خودکشی مسئلے کا حل نہیں، حالات کا مقابلہ کریں


گزشتہ روز احمدآباد سے ایک دلخراش واقعہ کی خبر سوشل میڈیا پر موصول ہوئی جس میں عائشہ نام کی لڑکی نے پہلے اپنے والدین سے فون پر گفتگو کی اور شوہر، سسرال کی پریشانیوں سے تنگ آنے کی شکایت کی جس میں لڑکی روتے اپنے والدین کو اپنے حالات سنا رہی تھی اپنے ناہنجار شوہر کی بے غیرتی اور بے مروتی کو بیان کر رہی تھی اور زندگی سے تنگ آنے کی وجہ بتارہی تھی اور اپنے والدین سے روتے ہوئے کہی رہی تھی کہ میں خودکشی کرنے جا رہی ہوں۔

کب تک لوگوں سے لڑتے رہے گے۔ اس کے ماں باپ نے عائشہ کو قسمیں دیں کہ کوئی غلط کام نہ کرنا ہماری بات مانو ساتھ ہی اسے اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے مبارک نام کے واسطے دیے۔ لیکن لڑکی نے ایک نہ سنی اور اس کی بعد پھر سے ندی یا تالاب کے بریج پر کھڑے رہے کر ایک ویڈیو بنائی جس میں اس نے ظاہری طور پر خوشی کا اظہار کیا اور اپنی خودکشی کا کسی کو ذمہ دار نہ ٹھہرایا ساتھ ہی ایک بات اس نے کہی کہ میں اللہ کے پاس جاکر سب کچھ کہوں گی، ایک بات اس نے یہ بھی کہی کہ محبت ایک طرفہ کبھی نہیں کرنی چاہیے ہمیشہ دو طرفہ محبت کرنی چاہیے۔ اور پھر اس نے خودکشی کرلی یہ سب کچھ اس نے کیوں کیا اس کے پیچھے بہت سارے سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔

خبروں کے مطابق اس کی اصل وجہ سسرال کی طرف سے جہیز کا مطالبہ کرنا تھا۔ اور بھی بہت ساری باتیں لڑکی نے ویڈیوز میں بیان کی ہے۔ جس میں یہ بات بھی واضح ہے کہ کہی نہ کہی وہ لڑکی محبت، اپنایت، کی کمی کاشکار تھی۔ اس نے اپنے شوہر سے یہ بھی کہا کہ پانی میں ڈوبنے جا رہی ہوں تو شوہر نے کہاں کہ ویڈیو بنا کر بھیج دینا اور پھر لڑکی نے آخری ویڈیو اس کے شوہر کو سینڈ کی۔ لڑکی کافی ڈپریشن میں تھی لیکن یہ بات قابل افسوس ہے کہ اسنے حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے موت کو گلے لگا لیا۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے اندر بچپن سے حالات سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ ظلم و جبر کے خلاف لڑنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ کیونکہ ظلم سہنے کی وجہ سے انسان ڈپریشن کا نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے اور پھر وہ غلط راستے اختیار کرنے لگتا ہے۔ جس میں خود کو عزیت دینے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔

یہاں چند باتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کی خودکشی کرنے کا خیال آخر لڑکی کے ذہن میں کیوں پیدا ہوا کہ پہلے ویڈیو بنائی جائے، اور پھر خودکشی کی جائے بے شک یہ ٹی وی سیرئل کی دین ہے، کرائم پٹرول، موویز، سوشل میڈیا پر پھیلا ہوا گندا مواد اس کی وجہ ہے۔

اسی طرح والدین کی غلطی یہ ہے کہ لڑکی کی پرورش میں کہی نہ کہی خلا ہے کیونکہ جب لڑکی نے کال پر والدین سے بات کی اور والدین نے اسے قسمیں دیں منت سماجت کی، واسطے دیے لیکن لڑکی نے ایک نہ سنی اور موت کو گلے لگا لیا۔ اس معاملے کو دیکھا جائے تو اگر انسان کے اندر دین کی سمجھ ہو اگر اس کی تربیت شریعت اسلامی کے مطابق ہو اس کی پرورش اچھے طریقے سے ہو تو کوئی بھی انسان غلط قدم اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے۔ اس کے دل میں اللہ کا خوف ہوتا ہے حرام حلال کی تمیز اس کے اندر ہوتی ہے۔

لیکن یہ سب اس وقت ممکن ہوتا ہے جب بچپن سے والدین اپنے بچوں کی پرورش صحیح انداز میں کریں۔ اسے حالات سے نمٹنے کے لئے تیار کریں اسے دین اسلام کی تعلیمات سے روشناس کروائیں۔ تاکہ وہ کبھی بھی چاہے وہ تنہائی میں ہو یا جلوت میں ہر جگہ اللہ کا خوف اس کے دل میں ہوتا ہے اس کا ضمیر زندہ ہو تب انسان پر کتنی ہی مشکلات کیوں نہ آ جائے وہ غلط راستے اختیار نہیں کرتا ہے۔ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں اس بات کی شدید کمی محسوس کی جاتی ہے بچوں کو دنیا کی تعلیمات تو دی جا رہی ہے لیکن انہیں دین اسلام سے بہرور نہیں کروایا جا رہا ہے۔ لڑکی نے یہ بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ کبھی یک طرفہ محبت نہیں کرنی چاہیے ہمیشہ دو طرفہ محبت کرنی چاہیے کہی نہ کہی یہ لڑکی محبت پیار کی کمی کا شکار بھی تھی۔ لیکن اتنا بڑا قدم اٹھانا اس کی غلط سوچ یا پھر ناقص پرورش کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ساتھ ہی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت کا نہ ہونا، نفس پر قابو کا نہ ہونا، اپنے ارادوں کو جانچنے پرکھنے کی کوشش نا کرنا اور اپنے آپ کو ضمیر کی آواز سے محروم کر دینا یہ تمام باتیں سامنے آتی ہے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اپنے بچوں کے پرورش چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی بہتر طریقے پر کریں، یہ تمام مسائل یک طرفہ وجود میں نہیں آتے ہیں بلکہ کہیں نہ کہیں کسی شخص کا ہاتھ اس میں ضرور ہوتا ہے۔ کوئی کسی کے ظلم کا شکار ہوتا ہے کوئی بے توجہی کا، کوئی محبت کی کمی کا، کوئی گھریلوں تنازعات کا، کوئی جبرا ظلم و تشدد کا، جیسے کہ اس لڑکی نے خودکشی سے پہلے دعا کرتے ہوئے کہا‌کہ اب انسانوں کا منہ کبھی نہ دکھانا یہ بات ہمارے لیے قابل افسوس ہے کہ آج کے معاشرے کا انسان کس وجہ سے قابل ملامت ہے کہ انسانوں کو انسانوں سے نفرت ہو چکی ہے جس کی سزا تمام معاشرہ بھگت رہا۔

کہیں ہم ایک دوسرے کے حقوق کو غصب تو نہیں کر رہے ہیں۔ کہیں انسان کسی پر ذہنی طور پر ظلم تو نہیں کر رہا ہے۔ کہیں ہم کسی کو اشارتاً تکلیف تو نہیں پہنچا رہے ہیں۔ کہیں کسی کے ساتھ نا انصافی زیادتی ظلم و جبر تو نہیں کر رہی ہے۔ اپنی انا اور نفسانی خواہشات کی خاطر ہم کتنے انسانوں پر ظلم کر رہے ہیں۔ ہر ایک اپنا محاسبہ کریں۔

خودکشی کو اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ جو شخص جس طرح اپنے آپ کو نقصان پہنچا کر جان دیتا ہے قیامت تک وہ اپنے آپ کو اسی طرح ختم کرتا رہے گا۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اور انسان کو اسی کی طرف لوٹنا ہے جو جیسے اعمال کریں گا ویسا بدلہ آخرت میں پائے گا اللہ تعالیٰ کا خوف ہی ہے جس سے انسان برائیوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔ ورنہ دنیا کہ قانون تو ایسے ہیں جس میں حق و انصاف تو نہیں ملتا ہے لیکن دونوں فریقوں کی عمریں عدالتوں کے چکر کانٹنے میں گزر جاتی ہے اور مرنے کے بعد بھی ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا ہے۔ لیکن ایک عدالت ہے جو اللہ کی عدالت ہے جہان انصاف ہوگا وہاں رشوت کام نہیں آتی ہے ناہی کوئی سفارش سے کام چلے گا ہرکسی کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا اس لیے اپنے اعمال کا محاسبہ کریں تاکہ کل قیامت میں ہمارا شمار ظالموں کی صف میں ناہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments