ٹھرکی بڈھے


پیاری تحریم، سویٹ لبنی مرزا، درویش خالد سہیل، امر جلیل صاحب اور ریاست مدینہ کے خلیفہ وقت

سب محبت قبول کیجئے۔

تحریم آج بات سب سے کرنی ہے۔ مگر شروع تم سے کرتے ہیں کہ تم ہم سب سے چھوٹی ہو۔ تم وہ یوتھ ہو، جس کے لئے ہم نے دھرنا دھرنا کھیلا تھا۔ اور ملکی تاریخ میں سنا ہے جتنی فحاشی تب ریکارڈ کی گئی، کبھی نہیں ہوئی۔ آج ہم اسی کے ثمرات سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ خلیفہ وقت اس وقت پردے کے تمام احکامات بھول گئے تھے۔ پردے کا حکم شاید اقتدار سنبھالنے کے بعد پڑھا ہو گا۔

ڈاکٹر طاہرہ اقبال بہت اچھی افسانہ نگا ر ہیں۔ انہوں بتایا کہ ”رابعہ مدینے کی یہ خوبی ہے کہ آپ جو چاہیں وہاں آپ کو مل جاتا ہے۔ میری بیٹی بریانی کی بات کر رہی تھی، رمضان تھا۔ ہم مسجد بنوی میں بیٹھے تھے۔ افطار ہو نے کو تھی اور میں سوچ رہی تھی۔ یہاں بریانی کہاں سے لاؤں کہ اچانک بریانی کے ٹرے لگنا شروع ہو گئے، یونہی میری ایک اور دوست اشراع نے بتایا کہ ہم مدینہ میں پیدل سفر کر رہے تھے۔ میری بہن نوڈل کھانے کی ضد کرنے لگی۔ میں نے چڑ کر اسے کہا اب یہاں کہاں سے نوڈل لاؤں۔ کہ سامنے کھانے کے کچھ کیبنز دکھائی دیے۔ اس میں ایک نوڈل کا تھا،

تو میری جان ہم کب سے فحاشی کی خواہش میں مغرب مغرب کر رہے تھے۔ ویزے تھے کہ مل نہیں رہے تھے۔ کتنے ہی خواب تھے جو ہم نے دن رات دیکھے تھے۔ کبھی ساحلوں پہ گوشت تاڑنے کے، کبھی کلب میں حسن وارنے کے، کبھی پب میں خود کو ساڑنے (دل جلانے) کے، مگر پورے ہونے کو ہی نہیں آ رہے تھے۔ تب ایک ورلڈ کپ ہم پہ ساری مغربیت لے کر اترا۔ وہ ہماری برین واشنگ ایسی کی کہ کچھ نہ پوچھو۔ دھرنے کے انداز سے ہی لگا، ہم دھر لئے گئے ہیں۔ کیا مہکتی راتیں تھیں۔ اور کیا سہانے دن۔ آج بھی وہ سہانا وقت یاد آ تا ہے تو کلیجہ منہ کو آ جاتا ہے۔

مگر دل حلق تک ہی آیا تو پتا لگا کہ حکومت نے حلف اٹھا لیا ہے۔ لہذا پہلے حلف مسترد ہو چکے ہیں۔ جلد ہی ریاست مدینہ کا اعلان ہو گیا۔ یوں ہمارے سب خواب یہاں پورے ہو گئے۔ فحاشی عام ہو گئی اور خلیفہ وقت نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ اس پہ قابو نہیں پا سکتے۔ اور مرد اپنے نفس کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ سو اب ہماری پانچوں انگلیاں کیا، ٹانگیں بھی گھی میں ہیں۔

دیکھو ناں تحریم، پردہ تو عورت کو ہی کرنا ہے۔ مرد کا کام نفس کو خود پہ سوار رکھنا ہے۔ ایسا کرو چائنہ میں کسی کمپنی سے رابطہ کرو۔ کہ زیرو سائز کا عبایہ تیار کریں۔ جو لیبر روم میں ہی بچی کو پہنا دیا جائے۔ اچھا کاروبار ہے۔ آج کل خوب چلے گا۔ ساتھ ایسی مردانہ پتلونوں اور شلواروں کے بھی آرڈر دے دینا۔ جن سے نفس نظر آ جائے۔ اور ہم ریپ سے بچ سکیں۔ کیونکہ یہ ریاست مدینہ تو ہے مگر مردانہ ریاست مدینہ ہے۔

زنانہ ریاست عبایہ میں ہے۔ خاتون اول سے لے کر آ خر تک۔ ہم جیسوں کے لئے نہیں ہے۔

اب تو ثوابی برانڈ بھی لانچ ہو گیا ہے۔ کمائی بھی ثواب کے لئے استعمال ہو گی۔ اور اسے زمینی حوریں پہنیں گی۔ مجھے امید ہے جلد کسی کفن کی نمائش بھی ہو گی اور ہم فرعونوں کی طرح دفن ہوا کریں گے۔

ارے یار، تم نے سید محمد زاہد صاحب کی تحریر بھیجی۔ زاہد صاحب آپ کا بہت شکریہ کہ لکھتے ہیں ”گولڈن گرل کی رابعہ الربا ء نے اپنے کالم میں ایک جملہ لکھ کر منافقت کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کر دیا ہے، آپ کو کیا علم کہ یہ معاشرے کا ہی تھپڑ تھا، اسے واپس کیا ہے۔

امر جلیل صاحب کی تحریر پڑھی۔ کیا کمال کی ملامتی تحریر ہے۔ مگر عوامی نہیں ہے۔ پھر بھی عوام پڑھ رہے ہیں۔ تاکہ گالم گلوچ کر سکیں۔

ہمیں تو ان کے اشاروں استعاروں نے جیتے جی مار دیا ”خدا اگر سفید اور کالے کو بھول گیا تو کاروکاری کی بجائے وہ سفید و سفیدی کر کے مار ڈالے گا،

ہائے کیا دل کی لگی کہی ہے خدا بھول بھی گیا تو سفید ہی سہی، سزا مونث تک ہی رہے گی۔ کیا کہہ ڈالا تیری بھول کے صدقے۔ خیر اس بھول میں انہوں نے مونث کا حوالہ غالب رکھا مگر ختنے مرد کے بھی کروا دیے ہیں۔ مرد نے ہی عورت کی خواہش کی ہے کترینہ کیف کو مانگ لیا ہے۔ عورت نے مرد کی تمنا قلم کی نازک نوک پہ بھی نہیں کی۔

مزید لکھتے ہیں ماں اور ماں کی ممتا کیا ہوتی ہے اگر پتہ ہوتا تو دس پندرہ عورتوں کو بھی نبی بنا کر ضرور بھیجتے، تم نے دنیا مردوں کے لیے بنائی ہے، بد روحوں کے لئے بنائی ہے،

خدا نے کہا بولو تو تمہیں ابھی عورت بنا دوں؟ میں نے فوراً کہا کہ ایسا ظلم نہ کر نا، میری چار گھر والی ہیں، اور چار باہر والی ہیں، میں عورت بن گیا تو ازدواجی زندگی میں خلل پڑ جائے گا، شرعی مسئلہ پیدا ہو جائے گا،

یوں لگتا ہے امر صاحب پہ بھی گولڈن گرلز والی سوچ کی کوئی تخلیقی روح کا گزر ہوا ہے۔ ہم ہوتے تو امر سے کہتے بھئی عورت میں ممتا ہے وہ گمراہی سے بچ سکتی ہے۔ ورنہ دس بارہ عورتوں کی تاریخ پڑھ کر آج ہم بھی جوانی کے کیے عیش سے توبہ کرتے اور نئی نسل کو بے حیائی و بے لباسی کی بچنے کے درس دیتے پائے جاتے۔ ہمیں لیبر روم میں ہی پتا چل جاتا ہے بچہ بے لباس پیدا ہوا ہے۔ ہمیں مرد دیکھتے ہی خبر ہو جاتی ہے، کپڑے میں انہیں خارش ہو رہی ہے۔

ابھی بھی ہم کہیں کہ وہ کوئی پہنچا ہوا انسان نہیں ہے تو کم ظرفی ہو گی۔ جاناں ملامتی ہے، اور ملامت کے لئے قرب کی انتہا چاہیے تب کن ہوتا ہے اور جب ”کن، ہو تا ہے، تب قربت سے کن تک کے سفر سے حاسدین کا یہی رد عمل ہوتا ہے تو سامنے آ رہا ہے۔

ہائے درویش ڈاکٹر خالد سہیل

بہت بہت شکریہ کہ آپ نے گولڈن گرلز میں اپنا تاریخی حصہ شامل کر کے اپنے انسان دوست ہو نے کا ثبوت دیا۔ آپ نے عورتوں کی تحریک کو بہت سادہ لفظوں میں بیان کیا۔ مگر مرد دونوں تحریکوں کو ایک ہی آ نکھ سے، یا دونوں آنکھوں سے ایک جیسا دیکھتا ہے۔ اسے اس کی دماغی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ۔ اس کو سمجھ ومجھ کچھ نہیں وہ اپنے چار باہر والی، چار گھر والی کے حقوق کھو جانے سے لا شعوری طور پہ خوف زدہ لاچار مردانگی کا پرچم اٹھائے، تیزاب کی بوتل تھامے اپنے حق کی بات کرنے بھی عور ت کے پاس ہی آ تا ہے۔

ان کی تحریر میں تحریکوں کی واضح صورت گری ملتی ہے

 ” پہلی تحریک فیمینزم کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس تحریک میں شامل عورتیں پدر سری نظام کے خلاف محاذ آرا ہیں۔ وہ سیاسی کارکن ہیں اور ان کے نعروں اور ان کی تحریروں میں مرد کے خلاف غصہ نظر آ تا ہے۔

دوسری تحریک عورتوں کی آزادی اور خود مختاری کی تحریک ہے۔ اس تحریک کا مردوں کی سیاست سے زیادہ لینا دینا نہیں۔ اس تحریک میں شامل خواتین دوسری عورتوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور مردوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔ جو ان کے دوست اور ہمدرد ہیں۔ ان خواتین میں غصہ نہیں پایا جاتا۔ ان کی جد و جہد سیاسی، جذباتی، سماجی اور تخلیقی ہوتی ہے، ہمارے ہاں ان دونوں تحریکوں کے باہمی فرق کو نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ تاثر ہے کہ ہر وہ عورت جو آزادی و خود مختاری کی بات کرتی ہے۔ اس کو کوئی مادر پدر آزادی چاہیے اور اسے مرد سے نفرت ہے۔ لیکن یہ بھی مزے کی حقیقت ہے کہ ہر مرد کو آزاد عورت پسند ہے۔ مگر اپنی نہیں، دوسرے کی آزاد عورت۔

ڈئیر لبنی مرزا ارے بھئی ہم نے آپ سے بھی گولڈن گرلز میں شمولیت کا کہا تو آپ نے کہا ”میں تربیتی حصے میں شمولیت کروں گی، اور آپ نے جب لکھا تو کمال ہی کر دیا۔ یہ خالصتاً تربیتی پروجیکٹ ہے۔ جس میں ہم چاہیں گے کہ آپ پھر شمولیت کیجئے۔ اور بھی اگر کوئی آنا چاہے تو وسعت بڑھتی چلی جائے گی۔

بات کچھ یوں ہے کہ قاری فرما رہے ہیں ڈاکٹر صاحبہ کی تحریر آپ کو سمجھ نہیں آئی۔ تو ایسا ہے کہ اسے دو پہلو صاف دکھائی دیتے ہیں اول یہ کہ آپ کی ذہنی وسعت کے حدود و قیود، دوم آپ سمجھنا ہی نہیں چاہتے کیونکہ یہ وہ ٹیکہ ہے جو آپ کی مصنوعی مردانگی کے عین اوپر ڈاکٹر صاحبہ نے لگا دیا ہے۔ درد تو ہو گا۔ مگر چونکہ آپ کی تربیت ہے کہ مرد کو درد نہیں ہو تا۔ وہ درد دیتا ہے۔ سو آپ مرد بننے کی ایک ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ آئیے سادہ لفظوں میں بات کرتے ہیں کہ ڈاکٹر لبنی نے کہا کیا ہے۔

 ”صنفی امتیاز جب رویہ بن جائے تو نارمل لگنے لگتا ہے، جیسے امریکہ انسانی حقوق کی تو بات کر تا ہے مگر جب کسی کالے پہ تشدد ہو تا ہے تو اس سماج میں بھی یہ رویہ نارمل لگتا ہے۔ یہاں انہوں نے لفظ ”پدرسری“ امریکی حکومت کے لئے استعمال کیا ہے۔ یہ محدود اذہان والوں کے لئے استعارہ ہے۔

لڑکیو ں کو بایئس تیس سال تک دو تین ریلیشن شپ میں سے نارملی گزر جانا چاہیے۔ یوں ان کی جذباتی تربیت ہو جاتی ہے اور وہ ریلیشن شپ کی پیچیدگیوں کو سمجھ جاتی ہیں

جو آدمی خود نالائق ہوتے ہیں، وہ عورت کی تعلیم، ملازمت کے خلاف ہوتے ہیں۔ اور وہ فوراً مذہب کو درمیان میں لے آتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے لڑکیوں کو نالائق کی نشانی بتا دی ہے۔

جو لوگ خود اپنی زندگی میں ناکام ہوتے ہیں وہی دوسروں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ اور دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑاتے ہیں۔

جہاں بنیادی حقوق میسر ہوں گے، وہاں انسان انسان کا استحصال نہیں کرے گا۔

وہ مرد جو ”عورت کی عزت کرتا ہوں، جیسی باتیں کرتے ہیں ان کو بھی علم نہیں کہ عورت کی عزت کی کیسے جاتی ہے۔

بھائی، شوہر، باپ اور بیٹے ایسی مخلوقات ہیں جو خود کو تو سنبھال نہیں سکتے۔ عورت کو کیا سنبھالیں گے۔ اسی لئے تو اپنا موزہ خود ڈھونڈو، اور کھانا خود گرم کرو جیسی بے ضرر باتوں پہ شور شرابا ہو رہا ہے۔ اور اگر ان سنبھالنے والو ں کا اچانک کسی حادثے سے انتقال ہو جائے تو پیچھے رہ جانے والوں کو کون ذمہ دار ہو گا؟

آخر میں انہوں نے میری فرانسس کے جملے پہ بات ختم کی ہے کہ ’یہ آ دمی بلا وجہ خود کو اعلی درجے کا انسان محسوس کرتے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ جب چاہیں خواتین کو توجہ دیں، اور جب چاہیں نہ دیں۔ جیسے خواتین کم تر انسان ہیں، دوسرے درجے کی شہری ہیں لیکن وہ زندگی میں بڑی غلطی کرتے ہیں،

تو میری جانی تحریم ”جب چاہیں، سے کام خراب ہوتا ہے۔ جب چاہیں والے مرد کو، ہمیں بھی، چھوڑ دینے کا رویہ اختیار کر نا ہو گا۔ ورنہ یہ ہماری عزت نفس کو کچل کر یونہی بے عزتی کا رویہ حق سمجھ کر روا رکھیں گے۔ مرد کو ابھی تک عزت نفس کا علم ہی نہیں کہ کیا شے ہوتی ہے۔ بس اس کو یہ پتا کہ عورت بے وفا اور دغا باز ہے۔ اس کے اندر وہ عزت نفس کا پورا باب لپیٹ کر کوڑے دان میں پھینک دیتا۔ عورت کی ممتا بھی ایسی ظالم شے ہے۔

ہر دم اس ٹوٹے بندھن کو، خود پہ بوجھ ڈال کر سنبھالنے رکھنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ یہ نہیں سمجھتی جس لمحے عزت نفس مجروح ہوئی تھی۔ بندھن تو اسی لمحے ختم ہو گیا تھا۔ عورت کو اس لمحے کو قبول کرنا سیکھنا ہو گا۔ عورت ساری عمر توقع کی شاخ سے پھل بنی لٹکی رہ جاتی ہے۔ مگر کسی کو کوئی خبر نہیں ہوتی۔ جس کو یہ آ دمی عورت کی بے وفائی کہتے ہیں۔ وہ اس کی قوت برداشت کی آ خری سیڑھی ہوتی ہے۔

عورت نے کبھی یہ نہیں کہا کہ مجھے محبت دو۔ اس نے ہمیشہ یہ بات کی ہے کہ مجھے عزت دو۔ مگر ان سب کو عزت اور محبت کے معنی بھی مترادف لگتے ہیں۔ اور یہ پتلونوں کی بیلٹیں ڈھیلی کیے منڈالنے لگتے ہیں۔ اگر عورت ان سے دو ٹوک بات کر دے کہ شادی کر سکتے ہو، ذمہ داری اٹھا سکتے ہو تو آ جاؤ۔ گھر بناتے ہیں۔

یہ سنتے ہیں ان کو ڈپریشن ہو جاتا ہے۔ الٹے پاؤں بھاگ جاتے ہیں۔ اور عورت کو بے حیا سمجھنے اور کہنے لگتے ہیں۔ وہ بے حیائی نہیں ہوتی جب وہ آپ اس کو دعوت لذت دے رہے ہوتے ہیں۔ یا ساتھ کوئی سہانا وقت بتانے کا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ بعد میں عورت دولت پہ مرتی ہے کہتے ہوئے دم دبا کر کسی نئی عورت کے پاس چلے جاتے ہیں۔

کبھی روز نامہ ”امت“ ہماری عزت نفس کو داغ دار کرتا ہے تو کبھی“ امت کا ولی عہد، اس پہ اپنی زبان دراز کرتا ہے۔ تو کبھی اس کے پیروکار اپنی برہنہ سوچ کا پردہ چاک کیے چلے آتے ہیں۔

تم نے بات کی شادی کی دعوت کی، نہیں میری جان، جس نے شادی کرنی ہوتی ہے وہ دعوت نہیں دیتا، کر لیتا ہے۔ اس کے پاس لفظوں کی بھی کمی نہیں ہوتی۔ کیونکہ نیت کا اخلاص ہو تا ہے۔ باقی سب لغت اور الفاظ کے فقدان کا شکار ہوتے ہیں۔ شاید اس کو مردانہ کمزوری کہہ سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے اس گروپ میں اندازہ ہوا کہ یہ سب چکر باز ہوتے ہیں۔ ایک ہی مرد سب سے کم عمر لڑکی کو دعوت بیاہ کا لفافہ لئے شروع ہوتا ہے، اور بتدریج آ خری عمر والی، طلاق یافتہ و بیوہ تک جاتا ہے۔

شادی کسی سے بھی نہیں کرتا۔ اگر تو کوئی باعزت مرد ہے تو ایک عورت کا انکار سہ جانا بھی کمال ہے۔ گویا اس نے اس کے پورے کے پورے وجود کا انکار کیا ہے وہ ایک مہینے میں سات عورتوں کو شادی کا دعوت نامہ نہیں دیتا۔ ہمیں کوئی مسترد کرے تو کتنا دکھ ہو تا ہے۔ یہی انسانی فطرت ہے۔ یونہی مسترد ہو نے کا غم مرد کو بھی ہوتا ہے۔ مگر نامرد اور سٹھیاپے کے ماروں کو کچھ نہیں ہوتا۔ وہ اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔

انہی غموں میں اک غم مرد کی طاقت کی عمر ختم ہو نے کا ہے۔ جس کے بعد وہ وزیر اعظم بن جاتا ہے۔ جوں جوں طاقت کی عمر کم رہتی جاتی ہے۔ توں توں ٹھرک کی عمر جوان ہو نے لگتی ہے۔ جب کوئی مرد ٹھرک پن کرے تو سمجھ لینا چاہیے کہ ”گل ود گئی اے، (بات بڑھ گئی ہے) جوان لڑکے کبھی ٹھرک پن نہیں کرتے۔ نہ ہی کسی عورت کا جینا اجیرن کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ عورت کو بے عزت کرنا سیکھتے ہیں۔ یا گھر کے ماحول کے مطابق۔

ورنہ سادہ سا گرائمر کا اصول ہے۔ بادشاہ کی مونث ملکہ ہی ہوتی ہے۔ جو مزاج کا بادشاہ ہوتا ہے اپنی چاہنے والی کو ملکہ ہی سوچتا ہے۔ جو دو نمبر کی شہری سوچتا ہے۔ وہ خود کہیں نا کہیں دو نمبر کا ہو تا ہے۔

تم نے بات کی اپنے جذبات کے احترام کی، تو میری سویٹ گرل جذبات ہون گے تو احترام ہو گا ناں، یہ جذبات کو زنانہ صفت سمجھ کر اسے دبا دیتے ہیں۔ اور جہاں انہوں نے اس کا چاند چڑھانا ہو، چڑھا دیتے ہیں۔ لیکن ہم اگر اپنے جذبات میں موت کی منزل بھی پار کر لیں تو ایک جملے میں اڑا دیتے ہیں ”وہ مجھے اتنا چاہتی تھی کہ مر گئی، لیکن شرم سے خود نہیں مرتے۔

مجھے آج تک ایک رسالے کے مدیر (اللہ ان کے درجات بلند کرے ) کا جملہ نہیں بھولتا جو وہ دفتر میں بیٹھے روز بیسیوں بار دھراتے تھے ”فلاں نے تو میرے عشق میں خود کشی کر لی، میرا دل پہلی بار سن کر بھی یہی کیا کہ پیپرویٹ مار کر ان کو بھی اس کے پاس پہنچا دوں۔ آج بھی مجھے ان کی سب اچھائیوں کے باوجود اس جملے کا دکھ نہیں بھولتا۔

تم نے یہ ”دیسی مرد، کا مرکب بہت اچھا استعمال کیا ہے۔ دیسی مرد اور ولایتی مرد کا فرق“ اردو افسانہ عہد حاضر میں، کرتے ہوئے شدت سے ہوا۔ یقین کرو کہیں نا کہیں دیسی مردوں سے باسی مکھن کی بو آ ہی جاتی ہے۔ تب ہم نے فیصلہ کیا کہ یار یہ دیسیوں کے ساتھ کام کر نے سے بہتر ہے کہ نہ کرو۔ اور کچھ عرصہ لکھنا چھوڑ بھی دیا۔ مگر لکھی کو کون ٹال سکا۔

لیکن کچھ دیسی لبرلز نے احساس دلایا کہ یہاں بھی ہمارے ہم عمر اور ہم سے چھوٹی نسل بدل چکی ہے۔ لہذا اعتماد بحال ہوا۔ اور پھر نئی قلمی زندگی کا سفر نئے لوگوں سے جب ہوا تو اچھے ساتھی ملتے چلے گئے۔ جہاں ہم سب انسان ہوتے ہیں۔

تم نے ابا کی دی آزادی کا پوچھا تو اس کا انسانی حد تک استعمال ضرور کیا۔ اور مگر جان لیوا حد تک ممتا غالب رہی۔ ہم کوئی مرد نہیں تھے۔ نہ اپنے جینڈر پہ ملال تھا۔ لیکن دوچار تھپڑ اور جنگجو حرکات کو حسب ضرورت استعمال کیا ہے۔ مگر اعتماد کبھی نقصان کی راہوں کا ساتھی نہیں بنتا ہو نہیں بنا۔

تم کہہ رہی ہو تم نے کوئی حقیقت دیکھی ہے۔ یہی وہ سراب ہے جو ہمیں حقیقت لگتا ہے۔ اگر وہ امید کا چاند ہو تا تو چڑھ جاتا، اگر طلوع کا تارا ہوتا تو طلوع ہو جاتا۔ مگر وہ تو اماوس کی کوئی حقیقت تھی۔ یا جنگل میں ناچا مور ہو گا۔ جو ہم نہیں دیکھ سکے۔ جلوہ تم تک رہا۔

اس لئے ہم تو کہیں گے امید کا ہاتھ تھامو، اور توکل کی راہ پہ خود کو آ زاد چھوڑ دو۔ ہر ہم سفر منزل نہیں ہوتا۔ ہم سفر اپنے سٹیشن پہ نہیں اترتا۔ تمہاری حقیقت تو یہ ہے کہ وہ تمہارے سٹیشن پہ تمہارے ساتھ اترے گا۔ اور وہاں سب اندھیرے چھٹ جائیں گے کہ ”ساتھ، کی اپنی روشنی ہوا کرتی ہے“۔

رات سکوت میں بدل گئی ہے۔ اور اندھیروں کی بات نے وحشت میں گھیر لیا ہے۔ میرے سونے کی دعا کرو کہ مجھے میرے استاد محترم کا کلام یاد آ گیا ہے

یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے

یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے

یہ عیاں جو آب حیات ہے اسے کیا کروں

کہ نہاں جو زہر کے جام تھے مجھے کھا گئے

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم

گولڈن گرلز کے عنوان کے تحت رابعہ الربا اور تحریم عظیم بتا رہی ہیں کہ ایک عورت اصل میں کیا چاہتی ہے، مرد اسے کیا سمجھتا ہے، معاشرہ اس کی راہ میں کیسے رکاوٹیں کھڑا کرتا ہے اور وہ عورت کیسے ان مصائب کا سامنا کر کے سونا بنتی ہے۔ ایسا سونا جس کی پہچان صرف سنار کو ہوتی ہے۔

golden-girls has 28 posts and counting.See all posts by golden-girls

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments