فیمینزم اور فحاشی میں فرق کرنا سیکھیں


ہر سال عورتوں کے عالمی دن پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ عورت کے حقوق کے بات کرتے نظر آتے ہیں۔ عورت مارچ کو درست قرار دے رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف حیا مارچ والے جو یہ کہتے نظر آ رہے ہوتے ہیں کہ عورت کو سارے حقوق مل چکے ہیں اور اسے اب یہ بے حیائی والے حق حاصل نہیں کرنے۔

کچھ لوگ فیمینزم کے حامی تو دوسرے اس کے خلاف بات کرتے نظر آتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔ جو پہلو کوئی سمجھنا چاہتا ہے اسے وہ زیادہ نمایاں ہو کر دکھائی دیتا ہے۔ جس طرح کسی انسان میں خیر اور شر دونوں طرح کے بیج ہوتے ہیں۔ جس بیج کو تناور درخت بننے کے لیے زیادہ پانی اور کھاد ملتی ہے وہ زیادہ برگ و بار لاتا ہے۔

اسی طرح عورت اور مرد کے لیے بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ ان میں بھی خیر اور شر دونوں طرح کی صفات والے افراد ہوتے ہیں ، جنس کسی کی اچھائی یا برائی کا تعین نہیں کرتی۔

اگر ہر مرد ہر عورت کے حقوق سلب کیے بیٹھا ہے تو یہ جو اتنی خواتین ہر شعبۂ زندگی میں اتنی ترقی حاصل کر رہی ہیں وہ کس طرح حاصل کر رہی ہیں؟ کیا سو فیصد عورتیں صرف اپنے بل بوتے پر اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرتی ہیں؟

کیا سو فیصد عورتیں مرد کے تعاون کے بغیر اپنے کامیاب کریئر بنا سکی ہیں؟ ہر گز نہیں جس طرح ہر کامیاب مرد کی کامیابی کا کریڈٹ ایک عورت کو ملتا ہے ، اسی طرح بیشتر کامیاب خواتین کے پیچھے ان کے مرد تھے، ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔

جب تک ہم مرد عورت کی جنگ لڑتے رہیں گے ، یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہو گی۔ ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ خواتین کے حوالے سے ہمارے پدرسری معاشرے میں بڑھتا شعور ایک مثبت علامت ہے۔ لیکن اس شعور کے ساتھ ساتھ یہ ادراک ہونا بھی ضروری ہے کہ خواتین کے حقوق آخر ہیں کیا؟

فیمینسٹ ہونے کا مطلب اخلاق سے گرنا ہرگز نہیں ہے۔ کیوں اپنے آپ کو بولڈ اور آزاد عورت دکھانے کے لیے ہمیں اپنی نسوانیت کا قتل کرنا لازم ہے؟ کیوں ایک پر اعتماد عورت کہلانے کے لیے ہمیں مردوں سے مقابلہ کرنا ضروری ہے؟ کیوں ہمیں اپنے آپ کو لبرل دکھانے کے لیے فحش زبان کا استعمال کرنا آنا چاہیے؟ کیوں مردوں کے ساتھ مل کر غیر اخلاقی حرکات کرنے سے ہم ایک قابل ستائش عورت بنیں گی؟

بہت سی خواتین یہاں غلطی کرتی ہیں ، انہیں لگتا ہے کہ اخلاق سے گر کر ہی وہ اپنے آپ کو ایک مکمل عورت ثابت کر سکتی ہیں۔ وہ اپنی شادی ختم کر کے آزاد زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ سنگل مدر بن کر اپنے بچوں کو اکیلے پال رہی ہیں۔ وہ اپنے شوہر سے زیادہ کما کر اس کے زیر کفالت نہیں تو اس کی جائز ضرورتیں بھی کیوں پوری کریں۔

وہ جس مرد سے چاہیں دوستی رکھیں اور جس نوعیت کی بھی چاہیں رکھیں کوئی انہیں اس سب سے نہ روکے۔ کیوں فیمینسٹ عورت کے لیے فحش زبان استعمال کرنا درست ہے جبکہ اخلاق سے گری باتیں تو مردوں کی ناقابل برداشت ہوتی ہیں؟

گالی گلوچ کرتے مرد بھی برے ہی لگتے ہیں ، کیا کسی عورت کو گالی بکتا مرد محبت کے قابل لگتا ہے؟ کیا کسی خاتون کو ایسا مرد قبول ہے جو بہت سی عورتوں سے تعلق رکھتا ہو اور ان سے غیر اخلاقی باتیں کرتا ہو؟ہرگز نہیں ہم عورتیں تو اپنے مرد کو چھونے والی ہواؤں کی بھی دشمن ہوتی ہیں۔ تو یہی اگر مرد کرے تو وہ چھوٹی ذہنیت والا کیسے؟ مرد اگر اپنی عورت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اسے کسی غلط بات سے منع کرے تو وہ قابل تعزیر کیوں؟

فی زمانہ عورتوں کی اکثریت آزاد ہے اور مزے کی بات یہ کہ جو آزاد ہیں وہی مزید آزادی مانگ رہی ہیں۔ بات کرنی ہے تو ان عورتوں کی کیجیے جن کو مردوں کی بجائے عورتوں سے ہی خطرہ ہے۔

بات کرنی ہے تو ان مظلوم عورتوں کی کیجیے ، جن کو پیدائش سے لے کر جوانی تک ان چاہی اولاد بنا کر پالا جاتا ہے۔ جن کو بھائیوں کے بدلے جرگوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ ان عورتوں کی بات کیجیے جن کو ناکام عاشق تیزاب سے جلا کر ان کی خوبصورتی برباد کر ڈالتے ہیں۔ ان معصوم کم سن بچیوں کی بات کریں جن کی کم سنی کی شادی ان کا بچپن کھا جاتی ہے۔ ان بے قصور خواتین، بچیوں کی بات کریں جو جنسی زیادتی کا شکار ہو کر دنیا کی نظر میں گناہگار بن جاتی ہیں اور تاعمر اس کی سزا بھگتتی ہیں۔

ان مضبوط خواتین کا ذکر کریں جو مرد بن کر اپنے گھر چلا رہی ہیں۔ ان خواتین کو خراج تحسین پیش کریں جو زندگی کے ہر شعبے میں اپنا آپ منوا رہی ہیں۔ جو ڈاکٹر بن کر انسانوں کی مسیحائی کرتی ہیں ، جو استاد ہیں تو ایک نسل میں علم کی روشنی بانٹ رہی ہیں۔ جو پائلٹ ہیں ، انجینئر ہیں۔ ان عورتوں کی بات کریں جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں رہتے ہوئے بھی ٹیکسی چلا رہی ہیں ، اپنے ہوٹل چلا رہی ہیں ، اپنے معذور شوہر یا بیمار باپ کا سہارا بنی ہوئی ہیں۔

وہ عورتیں عظیم ہیں وہ عورتیں قابل تقلید ہیں۔

یہ شیلا کی جوانی پر ڈانس کرنا ایسا کون سا بنیادی حق ہے جو اگر عورت کو نہ ملا تو اس کی زندگی کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا؟

عورت کو اس کا بنیادی حق چاہیے جو اس کی پیدائش کی خوشی، اس کو مناسب تعلیم و تربیت، پسند کی شادی کا حق، اپنے لیے پروفیشن چننے کا حق ہے۔ اسے بھی وہی سب حقوق چاہیے ہوتے ہیں جو ایک مرد کو حاصل ہیں لیکن اس سے زیادہ کا مطالبے اس کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ اس کو نقصان پہنچانے کے لیے ہیں۔

اگر آپ کا مرد نہیں چاہتا کہ آپ نوکری کریں بلکہ وہ خود آپ کی ضروریات پوری کرنا چاہتا ہے ، آپ کو گھر کی ملکہ بنا کر رکھنا چاہتا ہے تو خدا کی قسم آپ نہایت خوش قسمت ہیں۔

عورت کو دبا کر رکھنا بھی ایک انتہا ہے اور بے جا آزادی اور بے راہ روی دوسری انتہا ہے۔ انتہا پر پہنچی ہوئی چیزیں خیر کبھی نہیں لاتیں۔ حد سے زیادہ تو عبادت کو بھی یہ کہہ کر منع کر دیا گیا تھا کہ تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے تو اسی لیے میانہ روی بہتر ہے۔

نہ حد سے زیادہ دب کر رہیے کہ اپنے سارے حقوق سلب ہو جائیں نہ اتنا زیادہ اوپر ہو جائیں گے کہ دوسرے کے حقوق سلب کرنے لگ جائیں۔ اپنی حد پہچانیں ہر چیز ایک حد تک ہی خوشمنا لگتی ہے۔ بے حد ہو کر اپنی کشش اور خوبصورتی کھو دیتی ہے۔ یہ حد مرد کے لیے بھی ہے اور عورت کے لیے بھی ، لامحدود تو کچھ بھی نہیں۔ اس لیے ہر کسی کو اپنی حدود میں رہ کر دوسرے کی حدود کا خیال کرنا ہے۔

اپنے حقوق کی جنگ لڑیں لیکن مدمقابل کون ہے ،یہ سوچ سمجھ کر۔  ایسا نہ ہو کہ جن کو آپ نے اپنے پیروں تلے روندا ہو کل کو ان کی کمی ہی آپ کی زندگی کی سب سے بڑی محرومی بن کر آپ کو زندگی کی حقیقی خوشیوں سے محروم کر دے۔ سلامت رہیے اور دوسروں کو بھی سلامتی سے رہنے دیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments