ساجد علی کی سترویں سالگرہ اور دوستی کی گولڈن جوبلی


سال رواں میرے لیے دو باتوں کی بنا پر خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ساجد علی کی سترویں سالگرہ ہے اور ہماری دوستی کی گولڈن جوبلی۔ اس موقع پر اس گولڈن رفاقت کی چند جھلکیاں پیش کر رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ساجد کے جاننے اور چاہنے والے انہیں دلچسپ بھی پائیں گے اور ان میں کچھ نیا بھی۔

میں گورنمنٹ کالج لاہور میں سال سوم کا طالب علم تھا۔ ایک دن بخاری آڈیٹوریم کی طرف جا رہا تھا۔ بک بینک کے قریب چند لڑکوں نے کالج گزٹ کے نگران، انگریزی کے استاد، بی اے چشتی صاحب کو گھیرا ہوا تھا۔ گزٹ کا شریک مدیر عابد رفیق عابی ناراض سا لگ رہا تھا۔ چشتی صاحب کچھ وضاحت کرتے ہوئے اس کی خفگی کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک دبلا پتلا لڑکا، جو کچھ شرمندہ سا لگ رہا تھا، مجرموں کی طرح اپنی صفائی پیش کر رہا تھا۔

”میں نے تو درخواست دینے اور تحریری امتحان سے گزرنے کی کوفت صرف اس لیے اٹھائی تھی کہ انٹرویو میں بورڈ کے سامنے کچھ بات کرنا چاہتا تھا۔ میں نے سٹاف رپورٹر کی حیثیت سے استعفا دیا ہوا تھا۔ بورڈ مجھے کیسے رکھ سکتا تھا؟ تم جائنٹ ایڈیٹر تھے، تمہارا ہی چانس تھا۔“

”میں تمہیں کہہ رہا تھا کہ تم سیلیکٹ ہو جاؤ گے، میرا چانس خراب نہ کرو۔“ عابد نے کہا۔
”بھئی بورڈ کا متفقہ فیصلہ ہے، کھلے دل سے ماننا چاہیے۔“ چشتی صاحب نے اسے تقریباً مناتے ہوئے کہا۔

میں سمجھ چکا تھا کہ وضاحت پیش کرنے والا لڑکا مدیر بن گیا تھا۔ اس کے چہرے پر مرتبے اور منصب سے بے نیازی کی شان نظر آتی تھی۔ کچھ عرصے بعد وحید رضا بھٹی کے ذریعے اس سے باقاعدہ تعارف ہوا۔ یہ ساجد علی تھا۔ میرے یہ دونوں سینئر دوست ہم جماعت تھے۔ بہت عرصے بعد چشتی صاحب نے بتایا کہ مدیر کی تقرری کے وقت بورڈ کے سینئر ترین رکن ڈاکٹر احسن الاسلام نے کہا تھا کہ نمبر ون تو ساجد ہے لیکن اس کے خیالات آپ سے بہت مختلف ہیں، ہو سکتا ہے یہ آپ کے لیے مسئلہ پیدا کرے۔ چشتی صاحب کا جواب تھا کہ مسئلے کا سامنا تو وہ کر لیں گے لیکن نمبر ون امیدوار کو سلیکٹ نہ کرنے پر اپنے ضمیر کو کیا جواب دیں گے۔ ہم خوش قسمت تھے کہ ہمیں ایسے استاد ملے۔

ساجد نے ایک تحریر میں اپنی اور میری دوستی کے آغاز کو شیخ صلاح الدین اور ناصر کاظمی کی دوستی کے ابتدائی زمانے کے مماثل قرار دیا ہے جس میں، بقول شیخ صاحب، بہت ”خوں ریز بحثیں“ ہوا کرتی تھیں۔ ہمارے تعلیمی، مذہبی، ادبی اور سیاسی پس منظر ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے لہذا اختلافی معاملات بھی بہت تھے۔ ساجد کے گھر والے جماعت اسلامی کے حامی تھے جبکہ میرے پیپلز پارٹی کے۔ ساجد کے ماموں ڈاکٹر بشیر چوہدری نے رحیم یار خان سے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا اور میری والدہ ہمارے حلقے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار عبدالحفیظ کاردار کی، جو کالج میں پاپا کے ہم جماعت تھے، خواتین کی انتخابی مہم کی انچارج رہی تھیں۔ ان گنت بحثوں کے بعد میں اور ساجد کچھ بنیادی نوعیت کی باتوں پر متفق ہو گئے جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ہمیں مستقبل کے بارے میں اپنی ذاتی، خاندانی اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کے سوچنا چاہیے۔ فرقہ بندی کے تو ہم پہلے ہی خلاف تھے۔ ہم خود کو سنی اور شیعہ کی بجائے مسلم کہلانا پسند کرتے تھے۔

ساجد کا تعلق گوجرہ شہرکے قریب واقع ایک گاؤں لال پور ڈھوٹیاں سے تھا۔ اس کے گھر میں علمی اور ادبی فضا عمدہ تھی۔ اس کے دادا جان، پھر ابا جان، باقاعدگی سے اخبار منگواتے تھے۔ بڑے بھائی ڈاکٹر امجد ظہیر نے، جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے فارغ التحصیل تھے، اہم اور معیاری کتب کا ایک ذخیرہ جمع کر رکھا تھا۔ ساجد بہت مضبوط نثر لکھتا تھا اور اس کا شعری ذوق بھی بہت اچھا تھا۔ ادھر کالج میں جاوید احمد (غامدی) اس کے ہم جماعت اور بہت قریبی دوست تھے۔ وہ انگریزی میں بی اے آنرز کر رہے تھے ؛ عربی کے عالم تھے اور اردو اور فارسی میں شعر بھی کہتے تھے۔ کالج میں وہ سال سوم تک یونیفارم میں آتے رہے، پھر انہوں نے کرتا شلوار پہننا شروع کر دی جس پر سردیوں میں کمبل لپیٹ کے آتے۔ بہت قریبی اور بے تکلف تعلق کے باوجود ساجد انہیں جاوید صاحب اور وہ اسے ساجد صاحب کہہ کے مخاطب کرتے۔ ساجد ہوسٹل چھوڑ کے ان کے اور ان کے دو تین ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ ماڈل ٹاؤن کی ایک کوٹھی میں رہائش پذیر تھا۔ یہ دوست ان دنوں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ایک علمی تحریک کی داغ بیل ڈالنے کی تیاری کر رہے تھے اور کچھ عرصے بعد اس کے لیے انہوں نے ایک رسالے کا اجرا بھی کیا۔ میری جاوید صاحب سے کالج میں بھی ملاقات ہوتی تھی اور ساجد کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر بھی۔

میں ایک آزاد امیدوار کے طور پر سٹودنٹس یونین کی سیکرٹری شپ کا انتخاب لڑنے کا اعلان کر چکا تھا۔ ایک روز ساجد نے کہا کہ جاوید صاحب پوچھ رہے تھے کہ باصر کا مقصد انتخاب جیتنا ہے یا کوئی بڑا نصب العین بھی ہے۔ میں نے کچھ سوچ کے کہا کہ دونوں۔ اگلے دن اس نے بتایا کہ جاوید صاحب میرے جواب سے مایوس ہوئے تھے۔ میں اپنے الیکشن کا ’معرکہ‘ کسی اور جگہ تفصیل سے بیان کر چکا ہوں۔ میری کامیابی میں دیگر عوامل کے ساتھ ساجد کی مدد نے اہم کردار ادا کیا۔ اشرف عظیم صدر منتخب ہوا۔ ہماری یونین کی آخری تقریب ایک تعلیمی سیمینار تھا۔ صوبائی وزیر تعلیم ڈاکٹر عبدالخالق مہمان خصوصی تھے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کسی معاملے پر تفصیل میں جاتے ہوئے کہا کہ وہ ڈاکٹر ہونے کے علاوہ معاشیات اور سیاسیات کے طالب علم بھی رہے تھے۔ (ہم سیکرٹیریٹ میں ان کے کمرے کے باہر بورڈ پر ان کے نام کے ساتھ بریکٹ میں ’بی اے اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس‘ لکھا ہوا دیکھ چکے تھے ) ۔ انہوں نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی ملک کی حکومت نے اتنا کام نہیں کیا تھا جتنا ان کی حکومت کر چکی تھی، چیلنج کیا کہ اس سلسلے میں کوئی بھی ان سے بحث کر لے۔ ساجد نے کھڑے ہو کر کہا: ”میں یہ چیلنج قبول کرتا ہوں۔“ ہال میں سراسیمگی پھیل گئی۔ دو ایک سینئر اساتذہ نے ساجد کو بٹھانے کی کوشش کی لیکن ساجد کا جواب تھا: ”وہ چیلنج کر رہے ہیں۔ وہ کہیں تو میں بیٹھ جاتا ہوں۔“ لیکن ظاہر ہے کہ بات آگے نہیں بڑھی اور ساجد کو اس کے استاد سمجھانے میں کامیاب ہو گئے۔

میری سیکرٹری شپ کا سیشن ختم ہو گیا۔ دوستوں کا خیال تھا کہ ہم نے جو ’انقلابی اقدامات‘ کیے تھے ان کے ’تسلسل‘ کی خاطر ضروری تھا کہ ہمارے گروپ سے کسی کو الیکشن لڑایا جائے۔ کسی نے ساجد کا نام لیا لیکن اس نے صاف انکار کر دیا۔ حلقہ یاراں میں تو وہ خوب چہکتا بولتا تھا لیکن نئے لوگوں سے ملنے میں اسے وحشت ہوتی۔ جمعیت نے صدارت کے لئے راؤ جلیل کا انتخاب کر رکھا تھا۔ بائیں بازو کی تنظیمیں فاروق اعظم کی حمایت کر رہی تھیں۔ ایک تیسرا امیدوار وسیم کوثر بھی میدان میں تھا۔ وسیم ایک انعام یافتہ مقرر اور ینگ سٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر ندیم کوثر کا بڑا بھائی تھا، لہذا کالج میں اس کا ایک بڑا حلقہ موجود تھا۔ الیکشن مہم زور پکڑنے لگی تو راؤ جلیل کمزور پڑنے لگا۔ جمعیت کو کسی اور امیدوار کی تلاش ہوئی۔ ان کے ایک رکن راشد فارانی نے ساجد کا نام تجویز کیا اور کسی حد تک اسے رضامند بھی کر لیا۔ مجھے اور بھٹی کو پتا چلا تو ہمیں خوشی ہوئی لیکن ہم نے جمعیت کے ارکان پر واضح کر دیا کہ ساجد کے گہرے دوست ہونے کے باوجود ہم صرف اسی صورت میں اس کی حمایت کریں گے اگر وہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑے گا۔ وہ بے شک کھل کے اس کی حمایت کریں لیکن ایک طالب علم کی حیثیت سے۔ اس پر جمعیت کے امیدوار کا لیبل نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن جمعیت کے لیے یہ بات قابل قبول نہیں تھی۔ چند روز کی تگ و دو کے بعد جب انہیں کوئی ’اپنا امیدوار‘ نہ مل سکا تو انہوں نے ہماری شرائط پر ساجد کی حمایت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ آخر ساجد کا ان سے کئی معاملوں میں اتفاق بھی تو تھا۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ بائیں بازو کی تنظیموں کے امیدوار کا سامنا کر رہا تھا۔

ساجد کی مہم ہمارے لئے کافی مشکل تھی۔ میں اور بھٹی، جہاں چند طلبہ کو دیکھتے، ساجد کو ان میں دھکیل دیتے۔ ساجد کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس سے غیر متعلقہ گفتگو نہیں ہوتی تھی۔ سو یہ کام ہم کرتے۔ تقریر وہ اچھی کر لیتا تھا چنانچہ کلاسوں میں ’خطاب‘ کے وقت اس کی جھجک دور ہو جاتی۔ ایک مشکل یہ بھی تھی کہ میں اپنے کچھ لبرل دوستوں، یعنی ووٹروں کو قائل نہیں کر پا رہا تھا کہ ساجد ایک خود مختار اور آزاد امیدوار ہے، اگرچہ اس کے حامیوں کا حلقہ جمعیت کے ہم خیال طلبہ تک محدود نہیں تھا۔ فاروق اعظم نے گزٹ کے مدیر شاہد مسعود کو ووٹ دینے کا کہا تو شاہد نے معذرت کرتے ہوئے جواب دیا کہ ساجد اس کا گرو تھا۔ بعد میں فاروق نے ساجد سے کہا کہ عجیب بات ہے، بائیں بازوکی طرف جھکاؤ رکھنے والے کئی طلبہ نے کہا کہ تم ان کے گرو ہو یا مرشد۔ بہر حال، گرتے پڑتے الیکشن کا دن آیا اور ساجد کامیاب ہوا۔ ایک بار پھر اعزاز اس کے سر پر مسلط کر دیا گیا۔

ان دنوں ہم صبح کو ملتے اور رات گئے تک ساتھ رہتے۔ کالج میں میری، ساجد اور بھٹی کی دوستی ٹرینیٹی کے نام سے مشہور تھی۔ عام تاثر تھا کہ ہم میں سے کوئی ایک کہیں نظر آ جاتا تو دیگر دو بھی آس پاس ہی ہوتے۔ ہمارا لنچ کالج کینٹین، نیو ہوسٹل یا مال روڈ پر ٹولنٹن مارکیٹ میں واقع ریستورانوں، کیپری یا بلو ڈریگن میں ہوتا۔ ہمیں ان ریستورانوں کی ائر کنڈیشنڈ (گرمیوں میں سرد، سردیوں میں گرم) فضا، خاموشی، کلب اور چکن سینڈوچ اور ولایتی طرز پر بنا ہو چکن روسٹ بہت پسند تھے۔ یہاں کی آئس کریم، کافی اور چائے بھی بہت اچھی ہوتیں۔ چائے کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ آپ ایک بار آرڈر دینے کے بعد، بغیر کسی اضافی چارج کے، جتنی بار چاہتے اسے دہرانے (repeat) کا کہہ سکتے تھے، لہذا جتنی دیر تک چاہتے وہاں بیٹھ سکتے تھے۔ ساجد کو آئس کریم اتنی پسند تھی کہ اسے کبھی بخار ہوتا تو کہتا کہ آئس کریم کھا کے ٹھیک ہوں گا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments