ڈاکٹر حمیرا اشفاق کا افسانوی مجموعہ: کتبوں کے درمیان


کہانی کو انسانی زندگی میں ازل سے ہی بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے۔ کہانی لکھنے والے نے کہانی کو دو مقاصد کے تحت تحریر کیا ہے۔ ایک تسکین یا راحت کے سامان کے طور پہ جب کہ دوسرا مقصد ہماری زندگی کے حقائق اور معاملات کو سامنے لانا۔

دونوں مقاصد میں کہانی کا تعلق بہرحال انسان سے ہی جڑا رہا ہے، گویا کہانی نے انسانی زندگی اور کائنات کو ایک دوسرے کے قریب تر کر دیا۔ اردو ادب میں ابتدا سے لے کر موجودہ دور تک ہر فکر کے تحت افسانہ لکھا جاتا رہا ہے۔ حساس طبع افراد نے معاشرے میں ہونے والی نا انصافیوں، مظالم، سیاسی و معاشی ناہمواریوں، عورتوں کے مسائل غرض ہر ایک موضوع پہ لکھ ڈالا۔

اکیسویں صدی میں اردو ادب کے حوالے سے ڈاکٹر حمیرا اشفاق کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ زیر نظر مضمون ڈاکٹر حمیرا اشفاق کے افسانوی مجموعے ”کتبوں کے درمیان“ کا جائزہ ہے۔

ان کے افسانوں مجموعے کو کسی ایک جہت سے دیکھنا میرے خیال میں ان کی فکر یا فن کے ساتھ ناانصافی برتنے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ ہر حساس شخص کسی بھی زیادتی یا ناانصافی نہیں کر سکتا اسی طرح ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے اپنے افسانوں کو صرف ایک پہلو سے تشکیل نہیں دیا۔

چونکہ ان کا تجربہ نہ صرف پاکستانی معاشرے کا ہے بلکہ لندن اور چین تک وہ اپنے تعلیمی و تدریسی سلسلے میں سفر کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے مختلف معاشروں کے مسائل کو انتہائی قریب سے دیکھا ہے۔ انسانوں کی بے بسی و بے چارگی، عورتوں کے مسائل، اخلاقی پستی، سیاسی حالات، مشینی دور کے نقصات ٖغرض ہر وہ مسئلہ جو کسی نہ کسی طرح انسانوں سے وابستہ ہے، ایسے مسائل ہیں جو ہر معاشرے میں موجود ہیں اور انہی مسائل کو حمیرا اشفاق نے اپنے افسانوں میں بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر حمیرا اشفاق ہمہ جہت شخصیت کی حامل ہیں جو تحقیق و تدریس کے ساتھ ساتھ تخلیق میں بھی اپنی کاوشیں جاری رکھے ہوئی ہیں۔

”کتبوں کے درمیان“ ڈاکٹر حمیرا اشفاق کا پہلا افسانوٰی مجموعہ ہے۔ تخلیق کار کا کمال ہی یہی ہے کہ اس کی تخلیق کو ایک پہلو سے نہ پرکھا جائے۔ اسی طرح ”کتبوں کے درمیان“ افسانوں کا ایسا مجموعہ ہے جس کی کہانیوں کے اندر کہانیاں چھپی ہوئی ہیں۔ عمیق نظر سے مطالعہ کہانیوں کی مختلف جہات کو سامنے لاتا ہے۔ مشینوں کی ایجاد اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے عام افراد کے لیے پیدا ہونے والے مسائل کو ”مسٹر چرچل“ اور گھگو گھوڑے میں بیان کیا گیا ہے۔

مسٹر چرچل کی کہانی ایک ترقی یافتہ معاشرے کی کہانی ہے۔ جہاں مشین کی ایجاد اس معاشرے کے لیے بھی مسائل کا باعث ہے ، جہاں بنیادی حق دینے کے لیے حکومت ذمہ دار ہوتی ہے۔ کئی ہاتھوں کی جگہ اب مشین نے لے لی تھی۔ مسٹر چرچل وہ کردار ہے جو اس ترقی کی مخالفت کرتا ہے کیونکہ اسے یہ اندازہ ہو چکا ہوتا ہے کہ عنقریب میں اس کی جگہ مشین کو دے دی جائے گی۔ یہ کردار اپنے سامنے کئی لوگوں کو بے روزگار ہوتے ہوئے دیکھ چکا تھا۔

”دراصل ہم پرانا مال ہیں، اس لیے ہمیں گوداموں میں پھینکے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔“

گزشتہ برسوں میں جھانکتے ہوئے وہ کہنے لگے: ”پہلے کام انسان کرتے تھے اب ہر کام مشین کے ذریعے ہوتا ہے۔“

گویا ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے اس افسانے میں اگر مشین کی ایجاد کا المیہ بیان ہے تو اسی کے ساتھ روزگار کے سلسلے میں دوسرے ممالک کا سفر کرنے والے افراد کے مسائل بھی بیان کیے ہیں۔ مستقل شہری اور پناہ گزین ہونے کے فرق کو بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ کہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے والے پناہ گزٰین فرد کو کیسے غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔

”۔ وہ چاہتے تھے کہ میڈیا اس مسئلے کو اٹھائے مگر ریلوے اسٹاپ پہ پڑے مفت اخبار میں سی ڈیز، بینڈز، شہزادی کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کی ملکہ کے ساتھ تصاویر۔ جوتوں، کپڑوں، فرنیچر اور مشینوں پر لگی سیل کی خبریں تھیں۔ اس میں مسٹر چرچل کی روکھی پھیکی بات کو جگہ کیونکر مل سکتی تھی۔“

دوسری طرف ”مسڑچرچل“ کا کردار ایک تحریک کے طور پہ بھی سامنے آتا ہے، جو کہ خود اس سے فیض حاصل نہیں کر پاتا لیکن کہیں افراد اس کی آواز بن جاتے ہیں ۔ گویا ایک دن کی ہڑتال اس مشینی دور میں انسانوں کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔

مشین کی پیدا کردہ آسانی اور اس سے کام لینے میں بہرحال انسان کا ہی کردار ہے۔ اسی طرح افسانہ ”گھگو گھوڑے“ بھی آج کے انسان کا المیہ ہے جس میں ٹیکنالوجی کی ترقی نے ہاتھوں کی محنت کو قدرے کم کر دیا ہے۔ پلاسٹک کے گھوڑوں نے کئی افراد کو مایوس کیا ہے لیکن یہ احساس سوائے محروم لوگوں کے کسی اور نہیں ہو سکتا۔ غریب افراد مشین کی ایجاد سے نہ صرف روزگار سے محروم ہوئے ہیں بلکہ ان کی رنگینیوں سے متاثر اپنے بچوں کی خواہشات کو پوری کرنے میں بھی پریشانی سے دوچار ہیں۔

” ابا یہ گھگو گھوڑے ہیں، نقلی والے۔ گھوڑا تو وہ ہے اصلی والا۔“

ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے یہاں نہ صرف معصوم ذہنیت بلکہ پلاسٹک کے بظاہر جاندار نظر آنے والے گھوڑے کی مرعوبیت نے مٹی سے کھیلنے والوں کی اہمیت کو کس طرح کم کیا ہے، کو بیان کیا ہے۔

برق رفتاری کے اس دور میں ڈاکٹر حمیرا  نے عورتوں کے حوالے سے بھی بات کی ہے۔ عورت جو کہ اس معاشرے میں مردوں کے ماتحت سمجھی جاتی ہے ، وہ کئی مسائل سے بھی دوچار ہوتی ہے۔ ڈاکٹر حمیرا اشفاق جہاں عورتوں کے حقوق کی علم بردار ہیں وہیں وہ اس حقیقت کو بھی بیان کرتی ہیں کہ اکیلی عورت کے لیے اس معاشرے میں رہنا مشکل ہے یا شاید تنہائی کے بوجھ کو سنبھالنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ افسانہ ”گلاب“ جو کہ صیغہ واحد متکلم میں لکھا گیا ہے۔ ایک اکیلی عورت، شادی کے بندھن میں بندھنے والی عورت اور دونوں صورتوں میں روزگار کے سلسلے میں بھاگنے والی عورت کی کہانی ہے۔ افسانے میں ”مس عطرت“ کا کردار عورت کی مکمل آزادی کی بات کرتا ہے۔

” شادی بھی ایک جنجال ہے، جاگو تو کسی اور کی مرضی سے، سوؤ تو کسی اور کی مرضی سے، بس عورت کی تو جیسے کوئی مرضی ہی نہیں۔“

افسانے کا یہ کردار عورت کی خودمختاری کا عکاس ہے۔ کسی کے ماتحت رہنا، یا باہر کے کاموں کے ساتھ ساتھ امور خانہ داری اس کردار کی ذمہ داری نہیں ہے۔ صیغہ واحد متکلم میں ڈاکٹر حمیرا جاب کرتی عورتوں کے مسائل کو احسن طریقے سے بیان کرتی ہیں۔ ”مس عطرت“ کے خیالات دراصل ان کی اپنی سوچ کے عکاس ہیں جو کہ ان حقوق سے متعلق ہے ، جو گھر اور معاشرے سے عورت کو ملنے بھی چاہئیں۔

افسانہ ”مٹی، مٹکے، سونا‘‘ ایک محنت کش غموں کی ماری عورت کی کہانی ہے۔“ امیر بی بی ”لوگوں کی نظر میں سونے کی مالک ہے کیونکہ وہ شوہر کی وفات کے باوجود تمام تر ذمہ داریوں کو بخوبی نبھاتی ہے۔ زندگی بھر کی جدوجہد اور محنت اسے اپنوں سے دور کر دیتی ہے، حمیرا اشفاق محنت کے صلے میں ملنے والے المیے کو خوبصورتی کے ساتھ بیان کرتی ہیں۔ عزیز و اقارب مشہور مفروضے (سونے کی اینٹ) کے پیچھے اس کی آخری سانس تک لگے رہتے ہیں۔

سخت محنت کا صلہ اس کی اولاد تک اسے نہیں دے پاتی۔ امیر بی بی کی محنت اور مشکلات کے برعکس مال و دولت رشتوں کے لیے اہم ہو گئی۔ ہمارے معاشرے کی بدترین حقیقت کو اس افسانے سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ اسی کے ساتھ حمیرا اشفاق نے افسانہ“ بھاگ بھری ”میں اولاد کی بے رخی اور دنیا کی رنگینیوں میں محنت کرتی عورت کو پیچھے چھوڑنے کی کہانی کو بیان کیا ہے۔ ماں کا کردار نبھانے والی عورت کئی ارمانوں کے ساتھ اولاد کو پال پوس کے اس مقام تک پہنچاتی ہے جہاں وہ ان کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے لیکن بے حس خونی رشتے اپنی کامیابی میں ماں کو کہیں دور چھوڑ دیتے ہیں۔

”بیٹی کی بات کاٹ کر رجو نے پھرتی سے ٹوکرے کو ہاتھ ڈالا اور۔ درد کو دانتوں میں پیستے ہوئے کہا:پر نکل آئیں تو پنچھی کب گھونسلے میں رہتے ہیں، یہ جھلی ہے بے چاری۔ اپنے اپ سے باتیں کرتی ہے۔‘‘

دوسری طرف حمیرا اشفاق افسانہ ”روشنی کا سفر“ میں وڈیرہ نظام پر تنقید کرتی نظر آتی ہیں۔ خاص کر اس نظام کے اندر دبی ہوئی عورت اور اسی نظام کے حامل افراد کی سوچ کو بیان کیا ہے۔ سمی کا کردار اگر ایک طرف مشکلات کا حامل کردار ہے تو دوسری طرف ایک متحرک کردار بھی ہے، جس کی آواز اسے تعلیم جیسی سہولت سے آراستہ کرتی ہے۔

”نہیں چلے گا نہیں چلے گا، وڈیرہ سسٹم نہیں چلے گا۔ تعلیم میرا پہلا حق ہے۔ یہ میرا سکول ہے۔“ اس طرح کے کئی اور نعروں اور بینرز کے ساتھ ایک طویلے کے باہر زمین پر آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی۔ ”

ہمارے معاشرے میں تعلیم کا فقدان مسائل کا باعث ہے۔ اگر ہمارے معاشرے میں ”دادی لیلاں“ جیسا کردار ہو تو رہنمائی کے ساتھ ساتھ مثبت سوچ کو ابھارا جا سکتا ہے۔

ایک مکمل گھر کے باوجود مرد کی بے وفائی کو ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے افسانہ ”جادوگر“ میں خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ خاندان کی طرف سے ڈالی گئی ذمہ داری میں ”منظور“ کو کبھی سکون و راحت نظر نہیں آتا۔ ہمارا معاشرہ ایسے واقعات سے بھرا پڑا ہے جہاں مرد گھر کے اندر اور باہر راحت کا سامنا چاہتا ہے، دوسری طرف عورت بعض دفعہ سب کچھ جاننے کے باوجود مرد کی ذرا سی محبت یا توجہ سے اس پر یقین ظاہر کر دیتی ہے۔ محبت کا ایک بول عورت کو خاموشی پہ مجبور کر دیتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ مرد عورت کی نفسیات سے کھیلنے میں خود کو ماہر سمجھتا ہے۔

”نازیہ بجلی کی طرح کوند کر اس کے گلے کے ساتھ چپک گئی، سسکیوں کے درمیان بار بار دہراتی جاتی کہ اس نے تعویزوں سے آپ کا دماغ اپنے قابو میں کر لیا ہو گا۔ نازیہ کے گلے میں بازوؤں کا ہار ڈالے ڈالے منظور نے ’آل اوکے‘ کا پیغام لکھا۔

مرد کی منافقت کی شکار کئی وفادار عورتوں کا المیہ ”نازیہ“ کے کردار میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر حمیرا اشفاق ایک سال تک لندن میں مقیم رہی ہیں، وہاں کی معاشرت اور دو مختلف طرح کے لوگوں کے تعلقات کو انہوں نے اپنے افسانے ”مس للی“ میں بیان کیا ہے۔ یہ افسانہ نہ صرف وہاں کی معاشرت کا بیان ہے بلکہ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ بھی ہے جہاں مرد عورت کی جنس سے ہٹ کر پیدا ہونے والے بچے کو قبول نہیں کیا جاتا۔ ٹرانس جینڈر جنہیں والدین مرد یا عورت کے روپ میں سامنے لا سکتے ہیں، انہیں اپنے لیے شرمندگی کا باعث سمجھتے ہیں۔ یا شاید اس صورت حال میں بے حسی کے ساتھ ساتھ اللہ کی تخلیق پر حقارت کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔

” یہ للی نہیں ذوہیب ہے میرا چھوٹا بھائی۔ وہ جو نہیں تھا وہ کیسے بن کر رہتا آخر۔ لوگوں کے طعنوں سے بچنے کے لیے اسے ماموں کے پاس بھیج دیا گیا تھا۔ وہ جانا نہیں چاہتا تھا۔‘‘

مجموعی طور پہ ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے سیاسی نظام، عدالتی کارروائی، جبری نظام، مشینی ترقی میں پستے لوگوں کے حالات، اخلاقی بے راہ روی اور عورتوں کے متعلق اپنے افسانوں کو تشکیل دیا ہے۔ عورتوں کے حقوق اور ان کی پامالی کے حوالے سے وہ اپنے قلم کو زیادہ حرکت میں لاتی ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ مختلف معاشروں اور فکروں کی کئی جہتوں کو سامنے لاتا ہے۔ تاہم افسانہ ”گلاب“ کے کردار کی خود کلامی ”مس عطرت میں آپ کو کیسے سمجھاؤں کہ ہر عورت اکلاپے کا دکھ نہیں سہہ سکتی“ ، انہیں حقیقی فیمنسٹ کے طور پہ سامنے لاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments