سارا جہاں ملکہ ترنم نور جہاں کا دیوانہ تھا اور وہ اعجاز کی دیوانی

طاہر سرور میر - صحافی


نورِجہاں ایک ایسا احساس ہے جو جہان کے لیے راحت کا پیغام ہے: خوشخبری ہے، خوش الہانی اور نیک نامی ہے۔ نورجہاں اپنے وابستگان کے لیے ہزاروں خوش بختیوں کا باعث بنیں تو دنیا میں ان گنت سننے والوں کی سماعتوں میں شہد گھولنے کی نیکیاں برسوں سے اپنے نام کر رہی ہیں۔

نورجہاں کی پہلی شادی شوکت حسین رضوی سے سنہ 1944 میں ہوئی جب وہ ’بے بی نورجہاں‘ سے ’نورجہاں‘ ہوئیں۔ نورجہاں اور شوکت حسین رضوی کے ہاں تین بچے پیدا ہوئے جن میں اکبر رضوی (اکو میاں)، ظل ہما اور اصغر رضوی (اچھو میاں) شامل ہیں۔ شوکت حسین رضوی ناصرف نور جہاں کے شوہر رہے بلکہ گرو بھی تھے۔

نورجہاں کی دوسری شادی اعجاز درانی سے سنہ 1959 میں ہوئی جب وہ ’سُپرسٹار‘ ہونے کے ساتھ ساتھ ’ملکہ ترنم‘ کا لقب پا چکی تھیں۔ اعجاز درانی بھی ان کی زندگی میں لگ بھگ 12 سال تک رہے اور اس عرصے کے دوران ان کی تین بیٹیاں پیدا ہوئیں جن میں حنا، شازیہ اور ٹینا شامل ہیں۔

اعجاز درانی سے ان کی محبت اور بعد ازاں طلاق کا احوال آگے چل کر، مگر پہلے ان کی زندگی پر ایک نظر۔

نورجہاں نے گانا اس وقت سیکھنا شروع کیا جب وہ منھ سے ’توتلے‘ الفاظ ادا کر پاتی تھیں۔

نورجہاں کا اصل نام اللہ وسائی تھا اور وہ ضلع قصور کے علاقے کوٹ مراد خاں میں پیدا ہوئیں تھیں۔ ان کے اُستاد غلام محمد المعروف گامے خاں بتاتے تھے کہ اللہ وسائی سے ان کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ صرف چار دن کی تھیں اور جب ان کے اہلخانہ انھیں ’جھنڈ اتروانے‘ (نوزائیدہ بچوں کے بال اتروانے کی رسم) اور سلام کرنے کے لیے بابا بلھے شاہ کے مزار پر لے جا رہے تھے۔

اللہ وسائی نے اپنے گھرانے کی روایت کے مطابق گانا اُسی وقت سیکھنا شروع کیا جب وہ منھ سے ’توتلے‘ الفاظ ادا کرتی تھیں۔ سات برس کی عمر میں اللہ وسائی اپنی بہن عیدن بائی اور کزن حیدر باندی کے ساتھ قصور اور آس پاس کے علاقوں میں ننھی مغینہ کے طور پر مشہور ہو چکی تھیں۔

بچپن میں ہی ہر فن مولا

یہ سنہ 1933-34 کا زمانہ ہو گا۔ اللہ وسائی اور ان کی بہنوں کا نام قصور اور لاہور کے ٹکا تھیٹروں میں معروف ہو چکا تھا۔

اللہ وسائی کے ماموں محمد شفیع ذہین آدمی تھے اور اس زمانے کے شوبز کو تھوڑا بہت سمجھتے تھے۔ انھیں یہ علم تھا کہ اگر انھوں نے اپنی بھانجی (اللہ وسائی) کے ٹیلنٹ کو آزمانا ہے تو انھیں کلکتہ جا کر قسمت آزمائی کرنا ہو گی۔ اس سے قبل اللہ وسائی قصور اور لاہور تک اپنے کیریئر کی زبردست اننگز کھیل رہی تھیں۔ اللہ وسائی جس تقریب میں جاتیں انھیں مختار بیگم کے گائے گانے ’بولو تارا، را‘ کی فرمائش ضرور ہوتی۔

وہ نعتیہ کلام اور لوک گیتوں کے ساتھ اس وقت کی مشہور گائیکہ اختری بائی فیض آبادی کی غزل ’دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے‘ ایسے پیش کرتی تھیں جیسے وہ خود اختری بائی ہوں۔ اس کے علاوہ احسان دانش کی لکھی نعت ’میرے مولا بلا لو مدینے مجھے‘ بھی پیش کر کے سماں طاری کر دیتی تھیں۔

سنہ 1942 میں لاہور کے فلمی ادارے کے سربراہ سیٹھ دل سکھ ایم پنچولی نے نورجہاں کو بطور ہیروئن کاسٹ کیا اور اس وقت کے ’پڑھے لکھے ہدایتکار‘ شوکت حسین رضوی سے فلم ’خاندان‘ بنوائی۔ مذکورہ فلم کی کامیابی نے جہاں نور جہاں کو پورے بھارت کی سٹار کنفرم کیا وہاں فلم میکنگ میں بھی لاہور، کلکتہ اور بمبئی کے مقابلے میں سامنے آن کھڑا ہوا۔

ستمبر 1947 میں نورجہاں اپنے شوہر شوکت حسین رضوی اور دوسالہ بیٹے اکبر رضوی کے ہمراہ پاکستان آئیں اور یہاں نوزائیدہ فلم ٹریڈ کی بنیادرکھنے میں مصروف عمل ہوئیں۔

نورجہاں حاضر جواب اور بذلہ سنج تھیں

نورجہاں بذلہ سنج اور حاضر جواب تھیں۔ وہ کسی دوسرے شخص کے منھ سے برموقع اور برمحل اچھی بات سنتی تو اسے داد بھی دیتیں تھیں۔ ایک مرتبہ نورجہاں دوستوں کی محفل میں اپنے گیتوں کی غیرمعمولی کامیابی کو اپنے بچوں کی پیدائش سے جوڑ رہی تھیں۔

مادام نے تفاخرانہ انداز میں کہاکہ جب میرا گیت ’آواز دے کہاں ہے دنیا میری جواں ہے‘ ہٹ ہوا تو میرا بیٹا اکبر پیدا ہونے والا تھا۔اسی طرح میرا گیت ’چن دئیا ٹوٹیا‘ سپر ہٹ ہوا تو ظل ہما پیدا ہونے والی تھی۔ اسی طرح جب میرا گایا گیت ’آ جا میری برباد محبت کے سہارے‘ ہٹ ہوا تو اچھو میاں (اصغر رضوی ) میرے پیٹ میں تھے۔

اس پر پاس بیٹھے سازندے نے نور جہاں سے کہا کہ ’میڈم، کیا آپ نے کبھی کوئی گیت خالی پیٹ بھی گایا ہے۔‘ اس پر محفل میں قہقے گونج اٹھے اور نور جہاں بھی کھلکھلا کر قہقے لگانے لگیں۔

نورجہاں کے نزدیک اعجاز کی حیثیت شوہر سے زیادہ انوکھے لاڈلے کی تھی

نور جہاں اور اعجاز درانی کی شادی کے وقت دونوں کی عمریں بالترتیب 33 اور 24 برس تھیں یعنی اعجاز نور جہاں سے نو سال چھوٹے تھے۔

جب یہ شادی ہوئی تو اس وقت اعجاز غیر شادی شدہ تھے۔

نورجہاں اور اعجاز کی شادی اور دونوں کے رشتے کے بارے میں نگارخانوں میں مشہور ہوا تھا کہ نورجہاں نے اعجاز کو یوں رکھا جیسے ’ہتھیلی کا پھپولا۔‘

نورجہاں کے قریبی دوست بتاتے ہیں کہ اعجاز کی حیثیت ’انوکھے لاڈلے‘ کی سی تھی۔ اگرچہ اعجاز نور جہاں کے شوہر تھے لیکن نورجہاں یوں ظاہر کرتیں جیسے وہ ان کے محبوب ہوں۔

ان کی بیٹی حنا بتاتی ہیں کہ ’میں نے اپنی ماں کو اپنے باپ کی عاشق کے طور پر دیکھا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ماں ابا کے لیے کپڑے خود استری کر رہی ہیں، پینٹ کوٹ کے ساتھ میچنگ جرابیں تک خود پہنا رہی ہیں۔ ابا کے نہانے کا پانی گرم ہو رہا ہے۔ ماں ابا کے ناز اٹھا رہی ہیں۔ ہم بہنوں نے دیکھا کہ میری ماں جب بھی ابا کے سامنے آئیں سولہ سال کی لڑکی بن گئیں۔‘

حنا نے اپنے والدین کے مابین طلاق کو ایک تلخ حقیقت قرار دیا۔ حنا اس علیحدگی کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ’دونوں دنیا کے حسین اور خوبصورت لوگ تھے اور ایک عرصہ تک اکٹھے رہے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ وہ میاں بیوی کی حیثیت سے آگے نہیں چل سکتے تو علیحدگی کا فیصلہ کیا اور دونوں نے باقی زندگی اچھے دوستوں کی طرح گزاری۔‘

فردوس بیگم، اعجاز کے قریب کیسے ہوئی؟

نورجہاں سے شادی کے بعد اعجاز اور زیادہ سنجیدہ اور میچور ہو گئے تھے۔ ویسے بھی وہ دھیمے مزاج کے انسان تھے۔ نور جہاں کے ساتھ رشتہ ازدواج میں رہتے ہوئے جہاں اعجاز ایک طرف ایک کامیاب اداکار بن چکے تھے دوسری طرف انھوں نے ایک کامیاب فلم پروڈکشن ہاؤس قائم کیا جس میں اپنے وقت کے نامور پیشہ وروں کو باہم اکٹھا کر لیا۔

اُن کے ادارے سے ’دوستی‘، ’مولابخش‘ اور ’شعلے‘ جیسی کامیاب فلمیں پروڈیوس ہوئیں جبکہ سب سے کامیاب فلم ’ہیر رانجھا‘ رہی جس میں بذات خود انھوں نے ’رانجھا‘ کا کردار نبھایا جبکہ اپنے وقت کی سپر سٹار فردوس بیگم ’ہیر‘ بنیں۔

اس فلم نے باکس آفس پر تو بزنس کے ریکارڈز قائم کیے لیکن نور جہاں اور اعجاز کو ایک دوسرے سے دور کر دیا۔

اداکارہ فردوس بیگم مرحوم اداکار اکمل کی بیوہ تھیں۔ اکمل کی وفات کے بعد فردوس کی شادی فلمساز شیخ نذیر کے ساتھ ہوئی تھی۔

نورجہاں نگار خانوں کے ماحول سے اچھی طرح واقف تھیں۔ لیکن سب احتیاطیں دھری کی دھری رہ گئیں اور فردوس، نورجہاں اور اعجاز کے درمیان آن کھڑی ہوئی تھی۔

نورجہاں نے اعجاز سے کہا ’پینو لمبو‘ کا پیچھا چھوڑ دو

اعجاز اور فردوس کی جوڑی سپر ہٹ ہو گئی اور فلمساز انھیں اکٹھا سائن کرنے لگے۔ دونوں نگار خانوں کے ساتھ ساتھ آؤٹ ڈور شوٹنگز میں بہت سارا وقت اکٹھے گزارتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب آ چکے تھے۔

اس قربت کا علم نورجہاں کو بھی ہو چکا تھا۔

نورجہاں سخت الفاط میں اعجاز سے گلہ کرتیں کہ ’پینو لمبو‘ سے دور ہو جاؤ۔ واضح رہے کہ فردوس بیگم کا اصل نام پروین تھا اور لمبے قد کی وجہ سے نگار خانوں میں انھیں ’پینو لمبو‘ بھی کہا جاتا تھا۔

اعجاز اپنے طبیعت کے دھیمے پن اور معاملہ فہمی سے ٹال مٹول کرتے رہے لیکن نورجہاں نے اعلان کر دیا کہ وہ آئندہ فردوس کے لیے کسی بھی فلم کے لیے پلے بیک نہیں گائیں گی۔

کوئی بھی فلمساز یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ اس کی فلم میں نورجہاں کے گیت شامل کیے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ نورجہاں کے اس فیصلے کی زد میں اعجاز درانی کی ذاتی فلم ’ہیر رانجھا‘ بھی آ گئی جس کے میوزک ڈائریکٹر خواجہ خورشید انور تھے۔

ہیر رانجھا کے گیت احمد راہی نے لکھے تھے جو نورجہاں کے منظور نظر شاعر تھے۔ فلم کے ہدایتکار مسعود پرویز تھے اور نورجہاں ان کی بھی بہت عزت کرتی تھیں لیکن قریبی دوستوں کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں بھی نورجہاں نے آخری بات اعجاز کی ہی مانی تھی۔

نورجہاں نے ’ہیررانجھا‘ کے لیے جو گیت گائے وہ فردوس پر فلمبند ہوئے اور سیلولائیڈ پر اسے ہمیشہ کے لیے ہیر کے کردار میں امر کر دیا۔

نورجہاں اعجاز کی مدد کے لیے لندن جیل پہنچیں

نورجہاں نے اعجاز کے ساتھ ہرطرح سے نبھانا چاہا لیکن حالات دونوں کو ایک دوسرے سے دور لے گئے۔ نورجہاں کے بارے میں مشہور تھا کہ جب انھیں غصہ آتا ہے تو وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتیں لیکن اعجاز کا انھوں نے ہمیشہ لحاظ کیا۔

80 کی دہائی میں اعجاز مبینہ طور پر اپنی فلموں کے ڈبوں میں منشیات بھر کر لندن لے جاتے ہوئے ہیتھرو ایئرپورٹ پر گرفتار ہوئے۔ اس مقدمے میں انھیں کئی سال کی سزا ہوئی۔ نورجہاں نے اعجاز سے جیل میں ملاقات کی اور برطانوی عدالتی قوانین کے مطابق ان کی رہائی میں بھی مدد کی اس بات سے قطع نظر کہ ان دونوں کی اس وقت تک طلاق ہو چکی تھی۔

نورجہاں کو پوری زندگی اعجاز سے محبت اور انسیت رہی۔

ان کی بیٹی مینا بتاتی ہیں کہ ’ماں آخری دنوں میں میرے اور حنا کے پاس کراچی رہ رہی تھیں جہاں ہمارے والد اعجاز درانی بھی آ جاتے تھے۔ ہم نے دیکھا ماں جب تک اپنے ہاتھ سے کام کر سکتی تھیں وہ میرے ابا کے لیے ناشتہ خود تیار کرتیں حالانکہ ان کی طلاق ہوئے ایک عرصہ ہو چکا تھا۔‘

نورجہاں نے زندگی میں دو کام کیے، گانا گایا اور اپنے بچوں سے پیار کیا

حنا نے اپنی والدہ نورجہاں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ماں کو دنیا سے گئے 21 برس ہو گئے ہیں۔ کبھی لگتا ہے کہ وہ کہیں نہیں گئیں ہمارے ساتھ ہیں، لیکن کبھی لگتا ہے انھیں ہم سے بچھڑے ایک زمانہ ہو گیا۔

’میرے لیے اُن کی ویڈیو دیکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ یونہی ماں کا گایا کوئی گیت جب کانوں میں پڑتا ہے تو میں اسے سُن نہیں سکتی۔ لوگ نور جہاں کا گیت سن کر محظوظ ہو رہے ہوتے ہیں لیکن ہمارے لیے ماں کا گیت سننا بہت کٹھن کام ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنی ماں کو بانھوں میں بھر کر پیار کروں بالکل ویسے ہی جس طرح سے وہ اپنی بانہوں میں ہمیں بھر لیا کرتی تھیں۔‘

نورجہاں نے مری سکول میں صدقے کے بکرے کیوں بھیجے

نورجہاں نے اعجاز درانی سے ہونے والی اپنی تینوں بیٹیوں حنا، مینا اور ٹینا کو مری کے معروف بورڈنگ گرلز سکول میں داخل کرایا۔ اس زمانے میں نورجہاں اور اعجاز کے درمیان طلاق ہو چکی تھی لیکن دونوں کے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ ہر ہفتے (ممی یا پاپا) میں سے ایک بیٹیوں سے ملاقات کیا کرے گا۔

حنا بتاتی ہیں کہ ان کی والدہ نے اپنی بے تحاشہ مصروفیات کے باوجود ہم بہنوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا تھا۔ ہمیں یاد ہے آموں کے موسم میں ہم بہنوں سمیت پورے سکول کی لڑکیوں کے لیے آم آتے تھے۔

’ایک مرتبہ ماں نے کوئی بُرا خواب دیکھ لیا تو اگلے روز ٹرک میں کالے بکرے صدقے کے لیے بھیج دیے۔ پھر کیا تھا سارے سکو ل نے ماں کے بھیجے ہوئے بکروں کی باربی کیو پارٹی منائی۔‘

ٹینا نے بتایا کہ کانونٹ سکول کا زمانہ بہت ہی یادگار تھا۔ ’ماں جب ہم سے ملنے آتیں تو سارے سکول کی لڑکیاں لمبی لمبی قطاروں میں ان سے آٹوگراف لیا کرتیں۔ سال میں تینوں بہنوں کی سالگرہ منائی جاتی تو ہر لڑکی کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ اس پارٹی میں شریک ہو سکے، اس لیے لڑکیاں ہم سے دوستی کرتی تھیں۔‘

بالی وڈ اور نورجہاں کی بیٹی حنا

نورجہاں اور اعجاز درانی کی بیٹیوں کی حیثیت سے خوبصورتی قدرت نے ورثے میں ودیعت کی ہے۔ سنہ 80 کی دہائی میں جب ملکہ ترنم نورجہاں انڈیا کے دورے پر گئیں تو اُن کی بیٹی حنا ان کے ہمراہ تھیں۔

ایک طرف تو پورے بالی وڈ کی آنکھیں حنا کی خوبصورتی کو دیکھ کر خیرہ کن تھیں دوسری طرف انڈین فلم انڈسٹری کے دو معروف پروڈکشن ہاوسز، جس میں یش چوپڑا اور شومین راج کپور شامل تھے، دونو ں حنا کو اپنی فلموں کا کردار بنا کر اس کی خوبصورتی کو سیلولائیڈ پر محفوظ کرنے کے شدید خواہشمند تھے۔

لیکن نورجہاں اور حنا دونوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ان پر پہلا حق پاکستان کا ہے۔ ٹینا نے بتایا کہ ’ماں اپنے بچوں کی عاشق تھیں، میرے لیے کہا کرتیں کہ میں انھیں دنیا کی ہر شے سے عزیز ہوں۔ اسی طرح ماں میری بہن حنا کی آنکھوں کی عاشق تھیں اور کہا کرتیں کہ رب نے حنا کی آنکھیں اپنے ہاتھوں سے بنائی ہیں۔‘

ہیما مالنی نے دروازہ کھولا تو سامنے نورجہاں تھیں

ٹینا نے بتایا کہ نورجہاں انڈین اداکارہ ہیمامالنی کی پرستار تھیں۔

’اپنے انڈیا کے دورے پر میری والدہ (نورجہاں )نے دھرمیندر سے کہا کہ میں آپ کی بیوی سے ملنا چاہتی ہوں تو وہ اپنی پہلی بیوی کو ان سے ملوانے لے آئے۔ میری والدہ نے کہا کہ دھرم جی آپ کی پہلی بیوی بھی بڑی حسین ہیں لیکن میں تو ہیما مالنی کی پرستار ہوں۔ دھرمیندر نے جب یہ سنا تو انھوں نے اگلے روز نور جہاں اور ہیمامالنی کی ملاقات طے کروا دی۔‘

حنا بتاتی ہیں کہ ’میں تو اپنی والدہ کے ساتھ انڈیا کے دورے پر تھی۔ مجھے یاد ہے ہم ہوٹل سے اٹھ کر ہیمامالنی کے گھر گئے تو ہیما مالنی نے جب دروازہ کھولا تو ماں انھیں دیکھ کر رونے لگیں اور اسی طرح ہیما مالنی بھی نورجہاں کو دیکھ کر جذباتی ہو گئیں۔ ماں نے ہیما مالنی سے کہا آپ بہت اچھی اداکارہ ہیں لیکن مجھے اس لیے بھی پسند ہیں کہ آپ کی شکل میری بیٹی حنا سے ملتی ہے۔ حنا بتاتی ہیں کہ اس پر ہیمامالنی نے مجھے بہت پیار کیا۔‘

مینا نے بتایا کہ ان کی والدہ حسن پرست تھیں۔ ’جب وہ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں بیماری کاٹ رہی تھی اور آئی سی یو میں داخل تھیں تو میری ایک سہیلی ماں کی خیریت دریافت کرنے آگئیں، ماں نے اپنے منہ سے آکسیجن ماسک اتار کر میری سہیلی کو اپنے پاس بلایا اور اس کی خوبصورتی کی تعریف کی۔‘

نورجہاں کی خوبصورتی کا راز کیا تھا؟

جب نور جہاں کی تینوں بیٹوں سے یہ سوال کیا تو اس پر حنا نے کہا کہ ان کی والدہ قدرتی طور پر خوبصورت تھیں۔ ’وہ ایک خوبصورت خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی بڑی بہن آپی عیدن جو نورجہاں کی بڑی بہن تھیں وہ بڑی حسین خاتون تھیں۔‘

’ماں بتاتی تھیں کہ ایک طویل عرصہ تک تو وہ اپنے آپ کو میک اپ آرٹسٹوں کے سہارے چھوڑ دیا کرتی تھیں، وہ جیسے چاہیں منھ کو بنا بگاڑ دیا کرتے تھے۔ پھر امریکہ میں نور جہاں کی ملاقات الزبتھ جیسی عظیم میک اپ آرٹسٹ سے ہوئی جس نے انھیں یہ فن سکھایا۔ اس کے بعد نورجہاں نے اپنے چہرے کو کبھی کسی میک اپ آرٹسٹ کو ہاتھ نہیں لگانے دیا تھا۔ الزبتھ سے پہلے انھوں نے برصغیر کی نامور فنکارہ مختار بیگم سے ان کا انداز مستعار کیا جو فریدہ خانم کی بڑی بہن تھیں۔‘

نورجہاں نے اندرا گاندھی کو گانا کیوں نہ سُنایا؟

حنا بتاتی ہیں کہ جب اُن کی والدہ انڈیا کے دورے پر تھیں تو انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ملاقات کے دوران انھیں گانے کی فرمائش کر دی جس پر نورجہاں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’آج میں آپ کی مہمان ہوں، میں آپ کو گانا اس وقت سُناؤں گی جب آپ ہماری مہمان ہوں گی۔‘

بے نظیر بھٹو دور میں راجیو گاندھی پاکستان کے دورے پر آئے تو تب نور جہاں سے دوبارہ گانے کی فرمائش کی گئی۔ اس وقت نورجہاں نے کہا کہ ’آپ کی والدہ اندرا گاندھی کو میں نے گانا نہیں سنایا تھا آج آپ ہمارے مہمان ہیں میں آپ کو ایک نہیں دو گانے سُناؤں گی۔‘

اس کے بعد نور جہاں نے فیض کی نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت‘ اور ایک گیت ’آواز دے کہاں ہے‘ سُنایا۔

مینا نے بتایا کہ ’جنرل ضیا الحق ملک کے صدر تھے اور اُن کی بیوی شفیقہ ضیا نور جہاں کی مداح تھیں۔ جب ایوان صدر سے نورجہاں رخصت ہونے لگیں تو جنرل ضیا نے نورجہاں سے کہا میڈم میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں۔۔۔ اس پر نورجہاں نے جواب دیا آپ مجھے کیا دے سکتے ہیں، آپ تو خود اس کے محتاج ہیں جو ساری کائنات کو دیتا ہے۔‘

ٹینا نے بتایا کہ جب ماں بہت بیمارتھیں تو جنرل پرویز مشرف ان سے ملاقات کرنے کراچی آئے۔ جنرل مشرف نے بتایا کہ ’جن جنگوں کے دوران آپ ملک کے سپاہیوں کے لیے ملی ترانے گاتی رہیں وہ ترانے سن کر ہم نے جنگیں لڑی ہیں۔ یہ سنتے ہوئے نورجہاں نے جنرل مشرف سے کہاکہ خدا نہ کرے پھر کبھی جنگ ہو لیکن اگر ایسا ہوا تو آپ مجھے دوبارہ ’میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں‘ گاتے سُنیں گے۔‘

نورجہاں نے موت سے پہلے ظفر درزی سے 60نئے جوڑے سلوائے

شازیہ (مینا) بتاتی ہیں کہ ’ماں اپنی زندگی کے آخری ساڑھے چار سال شدید بیمار رہیں۔ اس عرصہ کے دوران انھیں امریکہ اور برطانیہ کے جدید ہسپتالوں میں داخل کرایا گیا۔ انھیں یقین تھا کہ وہ دوبارہ تندرست ہو جائیں گی اور پھر سے گائیں گی۔

’انھوں نے مرنے سے چند ماہ قبل لاہور سے اپنے درزی ظفر کو بلایا اور لگ بھگ 60 نئے جوڑے سلوائے کہ وہ تندرست ہو کر پھر سے ایک نئی زندگی کا آغاز کریں گی۔‘

شازیہ نے ٹشو سے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا ’ماں واقعی نورجہاں تھی، اپنوں اور ساری دنیا کے لیے وہ نور ثابت ہوئیں۔۔۔‘

نور جہاں کے ملازم بھی وی آئی پی تھے

ملکہ ترنم نورجہاں کی فلمی دنیا میں حیثیت وی وی آئی پی کی سی رہی۔ اُن کے ڈرائیور سے لے کر باورچی تک اور ان کے استاد سے لے کر ڈھولک نواز تک، سبھی نگارخانوں میں وی وی آئی پی سمجھے جاتے اور سب کو پروٹوکول دیا جاتا۔

ملتان روڈ پر واقع تینوں سٹوڈیوز میں ایک جگہ مختص ہوتی تھی جہاں ملکہ ترنم نورجہاں کی گاڑی پارک ہوتی تھی۔ نورجہاں کی گاڑی جب نگار خانوں میں داخل ہوا کرتی تو لوگ احتراماََ راستے سے ہٹ جایا کرتے۔

نورجہاں کے دو ڈرائیور تھے جن کے نام فاروق اور امیر تھے اور نورجہاں خود کھانا کھانے سے پہلے دونوں کے کھانے کا اہتمام کرتیں۔

ایک مرتبہ گھریلو ملازمہ بانو کو جھڑک کر نور جہاں عجلت میں سٹوڈیو نکل گئیں لیکن تھوڑی دیر بعد گھر واپس آئیں اور بانو سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی کہ بانو جب تک تم مجھے معاف نہیں کرو گی میں ریکارڈنگ پر نہیں جاؤں گی۔ اس پر بانو نے نورجہاں کو گلے لگا لیا اور دونوں دیر تک روتی رہیں۔ اس کے بعد نور جہاں نے اپنے آنسو پونچھے اور وہ ریکارڈنگ کے لیے سٹوڈیو گئیں۔

نواب شاہ سے آنے والا فوجی

شازیہ بتاتی ہیں کہ جب ماں تواتر سے بیمار رہنے لگیں اور لوگوں کو ان کی پیچیدہ بیماری سے متعلق علم ہو گیا تو ایک دن ایسا ہوا کہ ایک شخص انھیں (شازیہ کو) ہسپتال کی لابی میں ملا جس نے بڑی عاجزی کے ساتھ اپنا تعارف کروایا کہ وہ فوجی ہے اور نواب شاہ سے آیا ہے۔

’اس فوجی نے کہا کہ آپ ملکہ ترنم نورجہاں کی بیٹی ہیں، میں نے سُنا ہے ملکہ ترنم کو خون کی ضرورت ہے تو آپ حکم کیجیے انھیں کتنا خون چاہیے۔۔۔ یہ کہتے ہوئے اس شخص کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے۔ اس نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا نورجہاں ہماری بھی ماں ہیں کیونکہ جب ہم سرحدوں پر ملک کی حفاظت کرتے ہیں تو وہ ہماری خیر مانگتی ہیں۔‘

اس نے کہا کہ اللہ ’میریا ڈھول سپاھیا تینوں رب دیاں رکھاں‘ کہنے والی نور جہاں کی بھی خیر کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).