دوبارہ دیکھنے کی ہوس ہے


پارک کے ایک حصے میں لگے ہوئے ٹوٹم پول قدیم قبائل کے ثقافتی ورثے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وینکوور کی کوسٹ لائن پر پکی کگر بنائی گئی ہے جسے سی وال کہتے ہیں۔ یہ 27 کلومیٹر لمبی ہے اس کا نو کلومیٹر حصہ اسٹینلے پارک سے گزرتا ہے۔ اس پر چہل قدمی کریں یا بائیسکل پہ سوار ہو کر گزریں وینکوور کا حسین نظارہ آپ کے اندر تازگی بھر دیتا ہے۔

اسٹینلے پارک کے جنوبی حصے میں واقع ’لوسٹ لیگون‘ بھی دیکھنے کی چیز ہے۔

41 ایکڑ پر محیط یہ مصنوعی جھیل نادر و نایاب آبی پرندوں کی پناہ گاہ ہے جن میں گونگے راج ہنس (mute swan) اور نیلے ہیرون شامل ہیں۔ تاریخی طور پر یہ ایک سمندری جھیل تھی۔ سمندر چڑھتا تو یہ جھیل بھر جاتی اور پانی اترتا تو خالی ہوجاتی Vancouver causeway بننے کے بعد اس کا سمندر سے رابطہ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا۔ 1922 میں اسے سرکاری طور پر لوسٹ لیگون کا نام دیا گیا۔ 1929 میں اسے میٹھے پانی سے بھر کر مصنوعی جھیل بنا یا گیا۔

چھ دن کی لگاتار دماغی ریاضت کے بعد منتظمین نے وینکوور آئی لینڈ کی سیر کا انتظام کیا تھا۔

اکتوبر کی دسویں صبح ساڑھے چھ بجے کنونشن سنٹر کے باہر بس ڈرائیور مکی اور گائیڈ مائیکا قدرتی حسن کے دلدادہ مسافروں کو وینکوور جزیرہ لے جانے کے لئے تیار تھے۔ بس وینکوور کے دوراہوں چوراہوں سے گزرتی شہر سے باہر نکلی اور پھر پورٹ کی طرف رخ کیا۔ چار منزلہ دیو قامت فیری جیٹی پر لنگر انداز تھی۔ ہمیں بس سے اترنا نہیں پڑا، بس سیدھی فیری کی نچلی منزل میں پارک ہو گئی۔ پہلی منزل پر ریسٹورنٹ، کافی شاپ اور نشست کا انتظام تھا۔

دوسری منزل پر بچوں کا پلے ایریا اور بڑوں کے ٹیبل گیم تھے۔ وسیع و عریض عرشے پر چند نشستیں نصب تھیں باقی عرشہ خالی تھا یہی ہماری پسندیدہ جگہ تھی۔ ہولے ہولے تیرتا ہمارا سفینہ دلکش نامعلوم جزیروں کی رونمائی کراتا وینکوور جزیرے کی طرف رواں دواں تھا۔ سرد ہوا چہرے کو سہلا رہی تھی اور ہم خود کو کولمبس کی جگہ محسوس کر رہے تھے جو انڈیا کھوجنے نکلا اور اس خطے کو دریافت کیا۔ اگرچہ اس خطے کے مقامی باشندے (فرسٹ نیشن) لفظ دریافت سے بالکل متفق نہیں۔ وہ کہتے ہیں کولمبس نے ڈھونڈا نہیں تھا بلکہ وہ بھٹکا تھا اور انڈیا سمجھ کر انہیں انڈین کہہ ڈالا تھا۔

فیری وینکوور جزیرے پر لنگر انداز ہوئی۔ ہماری بس اپنی آرام گاہ سے نکلی اور بچارٹ گارڈن کی طرف چلی۔ 55 ایکڑ پر پھیلا نابغہ روزگار بچارٹ گارڈن کاہی سبزے، چھتر درختوں، اور نو سو اقسام کے پھولوں کی آبیاری سے سدا بہار رہتا ہے ”۔ یہ باغ فطرت سے پیار کرنے والی ایک عورت کی لگن اور محنت کی کہانی بیان کرتا ہے جس کا نام جینی بچارٹ تھا“ ۔ مائیکا کی آواز مائیک میں گونج رہی تھی۔ 1904 میں رابرٹ پم بچارٹ (Robert Pim Butchart) نامی ایک صنعت کار نے یہاں کے لائم اسٹون کے ذخائر دیکھتے ہوئے ایک سیمنٹ فیکٹری بنائی۔ کچھ فاصلے پر گھر بنایا۔ مسز جینی بچارٹ نے دیو قامت کھائی کو گلستان میں بدلنے کا خواب دیکھا اور دن رات جٹ گئی۔

مسٹر بچارٹ نے ان کے جنون کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر سے انواع و اقسام کے پھولوں کے پودے، مور اور دلربا پرندے درآمد کیے۔ 1926 تک 55 ایکڑ کا رقبہ عظیم الشان چمن کا روپ دھار چکا تھا۔ 1950 میں سیمنٹ فیکٹری بند ہو گئی مگر یہ گلستان آج بھی پائندہ ہے۔ sunken gardens۔ یا بچارٹ گارڈن اب کینیڈا کے تاریخی ورثے میں شامل ہیں۔ ہر سال ایک ملین سیاح اس کی سیر کو آتے ہیں۔

اس جہان رنگ و بو میں ہم اس قدر کھو گئے کہ ڈار سے بچھڑی کونج کی طرح تنہا ہی کہیں کے کہیں نکل گئے۔ وقت کا کچھ اندازہ ہی نہیں رہا۔ اچانک مائیکا پر نظر پڑی جو دونوں ہاتھ کمر پر رکھے شعلہ بار نظروں سے ہمیں گھور رہی تھی وہ جانے کب سے ہمیں ڈھونڈ رہی تھی۔ ”؟ can we go now“ اس نے بس اتنا ہی کہا۔ بھری ہوئی بس میں صرف ہماری نشست خالی تھی۔ مکی انجن اسٹارٹ کیے ہمارا ہی منتظر تھا بیٹھتے ہی ایکسیلیٹر دبایا اور بس جنگلات کے درمیان فراٹے بھرنے لگی۔ وکٹوریہ ہماری اگلی منزل تھی۔ ہسپانوی نژاد مائیکا ہمیں وکٹوریہ کی تاریخ جغرافیہ سے آگاہ کر رہی تھی۔

برٹش کولمبیا کا صدر مقام وکٹوریہ وینکوور سے سو کلومیٹر دور وینکوور جزیرے کی جنوبی منقار پر واقع ہے۔ تاریخی طور پر یہ علاقہ سالش قبیلے کا وطن تھا وہ اسے کیموسیک پکارتے تھے۔ 1792 میں برطانوی سیاح جارج وینکوور نے اپنے ساتھی کروک کے ساتھ اس جزیرے کو دریافت کیا۔ بعد ازاں انہی کے نام پر اس جزیرے کا نام رکھا گیا۔ ہڈسن بے کمپنی نے یہاں اڈا بنایا اور مقامی لوگوں سے زمین خریدنی شروع کی۔ 1849 میں اس جزیرے کو باقاعدہ طور پر برطانوی نو آبادی قرار دیا گیا۔

1852 میں جزیرے کا آباد علاقہ ملکہ وکٹوریہ سے موسوم کیا گیا۔ 1858 میں برٹش کولمبیا میں سونے کے ذخائر کی دریافت کے بعد ، بندرگاہ ہونے کے باعث وکٹوریہ کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی۔ وکٹورین طرز تعمیر کی عمارتیں اس دور کی یادگار ہیں، جن میں پارلیمانی عمارت، کریگ ڈارون کیسل، ایمپریس ہوٹل وغیرہ شامل ہیں۔ بے شمار باغوں کی وجہ سے اسے باغوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے یہاں دو یونیورسٹیاں اور آرٹس کالج ہے جہاں دنیا بھر سے طلباء آتے ہیں۔ یہاں ائرپورٹ موجود ہے مگر زیادہ مقبول اور مروج ذریعہ مواصلات فیری، فلائنگ بوٹ یا sea planes ہیں۔ سی پلین، پونٹون کے بل پر سطح آب پر لینڈ اور ٹیک آف کر سکتے ہیں۔

یہ پرسکون شہر اپنی معتدل اب و ہوا، دلربا نظاروں اور بے شمار آؤٹ ڈور مشاغل کے باعث سرد علاقوں کے ریٹائرڈ افسران کی پسندیدہ بھومی ہے لیکن یہ صرف امراء کے چونچلے ہیں کیونکہ یہ شہر کینیڈا کا پانچواں مہنگا ترین شہر ہے۔

بس وکٹوریہ پر ٹھہر گئی تھی۔ بارش ہو رہی تھی۔ صبح جب ہم۔ نے مکی سے درخواست کی تھی کہ راہ میں پڑتی ہماری ہوٹل پر ایک ثانیے کو روک لے ہم چھتری لینا بھول گئے ہیں تو اس نے تیقن سے کہا تھا چھتری کی ضرورت نہیں آج بارش نہیں ہوگی۔ سب اتر گئے ہم بیٹھے رہے مکی نے ہماری طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھا۔

”آپ نے کہا تھا آج بارش نہیں ہوگی“

مکی منہ پھاڑ کر ہنسا اور جھک کر کسی خانے سے سیاہ چھتری نکال کر ہمیں تھمائی۔ بند کھڑکیوں سے بوچھاڑ کا اندازہ تو ہوا لیکن ہوا کا نہیں۔ ہوا اس قدر پر زور تھی کی کہ مکی کی چھتری بے باک البیلی نار کی طرح ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔ دوڑ کر ہم نے اسے پکڑا۔ سامنے سڑک پر جسٹن ٹروڈو کا انتخابی جلوس جا رہا تھا۔ انتخابات سر پر تھے (ان انتخابات کے نتیجے میں جسٹن وزیراعظم منتخب ہوئے ) لوگ ٹولیوں میں مختلف سمتوں میں روانہ ہو گئے

کونج کی طرح پانی پر اترتے اور اڑان بھرتے جہازوں کا نظارہ ناقابل فراموش ہے۔ وکٹوریہ کی تیرتی بستی floating village بھی قابل دید ہے جہاں رنگ برنگے کشتی مکان ہلکورے لیتے ہیں۔ ایمپریس ہوٹل کی سطوت نے ہمیں امپریس کیا۔ اس بار ہم مائیکا کو شکایت کا موقع نہیں دینا چاہتے تھے سب سے پہلے بس میں آ کر بیٹھ گئے۔ واپسی کا سفر شروع ہوا۔ ہیلووین کا تہوار قریب تھا۔ نارنجی اور تربوزی پمپکن کی فصلیں لہلہا رہی تھیں۔ ہمیں سنڈریلا کی کہانی یاد آ گئی آج پمپکن بگھی نہیں

بلکہ مکی کی بس کی صورت میں ڈھلا تھا بارہ بجتے ہی سب غائب ہو گیا نہ بس نہ مکی اور مائیکا نہ وینکوور آئی لینڈ کی جادو نگری۔

کینیڈا کے کچھ اور شہروں کی داستان سفر اگلی قسط میں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments