روایتی موضوعات سے تنگ ناظرین کو ڈرامہ ‘رقیب سے’ کیوں پسند آ رہا ہے؟


پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری اس وقت تھپڑوں کی گونج، طلاقوں کی بھرمار اور افیئرز کی بارش کی زد میں ہے۔

اگر کسی ڈرامے میں ایک شادی شدہ آدمی کسی دوسری عورت سے محبت نہیں کرتا تو اس میں وہ اپنی بیوی پر ظلم کرتا ہے۔ اگر بیوی پر ظلم نہیں کرتا تو کسی اور سے محبت کرتا ہے اور کبھی کبھی تو بیوی کو طلاق کا طعنہ دے کر اپنی من مانی کرتا ہے۔

ان ڈراموں کی وجہ سے اچھے اور معیاری ڈرامے دیکھنے والوں نے ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیا ہے اور باقی لوگوں نے ‘ویڈیو اسٹریمنگ سروسز’ کا رخ کر لیا ہے۔

ایسے میں نام ور رائٹر بی گل اور ہدایت کار کاشف نثار نے ‘رقیب سے’ پیش کر کے ناظرین کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کہانی بیان کرنے کا کلاسک پی ٹی وی اسٹائل آج بھی مقبول ہے بس اسے پیش کرنے کا ڈھنگ آنا چاہیے۔

ڈرامے کی کہانی ایک ایسے ڈاکٹر کے گرد گھومتی ہے جو 20 سال قبل اپنا گاؤں چھوڑ کر شہر آ جاتا ہے۔ جہاں وہ شادی کر کے ایک پرسکون زندگی گزار رہا ہوتا ہے کہ اچانک ایک رات اس کی سابقہ محبوبہ کی آمد سے سب کچھ بدل جاتا ہے۔

اس کہانی میں ڈرامہ تو ہے ہی لیکن ساتھ ساتھ سنسنی بھی ہے۔

اس شخص نے گاؤں کیوں چھوڑا تھا اس کی محبوبہ اور اس کے درمیان ایسا کیا ہوا تھا کہ 20 سال تک دونوں نے ایک دوسرے سے رابطہ نہیں کیا۔ اس کی بیوی اور بیٹی کو اس کے معاشقے کے بارے میں سب کیسے پتا ہے؟ یہ سب اور بہت کچھ ہے ‘رقیب سے’ میں۔ جسے بہت سے ناظرین پسند کر رہے ہیں۔

دیکھا جائے تو ڈرامے میں مار دھاڑ بھی ہے لیکن آف اسکرین طلاق کا ذکر بھی آیا ہے لیکن جس انداز میں اسے پیش کیا گیا وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اور دوسری عورت کا ذکر بھی ہے لیکن جس خوبصورتی سے مصنفہ اور ہدایت کار نے اسے کہانی میں شامل کیا ہے۔ وہ قابلِ دید ہے۔

کہانی ہے کیا اور ناظرین کو پسند کیوں آرہی ہے؟

ڈرامے میں مقصود احمد کا مرکزی کردار نعمان اعجاز ادا کر رہے ہیں۔ جن کے گھر ایک رات ان کی پرانی محبوبہ سکینہ (حدیقہ کیانی) اپنی بیٹی امیراں (اقرا عزیز) کے ہمراہ پہنچ جاتی ہے۔

مقصود احمد کی بیوی حاجرہ (ثانیہ سعید) ان دونوں کی خوب خاطر کرتی ہے جب کہ مقصود احمد ان دونوں ماں بیٹی کے چہرے اور جسم پر مار پیٹ اور سگریٹ کے نشان دیکھ کر غصے میں آتا ہے۔ اپنی بیٹی انشا (فریال محمود) کے اعتراضات کے باوجود 20 سال بعد مقصود احمد اپنے گاؤں جا کر سکینہ کے میاں رفیق علی (ثاقب سمیر) سے ملتا ہے اور اسے مشورہ دیتا ہے کہ وہ سکینہ کو طلاق دے کیوں کہ جس حالت میں اس نے اپنی بیوی کو پہنچا دیا ہے اس کے بعد وہ اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔

ادھر مقصود احمد کی بیٹی پہلے اپنی ماں اور پھر باپ سے سکینہ کو 20 سال پہلے چھوڑنے کی وجہ پوچھتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ ڈاکٹری کے فائنل امتحان سے چھ دن پہلے سکینہ کے بھائی نے مقصود احمد کے بھائی کو قتل کر دیا تھا۔ سکینہ نے اپنے بھائی کو بچانے کے لیے جھوٹا بیان دیا کہ قتل مقصود احمد نے کیا۔ جس کے بعد مقصود احمد کو ایک ایسے جرم میں سزا ہوئی جس سے اس کا دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ وہ دو سال تک سلاخوں کے پیچھے رہا اور جیل میں ہی اس کی ملاقات حاجرہ کے والد سے ہوئی جو اپنی بیوی کو قتل کرنے کے جرم میں سزا کاٹ رہے تھے۔

‘رقیب سے’ دیگر ڈراموں سے کس طرح مختلف ہے؟

اس قسم کا ڈرامہ یا تو پاکستانی ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) نے آخری بار 80 کی دہائی میں پیش کیا تھا یا شاید اس سے پہلے جب مصنف یا مصنفہ ایسے کردار تخلیق کرتے تھے۔ جنہیں آپ یا تو جانتے ہوں یا پھر وہ آپ کی اپنی کہانی ہو۔ جو آپ کے اردگرد موجود ہو یا کسی جاننے والے کے عزیز ہوں اور جن کے ساتھ حالات وہ کچھ کر جاتے ہوں جن کا آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔

مصنفہ بی گل کا کہنا تھا کہ ان کے دماغ میں ‘رقیب سے’ لکھتے وقت صرف ایک خیال تھا کہ ہمارے معاشرے میں سب سے اہم چیز پیار اور محبت ختم ہوتا جا رہا ہے اور سب سے ضروری احساس کو ہم ٹی وی پر پیش کرنے کے بجائے دیگر موضوعات کو ترجیح دیتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا میرا آخری ٹی وی ڈرامہ ‘ڈر سی جاتی ہے صلہ’ جنسی زیادتی کے گرد گھومتا تھا۔ جس کی بات اس وقت ہمارے ٹی وی ڈراموں میں نہیں ہوتی تھی۔ اس کے بعد تو کئی ڈرامے اس موضوع پر بنے اور چلے۔ لیکن کئی ایک اسے اس نزاکت سے پیش نہ کر سکے جو یہ موضوع ڈیمانڈ کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ بار بار ایک ہی چیز دکھانے کی وجہ سے وہ اپنا اثر کھو دیتی ہے، اس لیے اس بار انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ کسی ایسی چیز پر ڈرامہ لکھیں جسے ہمارے معاشرے کا حصہ ہونا چاہیے۔

بی گل کا مزید کہنا تھا کہ اس جذبے میں نزاکت بھی ہے اور پیچیدگیاں بھی تو کیوں نہ اس کے گرد ڈرامہ لکھا جائے؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی انسان کی زندگی تو نہیں رکتی لیکن محبت میں وہ بھی اگر شدید قسم کی ہو تو تبدیلی کیسے آتی ہے؟ یہ ‘رقیب سے’ میں دکھایا گیا ہے۔

اُن کے بقول “ہر محبت میں مشکلات آتی ہیں اور یہاں بھی آئی ہیں تو اس سے کیا اثر پڑا۔ ان محبت کرنے والوں پر بلکہ ان کے آس پاس جو لوگ ہوتے ہیں ان پر اس پر ڈرامہ لکھنا، بنانا اور پھر لوگوں کا پسند آنا ان کی کامیابی ہے۔”

بی گل نے ایک اور اہم بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس ڈرامے کے ذریعے یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر دو عورتیں ایک ہی مرد سے محبت کرتی ہوں۔ تو وہ ایک دوسرے کی طاقت بھی بن سکتی ہیں نہ کہ ایک دوسرے سے خود کو ‘اِن سیکیور’ سمجھیں۔

بی گل کے بقول ہماری شادی شدہ عورتوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جہاں کسی دوسری عورت کا ذکر آیا۔ تو وہ بہت تیزی میں خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگتی ہیں۔ جس کا اگلہ مرحلہ ایک دوسرے سے نفرت کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اس ڈرامے میں انہوں نے ایسا نہیں دکھایا کیوں کہ ایک ساتھ دو عورتیں ایک دوسرے کا سہارا اور ایک دوسرے کی طاقت بھی بن سکتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہر قسم کے ڈرامے بننے چاہئیں تاکہ ناظرین کو ہر طرح کی تفریح مہیا ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ لکھاری اوریجنل ہوتا ہے اس کا اپنا لکھنے کا انداز ہوتا ہے آئیڈیاز ہوتے ہیں۔ ویژن ہوتا ہے۔ اپنے حساب سے ان کی کہانی بنتی ہے۔ اپنے حوالہ جات ہوتے ہیں۔ کیا کچھ دیکھا ہے کس قسم کا ڈرامہ فالو کیا ہے۔ کون سی فلمیں دیکھی ہیں۔ کس قسم کے لٹریچر اور کس طرح کی زندگی سے اس کا پالا پڑا ہے۔ اسی سے کہانیاں وجود میں آتی ہیں اور اسی لیے ہر لکھاری کی اپنی ورائٹی ہوتی ہے۔

ان کے بقول ٹی وی پر ہر قسم کا ڈرامہ بننا چاہیے جیسے آج کل کامیڈی کا ٹرینڈ ہے تو وہ اسی وجہ سے ہے کہ لوگ اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ‘رقیب سے’ جیسا کام دیکھنا چاہتا ہے تو اس کے لیے بھی ایسا ڈرامہ ہونا چاہیے اور اسی طرح ٹی وی ڈرامہ زندہ رہے گا۔

‘نعمان اعجاز، ثانیہ سعید کے سامنے اداکاری کرنا ایک چیلنج تھا’

گلوگاری سے اداکاری کی طرف قدم رکھنے والی حدیقہ کیانی کی اداکاری کو سب اس ڈرامے میں بے حد پسند کر رہے ہیں۔

بیس سال سے زائد عرصہ میوزک کو دینے کے بعد حدیقہ کیانی نے اداکاری کی جانب قدم کیوں رکھا۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک ایسے کردار کے انتظار میں تھیں جو ناظرین کو حیران کر دے اور سکینہ کا کردار نبھا کر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ ساری زندگی میوزک کرنے کے بعد وہ اداکاری کی طرف اس لیے آئیں تاکہ نہ صرف اپنے ‘آرٹسٹک ویژن’ کو بڑھا سکیں بلکہ اپنے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ سکینہ کے کردار کے لیے انہیں حدیقہ کیانی کو بھولنا پڑا جو کہ ان کے لیے ایک چیلنج تھا لیکن ان کے اندر سکینہ موجود تھی۔ جسے انہوں نے ڈھونڈا اور ناظرین کے سامنے پیش کر دیا۔

انہوں نے اپنے ہدایت کار کاشف نثار اور ساتھی اداکاروں نعمان اعجاز اور ثانیہ سعید کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وجہ سے ان کے لیے اداکاری کرنا آسان ہو گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ نعمان اعجاز اور ثانیہ سعید دونوں کی اداکاری کی مداح ہیں۔ ان دونوں کے ساتھ ایک سین میں موجود ہونا اور پھر سکینہ بننا۔ ان کے لیے شروع شروع میں مشکل تھا لیکن ہمارے ہدایت کار کاشف نثار اور دونوں اداکاروں نے ان کا جس طرح استقبال کیا اور انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اس سے انہیں اطمینان ہوا۔ ڈر کی جگہ ہمارا اپنا تعلق اتنا مضبوط ہو گیا کہ ان کے لیے ان دونوں کی موجودگی میں اداکاری کرنا آسان ہو گیا۔

ان کے بقول ڈرامے کی شوٹنگ کے دوران نعمان اعجاز اور ثانیہ سعید سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا اور جب سکھانے والے اتنے بڑے اداکار ہوں تو آپ سے بھی اچھی اداکاری ہو ہی جاتی ہے۔

‘رقیب سے’ میں نعمان اعجاز اور ثانیہ سعید کی اداکاری کے ساتھ ساتھ حدیقہ کیانی، اقرا عزیز اور فریال محمود کی اداکاری بھی ناظرین کو خوب پسند آ رہی ہے۔

گزشتہ قسط میں اداکار سلمان شاہد اور صبا فیصل کی آمد سے کہانی مزیدار ہو جائے گی۔ ڈرامے کی ہر قسط کسی ایسے موڑ پر ختم ہوتی ہے کہ ناظرین کو تجسس ہو جاتا ہے کہ اب کیا ہو گا؟ یہی پاکستان ٹیلی ویژن کے کلاسک دور کے ڈراموں میں ہوتا تھا اور شاید ‘رقیب سے’ کے بعد کچھ اور ڈراموں میں بھی ہونا شروع ہو جائے۔ جس طرح خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے، امید ہے کہ اچھے ڈرامے کو دیکھ کر اچھا ڈرامہ لکھنے والے بھی کچھ اثر پکڑیں گے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments