پاکستان میں معدوم ہوتی علاقائی زبانیں: ’فیض اور اقبال کاش پنجابی میں بھی کچھ لکھ دیتے‘


زبانیں

زبانیں

21 فروری کو مادری زبانوں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے لیکن ایسے میں جب پاکستان میں متعدد علاقائی زبانیں معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں کالم نگاروسعت اللہ خان کے بقول پاکستان کی سب سے بڑی علاقائی زبان سمجھی جانے والی بولی پنجابی کے وارثوں کو اپنی ماں بولی کی قدر قیمت معلوم ہوتی تو پھر انہیں بنگالی ،بلوچی ،سندھی، پشتو اور سرائیکی کی بھی تکلیف معلوم ہوتی۔‘

کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ ایک تقریب کے شرکاء کو اس وقت حیرانگی ہوئی جب انھوں نے کہا کہ ’پنجابی زبان کو بھی خطرہ ہے۔‘

بلوچستان میں قوم پرست حلقوں کا یہ موقف ہے کہ سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے چھوٹی اقوام کی زبانوں کو خطرات لاحق ہیں وہ اس حوالے سے بلوچی ،براہوی، پشتو اور ہزارگی کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

وہ دن جب مادری زبان کے لیے جانیں قربان کی گئیں

کیا کوئی اپنی مادری زبان بھول سکتا ہے؟

کیا ماں بولی کے لیے بھی چیخنا پڑے گا؟

یہ تقریب بلوچستان سے بلوچی زبان میں شائع ہونے والے ادبی رسالے ’بلوچی زند` کی اشاعت کے 20 سال مکمل ہونے کی مناسبت سے منعقد کی گئی تھی۔

وسعت اللہ خان نے کہا کہ جہاں پنجابی زبان کا پرسان حال نہیں وہاں ان کی رائے سرکاری سرپرستی کے بارے میں بھی کچھ اچھی نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سرکاری سرپرستی میں حالت تو سرکاری محکموں جیسی ہوتی ہے‘۔

پاکستان میں کتنی زبانیں بقا کے مسئلے سے دوچار ہیں؟

اس تقریب میں دانشور عامر رانا بھی شریک تھے۔ انھوں نے زبانوں پر ہونے والی تحقیق کے تناظر میں شرکا کو یہ بتایا کہ دنیا میں بہت ساری زبانوں کو اپنی بقا کے حوالے سے خطرات لاحق ہیں تاہم ’پاکستان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں تقریباً 35زبانیں ایسی ہیں جو کہ اپنی بقا کے مسئلے سے دوچار ہیں۔‘

انھوں نے ان تمام زبانوں کی تفصیل نہیں بتائی تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے زیادہ تر گلگت بلتستان کے علاقے میں ہیں جہاں ان کے بولنے والے مسلسل کم ہورہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’اسی طرح کوہستان کے خطے میں بھی بعض زبانوں کے بولنے والے کم ہورہے ہیں یا ان کے بولنے والوں نے اپنی زبان کو ترک کیا ہے۔‘

عامر رانا نے کہا کہ سندھ کے علاقے تھر میں تین زبانیں ہیں جن کا لہجہ بالکل مختلف ہے لیکن وہ سندھی میں جذب ہورہی ہیں۔

لال کرشن

آزادی سے قبل انڈیا کی عدالتی اور دفتری زبان اردو تھی

کیا پاکستان میں زبانوں کو محفوظ کرنے کا کوئی طریقہ کار ہے؟

عامر رانا نے کہا کہ چھوٹی زبانوں کو بڑی زبانیں اپنے آپ میں جذب کرتی ہیں جسے آرگینک پراسیس کہا جاتا ہے۔

’یہ آرگینک پراسیس تو ہے لیکن اس کے ساتھ کسی کی ثقافت کی شناخت بھی جڑی ہوتی ہے۔ جو تہذیبی ورثہ ہے ان کو شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے۔‘

عامر رانا نے یہ تجویز تھی کہ جن زبانوں کی وجود کو خطرہ لاحق ہے ان کے لٹریچر اور ضرب المثال کومحفوظ بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

انھوں نے اس امر پر افسوس کا اظہارنکیا کہ پاکستان میں زبانوں کو محفوظ بنانے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔

’جس کو آرگینک پراسیس کہا جاتا ہے اس کو تو کوئی نہیں روک سکتا لیکن زبانوں کو محفوظ کیا جاسکتا ہے مگر وہ پراسیس ہمارے ہاں نہیں ہے۔‘

تقریب میں تشویش زیادہ چھوٹی زبانوں کے بارے مگر پنجابی کا ذکر کیوں؟

جن تقاریب میں مقالے پڑھے جائیں اور وہ طویل ہونے کے ساتھ دلچسپ نہ ہوں تو وہاں بوریت کا سایہ گہرا ہوتا جاتا ہے۔

اس تقریب میں بھی بعض مقالوں سے لوگ بور ہوتے دکھائی بھی دیے لیکن جب وسعت اللہ خان کی باری آئی تو انھوں ںہ صرف کوئی تحریری مقالہ نہیں پڑا بلکہ خطاب کے لیے ایک ایسا انداز اختیار کیا کہ لوگوں کے لیے قہقہوں پرضبط کرنا ممکن نہیں رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بعض لوگوں نے بلوچی زند کی اشاعت کو 20سال مکمل ہونے کو کسی معجزے سے کم قرار نہیں دیا۔‘ کسی پراجیکٹ کو منافع کے بغیرچلانا پاگلوں کا کام ہے کیونکہ کوئی صحیح الدماغ شخص خسارے کا کاروبار کرتا ہی نہیں۔‘

تقریب میں بعض مقررین نے کہا کہ جو رسالے مادری زبانوں کو فروغ دے رہے ہیں ان کی سرکاری سرپرستی ہونی چائیے۔

لیکن وسعت اللہ خان کی رائے مختلف تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے کاموں کی سرکاری سرپرستی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ سرکاری سرپرستی سے حالت سرکاری محکمے جیسے ہوجاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ دراصل انفرادی پروجیکٹ ہوتے ہیں۔’اردو کے اگر ادبی رسالوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو بیسویں صدی کے معروف رسالوں میں ادب لطیف، فنون، نقوش یا شب خون یا آج اور ارتقا وغیرہ سب انفرادی پروجیکٹ تھے۔ ان کے حوالے سے کسی حکومتی سرپرستی کا نام و نشان نہیں ملتا ہے۔ ان جریدوں نے چالیس پچاس سال نکالے۔ ان کی مدد میں کوئی ادارہ ملوث نہیں تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بنیادی طور پر خسارے کے سودے کا کوئی فزیبلٹی نہیں ہوتی ہے۔ یہ ثواب دارین والی پروجیکٹ ہوتے ہیں جو کہ پھلتے پھولتے ہیں۔‘

عامر رانا کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے 35 زبانوں کو درپیش خطرات کی بات کی اور اس حوالے سے تھر کے تین زبانوں کی مثال دی۔

وسعت اللہ خان نے کہا کہ وہ ایک زبان کی مثال اس میں شامل کرتے ہیں جو کہ پنجابی کی ہے۔ ’پنجابی بھی ان زبانوں میں شامل ہے جو کہ خطرے میں ہیں۔‘

اس حوالے سے کئی مثالیں دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو کے دور میں پنجاب میں کامریڈوں نے چندا کرکے پنجابی زبان میں لہرا کے نام سے ایک اخبارکا اجراءکیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب کامریڈوں کا پیسہ ختم ہوا تو وہ اخبار اپنی موت آپ مرگیا پورا پنجاب ایک اخبار نہیں چلاسکا۔ حکومت پنجاب نے تو اس کو کوئی اشتہاردینا بھی گوارا نہیں کیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پنجاب نے حکومت چلالی لیکن زبان نہیں چلاسکی۔ جب تک حکومت نہیں تھی تب تک ہم بابا بھلے شاہ، وارث شاہ ،سلطان باہو ،میاں محمد بخش اوربابا فرید کا نام سنتے ہیں ۔جب حکومت آگئی تو اس پایے کا کوئی نام بتائیں۔ اتنے بڑے پایے کے لوگوں کا حوالہ دینا دور کی بات ہے اس سے نیچے کے پایے کے لوگ بھی شاید نہیں ملیں گے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دور کی بات نہیں ہے بلکہ ماضی قریب میں جب ایک ایم پی اے نے پنجاب اسمبلی میں پنجابی زبان میں بات کرنے کی کوشش کی تو اس کو ڈپٹی اسپیکر نے باہر پھینکوا دیا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ہر زبان میں رول ماڈلز ہوتے ہیں ’جیسے بلوچی میں مست توکلی اورپشتو میں رحمان بابا اور خوشحال خان خٹک ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر ماڈرن پنجاب میں دیکھا جائے تو ’فیض صاحب اور اقبال ہیں کاش وہ پنجابی میں بھی کچھ لکھ دیتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ یہاں پنجابی کی وکالت نہیں کررہے ہیں بلکہ اس لیے یہ بات کررہے ہیں کہ ’اگر آپ اپنی زبان سے بے نیاز ہوں تو باقی زبانوں کے ساتھ جو ہو وہ آپ کا مسئلہ نہیں رہتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اصل میں پنجابی کے ساتھ جو ٹریجیڈی ہوئی ہے وہ ہم سب کے ساتھ۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp