احمد راہی۔ پنجابی ادب کا ایک چمکتا ستارہ۔


احمد راہی متحدہ ہندوستان میں پنجاب کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ 1947 میں پاکستان ہجرت کر کے لاہور میں قیام کیا۔ ان کے 1952 میں چھپنے والے پنجابی نظموں کے مجموعے ً ترنجن ً کو پنجابی ادب میں ایک کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ اس شعری مجموعے میں پنجابی ثقافت اور تقسیم ہند میں پیش آنے والے واقعات کو ہیر۔ صاحباں اور سوہنی جیسے لوک کرداروں کی تشبیہات سے پیش کیا گیا ہے۔ اس شعری مجموعے کی بیشتر نظمیں انھوں نے دو آزاد ہونے والی قوموں میں تقسیم کے وقت مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کی ہلاکت اور وحشیانہ ظلم پر سوگ کے لکھی تھیں۔

ان کا پنجابی کلام کا ایک اور مجموعہ ً نمی نمی ہوا ً بھی شائع ہوا اور ً رگ جان ً کے نام سے ان کا اردو کلام پر مبنی مجموعہ ان کی موت کے بعد منظر عام میں آیا۔ پرائیڈ آف پرفارمنس پانے، ہیر رانجھا اور مرزا جٹ جیسی شہرہ آفاق کلاسیک فلموں کے مصنف اور ان کے سدا بہار نغموں کے خالق احمد راہی ستمبر 2002 میں اس جان فانی سے رخصت ہو گئے۔

احمد راہی 12 نومبر 1923 کو امرتسر کے کوچہ دھر مسالہ کٹڑہ بھائی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین نے ان کا نام غلام احمد، ان کے روحانی پیشوا نے خورشید احمد رکھا لیکن ان کو شہرت احمد راہی کے نام سے ملی۔ آپ کے والد کا نام خواجہ عبدالعزیز تھا جو کڑھائی والی اونی شالوں کا کاروبار کرتے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم امرتسر سے حاصل کی۔ 1942 میں انہوں نے شعر کہنا شروع کر دیے تھے۔ 1942 میں میٹرک کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لئے انہوں نے ایم اے او کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ سیکنڈ ائر میں طالب علموں کی لاہور میں سیاسی تحریکوں میں حصہ لینے کی وجہ سے ان کو کالج کی انتظامیہ نے کالج سے نکال دیا۔ کالج سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے والد محترم کے کڑھائی والی اونی شالوں کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اس تجارت کے لئے انہوں نے کلکتہ کا سفر کیا۔

1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد وہ امرتسر سے ہجرت کر کے لاہور آ گئے۔ انہوں نے پاکستان کی آزادی کے وقت پیش آنے والے واقعات اور خونریزی سے متعلق بہت کچھ لکھا۔ تقسیم ہند میں مسلمانوں، سکھوں اور ہندوؤں کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ کیے جانے والے مظالم ان کے لئے ایک انتہائی تکلیف دہ ذاتی تجربہ تھا۔ مذہبی تعصب اور فرقہ ورانہ عداوتوں کے واقعات سے آپ ذاتی طور پر متاثر ہوئے، جس کا اظہار انہوں نے اپنی شاعری میں کیا۔ ان کی پہلی کتاب ترنجن 1952 میں شائع ہوا۔ ترنجن کا پہلا حصہ پنجاب کی الہڑ مٹیاروں کے الہڑ جذبات اور پنجاب کی ثقافت پر مبنی ہے اور دوسرا حصہ انہی الہڑ دوشیزاؤں پر آزادی کے وقت ڈھائے گئے ظلم اور خونریزی کے متعلق ہے۔

ہجرت کے بعد انہوں نے اپنا ٹھکانا لاہور میں بنایا۔ ان کو لاہور سے شائع ہونے والے ادبی میگزین ً سویرا ً میں بطور ایڈیٹر پچیس روپے ماہوار کی قلیل تنخواہ پر ملازمت مل گئی۔ سویرا میں ان دنوں اردو اور پنجابی ادب کے چوٹی کے دانشوروں کے مضامین۔ غزلیں، افسانے اور دیگر تخلیقات چھپتی تھیں ان میں سعادت حسن منٹو۔ ن۔ م۔ راشد۔ احمد ندیم قاسمی، امرتا پریتم اور اس وقت کے بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ آپ سویرا میں جان پہچان کے عنوان سے ادیبوں اور شاعروں پر مختصر تعارفی مضامین لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے امرتا پریتم۔ بلونت سنگھ۔ زہرہ نگار۔ حنیف رامے۔ ادا جعفری۔ احمد ندیم قاسمی۔ فراق گورکھپوری۔ کیفی اعظمی۔ فکر تونسوی اور ممتاز مفتی سمیت بہت سے ادیبوں کی اپنے قارئین سے جان پہچان کروائی۔

آزادی پاکستان کے بعد احمد راہی نے اپنے قریبی دوستوں معروف فلمساز و ہدایتکار سیف الدین سیف، سعادت حسن منٹو اور فیض احمد فیض کے ساتھ لاہور کے تاریخی پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھنا شروع کر دیا تھا۔ پاک ٹی ہاؤس لاہور اس وقت دانش وروں، شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کی آماجگاہ تھی جو لاہور کے ادبی اور ثقافتی ماضی کے بارے میں جانتے تھے۔ پاک ٹی ہاؤس کی تاریخی اہمیت کے پیش نظریہ ان دنوں ترقی پسند مصنفین اور دانشوروں کے لئے ایک مرکزی مقام بن گیا تھا۔ ان دانشوروں میں ساحر لدھیانوی، منیر نیازی، اے حمید۔ اشفاق احمد، ابن انشا، ناصر کاظمی اور ان جیسے بہت سے دوست شامل تھے۔

امجد پرویز نے اپنے ایک مضمون میں حمید اختر کے حوالے سے لکھا ہے کہ سویرا ترقی پسند تحریک کی امنگوں کی عکاسی کرتا تھا۔ ابتدا میں ظہیر کاشمیری

بھی اس میگزین میں ان کے ساتھ تھے۔ لیکن بعد میں احمد راہی نے تنہا اس ذمہ داری کا سارا بوجھ اٹھا لیا۔ یہی وقت تھا جب احمد راہی نے اپنی ساری توجہ پنجابی میں شعر کہنے پر مبذول کر لی۔ اس وقت دوسرے مفکرین اور دانشور پنجابی لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کو کم تر سمجھتے تھے۔ جب احمد راہی نے پنجابی فلموں کے لئے مکالمے اور نغمے لکھے تو سب کو پتہ چلا کہ یہ پنجابی زبان کتنی فصیح اور بلیغ ہے، جس کو احمد راہی نے اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔

پنجابی زبان کی ناقدری کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ شریف کنجاہی کا پنجابی مجموعہ کلام پہلے بھارت میں چھپا پھر آٹھ سال بعد پاکستان میں۔ احمد راہی کے بیٹے سلمان احمد راہی جو ایک میک اپ آرٹسٹ اور اداکار تھے، نے اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ ان کے والد کی دوسری پنجابی کتاب کوششوں کے باوجود شائع نہیں ہو سکی۔ جب امریکی پالیسیوں کے گہرے اثر و رسوخ کے تحت پاکستان حکومت نے ترقی پسند عناصر پر سختی کی تو ترقی پسند مصنفین کی انجمن پر عملی طور پر پابندی عائد کر دی گئی۔ بہت سے ترقی پسند مصنفین کو احمد ندیم قاسمی سمیت جیل بھیج دیا گیا۔ اس وقت غلط طور پر پنجابی زبان کو پاکستان مخالف لابی سے وابستہ کیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستانی میں بولی جانے والی ہرزبان کو اردو زبان کا حریف سمجھا جاتا تھا۔ مایوس احمد راہی نے اس وقت کہا تھا۔

ایدوں ود کے ہور کی دکھ ہوسی تیری اکھ ایتھے، میری اکھ اوتھے
ٹوٹے دلاں دا کی شمار کرئیے کئی لکھ ایتھے، کئی لکھ اوتھے
کیو جہیا اجاڑیا آلنا نیں کوئی ککھ ایتھے، کوئی ککھ اوتھے۔

( اس سے بڑھ کر دکھ کی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ میری آنکھ وہاں ہے اور تمہاری ہاں پر۔ کئی لاکھ ٹوٹے ہوئے دلوں کا کیسے شمار کریں جو کتنے وہاں ہیں اور کتنے یہاں پر ہیں۔ ظالمو تم نح آشیان کو کتنی بے دردی سے اجاڑا ہے کہ اس کے تنکے کہاں کہاں بکھرے پڑے ہیں )

انہوں نے تقسیم ہند کے وقت پریشان کن حالات میں سرحد کے دونوں اطراف ہندوؤں۔ سکھوں۔ اور مسلمانوں کی طرف سے ہونے والے لوٹ مار، خونریزی اور مظالم کی دردناک یادوں کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا۔ سیاسی محاذ کو دیکھیں تو احمد راہی کمیونسٹ پارٹی کے کل وقتی ممبر تھے لیکن انہوں نے پاکستان کی آزادی کی تحریک کی بھرپور حمایت کی۔ وہ ساری زندگی پنجابی زبان اور ادب کی حمایت میں سرگرم رہے۔

مشہور فلمی شاعر خواجہ پرویز ً رگ جان ً میں چھپے اپنے مضمون ً محبتوں کا سفیر۔ احمد راہی ً میں لکھتے ہیں۔ احمد راہی بڑے نامور اور غیر فانی فنکار تھے۔ احمد راہی کی ترنجن اور فلمی شاعری ادب کے اعلی معیار پر ہر طرح سے پوری اترتی ہے۔ احمد راہی فرشتہ نہیں تھے۔ انسان اور فرشتے میں یہی فرق ہوتا ہے کہ فرشتے کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ تمام اچھے شاعروں کی طرح احمد راہی نے بھی بے شمار عشق کیے۔ فلموں میں کورس گانے والی حسین گلوکارہ ان کا پہلا عشق تھیں۔

پنجابی کی مشہور شاعرہ امرتا پریتم ان کے لئے مذہب چھوڑنے پر تیار ہو گئی تھیں۔ لیکن امرتا انھیں پسند نہیں تھیں۔ بہت جگہیں گھومنے کے بعد انہوں نے اپنے سے پچیس سال چھوٹی دوشیزہ سے شادی کرلی۔ انہوں نے موسیقار اعظم خواجہ خورشید انور کے ساتھ انتہائی معیاری کام کیا جو پاکستانی موسیقی میں یادگار کی حیثیت رکھتا ہے۔ موسیقار رشید عطرے کی موسیقی میں ان کا لکھا ہوا ً مرزا جٹ ً فلم کا نغمہ ً سنجے دل والے بوہے اجے میں نیؤں ٹوئے ً اور اس فلم کے دوسرے گیت ایک ادب پارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مشہور موسیقار بابا غلام احمد چشتی ان کی ہر شام کے ساتھی ہوا کرتے تھے۔ ان دونوں

نے اکٹھے مل کر بہت خوبصورت کام کیا۔ ایک دفعہ دونوں میں ناراضگی ہو گئی۔ شام کو احمد راہی ایک جگہ غم غلط کرنے میں مصروف تھے کہ بابا جی اے چشتی وہاں آ گئے۔ کافی دیر دونوں میں سلام دعا نہیں ہوئی۔ بابا جی نے ایک گلاس میں پانی ڈال کر اپنا منہ دوسری طرف کر کے کہا، راہی پانی کا رنگ بدل دو۔ پھر اسی نشست میں ان کی صلح ہو گئی۔ انہوں نے لازوال نغمے تخلیق کیے جو آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔

احمد راہی کی زوجہ محترمہ حمیرا راہی رگ جاں ً میں چھپے اپنے ایک مضمون میں ان کے بارے میں اپنے تاثرات لکھتے ہوئے کہتی ہیں۔ جب احمد راہی سے میری شادی ہوئی تو میں بہت چھوٹی تھی۔ جب فلمساز کہانی لکھوانے احمد راہی کو لاہور سے باہر لے جاتے تو وہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ ہماری شادی کے تھوڑے دنوں بعد فلم ہیر رانجھا ریلیز ہو رہی تھی۔ وہ بہت پریشان تھے۔ مجھے کہا کہ اگر فلم فلاپ ہو گئی تو میں تمہاری وجہ سمجھوں گا اور اگر ہٹ ہو گئی تب بھی تمہاری وجہ سمجھوں گا۔ اس بات پر میں بھی پریشان ہو گئی کیونکہ نئی نئی شادی تھی۔ فلم سپرہٹ ہوئی، راہی ہاروں سے لدے پھندے گھر آئے۔ آتے ہی انہوں نے سارے ہار میرے گلے میں دال دیے۔ ان کو میرے لمبے بال بہت پسند تھے، وہ اکثر ان میں کنگھی کیا کرتے تھے۔ وہ بہت کم بولتے تھے، بہت ہی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ قیمتی کپڑوں کا انہیں کوئی شوق نہیں تھا لیکن اچھی جوتی کا بہت شوق تھا۔ ہمیشہ کہیں جانے سے پہلے اچھی جوتی پہن کر جاتے۔

شادی سے پہلے ان کے جو عشق تھے، وہ تھے، لیکن جب میں ان کو زندگی میں آئی تو پھر انہوں نے کسی حور پری کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ شادی سے پہلے میں نے ان سے وعدہ لیا تھا کہ وہ ڈرنک نہیں کریں گے۔ جب یہ وعدہ ٹوٹا تو پھر ہماری لڑائیاں ہونے لگیں، جو بعض دفعہ اتنی شدید ہوتیں کہ وہ گھر چھوڑ کر چلے جاتے۔ وہ جب بھی ڈرنک کر کے آتے میری ان سے لڑائی ہو جاتی۔ جب میں ان سے ناراض ہوتی تو میں انہی کا لکھا ہوا گیت ًکوئی نواں لارا لا کے مینوں رول جا، جھوٹیا وے اک جھوٹ اور بول جا ً اونچی آواز میں ٹیپ پر لگا دیتی جس سے پڑوسی بھی سمجھ جاتے کہ ہماری لڑائی ہوئی ہے۔

احمد راہی نے بہت کمایا مگر سارا اڑا دیا۔ کبھی کل کا نہیں سوچا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہمیشہ اچھا کھانا کھایا۔ گوشت ان کی کمزوری تھی، مچھلی اور پائے ان کو بہت پسند تھے۔ انہیں اپنے لئے سفید رنگ پسند تھا لیکن میرے لئے ہمیشہ انہوں نے لال رنگ ہی پسند کیا۔ وہ کچھ سالوں سے بیمار رہنے لگے تھے لیکن اپنا علاج نہیں کرواتے تھے۔ ان کو ہسپتال اور ڈاکٹروں کے نام سے چڑ تھی۔ راہی جب بیمار ہوتے تو ان کو دوائیاں کھلانے میں کافی مشکل پیش آتی۔ وہ چھوٹے بچوں کی طرح دوائیاں نہیں کھاتے تھے۔

احمد راہی کی پنجابی نظموں کا مجموعہ ً ترنجن ً پنجابی ادب میں ایک کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے۔ اس میں آپ نے پنجاب کی الہڑ دوشیزاؤں کے پاکیزہ اور ان چھوئے جذبات کو عورت کے منہ اس طرح کہلوایا کہ وہ الفاظ پنجاب کی عورت کے احساسات کی منہ بولتی تصویر بن گئے۔ ترنجن کا پہلا حصہ ادبی اور دوسرا سیاسی ہے۔

ماہنامہ سویرا کے شمارہ نمبر 12 میں چھپی ان کی نظم دلاں دے سودے میں بھی انہوں نے پنجاب کی اس الہڑ دوشیزہ کی کیفیت بیان کی ہے جس کو کسی سے پیار ہو گیا ہے۔

جدوں دلاں نال دلاں والے سودے ہو جان
پیر پٹھے سدھے پین
اکھاں جاگو میٹی رہین
ان کہی ان سنی
آپے بجھن، آپے کہن کلا رہیا وی نہ جائے
دال اسل وٹے بھنے۔ رل کے بہیا وی نہ جائے
کدی بوہے، کدی بنے دکھ سہیاں مزا آئے
بناں گلوں بناں باتوں دکھ سہیا وی نہ جائے
آپے رسے آپے منے ہاسے رک رک جان
جوڑے کھل کھل جان ہنجو سک سک جان
رنگ ڈھل ڈھل جان ہونٹاں اتے آئے ہوئے
سارے ٹپو ڑکیاں دے بول اک اک جان
ول بھل بھل جان تارے عرشاں دے۔ دلاں وچ ٹم ٹم لان
جدوں دلاں نال دلاں والے سودے ہو جان

جب گاؤں کی کسی الہڑ دوشیزہ کو کسی گھبرو جوان سے پہلی دفعہ پیار ہو جاتا ہے تو وہ اس سے چھپنا بھی چاہتی ہے اور اپنا آپ اسے دکھانا بھی چاہتی ہے۔ اسے ڈر بھی لگتا ہے کہ کسی کو پتہ چل گیا تو کیا کچھ ہو جائے گا۔ جب دل کسی دوسرے دل سے مل جاتا ہے تو چال بدل جاتی ہے۔ پاؤں الٹے سیدھے پڑنے لگتے ہیں۔ آنکھیں جاگتی سوتی رہتی ہیں۔ جاگتے میں خواب دیکھتی ہیں۔ ان کہی اور ان سنی باتیں خود ہی سنتی ہیں اور خود ہی کہتی ہے۔

دل میں الٹے الٹے خیال آتے ہیں۔ وہ بھاگ بھاگ کر کبھی دروازے پر اور کبھی منڈیر پر جاتی ہے۔ بغیر کسی بات کے دل خود ہی روٹھتا ہے اور خود ہی من جاتا ہے۔ بالوں کا جوڑا خود ہی کھل جاتا ہے۔ محبوب کا خیال آتے ہی چہرے پر کئی رنگ آ کر بکھر جاتے ہیں۔ سب ول فریب بھول جاتے ہیں۔ ایسے میں دل اکیلا رہا بھی نہیں جاتا اور کسی کے پاس جانے کو جی نہیں چاہتا۔ دکھ سہنے میں مزا آتا ہے لیکن دکھ سہا بھی نہیں جاتا۔ ان جانے خیالوں سے ہنسی خود بخود رک جاتی ہے۔ کسی انجانے خطرے سے آنسو آ جاتے ہیں، جو ڈر سے خود بخود خشک ہو جاتے ہیں۔ ہونٹوں پر بات آ کر رک جاتی ہے۔ اپنی یہ کیفیت کسی سے کہہ بھی نہیں سکتے۔ آسمان پر چمکتے ستارے دل میں جھلمل کرتے ہیں جب دلوں سے دل کا سودا ہو جاتا ہے۔

اپنی ایک اور نظم ً نرم کالجہ ڈول گیا ً میں انہوں نے پنجاب کی ہی دوشیزاؤں کی دل کی کیفیات بیان کی ہیں جو اپنے دل کے شہزادے کو خوابوں میں دیکھتی ہے۔

سفنے دے وچ آ کے اڑیو نی
کوئی شرماں دے گھنڈ کھول گیا۔ کدی والیں گنجھلاں پاواں میں
میرا نرم کالجہ ڈول گیا۔ کدی ونگاں پئی چھنکاواں میں
خورے اوہ کون اے، کیہڑا اے کدی کال کلوٹیاں کانواں نوں
جدے چن جہیے مکھ دے چانن نال کٹ کٹ کے چوریاں پاواں میں
لٹ لٹ پیا کردا وہیڑا اے راہواں نال ہو گئی راہواں میں
سدھراں وچ سوچاں گھول گیا بن ویکھیوں چاکھیوں رول گیا
میرا نرم کالجہ ڈول گیا۔ میرا نرم کالجہ ڈول گیا۔

میرا سپنوں کل شہزادہ میرے خوابوں میں آیا ہے اور اس نے میرا گھونگھٹ اٹھا کر اس نے مجھے دیکھ لیا ہے۔ میرا بہت ہی نرم جگر ڈول گیا ہے۔ پتہ نہیں وہ کون ہے، کون سا ہے، کہاں ہے۔ لیکن اس کے چاند جیسے چہرے کی روشنی سے سے میرے دل کا آنگن جگمگ کرنے لگا ہے۔ اس نے میری خواہشوں میں ایک نئی سوچ ڈال دی ہے۔ جس سے میرا نرم دل اس کو یاد کرنے لگ گیا ہے۔ اس عمر میں لڑکیاں، بالیاں اپنے دل کے شہزادوں کا خواب دیکھتی ہیں۔ کبھی میں اپنے بالوں میں گنجل ڈالتی ہوں، کبھی اپنی چوڑیاں چھنکاتی ہوں۔ کبھی کالے کالے کوؤں کو چوریاں کوٹ کر ڈالتی ہوں۔ راہوں کے ساتھ مل کر میں بھی راہ بن گئی ہوں جو اپنے شہزادے کی راہ دیکھ رہی ہے۔ بنا اسے دیکھے، بنا ا ملے اس نے مجھے رول دیا ہے۔ میرا نرم دل اس پر آ گیا ہے۔

ً نمی نمی وا وگدی ً ان کا سدا بہار گیت ہے جو جب بھی سنیں دل کو بھلا لگتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے عام طور پر پرانے لوک گیتوں کو ایک نیا روپ دے کر نئی زندگی بخشی۔ ان کے کلام میں سوز۔ تڑپ۔ رس اور لوچ بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان کے کلام میں خیال کی پختگی اور فنی قابلیت نظر آتی ہے۔ ان کے

لکھے ہوئے ٹپوں اور ماہیوں میں پنجاب کی ثقافت جھلکتی ہے۔
باریں برسیں کٹھن گیا تے کھٹ کے لیایا جالی ٭ سنبھل کے پر دھریں اڑیے اج رات اقراراں والی
باریں برسیں کٹھن گیا تے کھٹ کے لیایا منکے ٭ چھمکاں وانگوں لچکے گوری ونگاں وانگوں چھنکے

ٹپے پنجابی شاعری کی ایک صنف ہے جس میں مختلف خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ عموماً دو پیاروں یا دو دوستوں اور دو سہیلیوں کے درمیان یہ مکالمہ ہوتا ہے۔ ایک سہیلی اپنی سکھی سے کہتی ہے کہ میرا ماہی بارہ برس بعد کمائی کے لئے گیا اور اپنی کمائی سے جالی لے کر آیا۔ آپ سنبھل کر چلنا، اپنے محبوب سے ملتے وقت کہیں اپنا آپ نہ کھو دینا، کیونکہ آج کی رات محبت کے اقرار کی رات ہے کہیں تمہیں بھی پیار نہ ہو جائے۔ دوسرے ٹپے میں ایک دوست دوسرے دوست سے کہتا ہے کہ بارہ برس بعد کمائی کے لئے گیا تو میں وہاں سے منکے کما کر لایا۔ اپنی محبوب کی تعریف کرتا ہے کہ میری گوری اتنی نرم و نازک ہے جب وہ چلتی ہے تو اس کی کمر لچکتی ہے۔ چھمک دیہات میں عموماً ً توت کی پتلی سی ٹہنی کو کہتے ہیں جو بہت باریک اور نازک ہوتی ہے اس میں بہت زیادہ لچک ہوتی ہے اس کو جتنا چا ہے موڑ لو وہ ٹوٹتی نہیں ہے۔ پھر وہ کہتا ہے کہ میری گوری چوڑیوں کی طرح چھنکتی ہے۔ الھڑ مٹیار کے ہاتھوں میں چوڑیوں کی چھنکار کی آواز سے اپنے محبوب کو تشبیہہ دی ہے۔

ماہیہ کنڈھے ڈب گئے نہراں دے
تیرے میرے پیار دیاں ہن چڑھ گیاں لہراں وے
کہیہ لوڑ اے قسماں دی
کچ پکی ڈور چناں اینا جگ دیاں رسماں دی

نہر کے کنارے پانی میں ڈوب گئے ہیں، کیونکہ میرے اور تمہارے پیار کی لہریں بہت بلند ہو گئی ہیں۔ ہمارا پیار بہت زیادہ گوڑھا ہو گیا ہے۔ پیار میں قسمیں کھانے کی کیا ضرورت ہے۔ کیونکہ دنیا کی رسموں کی ڈور بہت کچی ہے۔ ہمارے پیار کو دنیا کی نظر لگ سکتی ہے۔ پتہ نہیں ہم مل بھی سکیں گے یا نہیں۔ ابھی کوئی پتہ نہیں اس لئے قسمیں نہ اٹھاؤ۔

ان کا ترنجن میں چھپا ایک گیت جس کا عنوان ہے ً پیار نہ کرنا ً اپنی مثال آپ ہے۔ اس گیت میں پنجاب کی ایک مٹیار اپنی عم عمر سہیلیوں کو نصیحت کرتی ہے کہ پیار کبھی نہ کرنا۔ تم میرا حال اچھی طرح جانتی ہو۔ میں نے پیار کیا اور بہت دکھ اٹھائے۔ ان کا یہ گیت بعد میں 1968 ء میں بننے ولی فلم مرزا جٹ میں کچھ تبدیلی کے ساتھ شامل کیا گیا جس کو ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنی درد بھری آواز میں گا کر امر کر دیا۔ فلم میں یہ گیت پنجاب کی اس وقت کی الہڑ مٹیار اداکارہ فردوس پر فلمایا گیا۔

مٹیارو نی میرے ہان دیو ٭ ترنجناں وچ موجاں مان دیو ٭ تسی حال میرے نو جان دیو
حال میرے توں ڈرنا نی ٭ اڑیو پیار نہ کرنا نی

انیس سو سینتالیس میں پاکستان کی آزادی کے وقت جو خون کی ہولی کھیلی گئی، جتنی خواتین کا اغوا، قتل اور عصمت دری کی گئی۔ ان کا زبردستی مذہب تبدیل کرا کے شادیاں کی گئی۔ اس پر احمد راہی نے اپنی کتاب ترنجن نے بڑے دکھ سے ان خواتین کا نوحہ لکھا ہے۔ ایسے ہی ظلم کا شکار ایک دوشیزہ اپنے بابل سے فریاد کرتے ہوئے کہتی ہے۔

سن وے بابل میریا تیرے ٹٹ گئے سارے مان ٭ تیری پگ پیراں وچ رل گئی مٹی وچ مل گئی شان
تیری شرماں والی دھی نوں اج اج ویکھ کے سب شرمان ٭ جد بھیڑ پوے تے بابلا کون اوندہ ای درد ونڈان

اے میرے پیارے بابل سنو، ظالموں نے آج مجھے اغوا کر کے میری عزت خاک میں ملا دی ہے۔ آپ کا سارا مان، ساری عزت خاک میں مل گئی ہے۔ تیری پگڑی پاؤں میں رل گئی ہے، جبکہ ساری آن بان شان اور عزت مٹی میں مل گئی ہے۔ تیری شرموں والی بیٹی کے حال کو دیکھ سب لوگ شرماتے ہیں۔

جب ایسی قیامت ٹوٹتی ہے تو پھر میرے بابل باپ کے سوا اور کون چھڑانے آتا ہے۔ میرے درد کا مداوا آپ کے سوا اور کون کر سکتا ہے۔ یہ ان ہزاروں عورتوں کی پکار ہے جو سرحد کے دونوں طرف برباد ہوئیں۔

ایسی ہی ایک اور نظم میں ایک دوشیزہ اپنے پیار کرنے والے سے گلہ کرتی ہے کہ تم مجھے چھوڑ گئے۔ اگر تم تھوڑی سی ہمت کرتے تو میں بھی تمہارا ساتھ دیتی نہ میں مرتی اور نہ تمہیں مرنے دیتی۔ رانجھے کی نسبت مرزا جٹ پنجاب میں بہادری کی علامت سمجھا جاتا ہے جس نے اپنے پیار کی خاطر جان

دے دی۔
جے توں مرزا ہندوں رانجھیا ٭ تے میں تتڑی زہر نہ پھکدی
ساڈے پیار دی سانجھی پینگ نوں ٭ بھیڑی موت توڑ نہ سکدی
تیری کڑی کمان دے مان نوں ٭ وے میں کیدو، قاضی ڈک دی
نہ توں بن آئیوں مردوں ٭ نہ میں بن آئیوں مر دی

میرے رانجھیا، اگر تم مرزا ہوتے تو میں کبھی بھی زہر کھا کے نہ مرتی۔ ہمارے پیار کی سانجھ کو موت بھی جدا نہیں کر سکتی تھی۔ تیری کڑی کمان کے سہارے میں کیدو اور قاضی کو روک لیتی اور اپنا زبردستی نکاح نہ ہونے دیتی۔ نہ ہی میں بن آئی موت مرتی اور نہ ہی تمہیں مرنے دیتی۔ مگر کاش تم رانجھے کی طرح چپ کر جانے کی بجائے مرزا کی طرح مجھے ساتھ لے جاتے۔

احمد ندیم قاسمی پنجابی میں لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں احمد راہی کی ترنجن کی ایک نظم میں چھپے درد و الم کا احوال اس طرح بیان کرتے ہیں۔

میں نہیں جانتا کہ ترنجن میں چھپی نظم کیسے گاؤں تک جا پہنچی۔ میں ایک دفعہ ایک شادی پر گاؤں میں گیا۔ تو شادی میں بہت سی لڑکیاں ڈھولکی سامنے رکھے ترنجن کے گیت گا رہی تھیں۔ اس نظم میں چھوٹے بڑے بہت سارے مصرعے ہیں۔ میں حیران تھا کہ یہ نظم ڈھولکی کے ساتھ کیسے جمے گی لیکن وہ لڑکیاں ڈھولک کے ساتھ یہ نظم بہت اچھا گا رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ کچھ لڑکیوں کی آواز گاتے ہوئے بھرا رہی ہے۔ تب وہ یہ مصرعہ گا رہی تھیں۔

پونیاں دے نال بھلیے مائے سمدے نیر سکاواں
پر ہنجو نہیں سکدے

( میں پونیوں کے ساتھ اپنے بہتے ہوئے آنسو پونچھ رہی ہوں لیکن یہ آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لیتے ) آہستہ آہستہ کچھ آوازیں مدھم ہونے لگیں۔ ایک لڑکی پھر بھی گلوگیر آواز سے ابھی گا رہی تھی لیکن جب وہ ان اشعار تک پہنچی تو اس کا بھی آنسوؤں نے گلہ بند کر دیا اور وہ بھی مزید نہ گا سکی اور چپ ہو گئی۔

ناں کوئی سہریاں والا آیا تے ناں ویراں ڈولی ٹوری
جس دے ہتھ جدی بانہہ آئی لے گیا زور و زوری

( نہ تو میرا دولھا آیا اور نہ ہی میرے بھائیوں نے اپنے ہاتھوں سے میری ڈولی رخصت کیں جس کے ہاتھ میں جس کا بازو آیا وہ اسے زبردستی اٹھا کر لے گیا) یہ وہ مقام ہے جہاں بڑی اور عمدہ شاعری عام لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن جاتی ہے۔ آدمی سوچنے لگ جاتا ہے کہ یہ شاعر آپ بیتی کہہ رہا ہے یا جگ بیتی سنا رہا ہے۔ یہ ایک لڑکی کی آواز ہے یا پھر فسادات میں لٹی ان ہزاروں لڑکیوں کی آواز ہے۔ احمد راہی کی یہ ایک نظم مثال ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ احمد راہی صرف پڑھے لکھے لوگوں کا ہی شاعر نہیں بلکہ وہ عام لوگوں کی بات بھی کرتا ہے اور ان کی اچھی اچھی باتیں چن کر کرتا ہے۔

سیف الدین سیف، سعادت حسن منٹو اور احمد راہی نے پاکستان میں لاہور کی فلمی صنعت کے ابتدائی سالوں میں اس کی ترقی کے لئے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ آپ نے پاکستان فلمی صنعت کے ابتدائی دنوں میں نغمہ نگاری شروع کی۔ احمد راہی کا فلمی دنیا میں آغاز فلم بیلی سے ہوا۔ لیکن ان کو پہلی کامیابی فلم ماہی منڈا سے 1956 میں ملی۔ اس فلم میں بابا غلام احمد چشتی کی دھن میں عنایت حسین بھٹی کا گایا ہوا، اس دور کا شریر اور مقبول ترین گیت رناں والیاں دے پکن پرونٹھے تے چھڑیاں دی اگ نہ بلھے تھا۔ اپنے فلمی سفر میں آپ نے تین سو سے زیادہ گانے لکھے جن میں اردو اور پنجابی دونوں

گیت شامل ہیں۔ چالیس سے زیادہ فلموں کی کہانیاں لکھیں۔ بے شمار فلموں کے منظر نامے لکھے۔ موسیقار بابا جی اے چشتی کے ساتھ ان کی بہت اچھی جوڑی بنی، جس نے ایک سو سے زیادہ گیت بنائے جن کو فلمی موسیقی میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ فلم مرزا جٹ کے لئے ان کے لکھے اور رشید عطرے کی

موسیقی میں بنے گیت آج بھی اتنے ہی سریلے ہیں اور وہ پنجابی ادب کا ایک اہم اثاثہ ہے۔ اسی طرح شہرہ آفاق فلم ہیر رانجھا کے لئے ان کے لکھے ہوئے گیتوں کو خواجہ خورشید انور نے موسیقی سے سنوارا۔ وہ سب گیت آج بھی کانوں کو بھلے لگتے ہیں۔ یہ گیت بھی پنجابی ادب میں ایک کلاسیک کا درجہ رکھتے

ہیں۔ سہتی۔ ماہی منڈا۔ یکے والی۔ چھو منتر۔ مرزا جٹ۔ ناجو۔ ہیر رانجھا اور جادو کے لئے لکھے ہوئے آپ کے گیت غنایت اور موسیقی سے بھرپور ہیں۔ یوں تو ان کے گیتوں کی ایک لمبی فہرست ہے، ان میں جو چند گیت مجھے زیادہ پسند ہیں۔

٭ جھوٹھیے زبان دیے۔ کچئے زبان دیے۔ فلم۔ ماہی منڈا۔ 1956۔ موسیقار بابا علام محمد چشتی۔ گلوکار عنایت حسین بھٹی

٭ تینوں بھل گئیاں ساڈیاں چاہواں، وے اساں تینوں کی آکھنا۔ فلم پینگاں 1956۔ موسیقار غلام احمد چشتی۔ گلوکارہ کوثر پروین

٭ رکھ ڈولدے تے اکھ نہیں لگدی نمی نمی وا وگدی۔ فلم سہتی۔ 1957۔ موسیقار غلام احمد چشتی۔ گلوکارہ زبیدہ خانم

٭ قول نہیں پلدے۔ آجا دل جانیاں فلم یکے والی 1957۔ موسیقار غلام احمد چشتی۔ گلوکارہ زبیدہ خانم

٭ اکھیاں وے راتیں سہون نہ دیندیاں۔ بڑا دکھ دیندیاں۔ فلم چھو منتر۔ 1958 موسیقی ماسٹر رفیق علی۔ گلوکارہ نور جہاں

٭ میری چنی دیاں ریشمی تنداں وے میں گھٹ گھٹ دینیاں گھنڈاں فلم جٹی۔ 1958۔ موسیقار غلام احمد چشتی۔ گلوکارہ زبیدہ خانم

٭ نکے ہندیاڈ دا پیار ویکھیڈ دیویں نہ وسار۔ فلم مرزا جٹ 1967۔ موسیقار رشید عطرے۔ گلوکارہ آئرن پروین۔ نذیر بیگم

٭ جدوں تیری دنیا توں پیارٹر جاوے گا۔ فلم سسی پنوں۔ 1968۔ موسیقار رحمان ورما۔ گلوکار مہدی حسن۔ نور جہاں

٭ ڈھول بلچا موڑ مہاراں۔ فلم مراد بلوچ 1968۔ موسیقار سلیم اقبال۔ گلوکارہ نور جہاں
٭ اک مرجانی دا دوپٹہ کسے دے سیؤ پیریں رلیا۔ فلم ناجو۔ 1969 موسیقار ایم اشرف۔ گلوکارہ نور جہاں
٭ چن ماہیا تیری راہ پئی تکنی آں۔ فلم ہیر رانجھا 1970 موسیقار خواجہ خورشید انور۔ گلوکارہ نور جہاں

٭ونجلی والڑیا توں تاں موہ لئی او مٹیار۔ فلم ہیر رانجھا 1970 موسیقار خواجہ خورشید انور۔ گلوکارہ نور جہاں۔ منیر حسین

پنجابی ادب کا یہ چمکتا ہوا ستارہ 2 ستمبر 2002 کو غروب ہو گیا۔
(نوٹ) اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ زیل کتب۔ رسائل۔ ویکیپیڈیہ اور انٹر نیٹ سے استفادہ کیا کیا ہے۔
﴾ پنجابی شاعراں دا تذکرہ۔ مولانا مولا بخش کشتہ۔
﴾ سویرا۔ شمارہ 10۔ 11۔ 12
﴾ رگ جاں
Profile of poet Ahmad Rahi on rekhta.org website Retrieved 13 June 2018

Remembering the famous Punjabi poet and writer Ahmad Rahi An Article by Amjad Pervez, published in The Daily Times on 21st January, 2020


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments