1977 کا مارشل لا: بھٹو حکومت کے خاتمے کو امریکی سفارت خانہ کیسے دیکھ رہا تھا؟

وقار مصطفیٰ - صحافی و محقق


Loading

تیس مارچ کو اسلام آباد بھیجے گئے ٹیلی گرام میں، کارٹر نے بھٹو کو ان کے عہدے پر فائز ہونے پر مبارکباد کا مختصر پیغام بھیجا۔ تیرہ اپریل کے ٹیلی گرام میں ان ’افواہوں‘ کا تذکرہ ہے کہ امریکہ پاکستان قومی اتحاد کی مالی امداد اور حمایت کر رہا ہے۔

اس میں کہا گیا کہ ’پاکستانی فطری طور پر سیاست کو سازشی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پی این اے کی اپنے قلیل وسائل سے کہیں زیادہ مہم کے فنڈز اکٹھا کرنے کی ظاہری صلاحیت سے اس شبہ کو تقویت ملی کہ اس میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہے۔ ایسا لگتا ہے (حزب اختلاف کے رہنما) ائر مارشل اصغر خان کو کسی نہ کسی طرح امریکہ کا‘ قریبی ’ساتھی جاننے اور اس الزام کے باعث کہ امریکہ فطری طور پر ایک‘ قدامت پسند ’پی این اے حکومت کو‘ ترقی پسند ’اور فعال بھٹو حکومت پر ترجیح دے گا تاکہ فرانسیسی ری پروسیسنگ معاہدہ روکا جا سکے امریکہ کے ملوث ہونے کے خیال کو تقویت ملی ہے۔‘

اس سب میں پاکستان حکومت کے ہاتھ کا تعین کرنا مشکل ہے۔ تاہم ایچ کے برکی کا 26 مارچ کا پاکستان ٹائمز کا اشتعال انگیز مضمون صرف حکومت کی اجازت ہی سے چھپ سکتا تھا۔ ہمارے لحاظ سے انتہائی پریشان کن لائن حزب اختلاف کی بات کرتے ہوئے یہ تبصرہ ہے کہ ’احتجاج کی تنظیم اور اس کے حجم اور نہ ختم ہونے والی رقوم سے ایسا لگتا ہے کہ سامراجی طاقتیں جو انڈونیشیا کے آپریشن (ہم سکارنو کی حکومت کا تختہ الٹنے کا حوالہ مانتے ہیں) کے پیچھے تھیں اب پاکستان میں اس خونی مہم جوئی کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔‘

دو روز بعد اپنی پہلی تقریر میں بھٹو نے حزب اختلاف کی مالی اعانت کے الزامات سے امریکہ اور دیگر طاقتوں کو پاک قرار دے دیا۔ لیکن وزیر اعظم نے جس طرح سے بات کی اس سے بہت سے لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ امریکہ اس میں ملوث رہا۔

وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ ’اگر ہمیں 25 کروڑ روپے میں سے آدھے بھی مل جائیں توہم انسانی حقوق پر بھی بات چیت کے لیے تیار ہوں گے‘ کو اس کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ (سفارت خانہ اس سے متفق نہیں ) ابھی حال ہی میں، کونسل جنرل، کراچی نے اطلاع دی کہ وزیر خارجہ عزیز احمد نے وہاں مسلح افواج کے افسران کو مخاطب کیا اور بتایا کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ نے قومی اتحاد کو 280 ملین روپے فراہم کیے۔ یہاں روئٹرز کے باخبر نمائندے ہمیں بتاتے ہیں کہ عزیز احمد نے ملتان میں افسران کے ایک اجتماع میں بھی ایسا ہی الزام لگایا تھا۔ ’

انیس اپریل کو اسلام آباد سے اطلاع دی گئی کہ 18 اپریل کو بھٹو کی طرف سے بائروڈ کے لیے الوداعی عشائیے میں، بھٹو نے کہا کہ ’وہ مجھ پر ذاتی طور پر بھروسا کرتے ہیں لیکن میرے کچھ لوگوں کی باتوں اور سرگرمیوں کے بارے میں فکر مند ہیں جو شاید میرے علم میں نہ ہوں۔ میں نے ان سے کہا میری کمان میں ہر شخص کو میری سخت ذاتی ہدایات کا علم ہے کہ وہ داخلی سیاست سے مکمل طور پر دور رہیں۔ لوگوں کو موقع پر فارغ کرنے کی میری ساکھ مشہور ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ میری کمان میں کوئی شخص میری حکم عدولی کرے گا۔ (اس میں ایک سطر افشا نہیں کی گئی)

20 اپریل کے ٹیلی گرام کا خلاصہ یہ تھا: ’بھٹو اور اپوزیشن کے مابین تنازع بڑھتا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے اب پاکستان قومی اتحاد کے پیروکاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے حامیوں کو سڑکوں پر بھیج دیا ہے۔ بھٹو اپوزیشن سے مذاکرات کی پیش کش اب بھی کر رہے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ حزب اختلاف تشدد میں اضافہ اور ضروری عوامی خدمات میں خلل ڈال کر ملک کو مفلوج کرے گی۔ مفتی محمود نے اب نئے انتخابات کے لیے صدارتی نظام کا مطالبہ کیا ہے۔ حالات کا بگاڑ جاری ہے۔ فوج تنازع کی طرف راغب نہیں ہونا چاہتی اور آئینی حل چاہتی ہے۔ فوج کو اقتدار سنبھالنے یا بدامنی ہوتے دیکھتے رہنے میں کسی ایک راستہ کا انتخاب کرنا پڑا تو وہ ہچکچاتے ہوئے اول الذکر کا انتخاب کرے گی۔‘

چھبیس اپریل کو امریکی سفارت خانے کو بھیجے گئے امریکی محکمہ خارجہ کے ٹیلی گرام میں سفیر صاحب زادہ یعقوب خان کی انڈر سیکرٹری فلپ حبیب سے ایک روز پہلے کی ملاقات کا احوال ہے۔ ’حبیب نے اس امید کا اظہار کیا کہ اپوزیشن کے ساتھ بات چیت ہوگی لیکن زور دیا کہ امریکہ پاکستان کی داخلی فیصلہ سازی میں خود کو شامل نہیں کرے گا۔ یعقوب نے بتایا کہ پاکستان میں ایک‘ باضابطہ رائے ’موجود ہے کہ ایک غیر ملکی طاقت، جسے اکثر امریکا کے طور پر جانا جاتا ہے، مالی یا کسی اور طرح سے حزب اختلاف کی حمایت کر رہا ہے۔ آنسو گیس کی کھیپ معطل کرنے کے امریکی فیصلے کو امریکا کے اس معاملہ میں فریق بننے کی مثال کے طور پر استعمال کیا گیا حالانکہ انھیں ذاتی طور پر اس بات کا یقین ہے کہ ایسا نہیں ہے۔‘

وینس کے ٹیلی گرام کے آخر میں کہا گیا کہ امریکی حکومت کے بارے میں پاکستانی حکومت کی واضح تشویش کے پیش نظر اعلیٰ ترین مناسب عہدہ دار اپنی پوزیشن واضح کریں۔

واشنگٹن سے 27 اپریل کو صدر کے معاون برائے قومی سلامتی امور (زبگنیو برزنزکی) کی صدر کارٹر کے لیے یادداشت میں کہا گیا کہ کل ہمارے نائب سفیر نے سیکریٹری خارجہ آغا شاہی سے بڑھتے ہوئے امریکہ مخالف بیانات پر احتجاج کیا۔ سیکرٹری خارجہ نے جواب دیا کہ امریکہ مخالف نعروں کو وزیر اعظم سمیت کسی بھی صاحب اختیار کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ اسلام آباد سفارت خانے کے خیال میں احتجاج سے امریکہ مخالف الزامات مکمل طور پر تو نہیں رکیں گے لیکن اس سے حکومت احتیاط کی ضرورت پر قائل ہو جائے گی اور اس میں اضافہ رک جائے گا۔ اس خفیہ یادداشت کے اوپری حصہ پر کارٹر کے مختصر دستخط ہیں۔

ستائیس اپریل کو اسلام آباد سے ٹیلی گرام میں، (پیٹر) کانسٹیبل نے اسی ملاقات کے حوالہ سے کہا کہ انھیں شاہی نے بتایا: ’حکومت کو ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ سے قومی اتحاد کو غیر ملکی رقوم دیے جانے کی اطلاعات مل رہی ہیں اور انھوں نے جان بوجھ کر یہ معاملہ امریکہ کے ساتھ نہیں اٹھایا۔‘

اٹھائیس اپریل کو امریکی محکمہ خارجہ نے ایک ٹیلی گرام میں سائرس وینس کا پاکستانی وزیراعظم کے لیے پیغام پاکستان میں اپنے سفارت خانہ کو بھیجا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ ’یہ جان کر تشویش ہوئی کہ 28 اپریل کو پارلیمان میں ایک تقریر میں آپ نے امریکہ پر شدید تنقید کی اور ہم پر پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا۔ (وینس نے ایک یادداشت میں کارٹر کو بتایا کہ بھٹو نے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا ہے کہ امریکہ ان کے مخالفین کے لیے بڑی تعداد میں ڈالر بھیج رہا ہے۔ انھوں نے امریکہ کے لیے صرف ایسی‘ سپرپاور ’کی ترکیب استعمال کی جو پہلے ویت نام میں ملوث تھی۔ بھٹو نے کہا کہ‘ اسلامی ملک پاکستان کے خلاف عالمی سازش ہو رہی ہے۔ ’انھوں نے الزام لگایا کہ دو امریکی سفارت کاروں نے سات مارچ کے انتخابات کے بعد فون پر ہونے والی گفتگو میں کہا‘ کھیل ختم ہو چکا۔ اب اسے جانا ہوگا۔ ’ان تین جملوں کے بعد کارٹر نے بائیں حاشیہ میں اپنے مختصر دستخط کیے۔ )

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3