ریاستی بیانیے کی لاٹھی، لیاقت بلوچ کا بیٹا اور میرا بھائی


ہر گھر کی طرح ہمارے گھر کا لاڈلا بچہ اعجاز تھا۔ کچھ اپنی عادات، بھولی بھالی صورت، صلح جو طبیعت اور کچھ اپنی بیماری کی وجہ سے والدین ہر لحظہ اس کا خیال رکھتے، جلد تھک جاتا تو اسے سہلاتے اوپن ہارٹ سرجری کے بعد صحت کے مسائل قدرے کم ہوئے تھے مگر ختم نہیں ہو سکے تھے۔ پڑھائی کے معاملات میں وہ نہایت سنجیدہ اور ذمے دار طالب علم تھا۔ ٹیکنیکل کالج سے میٹرک کے بعد علامہ اقبال کالج سے ایف اے کیا اسی دوران پاک سوزوکی کمپنی کی اپرنٹس شپ ٹرینی کے طور پر سیلیکٹ ہو گیا۔ یوں پڑھائی اور کام ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ کراچی ان دنوں لسانی خلفشار اور فسادات کا شکار تھا۔ تعلیمی اداروں میں بھی لسانی سیاست عروج پر تھی۔ بڑے بھائی چونکہ اسلامی جمیعت طلبہ سے وابستہ تھے اسی وجہ سے بجائے کسی قوم پرست طلبہ تنظیم کے اسے اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتے

یہ وہ دور تھا جب کالج طلبا کے باہمی جھگڑوں کی وجہ سے اکثر بند ہو جایا کرتے اور زبان کی بنیاد پر مہاجر پنجابی خلیج بڑھتے بڑھتے دہائیوں پرانے ہمسایوں کے دروازوں تک پہنچ چکی تھی۔ آئے روز فسادات ہوتے اور کرفیو کی نوبت آتی جس دوران مائیں اپنے بیٹوں کی خیر مانگتی۔ اسی ماحول سے دور رکھنے کی غرض سے بھائی کو دورہ قرآن کے لئے منصورہ بھیج دیا گیا۔ جہاں پہلی بار اسے جماعت اسلامی کے فکر و فلسفے سے باقاعدہ تعارف کا موقع ملا۔ والد صاحب چونکہ ایک ترقی پسند انسان تھے اور پیپلز پارٹی کی جانب جھکاؤ رکھتے تھے اس صورت حال سے کچھ زیادہ مطمئن نہ تھے مگر بیٹے کو لڑائی جھگڑوں سے دور رکھنا چاہتے تھے۔

منصورہ سے واپسی پر بھائی کی فکری سمت ہمیشہ سے مختلف نظر آنے لگی۔ مذہبی شعائر کی جانب اس کا لگاؤ بڑھنے لگا، چہرے پر داڑھی اور تلاوت قرآن میں دلچسپی دیگر مشاغل سے دوری کا باعث بننے لگی۔ کشمیر، فلسطین و دیگر ممالک میں مسلمانوں کی حالت زار کے حوالے سے دردمندی کا اظہار کرتا اور مولانا مودودی سید قطب اور حسن البنا کے لٹریچر کا خصوصی مطالعہ کیا کرتا۔

یہ 1996 تھا اور تحریک آزادی کشمیر اپنے عروج پر تھی۔ قاضی حسین احمد جماعت کے نہایت متحرک امیر تھے اور روس کی افغانستان سے پسپائی و ٹوٹ پھوٹ نے ہلچل مچا رکھی تھی۔ ایک جانب چیچنیا کی آزادی کا چرچا تھا دوسری طرف یورپ میں سرب و کروٹ شدت پسندوں کی جانب سے بوسنیا کے مسلمانوں کی حالت زار پر مسلم دنیا میں شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا۔

پاکستان میں ساری دنیا کے جہادیوں کی چہل پہل تھی جہاں ریاست کے ساتھ ساتھ عوامی پذیرائی کی وجہ سے ان مجاہدین کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا۔ گلیوں چوراہوں میں خاص طور پر رمضان میں جابجا کیمپ لگا کر جہاد کشمیر کے ولولہ انگیز ترانوں کی گونج میں فنڈز جمع کیے جاتے اور جہاد کشمیر کے نعرے بلند ہوتے۔ قاضی حسین اور دیگر اکابرین جماعت اہم بازاروں میں جھولی پھیلاتے تو عورتیں بے دریغ اپنے زیورات اور نقدی نچھاور کرتیں۔

کاروباری طبقے میں بھی جوش خروش سے چندہ دینے کی حوصلہ افزائی خاص طور پر دیکھنے کو ملتی۔ غرض منظم انداز سے ملکی و بیرونی ذرائع جہاد کشمیر کے لئے ہمہ وقت تیاری میں جتے ہوئے تھے۔ پورے پاکستان سے نوجوان اس ”عظیم“ مقصد کے لئے مختلف مذہبی تنظیموں کے ماتحت ٹریننگ کیمپوں میں تربیت حاصل کرتے جہاں گوریلا جنگ کی بنیادی تربیت کے ساتھ ساتھ فکری برین واشنگ کا بھرپور سامان مہیا ہوا کرتا۔ چونکہ ریاست کا دست شفقت اور مکمل حمایت ان مذہبی گروہوں کے ساتھ تھی لہذا وسائل کی بھی کوئی کمی نہ تھی۔

مدراس اور عام درس گاہوں سے ہزاروں نوجوان جوق در جوق اس سنسنی خیز ہیجان انگیز تجربے سے گزر رہے تھے۔ کچی مٹی جیسے نوخیز ذہنوں کو ریاست کے فیصلہ ساز نہایت چابکدستی سے من چاہے سانچے میں ڈھال کر مطلوب مقاصد کے لئے جتھوں کی شکل میں تیار کر کے میدان عمل میں اتار دیا کرتے۔ درحقیقت وہ سماں آج بھی مجھے کسی میکانکی دنیا کی طرح یاد آتا ہے۔ ہزاروں نوجوان جن میں اکثریت جنوبی پنجاب، سرحد، کراچی سے ہوا کرتی ان کیمپوں میں جوش و ولولے سے لیس ہوتے ایک مقدس گوریلا جنگ کی تیاری میں مصروف تھے جس کے دوران وادی کشمیر میں بھارتی قابض فوج کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا کر اس کے پاؤں اکھاڑنا تھا۔

آخری بار جب بھائی کیمپ جانے کے لئے تیار ہوا تو والد صاحب اجازت دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے لیکن والدہ بیٹے کی خوشی میں خوش تھیں ان کے نزدیک بیٹا جنت کمانے نکلا تھا، مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کی پکار پر لبیک کہنا خدائی رضا کے سامنے سر جھکانے جیسا تھا۔ کشمیر کی ماؤں بہنوں بیٹیوں کی مدد ہر پاکستانی نوجوان کا فرض اولین تھا۔ نسیم حجازی کے ناولوں کی سحر انگیز کہانیوں اور اسلامی نشاط الثانیہ کے عظیم مقصد کے لئے تن من دھن قربان کر دینا ہی اصل کامیابی تھا۔

گھر سے جانے کے بعد چند خطوط سے اس کی خیریت پتہ چلتی رہی پھر اگست 1998 میں بھائی کی شہادت کی اطلاع ملی تو گھر میں عجیب عالم تھا۔ والدہ بیٹے کی خواہش کے عین مطابق صبر کا پیکر بنی شکر کے کلمات ادا کر رہی تھیں۔ جماعت اسلامی کے نظم نے اس دوران بڑی پذیرائی کی، والدین کو شہید کے والدین ہونے پر مبارک باد اور عزت اکرام کا حقدار قرار دیا۔ مختلف تقاریب میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا جاتا اور دیگر والدین و مخیر حضرات سے ملاقاتوں کا اہتمام کیا جاتا۔

یہ سب نیٹ ورکنگ اور فنڈز جمع کرنے کی مہم کا حصہ تھا۔ یہ عجیب دور تھا کراچی جیسے شہر سے ہر طبقہ فکر اور سماجی پس منظر سے تعلق رکھنے والے بیسیوں نوجوان اس ریاستی لڑائی کے شکار بنے۔ جماعت اسلامی دیگر مذہبی تنظیموں سے کہیں بڑھ چڑھ کر ان سرگرمیوں کی سرخیل تھی۔ پان اسلامائزیشن کی خوشنما داستانیں گھڑی جا رہی تھی اور اتحاد بین المسلمین کے خواب دیکھے جا رہے تھے۔ قاضی صاحب مختلف اسلامی ملکوں کے دورے کر کے وہاں جذبہ جہاد کو تازہ کیا کرتے اسی طرح مختلف عالمی جہادی تحریکوں کے سرکردہ افراد بلا روک ٹوک پاکستان آیا کرتے۔ بوسنیا، چیچنیا، ازبک، تاجک ہر قوم و نسل کے جہادی عناصر کی پسندیدہ سرزمین ہمارا پیارا پاکستان تھا۔ جہاں ریاست کی مکمل پست پناہی سے ان کی آؤ بھگت کی جاتی۔

ہر قوم کی طرح پاکستانی قوم بھی نہایت فخر و محبت سے اپنے بیٹے افواج پاکستان میں بھیجتی ہے مگر 80 کی دہائی کے آخر یہ خراج دگنا ہو کر غیر روایتی جہادیوں کی بھرتی تک جا پہنچا تھا۔ افغانستان میں روسی فوجی مداخلت اور بعد ازاں پسپائی کے تناظر میں پاکستان کا کردار نہایت اہمیت کا حامل رہا تھا لہذا خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے کا جرنیلی فارمولے کا مرکز کابل سے سری نگر شفٹ ہو گیا جو جنرل ضیا الحق کی دوسرے جنرلوں کے ساتھ ہلاکت کے بعد بھی جاری و ساری رہا کیونکہ افغانستان میں سٹریٹجک ڈیپتھ کا مغالطہ سر چڑھ کر بول رہا تھا۔

اس دوران متحارب افغان دھڑوں نے من مانی و خون ریزی کا لامتناہی سلسلہ برقرار رکھا ہوا تھا۔ اس کے باوجود پاکستانی طالع آزما ایک نئے اور پہلے سے زیادہ خطرناک ایڈونچر کی تیاری کر چکے تھے۔ اس پس منظر میں پہلے سے تیار لانچنگ پیڈ کی چہل پہل میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ عرب و دیگر اسلامی ممالک و افراد سے بھاری چندے بلا روک ٹوک پاکستان پہنچتے جن کا شاید ہی کہیں کوئی حساب کتاب ہوتا ہو۔ کوئی شمار نہ تھا کہ پاکستانی قوم کتنے جوان افغانستان اور کشمیر کے جہاد میں جھونک چکی ہے؟

ستم بالائے ستم قوم کے بیٹوں کو ریاست کی ایما پر غیر روایتی جنگ کے لئے سرحد پار بھیجنے کے بعد پیچھے رہ جانے والے گھرانوں کا کوئی پرسان حال تھا اور نہ کسی قسم کی ریاستی گڈ ول۔ فوج کا کوئی افسر یا جوان شہید ہوتا ہے تو باقاعدہ اعزاز و اکرام سے نوازا جاتا ہے مگر ان بھائیوں بیٹوں کا کوئی نام تک نہیں لیتا۔ فوج کے شہداء اور غازیوں کی عزت و تکریم رہتی دنیا تک رہے گی مگر ملک و قوم کے لیے قربان کیے میرے بھائی جیسے لاتعداد نوجوان بے نام و نشاں ہی رہیں گے۔ ریاست کا جہاد سے متعلق بیانیہ بدلتے ہی وہ دہشت گرد کہلائیں گے جبکہ باوردی جوان اس تخصیص سے بالا تر ہی رہیں گے۔ فوجی کی بہنیں نہایت فخر اپنے شہید بھائیوں کو یاد رکھیں گی جبکہ میرے بھائی کی کہانی ان کہی ان سنی ہی رہ جائے گی۔

آج جناب لیاقت بلوچ صاحب کی ٹویٹ نے میرے دل کے سارے زخم کھول دیے ہیں۔ بلوچ صاحب کے بیٹے نے ایک فارن یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے جس کا قائد جماعت اسلامی نے نہایت فخریہ اظہار کیا ہے۔ میرا سوال ہے کہ! میرے بھائی جیسے ان گنت پاکستانی نوجوان بھی بالکل اسی طرح اپنے روشن مستقبل کے خواب دیکھا کرتے تھے، محنت کیا کرتے تھے۔ ان کے گھرانوں نے بھی بڑے چاؤ اور مشقت سے انہیں پروان چڑھایا تھا۔ جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں نے مذہب کا سہارا لے کر ان نوجوانوں کو کیوں ورغلایا گیا؟

ریاست کا آلہ کار بن کر غزوہ ہند کے پر فریب نظریے کیوں گھڑے گئے؟ عالمی طاقتوں کی لڑائی میں اپنی قوم کے نوجوان کیوں جھونکے گئے؟ اس سارے کھیل سے ملک و قوم کو کیا فائدہ ہوا؟ قوم کے بیٹوں کو بھٹکانے کے ذمے دار و آلہ کار کون ہیں؟ جنرل باجوہ آج جس نا گوار ماضی کو دفن کرنے کی تگ و دو کی بات کر رہے ہیں اس کے لئے قربان کیے بیٹوں کے لواحقین کو کیسے مطمئن کیا جائے گا؟ ریاستی بیانیے کے نام پر اس قوم کو اب تک بے وقوف بنایا جاتا رہے گا؟

ریاست کب تک اپنے آئے روز بدلتے بیانیوں کی لاٹھی سے قوم کو متضاد سمتوں میں ہانکتی رہے گی؟ ماضی میں وہابی دیوبندی مقدس جہاد کی سرحد پار برآمد سے داخلی طور پر قوم کو کن مشکلات اور نتائج کا سامنا کرنا پڑا اس کا کھاتہ کب بنے گا؟ اس بھی زیادہ دلخراش حقیقت تو یہ ہے کہ مقصد پورا ہو جانے کے بعد قوم کے بیٹوں کو تنہا و بے سہارا چھوڑ دیا گیا۔ جو کبھی ڈالر لے کر امریکہ کے حوالے کیے گئے تو کبھی چار و نا چار مذہبی شدت پسندوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔

شدت پسندی کی اس فصل کے زہریلے پھل کتنے ذہنوں کو زہر آلود کر گئے لیکن ریاست آج بھی باز آنے کو تیار نہیں ہے۔ ایک کے بعد ایک حربہ آزما کر کبھی خارجی اور کبھی داخلی مفادات کے حصول کی خاطر قوم کے بیٹوں کو استعمال کرنے پر بضد ہے۔ تازہ ترین مثال ٹی ایل پی کہ ہے جس کے تحت عاشقان رسول ﷺ کے گروہ تیار کیے گئے جو توہین مذہب کی آڑ لے کر سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کے کام آتے ہیں۔ یہ جنونیت پسند برین واشڈ روبوٹ مخصوص اشارے پر اپنے ہم وطنوں کو نقصان پہنچاتے اور اپنی ہی املاک کو آگ لگاتے ہیں۔

قوم کو مسلکی چھری سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا ہے۔ اس سب کے باوجود تمام مذہبی جماعتیں روایتی مفاد پرستانہ اور عیارانہ ابن الوقتی کا شکار ہو کر قوم کی رہنمائی سے مجرمانہ گریز کر رہی ہیں بلکہ اس بھڑکتی ہوئی آگ پر تیل چھڑک کر اپنے ووٹ بینک بڑھا رہی ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ریاست ہوش کے ناخن لے کر بیانیوں کی مکروہ سازشوں سے باز آئے۔

اقوام عالم ہمارے اس گھناونے اور خطرناک کردار صرف نظر کے لئے ہرگز تیار نہیں ہے۔ اب بھی وقت ہے، میری التجا ہے کہ باز آ جا اے کوتاہ فکر ریاست باز آ جا! اپنے بیش بہا بیٹوں کو نفرت، شدت پسندی اور مذہبی جنونیت کی آگ میں نہ جھونک۔ تیرے یہ جوان رعنا بے مثال صلاحیتوں کے حامل ہیں اور یہی تیرے تابناک و محفوظ مستقبل کی ضمانت ہیں۔ اے مملکت خدا داد تیری سرزمین آج شدت پسندی اور مذہبی عدم برداشت کی آماجگاہ بن چکی ہے۔

اکثریتی مسلمانوں کی جانب سے غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے زندگی تنگ کر دی گئی ہے ان کی عبادت گاہوں پر حملے اور قبضے کیے جاتے ہیں انہیں ستایا جاتا ہے۔ غیر مسلموں کی بیٹیوں کو جبرا مذہب بدلنے اور زور زبردستی دائرہ اسلام میں لانے کا قبیح جرم بڑھتا ہی جاتا ہے۔ یہ سب نتائج ہیں اس مکروہ سوچ کے جس کے تحت وقتی و مختصر المدتی فوائد کے لئے قوم کا راستہ کھوٹا کیا جاتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ طاقتور چال بازوں کو کلی اختیار اور من مانی کی اجازت نہ دی جائے، مملکت خدا داد کے تمام ذمے داران اپنے مسائل، چیلنجز اور وسائل کو مد نظر رکھ کر مشترکہ فیصلے کریں۔

قوم کو منظم و مربوط کرنے کے جتن کیے جائیں۔ فکری پراگندگی، مذہبی شدت پسندی کی سختی سے بیخ کنی کی جائے۔ ملک کو درپیش داخلی و خارجی چیلنجز کو سنجیدہ اقدامات سے رفع کیا جائے۔ ہر قسم کی پر تشدد کارروائیوں کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جائے۔ قوم کو بھیڑ بکریوں کا ریوڑ سمجھ کر ریاستی بیانیے کی لاٹھی سے ہانکنے کے بجائے اعتماد میں لے کر تمام ضروری فیصلے کیے جائیں۔ بصورت دیگر تیزی سے خراب ہوتے معاملات سنگین تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments