صرف شک تھا بلکہ وہ اس سے خطرہ محسوس کرتے تھے کہ یہ کسی بھی وقت بدمعاشی کر سکتا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے شیخ مجیب الرحمٰن کہا کرتے تھے کہ اپنی بقا کو نقصان پہنچائے بغیر ہمیں کشمیر کے ایشو کو زندہ رکھنا چاہیے مگر کشمیر کے لیے باقی پاکستان کو بھی تباہ نہیں کرنا چاہیے۔

شیخ مجیب الرحمٰن بھارت کے ساتھ تجارت کے حامی تھے۔ وہ کہا کرتے تھے اب جو ہونا تھا ہو چکا اب پاکستان کو تجارت کر کے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ مشرقی پاکستان میں نیول ہیڈ کوارٹر اور ہوائی اڈے زیادہ رکھنے چاہئیں تاکہ دفاع کو یقینی بنایا جا سکے۔

راجہ انار خاں کے بقول شیخ مجیب الرحمٰن صدر یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے روئیے سے نالاں رہتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ دونوں مجھے سزا دلوا کر اپنے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔

راجہ انار خاں نے بتایا کہ جب مشرقی پاکستان میں جنگ زوروں پر تھی۔ تو اس بات کا خطرہ پیدا ہوا کہ بھارتی جنگی طیارے میانوالی جیل میں شیخ مجیب الرحمٰن کو ہلاک کرنے کے لیے جیل پر بمباری کر سکتے ہیں تو انہیں اپنے اعلیٰ حکام کی جانب سے حکم ملا کہ شیخ مجیب الرحمٰن کو فوری طور پر میانوالی جیل سے فیصل آباد جیل منتقل کیا جا رہا ہے۔ اس بات کا انہیں پتہ نہیں چلنا چاہیے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ انہیں منتقلی کے اس عمل کو روٹین کی تبدیلی ہی بتایا جائے۔

راجہ انار خاں نے بتایا کہ جس گاڑی میں شیخ مجیب الرحمٰن کو لے کر جایا جا رہا تھا اسے مٹی کا لیپ کر کے کیمو فلاج کیا گیا تھا۔ شیشوں پر پردے لگائے گئے تھے۔ جنھیں بعض اوقات ہٹا کر شیخ مجیب الرحمٰن باہر دیکھنے کی کوشش کرتے۔ ایک موقع پر جب گاڑی ایک جگہ آہستہ ہوئی تو ان کی نگاہ ساتھ گزرنے والے ایک آرمی کے کانوائے پر پڑ گئی۔ تو وہ مجھ سے استفسار کرنے لگے کہ خیریت تو ہے؟ یہ اتنی بڑی تعداد میں فوجی گاڑیاں کہاں جا رہی ہیں۔ جس پر میں نے انہیں بتایا کہ یہ شاید فوجی مشقوں کے لیے جا رہے ہیں۔ جس پر شیخ مجیب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا یہ فوجی مشقوں کا کون سا موسم ہے؟

کچھ عرصہ فیصل آباد جیل میں رکھنے کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن کو واپس میانوالی جیل منتقل کر دیا گیا۔ اس دوران جیل کے اندر شیخ مجیب الرحمٰن کا ٹرائل بھی چلتا رہا۔

ڈھاکہ میں سرنڈر کے روز میں پھوٹ پھوٹ کر رو دیا

راجہ انار خاں مشرقی پاکستان میں بھارت کے ہاتھوں پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے حوالے سے اپنی یادداشتیں بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔ اور رندھی ہوئی آواز میں میں کہنے لگے کہ 16 دسمبر 1971 ء انہیں اچھی طرح وہ دن یاد ہے۔ جب حسب معمول شام کے وقت شیخ مجیب الرحمٰن کو ان کے سیل میں بند کرنے کے بعد وہ سیل سے متصل اپنے کوارٹر میں آ کر لیٹ گئے۔ اور بی بی سی سے خبریں سننے کے لیے ریڈیو آن کیا تو اس پر پاکستانی فوج کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شکست اور ہتھیار ڈالنے کی خبر چل رہی تھی۔

جسے سن کر وہ بے اختیار زار و قطار رونے لگے۔ کتنی ہی دیر ان کی ہچکیاں بندھی رہیں۔ اس دن انہیں یہی لگ رہا تھا جیسے آج سب کچھ ختم ہو گیا ہو۔ غصے، دکھ اور افسردگی کا یہ عالم تھا کہ وہ اس رات ایک پل کے لیے بھی نہیں سو سکے۔ ساری رات بستر پر لیٹے لیٹے کروٹیں بدلتے رہے۔ خبروں میں بار بار جنرل نیازی کا ذکر کیا جا رہا تھا جن کا تعلق میانوالی سے تھا۔

شیخ مجیب الرحمٰن کو جیل میں قتل کرنے کی سازش

راجہ انار خاں نے اپنی یادداشت پر زور ڈالتے ہوئے بتایا کہ ان دنوں میانوالی میں بچے بچے کو معلوم تھا کہ شیخ مجیب الرحمٰن میانوالی جیل میں قید ہے۔ ڈھاکہ میں سرنڈر کے تین روز بعد اس شام بھی حسب معمول انہوں نے شیخ مجیب الرحمٰن کو ان کے سیل کے اندرونی حصے میں لاک کیا اور باہر آ کر ایک جگہ زمین کھود کر چابیوں کا گچھا وہاں چھپا دیا۔ اور رات کا کھانا کھا کر وہ اپنے کوارٹر میں آ کر سو گئے۔

رات کے پچھلے پہر ان کی آنکھ اس وقت اچانک کھل گئی جب انہیں محسوس ہوا ان کے دروازے پر کوئی زور زور دستک دے رہا ہے۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھے اور اپنے سرہانے رکھے سرکاری ریوالور کو ہاتھ میں لے کر وہ دروازے کی جانب بڑھے۔ باہر سے مسلسل دروازہ پیٹنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔

میں نے دروازے کی جانب ریوالور تانے ہوئے پوچھا کہ کون ہے؟ آواز آئی، ”انار خاں! انار خاں! دروازہ کھولو، میں ہوں خواجہ طفیل“ ! (ڈی ایس پی، سپیشل برانچ)

اس پر میں نے کہا کہ ”میں دروازہ نہیں کھولوں گا“ ۔ باہر سے پھر آواز آئی ”راجے خاں! دروازہ کھول دو۔ بہت ایمرجنسی ہے۔ اور“ بابا ”(شیخ مجیب الرحمٰن) کی جان کو خطرہ ہے۔ جلدی کرو۔ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے انہیں یہاں سے فوری طور پر باہر نکالنا ہے“ ۔

راجہ انار خاں کے بقول وہ وقت ان کی سروس کا بڑا کٹھن اور امتحان والا تھا۔ باہر کھڑے اپنے باس خواجہ طفیل سے مشفقانہ محکمانہ تعلقات کے علاوہ میرا بہت پیار اور خلوص کا رشتہ تھا۔ وہ سینئر ہونے کے ناتے وہ مجھے ہمیشہ بیٹوں کی طرح عزیز سمجھتے تھے۔ پولیس میں خصوصاً سپیشل برانچ کی انٹیلی جنس میں ڈی ایس پی خواجہ طفیل اور ایس پی شیخ عبدالرحمن پولیس افسروں کی نایاب ہوتی نسل کے کیا عالیشان افسر تھے۔ ان دونوں سے اپنی پولیس سروس میں میں نے بہت کچھ سیکھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments