سرخ گلابوں کا دن، عورت مارچ اور قیادت کا بحران


چودہ فروری کو یوم محبت منایا جاتا ہے۔ محبت کرنے والے ایک دوسرے کو سرخ گلاب کے پھول دے کر اظہار محبت یا تجدید محبت کرتے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں کی طرح حسب روایت یوم محبت گزر گیا ہے اور ساتھ ہی کئی لوگوں کا جذبہ ایمانی بھی رفوچکر ہو گیا ہے۔ یوم حیاء کا دن بھی گیا۔ یوم سسٹر بھی گیا۔ یعنی حیاء اور یوم سسٹر محبت کے دن کی ضد میں منانے کا محض اعلان کیا جاتا ہے۔ کچھ کالے دل والے محبت کی مخالفت اور نفرت کے حق میں اخبارات میں اوٹ پٹانگ مضامین تراشتے ہیں اور کئی جعل ساز رنگین اخباری ایڈیشن دے مارتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی نیک نامی اور اپنے ایمان اور اسلامی ذہن کی نمائش کے لئے یوم محبت کی ضد میں نفرتوں کی تبلیغ میں بہت کچھ لکھتے ہیں۔ یوم حیاء بھی عورت کے لئے ہے۔ یوم سسٹر نام سے ہی ظاہر ہے۔ بہنوں کے دن کی بات ہو رہی ہے۔ تختۂ مشق عورت ہی کو بنایا جاتا ہے۔ مرد کے لئے کوئی شرم و حیاء نہیں ہے۔

مرد حضرات عورتوں کے جسمانی اعضاء پر شاعری کریں۔ زلفوں سے کھیلنے کی باتیں کریں۔ پبلک مقامات پر چھیڑخانی کریں۔ آوازیں کسیں۔ ریپ کریں۔ معصوم بچیوں تک کے ساتھ زیادتی کر کے قتل کر دیں۔ کوئی باپردہ اسلامی بہن یوم حیاء اور یوم سسٹر منانے کا تقاضا نہیں کرتی ہے۔مذہبی طبقات کسی پر فحاشی و عریانی کا الزام نہیں دھرتے ہیں۔ منبر و محراب سے کوئی مذمتی بیان و خطاب نہیں ہوتا ہے۔ غیرت ایمانی نہیں جاگتی ہے۔ کوئی انصار عباسی، اوریا مقبول اور زید حامد تردید نہیں کرتا ہے کہ یہ غیر اسلامی ہے اور ہمارا کلچر نہیں ہے۔ مگر عورت کی محبت و پیار کی ہر بات پر غیرت ایمانی بھڑک اٹھتی ہے۔

عورت مارچ بھی قریب ہے۔ ان کا جذبۂ ایمانی پھر جاگنے والا ہے۔ ان کے اسلامی اذہان پھر ابلیں گے۔ پھر جذبۂ ایمانی میں عورتوں کو غلیظ گالیاں دی جائیں گئیں۔ موم بتی اور لبرل آنٹیاں کہہ کر مغلظات سے نوازا جائے۔ شاید یہ طے کیا گیا ہے کہ نفرت کا اظہار ہی سچے ایمان اور عقیدے کا معیار ہے اور معیار کو برقرار رکھنے کے لئے مشق جاری رکھنا ضروری ہے۔ خلیل الرحمٰن قمر جیسی قیادت بھی پیدا ہو چکی ہے اور یہ لوگ اس پر نازاں ہیں۔

گزشتہ سال ہم نے عورتوں کی جو تکریم کی اورجتنے حقوق دیے ہیں۔ میڈیا خبروں سے بھرا پڑا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کی خواتین نے ہر شعبۂ زندگی میں خود کو منوایا ہے۔ عورتوں کے حقوق اور مساوی حق کی تشریح بہت ہو چکی ہے۔ ہر پہلو سے امکانات بالکل واضح ہو چکے ہیں۔ کوئی امر اب پوشیدہ نہیں رہا ہے۔ عورتوں نے شرم و حیاء سمیت مادر پدر آزادی، غیرت، فحاشی و عریانی کی تعریف اور معانی بھی سامنے رکھے ہیں جس کو جواز بنا کر عورت کا استحصال کیا جاتا ہے اور عورت کی آواز دبائی جاتی ہے۔ مذہب کو جس طرح ڈھال بنا کر مصنوعی مقدس چادر چڑھائی جاتی ہے، اس کا پردہ چاک کیا ہے۔ اس جدوجہد میں عورت نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ جکڑبندیوں اور جبر کے ماحول میں بلاشبہ یہ کارہائے بھی عورتوں نے ہی انجام دیا ہے۔

اس پیدا شدہ صورتحال اور سیاسی و سماجی ماحول میں سیاسی جماعتوں نے اپنا فریضہ ادا نہیں کیا ہے، وہ محض اقتدار کی لڑائی میں مصروف رہی ہیں۔ ملک کی سیاسی تاریخ اس کی گواہ ہے، ماسوائے قائد عوام ذوالفقارعلی بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے جنہوں نے آئین سازی اور ملکی و قومی تعمیر و ترقی کے لئے بھی بہت کچھ کیا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ آج تک پاکستان کے پاس جو کچھ بھی ہے بھٹو شہید کی قیادت کے مرہون منت ہے۔

معروضی حالات چیخ چیخ کر ہمیں یہ باور کروا رہے ہیں کہ ملک میں قیادت کا فقدان ہے۔ پی ڈی ایم کی شکل میں اتحادیوں کے پاس ملک وقوم کے لئے کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے سنجیدہ طبقات، دانشور، سیاسی و سماجی کارکن محنت کشوں، عورت مارچ، طلبہ اور کسانوں کی تحاریک کو سپورٹ کریں تاکہ نئی قیادت جنم لے سکے۔

قیادت کے فقدان اور بحران کے سبب ہی یہ سیاسی بے راہ روی، عورتوں کی تذلیل اور نفرتوں کی تبلیغ جیسی خرافات کا سامنا ہے۔ بہتر قیادت آگے بڑھنے اور تعمیر و ترقی کا بیانیہ دیتی ہیں۔ ملک وقوم کو بھنور سے نکالتی ہیں۔ قیادت میسر ہو تو عوام آپس میں نہیں الجھتے بلکہ قیادت کے طے کردہ مقاصد کے حصول کے لئے کام کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments