وہ ہوس تھی یا محبت


گزرے پل جو انہوں نے اپنی محبت کے سنگ گزارے تھے۔ اس کے لئے وہ پل جو کبھی حسین لمحے تھے۔ آج ان لمحوں کی یاد سوئی کی طرح چبھ رہی تھی۔ اس کی پلکوں پر آنسوؤں کی ایک لڑی جاری تھی۔ اسے غم اس کی جدائی کا نہیں تھا۔ اسے محض تکلیف اس بات کی تھی کہ جس کو کل کائنات سمجھتی رہی اور جس کے لئے دنیا کی ہر آسائش چھوڑ دی تھی۔ اپنے نازک وجود اور کم عمر ہونے کی باوجود وہ دنیا کی رسموں میں بندھے قدامت پسند انسانوں سے لڑی اور اسے پانے کے لئے ماں باپ کی محبت کو اپنے ساتھ ظلم قرار دے کر ان کی محبت کو کم جانا۔

والدین کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا، اسی کی خاطر بوڑھے باپ کے رات کی تاریکی میں گرے آنسو اور امی جان کے نوافل بھی اس کے حصول کی ارادے کو متزلزل نہیں کر پائے۔

وہ روتی جا رہی تھی ، اس کے آنسوؤں میں سوائے پیشمانی کے اور کچھ نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی اسے درد اس کے کھو جانے کا نہیں تھا۔

پہاڑوں پر شفق اپنا رنگ پھیلا چکا تھا۔ لیکن شبنم کے آنسو صبح کی شبنم کی طرح اس کی پلکوں کی ٹہنیوں پر جھول رہے تھے۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ خود کو مصروف و مشغول رکھنا چاہتی تھی۔ وہ بے بس تھی۔ اس کی بے وفا محبت سے اسے چار بچوں کا ’تحفہ‘ بھی ملا تھا۔ لیکن اس تحفے کو وہ اکیلے بے مکانی کی عالم میں سنھبالنے کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔ وہ بے وفا کسی اور سے محبت کر کے کا اپنا گھر بسا چکا تھا۔ شبنم اور اس کے بچے دربدری کے عالم میں زندگی کی بے رحم لہروں کے رحم و کرم پر تھے۔

اس کی بے وفائی اور بے رخی شبنم کو دیمک کی طرح کھائے جا رہی تھی۔

اب نفسیاتی طور پر وہ خود سے ایک جنگ لڑ رہی تھی ، ایسی جنگ جس میں وہ ہارنا چاہتی تھی۔ شبنم خود کو حقیقی پسندی کے ساتھ درپیش حالات کے رحم کرم پر چھوڑنا چاہتی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ پھر کوئی ایسا انسان اس کی زندگی میں آئے جو اس کے جذبات سے کھیلے اور اپنی ہوس کی تکمیل کے لیے اس کے جسم کو نوچے۔ اب وہ لڑ کر سب کچھ گنوانا چاہتی تھی تاکہ وہ زندگی کی ان بے رحم لہروں پر تیر کر اپنی نئی زندگی کی شروعات کر سکے۔ وہ زندگی جس میں ان کے چار بچوں کا بوجھ ان کے ناتواں اور کندھوں پر تھا۔

ویسے شبنم کی زندگی شبنم کی اپنی زندگی نہیں تھی بلکہ یہ زندگی اس کے ان بچوں کے لئے تھی جو اسے اس مختصر مدت کی محبت کے بدولت ملے تھے۔

شبنم کے ملائم رخسار پر اشکوں کی لڑی تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی، وہ اپنے ماضی کے فیصلوں پر شرمندہ تھی ، اسے محبت جیسے پاک نام سے نفرت ہو گئی تھی۔ وہ محبت کو اپنے دکھوں کا سبب گردانتی رہی۔ اس کی مدہم سی آواز جس میں بلا کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا خود سے کہہ رہی تھی ’آج میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوتی جو خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج میں خود سے اور حالات سے لڑ رہی ہوں،  وہ اس لیے کہ میں جلد ہی جذبات میں بہک گئی تھی۔

میں نے کیسے ایسے شخص پر اعتبار کر لیا جس کو مجھ سے محبت نہیں بلکہ اسے تو میرے جسم سے وقتی محبت تھی اور وہ محبت کیا ، اس کو تو ہوس کہتے ہیں اور میں معصوم اور کمسن تھی،  اس کی ہوس پرستی کو محبت سمجھ بیٹھی۔ ہوس کی محبت نے مجھے نہ اپنوں کا چھوڑا اور نہ اپنی ذات کا۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آواز رند سی گئی ، درد اس پر غالب آ گیا۔

اب شبنم خود سے بھی کچھ بول نہیں پا رہی تھی۔ وہ ایک بے جان سے وجود کی مانند ہو گئی تھی ، چاند کی چاندنی جو اس کی پلکوں پر بکھرے موتیوں کو ضیاء فراہم کر رہی تھی اور غم کی جھریوں سے لبریز معصوم سا چہرہ اور اس چہرے پر بکھری خود داری ، لگتا تھا کہ وہ زندگی کی نئی صبح دیکھنے کے لئے دیوار گریہ سے ٹیک لگا کر گہری سوچوں میں کہیں کھو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments