مدارس کی جنسی اور معاشی ثقافت


جنسی جذبات کو جانوروں پر آزمانے کے ثبوت آئے روز سامنے آرہے ہیں۔ سوچنے کے لیے یہ سارے واقعات بھی شاید کم ہوں۔ لیکن صورت حال جب یہ ہو جائے کہ صبح دفنائی ہوئی خاتون کو شام قبر سے نکال کر ہوس کا نشانہ بنایا جائے، تو پھر کچھ دیر کے لیے رک کر ہمیں سوچنا چاہیے کہ تہذیب کے شیرے میں نشہ آور ادویات ملا کر ہمیں کس نے کھلائی تھیں اور کب کھلائی تھیں۔

ہمارا اجتماعی شعور اب تک جنسی آلودگی کے جن اسباب کا تعین کر پایا ہے وہ یہ ہیں،
فحاشی بڑھ گئی ہے۔
یہ سب انگریزی اور ہندی فلموں کا کیا دھرا ہے۔
یہ سب تہذیب مشرق سے دوری کا نتیجہ ہے۔
یہ سب اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
جب خواتین چست لباس پہنتی ہیں تو مرد بیچارے کے پاس بہکنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوتا۔

جنسی بے راہ روی کے یہ اسباب بیان کرتے ہوئے ہم دراصل یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اپنے بچوں کو بچا لیا جائے۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ اپنے لگے بندھے نظریات کو کسی طرح بچا لیا جائے، چاہے اس کے لیے ہمیں نسلوں کی قربانی دینی پڑے۔

مشکل یہ آن پڑی ہے کہ کچھ زندہ تجربات اور مشاہدات پر مبنی سوالات بھی ہماری فکری عمارت کو ہلانے میں ناکام ہیں۔ مثلاً ً، مسئلہ اگر لباس کا ہے تو چار پانچ سال کے بچے جنسی تشدد کا مسلسل نشانہ کیوں بن رہے ہیں؟ ان بچوں کی جسمانی ساخت میں تو جنسی تصرف کا کوئی امکان تک بھی موجود نہیں ہوتا۔ بے پردگی اگر مسئلہ ہے تو دفتر اور درس گاہ میں گلی اور بازار میں اور یہاں تک کہ خاندانی تقریبات میں باپردہ خواتین جنسی ہراسانی کا شکار کیوں ہو رہی ہیں؟

اگر مسئلہ اسلامی تعلیمات سے دوری کا ہے، تو شب و روز قرآن پڑھنے پڑھانے والی ہستیاں جنسی بے راہ روی کی شکار کیوں ہو گئی ہیں؟ اگر معاملہ انگریزی اور ہندی فلموں کا ہے، تو جنسی تشدد میں وہ لوگ کیوں ملوث پائے جا رہے ہیں، جنہوں نے زندگی میں پہلا ڈرامہ ہی ارطغرل غازی دیکھا ہے۔

مسئلے کے حل کی طرف بڑھنے کے لیے سب سے پہلے یہ بات دل میں بٹھانی ہو گی کہ معاملہ بحث مباحثے میں جیتنے یا ہارنے کا نہیں ہے، یہ انسان کی زندگی کا سوال ہے۔ اس کے بعد ہمیں تمام ثبوت و شواہد اور تجربات و مشاہدات کی روشنی میں یہ اعتراف کرنا ہو گا کہ بنیادی مسئلہ مشرق مغرب کا نہیں ہے، جنسی گھٹن کا ہے۔ اگر ہم اس اعتراف میں کامیاب ہو جائیں تو ہمارے لیے اس بات پر غور کرنا آسان ہو جائے گا کہ گھٹن غیر فطری پابندیوں سے پیدا ہوتی ہے یا پھر آزادی سے؟ اس سوال کے درست جواب تک پہنچنا تب ہی ممکن ہو گا جب اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے گا کہ انسان کا مزاج طلب اور جستجو کے خمیر سے اٹھایا گیا ہے۔

ایک جنسی گھٹن ہی نہیں، گھٹن کی ہر قسم غیر فطری پابندیوں سے جنم لیتی ہے۔ انسان کو اظہار کی آزادی میسر ہو تو بات نرم لہجوں میں ہوتی ہے اور اپنے وقت پر ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ لوگ خاموشیوں کی زبان میں بات کرنا بھی سیکھ لیتے ہیں۔ اظہار پر بندش لگا دی جائے تو بیان کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ طلب پوری نہیں ہوتی تو سینے میں ایک طرح کی گھٹن پیدا ہونے لگتی ہے۔ بات گھٹے ہوئے سینے میں رہتی ہے تو لاوا بنتا ہے، باہر نکلتی ہے تو بارہ گاؤں دور آواز سنائی دیتی ہے۔ کچھ نہ بن پائے تو لوگ بات کہنے کے لیے ایسے مقامات ڈھونڈ لیتے ہیں جو نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ ایسی زبان جنم لے لیتی ہے تو ڈی کوڈ نہیں ہو پاتی۔ ایسے میں کچھ نہیں ہوتا، بس معاشرے سے شفافیت ختم ہو جاتی ہے۔

گھٹن بڑھ جائے تو گنبد کا دروازہ کھولنا پڑتا ہے۔ یا پھر وقت آتا ہے کہ لاوا گنبد پھاڑ کے نکلتا ہے اور جبر کے ہر نشان کو بہا کر لے جاتا ہے۔ حجاز کا شیخ اس حوالے سے سیانا نکلا۔ ہمارے جیتے جی اس نے خواتین کو ڈرائیونگ کی بھی اجازت دیدی۔ کیا سعودی شاہوں کو خواتین کی آزادی میں کوئی دلچسپی تھی؟ نہیں، ان کی ساری دلچسپی اپنی سلامتی اور بقا میں تھی۔ شیخ نے بھانپ لیا تھا کہ پابندیوں نے معاشرے میں ایک گھٹن پیدا کر دی ہے، جس کے نتیجے میں انحراف کے جذبات ابھر رہے ہیں۔ یہ انحراف کسی دن اجتماعی روپ دھار کر سامنے آ گیا تو آل سعود کے لال پیلے رومال بحیرہ عرب میں تیر رہے ہوں گے۔

شیخ کو احساس ہو گیا کہ خواتین کو اگر ڈرائیونگ کا حق حاصل ہوتا تو ڈرائیونگ ان کے لیے معمول کا ایک معاملہ ہوتا۔ مردوں کی طرح ان کے لیے بھی ڈرائیونگ کی حیثیت زندگی کی ایک ضرورت کی سی ہی ہوتی۔ مگر ضرورت کے اس کھٹولے میں اب کتھارسس، شوق، بے چینی، طلب اور بغاوت جیسے رجحانات سوار ہو گئے ہیں۔ ڈرائیونگ اب ان خواتین کے لیے گھٹن نکالنے کا ایک اہم ذریعہ بھی بن گیا ہے۔

مجموعی طور پر یہ پورا معاشرہ جنسی گھٹن کا شکار ہے، مگر مدارس کا معاملہ کچھ سوا ہے۔ مدارس میں طالب علم کی تربیت کی جاتی ہے تو خاتون اور دولت کو اس کا محور بنایا جاتا ہے۔ خاتون کو نہیں دیکھنا۔ خاتون کی آواز بھی پردہ ہے۔ جس نے خاتون کو دیکھا گویا اس نے ز سے شروع ہونے والا کام کیا۔ باہر نکلو تو نظر کی حفاظت کرو۔ کہیں کسی کتاب میں نیم برہنہ خاتون کی تصویر دیکھو تو اس پر قلم کی سیاہی پھیر دو۔

چونکہ یہ بیانیہ کہنے سننے اور دیکھنے کی مذمت کرتا ہے، سو اس بیانیے میں تعلق، معاملہ، محبت اور پسند نا پسند کی گنجائش از خود ختم ہو جاتی ہے۔ ساتھ ہی اس پورے بیانیے میں فحاشی، عیاشی، شہوت اور زنا جیسے کئی دوسرے الفاظ کا تکرار اس شدت کے ساتھ ہو چکا ہوتا ہے کہ انسانی جذبات زکوٹا جن کا روپ دھار لیتے ہیں۔ صبح شام ایک ہی تقاضا کرتے ہیں، مجھے کام بتاو میں کیا کروں میں کس کو کھاوں؟

پانچ دس سال کے مسلسل تکرار کے بعد ایک طالب علم کے جذبات بارود کا ڈھیر بنا دیے جاتے ہیں۔ جب وہ پھٹنے کو آتا ہے تو اسے کہہ دیا جاتا ہے کہ تمہیں اپنے نفس پر قابو رکھنا ہو گا۔ یہاں صبر کا دامن تھامو گے تو وہاں کافور اور زعفران سے بنی ہوئی حوریں ملیں گی۔

لے دے کر غریب کو ایک شادی کا آسرا ہوتا ہے، وہ بھی بن دیکھے ہو جاتی ہے۔ پسند ناپسند کا کسی نے پوچھ بھی لیا تو احترام کی روایت کا جبری تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ہاں کردی جائے۔ شادی کی رسومات کس نے انجام دیں، کب دیں، کیسے دیں، شوہر نامدار کے علاوہ اس کی خبر سب کو ہوتی ہے۔ جب سارے معاملات بخیر و خوبی انجام کو پہنچ جائیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ لڑکی اپنا گھر چھوڑ کر لڑکے کے لیے تھوڑی آئی تھی، وہ تو لڑکے کے والدین کے تام جام سنبھالنے کے لیے آئی تھی۔

لڑکی یہاں مکے میں تندور گرم کرتی ہے اور لڑکا وہاں مدینے جوتیاں چٹخا رہا ہوتا ہے۔ سال دو سال میں ایک دوسرے کو میسر آ بھی جائیں تو جسمانی ورزشیں ہو جاتی ہیں، احساس کا تبادلہ نہیں ہو پاتا۔ نکاح نامہ ہوتے ہوئے بھی گناہ کا ایک درجہ احساس دل دماغ میں کہیں زندہ رہتا ہے۔ انہیں جنسی آسودگی کا مطلب سمجھ آنے لگتا ہے تو عمر کا کانٹا چالیس کے پیٹے میں لٹک رہا ہوتا ہے۔

تہذیب مشرق کے اس گھن چکر نے دریا کے کنارے بیٹھے ہوئے انسان کو بھی محروم ہی رکھا ہوا ہے۔ سچائیوں میں بڑی سچائی یہ ہے کہ محرومی اپنا ازالہ چاہتی ہے۔ کم لوگ یہ بات جانتے ہوں گے کہ جب مدارس میں لڑکیوں کی تعلیم کا آغاز ہوا تو سفید ریش علمائے کرام کے ہاں اپنی کم عمر شاگردوں سے شادی کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔

ان علمائے کرام میں کئی ایسے ہیں جو پانچ چھ برس پہلے اس دنیا سے جا چکے ہیں۔ ان کی بیواؤں کی عمر ابھی بھی تئیس چوبیس برس سے زیادہ نہیں ہو گی۔ ہزار منہ، ہزار تجزیے، مگر سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ شادیوں کی ان منہ زور ہواؤں کے پیچھے دراصل چار چار عشروں کی محرومیاں کھڑی تھیں۔ مدارس میں کم عمر لڑکوں کی طرف جنسی رجحان کے پیچھے بھی یہی محرومیاں کارفرما ہیں۔

یہ روایت اب اتنی پرانی اور پختہ ہو چکی ہے کہ مدارس میں یہ بہت معمول کا معاملہ بن گیا ہے۔ یہ کہنا کہ اس میں کوئی ایک فرد ملوث ہوتا ہے، بالکل غلط بات ہے۔ تسلیم کرنا چاہیے کہ دینی جامعات کی جنسی ثقافت ہی یہی ہے۔ اساتذہ اور سینئیر طلبا کم عمر لڑکوں کو باقاعدہ پرپوز بھی کرتے ہیں۔ پرپوز نہ کریں تو زبانی کلامی ایک نسبت طے ہو جاتی ہے۔

حفظ اور ناظرہ قرآن مجید پڑھانے والے اساتذہ اپنی خدمت کے لیے بہت چن کر لڑکوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ اساتذہ یا سینئیر باہم مل بیٹھتے ہیں تو اپنے اپنے لڑکے کے بہت رچاو کے ساتھ تذکرے کرتے ہیں۔ مدارس کی تہذیب میں زیادہ تر لطائف کا محور یہی تعلقات ہوتے ہیں۔ افراد باذوق ہوں تو ان تعلقات کے گرد شاعری بھی گھومتی ہے۔

مدارس میں با اثر افراد کم عمر طلبا کو جنسی طور پر ایسے ہی ہراساں کرتے ہیں، جیسے جامعات میں کوئی فیکلٹی ڈین یا سپر وائزر کسی طالبہ کو ہراساں کرتا ہے۔ مدارس کی روایت میں استاد کی شکایت ایسے ہی قابل مذمت ہے جس طرح کسی کم سن بچی کا اپنے ماموں اور چاچو کی شکایت کرنا قابل مذمت ہے۔ یہ بچے نہ اپنے والدین کو شکایت کر سکتے ہیں اور نہ انتظامیہ کو آگاہ کر سکتے ہیں۔ استاد کی شکایت؟ لاحول ولا۔ انتظامیہ کو شکایت اگر کر دی جائے تو اول اسے سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ اگر سنجیدہ لے بھی لیا جائے تو اتنا ہی سنجیدہ لیا جاتا ہے، جتنا ایک ہاسٹل وارڈن صفائی کے مسئلے کو سنجیدہ لیتا ہے۔

کیا میں یہ کہہ رہا ہوں کہ نوجوانوں کی جنسی آسودگی کے لیے بالا خانے کھول دیے جائیں؟ نہیں، میں ایسا کچھ نہیں کہہ رہا۔ میں اس بات کو ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کر سکتا ہوں۔ مدارس میں ایک محدود مگر نمایاں تعداد ان طلبا کی ہوتی ہے، جو شہروں میں اور آسودہ خاندانوں میں پلے بڑھے ہوتے ہیں۔ سوچنا چاہیے کہ یہ طلبا مدارس کی اس جنسی ثقافت کا حصہ کیوں نہیں بنتے؟ آخری تجزیے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان بچوں کو قدرے آزاد ماحول میسر ہوتا ہے۔ خاتون اور دولت ان کے لیے دنیا کا آٹھواں عجوبہ نہیں ہوتے۔ محرومیوں اور جنسی بیانیوں نے ان کے ہاتھ میں ہتھوڑا نہیں دیا ہوتا۔ چونکہ ان کے ہاتھ میں ہتھوڑا نہیں ہوتا تو انہیں ہر ابھری ہوئی چیز کیل بھی نہیں لگتی کہ جہاں ابھار دیکھا وہی ٹھوک دیا۔

کیا آپ کو مضاربت کا سکینڈل یاد ہے؟ یہ کھربوں کا ایک سکینڈل تھا، جس میں دینی اداروں سے وابستہ افراد ہی ملوث تھے۔ کیا چھوٹا کیا بڑا، کیا پیر کیا مرید، کیا استاد کیا شاگرد، سبھی نے اس گنگا میں ہاتھ دھوئے تھے۔ انسان سوچتا ہے کہ جو شیوخ و سالک عمر بھر دنیا سے بے رغبتی کا درس دیتے رہے ان کی اپنی انگلیاں اچانک کیلکولیٹر پر کیوں تھرکنے لگیں؟ سارے قضیے ملانے کے بعد اس سوال کا جواب بھی ”محرومی“ آتا ہے۔

دن رات پیسوں کا تکرار بھی، پھر پیسوں اور خوش حالی سے انکار بھی۔ کمانا بھی ہے مگر بتانا بھی نہیں ہے۔ خود پہ لگانا ہے، مگر اس احساس کے ساتھ کہ یہ کار گناہ ہے۔ اس دوہری صورت حال کا نتیجہ یہ ہوا کہ پیداوار کے امکانات ختم ہو گئے۔ طبعیت میں محرومیوں نے جگہ پکڑ لی، جو وقت کے ساتھ پختہ ہوتی چلی گئی۔ اب جیسے ہی کمائی کی آواز پڑی اور دیکھا کہ شیوخ متفق بھی ہیں، تو محروم طبعیتوں نے جائز دیکھا اور نہ ناجائز دیکھا، رسیاں توڑ کر باہر نکلیں اور ان عیاشیوں میں پیسہ لگا کر آ گئے جو عیاشیاں پندرہ سولہ برس کی عمر میں نمٹ کر پرانی ہو جانی چاہیے تھیں۔

انہی محرومیوں کا دو ضمنی نتائج ہیں۔

پہلا، مدارس کے گریجویٹس عورت اور خوش حال لوگوں سے نفرت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کسی جوڑے کو کہیں باہم رضامند دیکھ لیں تو اداس ہو جاتے ہیں۔ ہمارے دل میں اندھیرے ہیں تو کسی کے شبستان میں دیے کیوں جل رہے ہیں؟ کسی کو اچھی گاڑی میں سے اترتا دیکھتے ہیں تو دل گرفتہ ہو جاتے ہیں۔ ہماری جوتی میں پیوند ہے تو کسی کی دسترس میں اڑن طشتری کیوں ہے؟

دوسرا، عورت ان کے لیے کل ملا کر ایک جسم بن جاتی ہے۔ جب بھی سوچتے ہیں، اسی تناظر میں سوچتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خاتون کسی اشتہار میں نظر آ جائے تو مولانا منظور مینگل جیسی عظیم ہستیوں کو جسم کے وہ مقامات تک نظر آ جاتے ہیں، جو کسی عام گنہگار کو ہر گز نظر نہیں آتے۔ زونگ کے، جس اشتہار پر لوگوں کے آنسو چھلک جاتے ہیں، اسی اشتہار میں اوریا صاحب کو فحاشی نظر آ جاتی ہے۔ حضرات کو معرفت کے یہ درجے بہت ریاض کے بعد حاصل ہوتے ہیں۔

بظاہر بہت پختہ نظر آنے والے یہ ذہن کئی حوالوں سے ہماری ہمدردیوں کے مستحق ہوتے ہیں۔ تیس برس کے بعد جب کنویں کا ڈھکن کھول کر انہیں معاشرے میں چھوڑا جاتا ہے تو ان کا دماغ دس گیارہ برس کا ہوتا ہے۔ اچانک اچھی آواز، بھلے رنگ اور روشنی دیکھ کر یہ گھبرا جاتے ہیں۔ گھبراہٹ میں ہاتھ پاؤں مارتے ہیں تو برتن توڑ دیتے ہیں۔ اس ادراک سے بھی محروم ہوتے ہیں کہ برتن کتنے قیمتی تھے؟

یقین مانیے یہ کوئی بہت بڑی نظریاتی جنگ نہیں ہے۔ آپ شام سے پہلے ان کے لیے معاشی اور مشاہداتی مواقع پیدا کر دیں، صبح ہونے سے پہلے یہ درست پتے پر پہنچے ہوئے ہوں گے۔ یہ بہت معصوم ہوتے ہیں۔ کبھی بات کر کے دیکھیے!
بشکریہ ڈوئچے ویلے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments