ہمارے انکل سرگرم ہم سے روٹھ گئے!


ستر، 80 ء اور 90 ء کی دہائیوں میں پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں کی تربیت میں جہاں ان کے والدین اور اساتذہ کا اہم کردار رہا، وہیں اس دور کے ذرائع ابلاغ کے کچھ پروگراموں کا بھی بہت بڑا عمل دخل رہا۔ جن کی جانب سے سکھائی ہوئی مثبت باتوں کے نقوش، تاعمر ان کی شخصیت پر قائم و دائم رہیں گے۔ یوں تو عالمی سطح پر ”جنریشن۔ ایکس“ کو اب تک کی خوش قسمت ترین نسل کہا جا رہا ہے، جس نے تغیرات اور ٹیکنالوجیکل ارتقا کا جو انقلاب دیکھا ہے، وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا، مگر ہمارے وطن میں پنپنے والی وہی ”جنریشن۔

ایکس ”شاید باقی دنیا میں پرورش پانے والی جنریشن ایکس سے زیادہ خوش نصیب ہے، جس نے گاؤں دیہات سے لے کر میٹروپولیٹن شہروں تک کی زندگی کا مزا چکھا۔“ اربنائزیشن ”کا حصہ بنے۔ ہینڈ پمپ سے پانی بھرنے کی مشقت سے لے کر، بٹن دبا کر ٹھنڈے گرم پانی کے حصول تک کے تمام مراحل“ حق الیقن ”سے طے کیے اور ارتقائے حیات کے بیشتر تجربات ان کے لئے نئے نہیں رہے۔

ہماری تربیت میں دادیوں، نانیوں کی سنائی ہوئی کہانیوں سے لیکر، جہاں ابا کی جانب سے کی گئی پٹائی، اماں کی جانب سے کی گئی کان کھچائی اور دادا دادی کی طرفداری کا بڑا اہم کردار رہا، وہیں پاکستان ٹیلی وژن سے ہر جمعے کی شام 4 : 00 بجے نشر ہونے والے ”سیسم اسٹریٹ“ نامی انگریزی پتلی تماشے (جب جمعے کو چھٹی ہوا کرتی تھی) ، صبح 7 : 00 بجے سے ہمارے ”چاچا جی“ یعنی مستنصر حسین تارڑ اور قرۃ العین حیدر کی میزبانی میں نشر ہونے والی صبح کی نشریات، بعنوان ”آج“ (جس کی میزبانی بعد میں کبھی کبھار صوفیہ شاہد بھی کیا کرتی تھیں۔

) اور بالخصوص اس میں پانچ منٹ دورانیے والے کارٹون، بچوں کے لئے نشر ہونے والا انگریزی سیریل ”فل ہاؤس“ ، اور انگریزی سیریلز ”نائٹ رائیڈر“ ، ”میک گائیور“ اور ”سٹار ٹریک“ ، سہیل رعنا کے پی ٹی وی کراچی مرکز سے نشر ہونے والے موسیقی کے پروگرام ”سنگ سنگ چلیں“ اور معروف موسیقار، خلیل احمد کے لاہور مرکز سے نشر ہونے والے اسی نوعیت کے پروگرام، (جس میں ان کی ساتھی میزبان حدیقہ کیانی ہوا کرتی تھیں ) ، طارق عزیز صاحب کے ”نیلام گھر“ کے ساتھ ساتھ انکل سرگم کے بچوں کے لئے سجائے گئے ”کلیاں“ نامی پتلی تماشے کا بھی بہت بڑا کردار رہا۔

جس کے خالق، فاروق قیصر، ”انکل سرگم“ اور ”ماسی مصیبتے“ جیسے اہم کرداروں اور ان کے ”ہیگا“ ، ”رولے“ ، ”سنتری مکمکے“ اور ”شرمیلی“ جیسے ساتھی کرداروں کی زبانی اس دور کے نونہالوں کو مزاح کے لباس میں اخلاقیات کے جو سبق دیا کرتے تھے، ان کا مثبت اثر اس دور میں ان کے پروگرام دیکھنے والوں کی شخصیت میں کہیں نہ کہیں بسا ہوا ضرور ہوگا، جس میں معاشرتی برائیوں پر، لطیف انداز میں فاروق قیصر صاحب کے قلم سے نکلا ہوا طنز، اس سلیقے سے اصلاح کا باعث ہوا کرتا تھا، کہ نہ صرف ناظرین بچے اس برائی کو برائی سمجھنے لگتے تھے، بلکہ اس طنز پر وہ ادارے یا افراد بھی شرمندہ ضرور ہوتے ہوں گے، جو ان برائیوں اور مسائل کے ذمہ دار ہوا کرتے تھے۔

افسوس! کہ ہماری بچپن کی ایک سنہری یاد، ”نیلام گھر“ کے روح رواں، طارق عزیز صاحب کو ابھی ہم سے بچھڑے ایک برس بھی مکمل نہیں ہوا تھا، (جو ہم سے، پچھلے برس 17 جون کو بچھڑے تھے۔ ) تو ابھی چند روز قبل، 14 مئی کو ہمارے بچپن کے دنوں کے ایک اور رہنما، ہم سب کے ”انکل سرگم“ ہم سے بچھڑ گئے۔ ابھی پچھلے دنوں 23 مارچ 2021 ء کو ایوان صدر اسلام آباد میں جب صدر عارف علوی کے ہاتھوں انہیں ”تمغۂ امتیاز“ وصول کرنے کے لئے ”وہیل چیئر“ پر آتے دیکھا تھا، تو شدید تکلیف محسوس ہوئی تھی، اور اب جب ان کے ہمیشہ کے لئے چلے جانے کی خبر کانوں نے سنی اور آنکھوں نے دیکھی، تو یقین نہیں آیا، کہ ہمیں بچپن میں ہنسانے والے بھی اس طرح کبھی داغ مفارقت دے کر جا سکتے ہیں۔

31 اکتوبر 1935 ء کو شہر اقبال، سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے فاروق قیصر، ایک پتلی ساز فنکار، اداکار اور اسکرپٹ رائٹر ہی نہیں، بلکہ ایک شاعر، ادیب، دانشور، کالم نویس، ٹیلی وژن پیش کار، کارٹونسٹ، آرٹ کے استاد، میڈیا کے ماہر، صدا کار اور 4 کتب کے مصنف بھی تھے۔ ان کا بچپن پشاور اور کوہاٹ میں گزرا۔ ان کی تعلیم کے حصول کا سلسلہ ملک کے مختلف حصوں میں اور بیرون ملک جاری رہا۔ انہوں نے میٹرک، پشاور سے اور انٹر کوئٹہ سے کرنے کے بعد ، 1971 ء میں گریجوئیشن، نیشنل کالج آف آرٹس (این۔ سی۔ اے ) لاہور سے کیا۔ پھر ماسٹرز کے لئے وہ رومانیہ چلے گئے۔ جہاں سے 1976 ء میں انہوں نے گرافک آرٹس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پتلی سازی کا ہنر بھی انہوں نے وہیں سے ماسٹرز کے دوران ہی سیکھا۔ انہوں نے ایک اور ماسٹرز، ”ابلاغ عامہ“ (ماس کمیونیکیشن) میں، بہت بعد میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کی ”یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا“ سے کیا۔

ویسے تو فاروق قیصر صاحب نے اپنی فنی زندگی کا آغاز اپنی ہی مادر علمی، ”این سی اے“ لاہور سے ایک انگریزی ڈاکیومنٹری بنانے سے کیا، مگر ٹیلی وژن پر انہیں پہلی مرتبہ، 1976 ء میں ان کی ”این سی اے“ ہی کی استاد اور فیض صاحب کی صاحبزادی، سلیمہ ہاشمی نے متعارف کرایا، جو ان کو اپنی بہن منیزہ ہاشمی کے پاس لاہور ٹیلی وژن لے گئیں، جو ان دنوں وہاں پروڈیوسر کے طور پر اپنی خدمات انجام دے رہی تھیں۔ منیزہ سے ملنے کے بعد ، ان کے کہنے پر، فاروق قیصر نے شعیب ہاشمی کے پروگرام ”اکڑ بکڑ“ کے لئے پتلیاں بنا کر، ان کی معاونت کرنے سے، اپنے ٹی وی کے سفر کا آغاز کیا۔

ان کا پہلا کردار ایک بطخ کا تھا، جو مشہور عالم کردار ”بگ برڈ“ کا دیسی روپ تھا۔ جس کی پتلی انہوں نے اپنے لئے بنا کر اس ماسک میں خود پرفارم کیا۔ یہ پروگرام بچوں کے لئے ایک تعلیمی پروگرام تھا، جو پتلیوں کے شہرہ آفاق انگریزی پروگرام ”سیسمی اسٹریٹ“ سے متاثر ہو کر، اسی کے پاکستانی اور اردو ورژن کے طور پر نشر کیا جاتا تھا۔ اس پروگرام کی تیاری میں، اسکرپٹ سے لے کر نئے پتلی کرداروں وغیرہ تک کی تخلیق کے سلسلے میں انہیں اپنی پروڈیوسر منیزہ ہاشمی ہی نہیں، بلکہ سلیمہ ہاشمی اور بذات خود فیض صاحب کی رہنمائی بھی حاصل رہی۔ جن تینوں کی سنگت میں بقول فاروق قیصر صاحب کے انہیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اس سے پہلے ان کو پتلی سازی کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اور انہوں نے پتلیاں بنانا ”اکڑ بکڑ“ ہی میں سیکھا۔ جہاں اس ابتدائی بطخ کے بعد ان کو کئی نئے پتلی کردار تخلیق کرنے کا موقع ملا۔

کچھ ہی عرصے بعد 1976 ء میں ”انکل سرگم“ کے نو تخلیق شدہ کردار کے ساتھ ان کا پروگرام ”کلیاں“ کے نام سے نشر ہونا شروع ہوا، جو مشہور زمانہ پروگرام ان کی اصل پہچان بنا، جو ناظرین، بالخصوص بچوں میں بے حد مقبول ہوا۔ لیکن ایسا نہیں تھا کہ بڑے ناظرین اس پروگرام کو نہیں دیکھا کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس پروگرام کو بالغ ناظرین بھی اسی انہماک و توجہ کے ساتھ دیکھ کر، اس سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے، جس دھیان اور شوق کے ساتھ نونہال دیکھا کرتے تھے۔

”کلیاں“ کے کلیدی کردار ”انکل سرگم“ میں ان کی اپنی ہی آواز ہوا کرتی تھی۔ اپنے اس اہم کردار کے بارے میں فاروق قیصر بتاتے ہیں کہ اس کردار کے نقوش و خد و خال کو انہوں نے اپنے ایک استاد ”موہن لعل“ کے مشابہ بنایا تھا، جو رومانیہ کی یونیورسٹی میں ان کے استاد ہوا کرتے تھے۔ اس کردار کی زبانی فاروق قیصر نے ان ان مسائل کو اجاگر کیا، جو متوسط طبقے سے وابستہ ہر پاکستانی کا مسئلہ تھے، مگر ہر کوئی ان مسائل کو کہنے سے ڈرتا اور گھبراتا تھا۔

گویا انکل سرگم، اس پسی ہوئی مڈل کلاس کی آواز بن کر ابھرے۔ یہی پروگرام آگے چل کر ”پتلی تماشا“ کے نام سے بھی نشر ہوتا رہا۔ 1993 ء میں انہوں نے ”این ٹی ایم“ سے ”ڈاک ٹائم“ کے نام سے پروگرام شروع کیا، جس میں وہ ناظرین کے ان خطوں کے جواب دیا کرتے تھے، جو ناظرین دنیا بھر سے ”این ٹی ایم“ کے مختلف پروگراموں کی پسندیدگی کے حوالے سے لکھا کرتے تھے۔ اس پروگرام میں پہلی مرتبہ نادیہ خان ان کے ساتھ نظر آئیں، جو خطوط پڑھا کرتی تھیں اور انکل سرگم ان خطوط کے جوابات دیا کرتے تھے۔

اسی پروگرام میں نادیہ خان، ”نادان نادیہ“ کے نام سے مقبول ہوئیں، کیونکہ انکل سرگم انہیں ”ڈاک ٹائم“ میں ”نادان نادیہ“ کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ 1995 ء میں ”کلیاں“ پی ٹی وی سے دوبارہ شروع ہوا۔ مگر اب کی بار اس کا نام ”سرگم سرگم“ تھا۔ 2010 ء میں ”ڈان نیوز“ سے یہی پروگرام ”سیاسی کلیاں“ کے نام سے شروع ہوا، جس میں سیاسی طنز و مزاح پر مشتمل فاروق قیصر صاحب کے اسکرپٹ اور پیشکش نے ایک بار پھر ناظرین کے دل جیتے اور اس پروگرام کو بھی بے حد پسند کیا گیا۔

چھے برس قبل 2016 ء میں پاکستان ٹیلی وژن نے ایک بار پھر ”سرگم بیک ہوم“ کے نام سے ”کلیاں“ کو نشر کرنا شروع کیا، جو کم و بیش ان کی آخری سانس تک جاری رہا۔ ان کے پروگرام کے نہ صرف تمام کردار، ان کی پتلی سازی، ان کرداروں کی اشکال سے لے کر، ان کے ناموں تک فاروق صاحب ہی کی اپنی تخلیق ہوا کرتے تھے، بلکہ ان کا بولا ہوا اسکرپٹ بھی انہی کے قلم سے نکلا ہوا کرتا تھا۔ ”انکل سرگم“ اور ”ماسی مصیبتے“ وغیرہ پہلے تو کپڑے سے بنے ہوئے ”دستی پتلیوں“ (ہینڈ پپٹس) کے طور پر متعارف ہوئے، مگر بعد میں ان کی مقبولیت کی وجہ سے جب ان کے ”اسکٹس“ پی ٹی وی ایوارڈز وغیرہ تک میں شامل ہونے لگے، تو پھر ان کرداروں کے ”ماسک“ بنا کر، فاروق قیصر بطور ”انکل سرگم“ اپنے چہرے پر چڑھا کر، اپنے ساتھی کرداروں کے ساتھ پرفارم کرنے لگے۔

فاروق قیصر کے انتقال کے بعد ، پاکستان ٹیلی وژن اور ”این سی اے“ جیسے اداروں کو اس بات پر غور ضرور کرنا چاہیے، کہ کارٹون کردار اپنے خالق کے مرجانے کے باوجود کبھی نہیں مرا کرتے۔ والٹ ڈزنی کی رخصت سے ”مکی ماؤس“ نہیں مرا، تو فاروق قیصر کے انتقال سے ”انکل سرگم“ کیوں مرے! ان اداروں کو چاہیے، کہ وہ اسی کردار کو کسی اور کی آواز و ادا دے کر، پروگرام ”کلیاں“ کو جاری رکھے اور آنے والی نسلوں کی اسی طرح اخلاقی تربیت کرے، جیسے فاروق قیصر صاحب نے ہماری نسل کی تربیت کی۔ علاوہ ازیں انکل سرگم اور ماسی مصیبتے کے کرداروں کی مختصر فلموں پر مشتمل ”اینیمیٹڈ سیریز“ بنانے کا کام بھی کیا جا سکتا ہے، جیسے ”مسٹر بین“ وغیرہ کی ”اینیمیٹڈ سیریز“ دنیا بھر میں مقبول ہو رہی ہیں۔

فاروق قیصر کی تصنیف شدہ کتب میں ”ہور پچھو!“ (اور پوچھو! ) ، ”کالم گلوچ“ (اخباری کالمز کا مجموعہ) ، ”میٹھے کریلے“ (کالمز کا مجموعہ) اور ”میرے پیارے اللہ میاں!“ شامل ہیں۔ انہوں نے دو سال تک اقوام متحدہ کے تعلیم و ثقافت کے لئے خدمات انجام دینے والے ذیلی ادارے، ”یونیسکو“ کی جانب سے بھارت میں تعلیمی خدمات بھی انجام دیں۔ انہوں نے ”این سی اے“ کے ساتھ ساتھ راولپنڈی کی فاطمہ جناح یونیورسٹی برائے خواتین میں بھی کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں۔ فاروق قیصر نے روزنامہ ”نئی بات“ میں کارٹونسٹ اور کالم نویس کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ ”میٹھے کریلے“ کے عنوان سے ان کا سیاسی و سماجی طنز پر مشتمل مستقل کالم، قارعین میں بے حد مقبول رہا۔ فاروق قیصر، 2015 ء کے بعد کچھ عرصہ ”لوک ورثہ“ اسلام آباد کے بورڈ آف گورنرز کے رکن بھی رہے۔

فاروق قیصر کو 1993 ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے ”صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی“ (پرائڈ آف پرفارمنس) اور ابھی سال 2021 ء میں 23 مارچ کو ”تمغہ امتیاز“ دیا گیا۔ انہوں نے اپنے لواحقین میں دو صاحبزادیاں، ایک بیٹا اور ہم جیسے کروڑوں مداح چھوڑے ہیں، جنہوں نے اپنے بچپن میں ان کے پروگرام ”کلیاں“ سے بہت کچھ سیکھا، اور وہ کلیاں ہم سب ہی تھے، جن کو ایک ایسا کھلتا، مہکتا ہوا پھول بنانے کے لئے وہ ہماری تربیت میں سرگرداں اور مصروف عمل رہے، جس کی خوشبو سے ہر خاص و عام مستفید ہو سکے۔

آج ان کے چمن (اس وطن) کی کروڑوں کلیاں، ان کے باغبان کے چلے جانے پر افسردہ ہیں اور ان سے پوچھتی ہیں کے ”انکل سرگم! آپ ہم سے روٹھ کر کیوں چلے گئے! ؟“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments