عمل رامے” اور پاکستان مساوات پارٹی والے حنیف رامے”


کالج کے ایسے طالب علم کی حیثیت سے جو میسر فارغ وقت لائبریری میں بیٹھ ادبی جریدوں کی ورق گردانی کیا کرتا۔ نقوش۔ سویرا۔ ادب لطیف قسم کے جریدوں میں سے ایک کے اعلی تجریدی آرٹ سے مزین سر ورق پر ایک کونے میں لکھے ”عمل رامے“ کے الفاظ اپنے والد کے پرنٹنگ پریس پر بھی بیٹھنے والے کالج کی سیاست میں حصہ لینے والے مصور۔ نقاش۔ خطاط۔ کیلیگرافی۔ آرٹسٹ۔ ایم اے اکنامکس اور فلسفہ۔ ادیب مقرر اور نہ جانے کیا کچھ۔ ہر فن مولا۔

حنیف رامے کا نقش ذہن میں بٹھا چکے تھے۔ حنیف رامے پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے دنوں میں محترمین غلام احمد پرویز اور خلیفہ عبدالحکیم سے متاثر اسلامی معیشت کے تصور اور سوشلزم کے ملغوبہ کا فلسفہ لئے۔ جے اے رحیم ڈاکٹر مبشر اور شیخ رشید (آج والے نہیں۔ جنرک دوائیوں والے) کے ساتھ مل کر اپنے فلسفہ کی بنیاد پر پیپلز پارٹی اور اس کا منشور بناتے شہرت سمیٹتے کرتے (جس پر کسی اور شخصیت کا دیا ”اسلامی سوشلزم“ کا طغرہ اور روٹی کپڑا مکان کا نعرہ بھٹو کو قائد عوام بنا گیا) پارٹی کے بانی ارکان میں شامل ہوتے ستر کے الیکشن میں منتخب ہو بہتؔر میں صوبائی وزیر پھر گورنر اور وزیر اعلی پنجاب کے منصب سے گزرتے پارٹی کے باغی شمار کیے جاتے کوئی چودہ ماہ جیل کاٹ۔

ضیاء الحق کے دور میں رہا ہو کر ایک اور سیاسی پارٹی کا مزا چکھتے بد دل ہو امریکہ چند سال پڑھاتے کئی کتابوں کے مصنف بنتے ”پنجاب کا مقدمہ“ لئے پنجاب کی محرومی۔ فلاں کا استحصال۔ اور فلاں سے سے زیادتی اور ان کے حقوق کی جنگ لڑنے کا نعرہ لئے ”دل جیتتے ضیاء دور میں اسؔی کی دہائی کے اوائل میں اپنے جاری کردہ اخبار“ مساوات ”کے نام پر پاکستان مساوات پارٹی بنا چکے تھے۔

سہ پہر کے وقت اپنی دکان موٹر پارٹس بالمقابل ریل بازار پولیس چوکی سرکلر روڈ فیصل آباد کے سامنے سبز رنگ کی ایک بڑی جیپسٹر کھڑی ہوتی دیکھی۔ دروازہ کھلا تو میرے بہت محترم عزیز دوست میں انوارالحق (مرحوم) کے بھانجے اور داماد زاہد ممتاز۔ گوجرانوالہ کے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والے نوجوان وکیل زاہد ممتاز میری طرف لپکتے آئے اور فوری ساتھ چلنے کو کہا۔ کہ حنیف رامے آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ حیران و ششدر پہلے بھری گاڑی میں زاہد کے ساتھ اگلی نشست پر ٹھنس کے بیٹھتے ساتھ ہو لئے۔

قافلہ ریگل روڈ پر بابا لسوڑی شاہ کے مزار سے کچھ پہلے ایک ٹرک اڈہ پر رکا۔ جہاں مساوات پارٹی کے دفتر کا افتتاح تھا۔ زاہد ممتاز پارٹی کے جنرل سیکرٹری تھے۔ میرا تعارف ایک بااثر احمدی کی حیثیت سے کرایا گیا۔ جس کا کاروبار انیس سو چوہتر کے ہنگاموں میں پولیس چوکی سامنے ہوتے بھی مکمل جلا دیا گیا تھا۔ میں نے بتایا کہ میں حنیف رامے کا اس وقت سے مداح رہا ہوں جب کالج کے زمانے میں ادبی رسائل کے سرورق پر بنی پینٹنگز کے نیچے ”عمل۔ رامے“ کے الفاظ کا طغرہ نظر آیا کرتا تھا۔

جب محترم حنیف رامے نے بتایا کہ اب وہ پنجاب کا مقدمہ۔ فلاں طبقے کے استحصال کا مقدمہ اور فلاں مشن کے ساتھ جماعت احمدیہ کے ساتھ ضیاء دور میں ہونے والی نا انصافیوں اور زیادتیوں کے خلاف بھی مقدمہ لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ تو میں انہیں ان کے بطور وزیر اعلی پنجاب دورہ سرگودھا کے دن (پانچ اکتوبر چوہتؔر شاید) ان کے ہوتے ہؤے۔ علم ہوتے ہوئے احمدیوں کے مال و املاک کے لوٹے اور جلائے جانے کا واقعہ یاد دلائے بغیر نہ رہ سکا۔ جس کی انہوں نے روایتی سیاستدانوں کی طرح توجیہ کی۔ اور خواہش ظاہر کی کہ میں جماعت احمدیہ کی قیادت تک ان کے جماعت احمدیہ کے حق میں بیانات اور جواباً جماعت احمدیہ کی حمایت کی خواہش پہنچا دوں۔ جماعت کے ادنی ’کارکن کی حیثیت سے جہاں تک پہنچ ممکن ہو۔ پیغام پہنچانے کا وعدہ کرتے میں واپس آ گیا۔

میں نے بزرگوارم محترم جناب شیخ محمد احمد مظہر صاحب۔ فیصل آباد کے بزرگ معروف وکیل اور امیر جماعت احمدیہ فیصل آباد (آپ کا تعلق کپورتھلہ سے تھا اور تیس کی دہائی میں تحریک آزادیٔ کشمیر کے دور میں شیخ عبداللہ کی اسیری کے زمانہ میں ان کی وکالت کر چکے تھے۔ عربی و فارس پر قادر اور عربی ام الالسنہ کے موضوع پر ان کا تحقیقی کام آکسفورڈ پریس نے شائع کیا) کے گوش گزار کر دیا۔ وہ مختصر اور صرف موضوع کے مطابق بات سنتے اور کرتے تھے۔ صرف اتنا کہا۔ ”لئیق صاحب آپ بھولے ہیں۔ یہ ابن الوقت لوگ ہیں۔ کل کو کوئی گھاس ڈالے گا۔ یا کھونٹا دکھائے گا۔ اور یہ پھر پرانی ڈگر پر ہوں گے۔“

تھوڑے عرصہ بعد زاہد ممتاز سے ملاقات ہوئی۔ تو بہت دل برداشتہ تھے۔ کہ رامے کو فلاں فلاں پر کشش آفر ہوئی ہے۔ اور وہ پارٹی کو فلاں یا فلاں پارٹی میں ضم کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ اور ہمیں بھی زور دے رہے ہیں۔ کہ یہ دنیا ہے۔ موقع ہے ہاتھ رنگ لو۔ ”اپنا لہو اجازت نہیں دے رہا۔“

پاکستان مساوات پارٹی کچھ عرصہ بعد ایک دوسری پارٹی میں ضم ہو گئی۔ زاہد ممتاز اور شاید افتخار تاری نے چند دوستوں کے ساتھ اسے اپنے طور زندہ رکھنے کی کوشش کی۔ اور پھر جلد ہی جس طرح یہ پارٹی تاریخ کے گرد میں کھو گئی۔ اس کے نعرے ”“ پنجاب کا مقدمہ ”فلاں کا استحصال اور فلاں سے زیادتی قسم کے تمام نعرے بھی تاریخ برد ہو گئے۔

رامے گھومتے گھماتے نوے کی دہائی میں اپنے پرانے تھان پیپلز پارٹی میں آ الیکشن جیت سپیکر کے عہدے پر بھی براجمان رہے۔ مگر یہ نعرے؟ (کہیں کسی نے سنے دیکھے ہوں تو مطلع فرمائیں۔ ممنون ہوں گا۔)

چند روز قبل میاں انوار کے بیٹے عابد انوار سے بات ہوتے زاہد ممتاز کا ذکر آ گیا۔ تو پتہ چلا زاہد اس کے بعد ہی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ اور آج کل گوجرانوالہ میں ہی ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ تب مجھے یاد آیا محترم حنیف رامے کی وفات۔ یکم جنوری 2006 کی خبر پڑھتے میں نے چند نوٹ لکھے تھے۔ ظالم وقت کبھی بھولی کتھائیں سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔

نوٹ۔ میں نے صرف اپنی شاید ان کی اس دفتر کی افتتاحی تقریب میں آدھ پون گھنٹہ موجودگی اور مختصر گفتگو کی یادداشت پیش کی ہے۔ اور میرا مشاہدہ ان ہی چند لمحات اور متعلقات تک محدود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments