ساحر لدھیانوی: بالی وڈ میں رومانس اور انقلاب کے درمیان ایک فیمنسٹ نغمہ نگار


پیار پر بس تو نہیں ہے میرا پھر بھی۔۔۔ تو بتا دے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں

1958 میں فلم ‘سونے کی چڑیا’ کا ایک انتہائی سادہ سا گیت ہے۔ لیکن ان آسان الفاظ میں گہرائی ہے۔ایک ایسے معاشرے اور فلمی دنیا میں جہاں عورت کی ‘ہاں’ کوئی خاص معنی نہیں رکھتی ہے۔ وہاں 50 کی دہائی میں نغمہ نگار ساحر نے رشتوں کی دنیا میں عورت کی مرضی کو وہ درجہ دیا جس کی جنگ آج تک جاری ہے۔

آج یعنی پیر کو ساحر لدھیانوی کا 100 واں یوم پیدائش ہے۔ لیکن کچھ سال پہلے آنے والی فلم ‘پِنک’ نے ‘رضامندی’ یا ‘نہیں کا مطلب نہیں ہے’ کا جو معاملہ اٹھایا تھا اس کی رہنمائی ساحر برسوں پہلے اپنے نغموں میں کرتے آئے ہیں۔

سنہ1958 میں معروف افسانہ نگار عصمت چغتائی کی لکھی ہوئی فلم ‘سونے کی چڑیا’ کے لیے ساحر نے اپنے گیت میں ‘رضامندی’ کی یہی بات کہی تھی۔ مثلاً:

پیار پہ بس تو نہیں ہے میرا لیکن پھر بھی

تو بتا دے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں

یہاں ہیرو اپنے دل کی بات تو سامنے رکھتا ہے، لیکن وہ اس کے لیے اپنے محبوب سے اجازت بھی مانگتا ہے۔

کچھ اسی طرح ساحر فلم ‘انصاف کا ترازو’ میں لکھتے ہیں:

ہزاروں خواب حقیقت کا روپ لے لیں گے

مگر یہ شرط ہے کہ تم مسکرا کے ہاں کہہ دو

ذاتی زندگی کے بارے میں بات کریں تو کہا جاتا ہے کہ ساحر الجھی ہوئی طبیعت کے مالک تھے۔ ان میں ہزاروں خصوصیات تھیں تو کچھ پیچیدگیاں بھی تھیں۔

لیکن ذاتی زندگی کی بحث سے ہٹ کر اگر ایک شاعر اور نغمہ نگار کی بات کریں تو ساحر کو فیمنسٹ ادیبوں کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

یہ اتفاق ہے کہ ساحر 8 مارچ کو یوم خواتین کے موقع پر پیدا ہوئے تھے۔ ساحر کی شاعری اور گیتوں کو سن کر ایسا لگتا ہے جیسے وہ عورت کے دل کو اس قدر سمجھتے تھےکہ گانے لکھتے ہوئے خود عورت بن جاتےہوں۔

ایک جنسی کارکن سے لیکر ماں اور محبوبہ تک انھوں نے ہر نقطہ نظر سے عورت کی کہانی بیان کی ہے۔

یہ ساحر ہی تھے جو فلم ‘چتر لیکھا’ میں ایک رقاصہ / جنسی کارکن (مینا کماری) اور یوگی (اشوک کمار) کے درمیان اخلاقیات کی تنازعے میں رقاصہ کے حق میں میں یہ لکھنے کی جسارت کرسکتے تھے:

‘سنسار سے بھاگے پھرتے ہو، بھگوان کو تم کیا پاؤگے؟

اس لوک کو بھی اپنا نہ سکے، اس لوک میں بھی پچھتاؤگے’

صرف یہی نہیں رقاصہ یوگی کو چیلینج کرتے ہوئے یہ بھی پوچھتی ہے:

یہ بھوگ بھی ایک تپسیا ہے تم تیاگ کے مارے کیا جانو

اپمان رچیتا کا ہوگا، رچنا کو اگر ٹھکراؤگے

یہ بھی ساحر ہی تھے جنھوں نے فلم ‘پیاسا’ میں ایک جنسی کارکن (وحیدہ رحمان) کے لیے ایک ویشنو بھجن لکھا تھا:

آج سجن موہے انگ لگا لو۔۔۔

خواتین کے بارے میں ساحر کے نغموں میں جو حساسیت نظر آتی ہے اس کا تعلق انکے ماضی میں پیوست ہوسکتا ہے۔

بچپن میں ساحر کی والدہ نے انھیں باپ کے سائے سے دور، مضبوطی اور بہادری سے تنہا مشکل صورتحال میں پالا تھا۔

سنہ 1978 میں آنے والی فلم ‘تری شول’ کے اس نغمے میں اس کی جھلک ملتی ہے جہاں وحیدہ رحمان مزدور کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے اپنے بیٹے (امیتابھ) کو اکیلے ہی پالتی دکھائی گئی ہیں۔ اور اس گانے میں کمزوری یا لاچاری نہیں بلکہ ناراضگی اور ہمت ہے۔

میں تمہیں رحم کے سائے میں نہ پلنے دونگی

زندگی کی کڑی دھوپ میں جلنے دونگی

تاکہ تپ تپ کے تو فولاد بنے، ماں کی اولاد بنے

ساحر نے بچپن میں والدین کے درمیان لڑائی جھگڑے دیکھے۔ انکے والد پر انکی کی ماں کے ساتھ مارپیٹ کرنے اور بدسلوکی کا الزام تھا اور انکے خلاف بھی قانونی کارروائی کی گئی تھی۔

ان سارے واقعات کا اثر ساحر کی تمام تحریروں میں نظر آتا ہے جہاں عورت کے حقوق کی بات ہوتی ہے تو وہ اس کے دل کی بات ہوتی ہے۔

یہ نظریہ صرف ظلم اور دکھ درد کے نغموں میں ہی نہیں بلکہ محبت کی بہت سی دوسری شکلوں میں بھی نظر آتا ہے۔

اکثر علیحدہ ہو جانے پر کسی عورت پر تہمت لگائی جاتی ہے یا بے وفائی والے نغمے سننے کو ملتے ہیں وہیں ساحر کا ہیرو اپنی محبوبہ کے بچھڑ جانے کے بعد یہ گاتا ہوا نظر آتا ہے:

تعارف روگ بن جائے تو اس کو بھولنا بہتر

تعلق بوجھ بن جائے تو اسکو توڑنا اچھا

وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن

اسے ایک خوبصورت موڑ دیکر چھوڑنا اچھا

چلو ایک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

ساحر نے اپنی فلموں کے ہیرو کے لیے بھی جو گانے لکھے تھے وہ سبھی تو نہیں لیکن بہت سے گیت عورت کے نقطہ نظر سے جڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں خواتین کو کمتر ہونے کے بارے میں نہیں بلکہ مضبوط سے مضبوط ہونے کی بات کہی گئی ہے۔

مثال کے طور پر جب آشا پاریکھ فلم نیا راستہ میں زندگی سے پریشان ہوتی ہیں تو ہیرو جیتیندر ساحر کا گانا یہ گانا گا رہا ہوتا ہے:

پونچھ کر اشک اپنی آنکھوں کے، مسکراؤ تو کوئی بات بنے

سر جھکانے سے کچھ نہیں ہوگا، سر اٹھاؤ تو کوئی بات بنے

پیار کی سرمستیوں اور شرارتوں میں بھی ساحر کا نظریہ نہیں بدلتا۔

ہیرو بسواجیت 1968 میں بننے والی فلم ‘واسنا’ کے گانے میں اپنی محبوبہ سے نوک جھوک کرتے یہی کہتا ہے: ‘اتنی نازک نہ بنو’

یہ نیا دور ہے اس دور میں جینےکے لیے

حسن کو حسن کا انداز بدلنا ہوگا’

حقیقی زندگی میں ساحر کا نام کبھی مصنفہ امرتا پریتم اور بعد میں گلوکارہ سدھا ملہوترا کے ساتھ لیا گیا۔ اکشے منوانی نے ان پر ایک کتاب لکھی ہے اور انھوں نے کالج کے دنوں کا بھی ذکر کیا ہے جہاں انکی ایک محبوبہ تھی جس کا انتقال ہو گیا تھا۔

محبت کے بہت سے رشتوں کے باوجود شادی نہ ہونے کی وجہ سے دنیا کی نظروں میں ساحر تنہا ہی رہے۔ رشتوں کی اپنی الجھنیں ضرور رہی ہوگی لیکن لکھتے ہوئے انھوں نے عورت کے ساتھ محبت کو اسی مخملی اور نرم انداز سے کاغذ پر لکھا جیسے کہ وہ جانتے ہوں کہ عورت کے دل میں کیا چل رہا ہے۔

اور کون ہے جو عمر دراز پیار کو اس شوخی اور خوبصورتی کے ساتھ پیش کرپایا ہو جیسے فلم ‘وقت’ میں بلراج ساہنی اپنی بیوی کے لیے گاتے ہیں:

‘اے میری زہرہ جبیں تجھے معلوم نہیں

تو ابھی تک ہے حسیں اور میں جواں

رعنا صفوی اپنے بلاگ میں لکھتی ہیں کہ وہ لاہور میں بہت سے قحبہ خانوں میں جاتے تھے تاکہ وہاں کام کرنے والی خواتین کے حالات کو قریب سے دیکھ سمجھ سکیں۔

اپنی نظم ‘چکلے’ (کوٹھے) میں ساحر لکھتے ہی:

‘یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے، یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے

کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے

ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں’

یعنی عورتوں کی عزت اور وقار کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ وہ لوگ کہاں ہیں جو اپنے آپ کو ان کا نگہبان بتاتے ہیں اور جو (مغرب کے مقابلے میں) مشرق کی ثقافت کی تعریف کرتے ہیں۔

اس نظم کا ساحر نے گرو دت کی فلم ‘پیاسا’ میں کچھ یوں استعمال کیا تھا:

یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے، یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے

کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے

جنھیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں؟

‘پیاسا’ کے اس گیت میں ساحر نے انڈیا کی آزادی کے بعد کے دور کو چیلنج کیا ہے اس دور کے حکمران جنہوں نے ایک نئے ہند کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن وہ عورتوں کی حالت زار کے بارے میں یہ کہنا نہیں بھولتے:

مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی

یشودا کے ہم جنس، رادھا کی بیٹی

جنھیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں؟

ذرا ملک کے رہبروں کو بلاؤ

یہ کوچے، یہ گلیاں، یہ منظر دکھاؤ

جنھیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں؟

ساحر ان فنکاروں میں سے ایک تھے جنھوں نے اپنی کمپوزیشن میں خواتین کی عظمت کو اہمیت دی اور انکی آواز بنے۔

1958 میں آنے والی فلم ‘سادھنا’ میں معاشرے کے ظلم و ستم سے پریشان چمپا یعنی ویجینتی مالا پر دنیا کوٹھے والی ہونے کا تہمت لگاتی ہے تو ساحر نے چمپا کے لیے لکھا تھا:

عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا

جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا

یوں تو ساحر کے کئی روپ ہیں وہ عوام کے شاعر ہیں، وہ انقلابی شاعر ہیں، رومانوی شاعر ہیں اور حوصلے اور امید کے شاعر بھی ہیں۔

وہ دلوں کے شاعر ہیں جس کی جھلک فلم ‘کبھی کبھی’ کے گیت میں بھی دیکھ سکتے ہیں جہاں دلھن کے لباس میں راکھی گاتی ہیں ‘کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے’۔

لیکن اس سب سے ماورا وہ عورتوں کے ذہن و دل کو سمجھنے والے اور ان کے دل کی آواز کو الفاظ کا جامہ پہنانے والے شاعر بھی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp