آپ کی عینک گندی ہے


بنیادی طور پر فیمنزم ایک نظریہ ہے جو برابری کے مطالبے پر مبنی ہے تاکہ معاشرے کا ہر فرد بغیر کسی صنفی تفریق کے ایک شہری ہونے کے ناتے اپنے تمام حقوق سے مستفید ہو سکے اور  جنس کی بناء پر تشدد کا شکار نہ ہو۔ بعض لوگ فیمنزم کو عورت کے راج میں مرد کو غلام بنا دینے سے جوڑ دیتے ہیں۔ ایسے لوگ اس نظریے کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے،  تبھی ایسے تصورات قائم کر لیتے ہیں۔

آپ کو واضح کرتی چلوں کہ فیمنزم تمام لوگوں کی برابری کی بات کرتا ہے ، اس کا ثبوت یہ ہے کہ بہت سے مرد بھی فیمنسٹ ہوتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پدرشاہی نظام جہاں عورتوں کو دباتا ہے وہیں مردوں کا استحصال بھی کرتا ہے۔

فیمنزم مردوں کے خلاف جنگ قطعاً نہیں ہے بلکہ یہ تو پدرشاہی نظام کے خلاف جہاد ہے۔ وہ نظام جو مرد پر بھی مختلف طرح کے بوجھ ڈال کر اس کے اندر کے حساس انسان کو مارتے ہوئے اس کو ایک درندہ بنا دیتا ہے اور یوں عورتوں اور بچوں کے خلاف ہونے والے جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد میں مرد پیش پیش دکھتا ہے۔

فیمنزم کسی شخص سے نہیں بلکہ نظام سے جنگ کا نام ہے۔ وہ نظام جو عورت کو انسان نہیں بلکہ جاگیر یا کوئی چیز بنا دیتا ہے اور مرد کو اس کا سوداگر۔ میں فیمنزم اور ہیومن ازم کو آپس میں جڑا ہوا سمجھتی ہوں اور اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ اگر آج اپنے موبائل سے، اپنے علم کو بروئے کار لاتے ہوئے میں اپنی شناخت کے ساتھ یہ تحریر شیئر کر رہی ہوں تو اس انقلاب کے پیچھے بھی تاریخ کی کئی فیمنسٹوں کا ہاتھ ہے۔

اگر آپ یہاں اس پوسٹ کو پڑھنے سمجھنے کے قابل ہیں تو اس میں بھی ان خواتین اور مردوں کی جد و جہد ہے جنھوں نے عورتوں کی تعلیم پر آواز اٹھائی۔ جب یہ آواز ابتداء میں اٹھی ہو گی تو بہت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہو گا مگر دیکھیں آج ہر میدان میں لڑکیاں آگے آگے ہیں اور لڑکیوں کی تعلیم اب ہماری سماجی سوچ کا حصہ بن گئی ہے اور جہاں یہ عام نہ ہو ہم اسے معیوب خیال کرتے ہیں۔ اسی طرح سے بہت سے حقوق ہیں جو ابھی عام نہیں ہیں یا پھر اگر ہیں بھی تو کتابی حد تک یا باتوں کی حد تک۔ فیمن ازم ان حقوق کو بھی ایک لازمی قدر بنانے کی تحریک ہے جو ابھی ہمارے لوگوں کو اس ظالمانہ نظام کی وجہ سے حاصل نہیں ہوئے۔

پھر آ جاتا ہے وہ والا ٹولہ جو یہ کہتا ہے کہ فیمنزم غیر ضروری ہے کیونکہ تمام حقوق تو 1400 سال پہلے ہی مل گئے تھے۔ بات یہ ہے کہ وہ حقوق عمل میں کس حد تک ہیں۔ ہمارے ہاں 80 فیصد عورتوں کو کسی طرح کے پراپرٹی رائٹس نہیں ملتے۔ اس تحریک کا مقصد حقوق کی فراہمی ہے۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو فیمنزم اور بے حیائی کو مترادف سمجھتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے خواتین کے خلاف ہراسانی، ریپ اور ہر طرح کے تشدد کو ”مرد تو ایسا ہی ہوتا ہے“ کے جواب سے نظر انداز کرنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔

ایسے لوگوں کی کثیر تعداد اپنی ہر بات میں زور ڈالنے کے لئے ماں اور بہن کی گندی گالیوں کا استعمال پہلی ترجیح سمجھتی ہے اور ہاں یہ لوگ وہی ہیں جو پورن دیکھنے میں پاکستان کو ٹاپ ممالک میں شمار کراتے ہیں اور عورتوں کا ایک مارچ انہیں حیاء کا پاسباں بنا دیتا ہے۔ اسٹیج ڈراموں کے نام پر گندے ڈانس دیکھنے والے عورتوں کو حیاء کے لیکچر دیتے ہیں۔ درحقیقت فیمنزم بے حیائی کے خلاف جنگ ہے۔ وہ بے حیائی جو عورت کو مرد کے لئے ایک کھلونا بنا دیتی ہے۔

یہ بے حیائی عورت کو نچواتی ہے اور مرد کو جنسی ضرورت کا بھوکا درندہ قرار دے کر بے وفائی کہلواتی ہے لیکن ایسی بے حیائی پر حیاء کے لیکچر جھاڑنے والے خاموش رہتے ہیں۔ فیمنزم انسان کو انسان سمجھنے کا نام ہے نہ کہ مرد ہونے کی بناء پر کسی کے تشدد اور زیادتی کو justify کرنے یا اور عورت ہونے کی بناء پر سب کچھ سلے ہونٹوں کے ساتھ سہنے کا۔ یہ نام ہے مرد، عورت اور خواجہ سرا ، سب کی اس نظام کی آلودگی سے آزادی کا اور نئے معاشرے کے قیام کا جو باشعور انسانوں کا معاشرہ ہو اور تشدد سے پاک ہو۔

اب ایسا نہیں ہے کہ آپ نے کبھی نہ سنا ہو کہ مدرسوں میں بچوں کے ریپ جیسے گندے واقعات بھی سامنے آئے ہیں تو کیا ایسے واقعات کی بناء پر تمام مدرسوں اور تمام مولویوں کو ریپسٹ کہہ دینا درست ہو گا؟

ہر عقیدے اور ہر نظریے میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ اس نظریے کا حصہ تو بنے ہوئے ہوتے ہیں مگر وہ خود نظریہ نہیں ہوتے کہ ان کو دیکھ کر پورے نظریے پر بغیر تحقیق کے فتویٰ لگا دیا جائے۔ یہ درست نہیں۔ ہمیں ان چیزوں میں فرق سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اگر اس سب کے بعد بھی آزادی اور برابری کے الفاظ سن کر آپ کے ذہن میں بیہودگی آتی ہے تو یقیناً آپ hypersexuality disorder کے مریض ہیں اور آپ کی عینک ہی گندی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments