دوبارہ دیکھنے کی ہوس ہے


”میں نے سنا ہے پاکستان میں عورتوں پر بہت پابندی ہے۔ وہ تو اسکول بھی نہیں جا سکتیں۔ چہ جائیکہ بیرون ملک تنہا سفر۔“

ہم نے رسان سے کہا ”پاکستان میں خواتین کا ملک میں اہم کردار رہا ہے۔ 1956 سے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے۔ خواتین اہم عہدوں پر فائز ہیں جن میں وزیراعظم، اسپیکر قومی اسمبلی۔ قاعد حزب اختلاف۔ پارلیمانی ممبران، وزرا، سفراء۔ ڈاکٹر جج۔ پولیس افسر اور مسلح افواج میں کمیشنڈ افسر بھی شامل ہیں۔ محترمہ بے نظیر کا نام تو آپ نے سنا ہی ہو گا میجر جنرل شاہدہ ملک اور جسٹس ناصرہ اقبال کے نام بھی آپ گوگل پر سرچ کر سکتی ہیں۔

پاکستان میں شرح خواندگی تقریباً ساٹھ فیصد ہے۔ قبائلی علاقوں میں شرح خواندگی خواتین ہی میں نہیں، مردوں میں بھی کم ہے۔ 2007 میں غیر ترقی یافتہ علاقے میں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ تھیلیسیمیا سنٹر مانسہرہ جانا ہوا اور مانسہرہ بالا کوٹ اور نواحی علاقوں میں بہت سی لڑکیوں سے ملاقات کی۔ جو اسکول جاتی تھیں۔ سوات پر البتہ طالبان نے زیادہ فساد پھیلایا تھا۔ طالبان نے لڑکیوں ہی کے نہیں لڑکوں کے اسکولوں ہر بھی حملے کیے جس میں 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والا حملہ بین الاقوامی خبروں کا مرکز رہا۔

طالبان کا زور اب ٹوٹ چکا ہے اور حالات بہتر ہیں۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی عورت حقوق کے حصول میں مغربی عورت سے بہت پیچھے ہے۔ ملک کے معاشی مسائل اور خواتین کی زندگی پر قبائلی اور جاگیر دارانہ اثرات کی وجہ سے پاکستان میں خواتین کی حیثیت مختلف طبقات اور دیہی/شہری تقسیم میں کافی حد تک مختلف ہے۔ لیکن جینڈر کنسرن انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین کے مجموعی حقوق میں بہتری آئی ہے اور اس کی وجہ بڑھتی ہوئی خواندہ خواتین کی تعداد ہے۔ ”

کینیڈین خاتون بہت توجہ سے ہماری تقریر سن رہی تھیں۔ مغربی لوگوں کی یہ اچھی بات ہوتی ہے وہ کسی بات کو مہمل نہیں سمجھتے۔ ہر بات کو توجہ سے سنتے ہیں۔ انہوں نے کہا ”آپ نے تو پاکستانی عورت سے متعلق میرا نظریہ ہی بدل دیا“

”مجھے خوشی ہے اگر میں ایسا کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اپنے بارے میں کچھ بتائیے“

وہ ایک ٹیچر تھیں اور ایک قصبے سے تعلق رکھتی تھیں۔ انہوں نے اپنے نوعمر لڑکوں کی برف پر اسکیٹنگ کرتے ہوئے تصویر دکھاتے ہوئے کہا ”یہ ہمارے علاقے کی جھیل ہے موسم سرما میں یہ ٹھوس برف بن جاتی ہے۔“

انہوں نے کہا وقت ملے تو بینف ضرور جائے گا۔ انہوں نے وینکوور کے بارے میں بھی مشورے دیے جو بہت کار آمد ثابت ہوئے۔

”اتنے میں ہماری دوست ہماری سیٹ کی طرف آئیں۔ ہم باتوں میں مشغول ہونے کی وجہ سے سیٹ سے ہلے تک نہ تھے ہم نے ان کا تعارف ایک اور خودمختار پاکستانی خاتون کی حیثیت سے کروایا۔

ائر پورٹ سے باہر آ کر ہمارے راستے جدا ہو گئے۔ ہماری دوست کو بھی کسی عزیز کے گھر قیام کرنا تھا اور ان کے میزبان لینے آ گئے تھے۔ ہمیں رابسن اسٹریٹ پر واقع ہوٹل جانا تھا۔ ائرپورٹ سے متصل میٹرو اسکائی ٹرین اسٹیشن سے گرینول Granville کا ٹکٹ خرید کر ٹرین پر سوار ہو گئے اور بچپن کی مانند کھڑکی سے لگ کر پیچھے دوڑتے مناظر میں کھو گئے۔

ہمارے کشمیری نژاد امریکی دوست نے کہا تھا اگر فردوس رویے زمیں پر ہے تو یا تو کشمیر میں ہے یا برٹش کولمبیا میں۔ وینکو ور Vancouver برٹش کولمبیا کا دلکش اور ہمہ جہت شہر ہے۔ یہاں قدرتی حسن کے ساتھ اور بھی بہت کچھ ہے۔ ماضی کی شان و شوکت حال کی جدیدیت سے خوبصورتی کے ساتھ لپٹی ہوئی ہے۔ آرٹ گیلری شہ پاروں سے مزین ہے تو یہاں کا اسٹیڈیم کینیڈا کی مقبول فٹ بال ٹیموں کا مسکن ہے اور یہاں کا میوزیم فرسٹ نیشن کے نوادرات سے مالا مال ہے۔

فرسٹ نیشن کے بارے میں ہم اگلی تحریر میں بات کریں گے۔ ابھی تو ہمارے تصور کا اسپ ٹرین کے ساتھ پیچھے بھاگتے میپل کے درخت، اسمان کو چھوتی جدید عمارتیں، قدیم طرز کے مکانات۔ سیاہ تارکول کی چوڑی سڑکیں اور گنجان گلیاں ٹاپتا ہوا چلا جا رہا ہے۔ اکتوبر کی چمکیلی دوپہر میں زمیں پر بچھے سرخ میپل کے پتے ہمیں ریڈ کارپٹ ویلکم کہتے محسوس ہو رہے ہیں۔ لیجیے ٹرین زمین دوز گرین ول اسٹیشن پر رک گئی ہے۔ خندق سے بالائی سطح پر آئے تو سر پر پڑتی پھوار نے حیران کر دیا۔

وینکوور زود رنج دوشیزہ کی آنکھوں کی مانند موقع بے موقع چھلک اٹھتا ہے۔ لوگ خوش رنگ چھتریاں کلائی پر لٹکا کر گھروں سے نکلتے ہیں۔ جہاں بوند پڑی، سر پر تان لی۔ بوندوں کی بڑھتی شدت میں سڑک پار کر کے ٹیکسی لی۔ پاکستانی ڈرائیور نے بتایا رابسن اسٹریٹ پانچ منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ مشرق میں اسٹیڈیم اور مغرب میں اسٹینلے پارک کو ملاتی یہ قدیم ترین سڑک جان رابسن سے موسوم ہے جو 1889 سے 1892 تک برٹش کولمبیا کے گورنر تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمن تارکین وطن کی بے شمار دکانیں ہونے کی وجہ سے اسے جرمن لب و لہجے میں robson strasse۔ کہا جاتا تھا۔ یہاں بے شمار انٹرنیشنل برانڈ کے شوروم ہیں اور دنیا بھر کے ذائقے متعارف کراتے ریسٹورنٹ اور کافی ہاؤس بھی۔ یہاں چھوٹی دکانیں بھی ہیں اور بڑے بڑے مال بھی

بارکلی ہوٹل ایک صاف ستھرا معقول ہوٹل تھا۔ ہمارا کمرہ گراؤنڈ فلور پر ہی تھا۔ بڑی سی کھڑکی پچھلی گلی میں کھلتی تھی جہاں سے ہم مقامی لوگوں کے مطالعے کا مشغلہ جاری رکھ سکتے تھے۔ کنونشن سنٹر جہاں ہماری کانگریس تھی، بیس منٹ کی واک پر تھا۔ ہم نے اس ہوٹل کی بکنگ پر اپنی دوست کا شکریہ ادا کیا۔ استقبالیہ پر بتایا گیا کہ بیسمنٹ میں معقول نرخ پر ناشتے کا انتظام ہے ہم نے کہا ہم خنزیر نہیں کھاتے اور شراب نہیں پیتے۔

چینی ریسیپشنسٹ نے یقین دلایا کہ ناشتے میں پورک کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اگلی صبح ناشتے کے لیے تہ خانے میں اترے (تہ خانہ اس نیم تاریک کوٹھری کے لئے بیسمنٹ سے زیادہ موزوں لفظ ہے ) کاؤنٹر کے اوپر بجھتے ہوئے انگاروں کی مانند قمقمے سلگ رہے تھے اس معمولی روشنی میں بس سیدھی رکھی سبو اور الٹے لٹکے جام ہی دکھائی دیے۔ بوفے کی میز پر قابوں میں انواع و اقسام کی اشیائے خورد و نوش رکھی تھیں۔ کتبوں پر نام بھی درج تھے مگر بنا عینک کے اس معدوم روشنی میں کیونکر پڑھ سکتے تھے۔ پین کیک پلیٹ میں ڈال کر کرسی پر بیٹھے۔ کترتے ہی اندازہ ہوا کہ میدہ نہیں ماس ہے۔ باورچن کم بار ٹینڈر سے پوچھا یہ کیا ہے

”بیکن۔ پڑھا نہیں؟“ ، انہوں نے نخوت سے فرمایا۔

ناشتہ ترک کر کے کنونشن سنٹر جانے کے لئے تیار ہوئے۔ نکلنے سے پہلے چینی برادر کی گوشمالی کرنا نہیں بھولے جس نے ہمیں جھوٹی یقین دہانی کرائی تھی۔ کنونشن سنٹر پہنچ کر رجسٹریشن کروائی۔ ہال میں ناشتے کا انتظام تھا۔ اسٹرابیری یوگرٹ لپالپ کھا رہے تھے کہ ویٹر نے آ کر اطلاع دی اس میں خنزیر سے حاصل کردہ جیلاٹن شامل ہے۔ سلاد اٹھایا تو معلوم ہوا اس پر انگور کی بیٹی بال کھولے سو رہی ہے۔ جل کے سوچا اب کیا خاک پھانکیں یا ہوا کھائیں۔

دوپہر کو کیکٹس ریسٹورنٹ میں اسٹیم کی ہوئی پھلیاں کھائیں۔ جرمنی ائر پورٹ پر کپ سوپ کے ساشے محفوظ رہے تھے۔ بس اسی سے ڈنر کیا۔ تیسرے دن لنچ کے لئے ایک بڑے ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے۔ تلے ہوئے، بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو نے دل جلا کے رکھ دیا۔ اشتہا انگیز مرغی کی رانوں اور بکرے کی دستیوں سے پیٹھ موڑ کر ابلے چاول اور آلو مٹر کا آرڈر دیا۔ الو مٹر انتہائی بد ذائقہ تھا۔ پاکستانی ویٹریس ہماری بپتا سن کر کہنے لگی رابسن روڈ پر ایک انڈین ریسٹورنٹ ہے جہاں حلال گوشت پکتا ہے۔ اس کے بتائے ہوئے پتے پر دوڑے۔ دکان کے پہلو سے بالا خانے کو جاتا زینہ ہمیں اس مستور انڈین ریستوران لے گیا جو ہماری ہو ٹل سے بس بیس قدم کے فاصلے پر تھا۔ بھنا ہوا پالک گوشت اور خستہ تندوری نان ایسے کھایا جیسے لڑکپن میں افطار پر شربت پیا کرتے تھے۔

رابسن اسٹریٹ کا مغربی موڑ مڑتے ہی اسٹینلے پارک ہے جو ہر ٹورسٹ کی منزل ہوتی ہے ہم بھی اپنے احباب کے ساتھ گئے۔ 1000 ایکڑ پر پھیلا یہ وسیع و عریض پارک بیک وقت گلستان، بوستان، جنگل پہاڑ سمندر اور جھیل کے نظارے سمیٹے ہوئے ہے۔ ہزاروں سال سے یہ قطعہ زمیں قدیم مقامی قبائل کی ملکیت تھا 1858 میں برطانوی سامراج نے انہیں بے دخل کر دیا اور یہاں فوجی اڈے قائم کیے۔ 1888 میں سٹی کونسل نے اس کے اختیارات حاصل کیے اور اسے انگریز گورنر لارڈ اسٹینلے سے موسوم کرتے ہوئے اسٹینلے پارک کا درجہ دیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments