1977 کا مارشل لا: بھٹو حکومت کے خاتمے کو امریکی سفارت خانہ کیسے دیکھ رہا تھا؟

وقار مصطفیٰ - صحافی و محقق


’امریکہ کی حکومت پاکستان کے داخلی معاملات میں کسی بھی طرح کی مداخلت میں ملوث نہیں ہے اور نہ اس میں ملوث ہونے کا کوئی ارادہ ہے۔ ہم نے پاکستان میں کسی بھی سیاسی تنظیم یا فرد کو مالی، یا کسی اور طرح کی کوئی امداد نہیں دی ہے۔‘

’میری تجویز ہے کہ ہم عوامی الزامات سے بچنے کے طریقے تلاش کریں کیونکہ یہ صرف ہمارے تعلقات ہی کو نقصان پہنچائیں گے۔‘

تیس اپریل کو اسلام آباد سے ٹیلی گرام میں، غیر ملکی صحافیوں سے موصول اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’بھٹو پنڈی میں گھوم رہے ہیں، گلی کوچوں میں رک رہے ہیں اور ہجوم سے خطاب کر رہے ہیں۔ تقریر کے ایک حصے کے طور پر، وہ ایک کاغذ کا ٹکڑا لہرا رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سکریٹری وینس کا خط ہے۔‘

تیس اپریل کو امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے اپنے سفارت خانے کو لکھا گیا ٹیلی گرام خفیہ ہی رکھا گیا ہے۔

تین مئی کے ٹیلی گرام کے مطابق، وینس کا 28 اپریل کو بھٹو کو لکھا گیا خط تین مئی کو محکمہ خارجہ کی پریس بریفنگ کے دوران جاری کر دیا گیا تھا۔

چار مئی کو امریکی محکمہ خارجہ نے سفیر بائروڈ کے لیے ٹیلی گرام بھیجا۔ اس میں بھٹو کے وینس کو لکھے گئے خط کا متن شامل تھا۔ اس خط میں کہا گیا کہ ’ہمیں حالیہ دنوں میں امریکہ کے کردار، جس نے پاکستان کے استحکام کو متاثر کیا ہے، اس خطے کی سلامتی پر اس کے ممکنہ اثرات جس پر پہلے ہی سوویت دباؤ بڑھ رہا ہے، اور ہمارے دو طرفہ تعلقات پر اس کے منفی اثرات پر تشویش ہے۔‘

تیرہ مئی کی صدر کارٹر کے لیے یادداشت میں قائم مقام سیکریٹری خارجہ وارن کرسٹوفر نے لکھا: ’بھٹو نے کل اعلان کیا کہ حزب اختلاف نے بات چیت کے ذریعہ تنازع کے حل، غالباً نئے انتخابات بھی اس میں شامل ہیں، کے امکان کا دروازہ بند کر دیا ہے۔ انھوں نے ایک غیر معینہ تاریخ پر قومی ریفرنڈم کے انعقاد کا اعلان کیا تاکہ یہ طے کیا جاسکے کہ آیا انھیں عہدے پر رہنا چاہیے یا نہیں۔ انھوں نے نئے انتخابات کو پاکستان کے لیے انتہائی پریشان کن اور‘ غیر ملکی طاقتوں ’کو مداخلت کا موقع فراہم کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ ریفرنڈم کی تجویز سے بنیادی سیاسی صورتحال میں تبدیلی کا امکان نہیں لیکن اس سے بھٹو کو احتجاج اور فوج کی مایوسی میں اضافے کے تناظر میں کچھ وقت اور مل سکتا ہے۔‘

اکتیس مئی کو امریکی صدر کارٹر کے لیے ’شام کی رپورٹ‘ میں وزیرخارجہ وینس نے بتایا کہ ’میں نے آج پاکستانی وزیر خارجہ عزیز احمد سے ملاقات کی۔ انھوں نے کہا کہ امریکی مفادات کے لیے پاکستان نے بہت قربانیاں دی ہیں مگر امریکہ نے اکثر اسے بیچ منجدھار چھوڑا۔ آخر کار، عزیز احمد نے یہ الزام دہرایا کہ حالیہ انتخابات میں پاکستان کے پاس حزب اختلاف کی جماعتوں کے لیے وسیع پیمانے پر امریکی حمایت کے بہت ثبوت موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ ثبوت ان کے پاس ہیں اگر ہم دیکھنا چاہیں۔ میں نے ان کے پاس موجود شواہد دیکھنے کی خواہش نہیں کی۔

عزیز احمد نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ایک دوراہے پر ہیں۔ محاذ آرائی کی صورت میں انھوں نے سنٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن سے پاکستانی دستبرداری، سوویت آپشن کی طرف رجوع کرنے، اور بھٹو کی امریکہ مخالف مہم کے تسلسل کا اشارہ دیا۔ عزیز احمد نے زور دے کر کہا کہ پاکستان چاہے گا کہ ماضی کا باب بند کر کے تعمیری جذبے سے مستقبل کے تعلقات استوار کیے جائیں۔

میں نے واضح کیا کہ پاکستانی داخلی امور میں امریکی مداخلت کے الزامات بے بنیاد ہیں اور کہا کہ پاکستانیوں کے پاس جو بھی ثبوت موجود ہیں وہ ہمارے مابین غلط فہمی پیدا کرنے کی مہم کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔ ’

اس ملاقات میں امریکہ کے نام زد سفیر آ رتھر ہمل نے بھی شرکت کی۔ ہمل آٹھ جون 1977 سے 19 جولائی 1981 تک پاکستان میں تعینات رہے۔

گیارہ جون کے سفارت خانہ کے ٹیلی گرام کا خلاصہ یہ تھا: ’10 جون کو قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو نے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی خواہش کے ساتھ ہی امریکی مداخلت کے اپنے دعوے کا اعادہ کیا۔ انھوں نے قومی اتحاد کے رہنما اصغر خان کی سات جون کی پریس کانفرنس میں کارٹر کی انسانی حقوق پالیسی کی تعریف کا حوالہ دیتے ہوئے انھیں بالواسطہ طور پر ایک سامراجی‘ کٹھ پتلی ’قرار دیتے ہوئے ہدف تنقید بنایا۔‘

واشنگٹن سے پانچ جولائی کو صدر کے معاون برائے قومی سلامتی امور (زبگنیو برزنزسکی) کی صدر کارٹر کے لیے یادداشت میں کہا گیا کہ ’ظاہری طور پر اس نتیجہ پر پہنچنے کے بعد کہ چار ماہ پرانے سیاسی بحران کے مذاکرات کے ذریعہ کسی حل کی کوئی امید نہیں، پاکستانی فوج نے کل رات اقتدار سنبھال لیا۔ وزیراعظم بھٹو اور اہم اپوزیشن رہنماؤں کو‘ عارضی حفاظتی تحویل ’میں لے لیا گیا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ جنرل ضیا الحق فوجی حکومت کے سربراہ ہیں۔

وینس کی صدر کارٹر کے لیے پانچ جولائی کی یادداشت میں کہا گیا: ’شہر پرسکون ہیں۔ مبینہ طور پر کوئی امریکی یا دوسرے غیر ملکی متاثر نہیں ہوئے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران نے فوجی قبضہ پر نجی طور پر کچھ حد تک سکھ کا اظہار کیا ہے۔ ( اس پیراگراف کے اگلے دائیں حاشیہ میں، کارٹر نے لکھا:‘ ہمارے دیرینہ دوست بھٹو کے ساتھ بہت برا ہوا!’)

لغت کہتی ہے ایسا طریقہ اظہار طنزیہ ہوتا ہے۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3