امریکہ میں گلیوں کے فنکار


اس روز مسٹر ٹام بہت مایوس تھا۔ وہ سارا دن ڈاؤن ٹاؤن کے بڑے شاپنگ مال کے سامنے بیٹھ کر اپنا ساز بجاتا رہا لیکن کسی راہگیر نے اسے ٹپ دینا تو کجا اس کی جانب نظر بھر کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ وہ ایک اچھا ڈرمر تھا اور امریکہ کے 60 s اور 70 s کے مشہور گانوں کی دھنوں کے ساتھ بہت خوبصورت انداز میں اپنا ڈرم بجایا کر تا تھا۔ وہ وہاں ہر آنے جانے والے گاہک سے اپنی نظریں ملانے کی کوشش کر تا گویا کہ آنکھوں ہی آنکھوں وہ ان سے اپنے فن کی داد وصول کرنے کا اشارہ کر رہا ہو۔

کچھ لوگ اس کی پیلی مسکراہٹ کو داد رسی کی فریاد سمجھتے اور کچھ سکے یا ایک ڈالر کا نوٹ اس کے ٹپ باکس میں ڈال دیتے۔ کچھ منچلے نوجوان اس گلی کے فنکار کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنی سلفیاں بنواتے اور کبھی کبھی سامنے والی سڑک سے گزرتا ہوا کوئی ڈرائیور اپنی کار سے ہاتھ ہلا کر اور ہارن بجا کر اسے اس کے فن کی داد دیتا۔

وہ دن بڑا عجیب تھا۔ صبح گیارہ بجے سے لے کر شام چھ بجے تک ٹام کو ایک ڈالر بھی ٹپ نہیں ملی۔ اس نے صبح سے کھانا بھی نہیں کھایا تھا اور گانوں کی مختلف دھنوں پر مسلسل اپنا ڈرم بجائے جا رہا تھا۔ بھوک سے نڈھال اس غریب فنکار کا برا حال ہو گیا۔ اب تو اس کے ڈرم کی ردھم بھی گانوں سے تال میل نہیں کھا رہی تھی۔ پھر اس نے اپنا دل پشوری کرنے کے لیے اپنے پسندیدہ گلوکار Elvis Presley کا مشہور گانا I ’ll Remember You لگایا اور ساتھ آہستہ آہستہ سے ڈرم بیٹ شروع کردی۔ ایلوس پریسلے امریکہ میں King of Rock and Roll کے نام بھی جانا جا تا ہے اور لاکھوں امریکی اس کے گانوں کے شیدائی ہیں۔

ایلوس کا یاد گا ر گیت سن کر راہ چلتا ایک بوڑھا امریکی جوڑا ٹام کی جانب متوجہ ہوا اور اس کے پاس آ کر پانی کی ایک بوتل رکھ دی۔ پانی کی وہ چھوٹی سی بوتل ٹام کے لیے کسی بڑی نعمت سے کم نہ تھی۔ اس نے غٹاغٹ پانی پیا اور پھر سے ڈرم بجانا شروع کر دیا۔ وہ اکثر رات دس بجے تک مسلسل ایک چھوٹے سے بنچ پر بیٹھ کر اپنے فن سے لوگوں کو محظوظ کر تا رہتا۔ اس دن نہ جانے کیوں وہ اپنے وقت سے پہلے ہی تھکن کا شکار ہو گیا اور شام کے سائے ڈھلتے ہی اپنا سامان سمیٹ کر گھر چلا گیا۔ ٹام کی عمر لگ بھگ پچاس برس تھی، وہ ایک غریب افریقی امریکی گھرانے میں پیدا ہوا، اس نے کبھی شادی نہیں کی اور اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ اس کے گھر میں رہتا تھا۔

ٹام کی ماں کا گزارا امریکی سرکار کی جانب سے دیے جانے والے سوشل سیکورٹی کے فنڈ سے ہو جاتا لیکن گھر کا باقی نظام ٹام اپنی کمائی سے چلا تا تھا۔ اس کی روزی ہوائی تھی، کبھی کچھ زیادہ، کبھی بہت کم اور کبھی کچھ بھی نہیں ملتا تھا۔ اس روز جب ٹام جلدی سے گھر واپس آیا تو اس کی ماں بہت خوش تھی۔ وہ سمجھی کہ آج اس کی سالگرہ کا دن ہے اور ٹام اسی لیے گھر جلدی واپس آ گیا مگر ٹام تھا کہ اسے فکر معاش اور پیٹ کے غم نے اپنی ماں کا جنم دن تک بھلا دیا۔

ماں نے ٹام کو بڑے تپاک سے خوش آمدید کہا اور پھر اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔ ماں مجھے ایسے کیوں دیکھ رہی ہو، ٹام نے پوچھا۔ وہ بولی، کیا تم کچھ بھول رہے ہو۔ ٹام نے بے رخا سا جواب دیا، نہیں ماں، بس آج میری طبعیت ٹھیک نہیں۔ ماں سمجھی کہ اس کا بیٹا ڈرامے کر رہا ہے اور شاید وہ اسے کوئی سرپرائز دینا چا ہتا ہے۔ اس نے اپنے بیٹے کی جانب ہاتھ بڑھایا اور معصومانہ انداز میں کہا چلو میری سالگرہ کا تحفہ نکالو۔ ماں کی یہ بات سن کر ٹام کے پاؤں تلے جیسے زمین کھسکنے لگی۔ ٹام کی حالت اس غریب باپ جیسی ہو گئی جس سے عید کے دن اس کے بچے عیدی مانگیں اور اس کی جیب خالی ہو۔

ٹام گلیوں کا فنکار ضرور تھا لیکن وہ دوسروں سے اپنا دکھ درد اور غم چھپانے کا بھی بڑا ماہر تھا۔ اس نے فوراً ناٹک شروع کر دیا اور ماں کو گلے لگا کر بڑے پرجوش انداز میں Happy Birthday Mom کہا۔ پھر کہنے لگا، ہاں ماں کیوں نہیں میرے پاس تمہارے لیے بڑا سرپرائز ہے۔ آج ہم ڈنر کرنے کے لیے باہر جائیں گے اور وہ بھی تمہاری پسند کا۔ یہ بات سن کر ٹام کی ماں کا منہ لٹک گیا۔ وہ بولی، مگر میں نے تو آج گھر میں ڈنر تیار کر رکھا ہے اور وہ بھی تمھاری پسند کا۔ کھانا اور وہ بھی ماں کے ہاتھ کا پکا ہوا، یہ سن کر ٹام کے دن بھر کی تھکن اتر گئی۔ اس نے کہا، تو پھر چلو شاپنگ مال چلتے ہیں اور تمہارے لیے کوئی برتھ ڈے گفٹ خریدتے ہیں۔

ماں اپنے بیٹے کی جیب کی پتلی حالت کو خوب سمجھتی تھی۔ وہ بولی، چلو آج رہنے دو، پھر کسی دن جا کر تمہارے پیسوں سے شاپنگ کر لوں گی۔ اس نے ٹام کو فریش ہونے کے لیے کہا اور خود میز پر کھانا سجانے چلی گئی۔ ٹام نہا دھو کر تازہ دم ہو گیا اور پھر بھوکے شیر کی طرح کھانے کی میز کی طرف لپکا۔ اس کی ماں نے گھر میں چکن سپیگیٹیز تیار کر رکھی تھی جو اس کے بیٹے کو بچپن سے ہی بہت پسند تھیں۔ ڈنر کرتے ہوئے ٹام نے کہا ماں عجیب سا لگ رہا آج آپ کی سالگرہ کا کیک بھی نہیں لایا۔ ماں جھٹ سے بولی، بیٹا فکر مت کرو میں نے تمہاری پسند کا پین کیک بھی تیار کر رکھا ہے، کھانے کے بعد کیک کاٹنے کی رسم بھی پوری کر لیتے ہیں۔

مسٹر ٹام دل ہی دل نادم تھا کہ وہ اپنی ماں کا جنم دن بھول گیا اور وہ اس کے لیے کوئی تحفہ خریدنے کے قابل بھی نہیں۔ ماں نے اپنے بیٹے کو پریشان دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے تم کچھ اداس نظر آ رہے ہو۔ ٹام نے اپنا غم چھپانے کی کوشش کی مگر ماں تو ماں ہوتی ہے وہ اپنی اولاد کی روحوں میں جھانک کر ان کے ان کہے دکھوں کا درد بھی محسوس کر لیتی ہے۔ اس نے دوبارہ پوچھا، کیا ہوا آج پھر سیکورٹی والوں نے تمہیں تنگ تو نہیں کیا، کیا پھر کسی دکان دار نے تمھارے خلاف شکایت کر دی اور تمہیں شاپنگ مال کے گیٹ سے دور بھگا دیا گیا۔ نہیں ماں ایسی بات نہیں ہے، بس میں سوچ رہا ہوں کہ کوئی اور ڈھنگ کا کام کروں، ٹام نے اپنی ماں کے سوالوں کا مختصر سا جواب دیا۔

کیا تم اپنے فن سے پیار نہیں کرتے، ٹام کی ماں نے پوچھا۔ ٹام بولا، ماں تم جانتی ہو، مجھے اپنے فن اور کام سے بہت پیار ہے۔ میں نے اسی لیے شادی بھی نہیں کی۔ مجھے لوگوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنا اچھا لگتا ہے۔ مجھے ان کے مسکراتے چہرے دیکھ کر تسکین ملتی ہے۔ ٹام بھی انسان تھا، آخر کب تک وہ اپنا درد اپنے سینے میں چھپاتا، اسے بھی کسی کو اپنا دکھڑا سنانا تھا اور اپنا کیتھارسس کرنے کی ضرورت تھی۔ وہ اس دن اپنی ماں کے سامنے پھٹ پڑا اور اس سے اپنے دل کی باتیں کہنا شروع ہو گیا۔

ماں، میں گلیوں کا فنکار ہوں اور تم تو جانتی ہو کہ لوگ گلی کوچوں میں اپنے فن کا اظہار کرنے والوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ماں، وہ ہمیں کمتر سمجھتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں شاید ہم اپنا فن بیچنے والے لوگ ہیں۔ کون نہیں بیچتا ماں، ہر کوئی یہاں اپنا فن بیچ کر کھاتا ہے۔ ہمارا قصور یہی کہ ہمیں کسی بڑے سٹیج پر پرفارمنس کا موقع نہیں ملا۔ ہمیں وہ عزت، شناخت اور پہچان نہیں ملی جو کسی بھی فنکار کو ملنی چاہیے۔

وہ بے ساختہ بولتا چلا گیا اور شکوہ کرنے لگا کہ آج کل جس کسی کو کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ملتا وہ ایک سستا سا گٹار لے کر سٹریٹ میں آ کر فنکار بن جاتا ہے۔ ماں اب لوگ ہماری طرف دیکھتے بھی نہیں۔ وہ ہمیں بھکاری سمجھتے ہیں۔ ماں، تم جانتی ہو، میں پیسوں کا بھوکا نہیں لیکن اب لوگوں نے ہماری طرف دیکھ کر مسکرانا بھی چھوڑ دیا ہے۔ بس میں کوئی اور کام کروں گا، محنت مزدوری کر لوں گا لیکن اب مجھ سے یہ کام نہیں ہوتا۔

ماں اپنے بیٹے کا دکھ خوب جانتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ ٹام اپنے بچپن ہی سے ایک گلوکار بننا چاہتا تھا لیکن تعلیم کی کمی اور غریبی کے گھن چکر نے اسے گلیوں کا فنکار بنا دیا۔ اس نے اپنے بیٹے کی باتیں تسلی سے سنیں، پھر اسے حوصلہ دینے کے لیے بولی، دیکھو ٹام، بے شک تم اپنا گھر چلانے کے لیے کوئی اور کام ڈھونڈ لو، میں تمہیں روکوں گی نہیں لیکن اپنے فن کی قدر کر نا مت چھوڑنا۔ تم ایک پیدائشی آرٹسٹ ہو، اپنے فن سے لگاؤ کی خاطر تم نے شادی بھی نہیں کی، میوزک کنسرٹ جانے کے لیے سکول سے بھی بھاگ جاتے تھے، اسی فن سے محبت کی خاطر تم نے اپنے باپ سے مار بھی کھائی لیکن اب اسے مت چھوڑو۔ اگر گلیوں میں بیٹھ کر اپنے فن کا اظہار کرنا تمہیں اچھا نہیں لگتا تو کوئی اور طریقہ ڈھونڈو جس سے تمہیں اور تمہارے فن کو عزت ملے۔

ٹام نے ماں کی بات اپنے پلو باندھ لی لیکن ابھی اس نے اپنے روز گار کے لیے کوئی اور وسیلہ تلاش کرنے کا ارادہ ترک نہیں کیا تھا۔ رات کا کھانا کھانے اور ٹیبل ٹاک کے بعد ، دونوں ماں بیٹے نے مل برتھ ڈے کیک کاٹا۔ اس رات، ٹام سونے سے پہلے اپنی ماں کے گلے مل کر خوب رویا اور کہا ماں تم میری آخری امید ہو مجھے کبھی چھوڑ کر مت جانا۔ ماں بھی حیران تھی کہ آج اس کے بیٹے کو کیا ہو گیا، وہ اتنا جذباتی کیوں ہو رہا ہے۔ اسے کیا معلوم کہ اس کے بیٹے کا دن کیسے گزرا۔ فنکار لوگ ویسے بھی حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں اور اگر وہ غریب ہوں تو اور زیادہ حساس ہو جاتے ہیں۔

دوسری صبح جب ٹام اپنے کام پر جانے لگا تو وہ ماں سے ملنے اس کے کمرے میں گیا۔ ماں نے اسے کامیابی اور اچھا دن گزرنے کی دعا دی۔ ٹام نے اپنا ڈرم سیٹ، ڈیک اور باقی سامان اپنی پرانی سی کار کی ڈگی میں ڈالا اور اپنے کام کی جگہ یعنی شاپنگ پلازے کے باہر پہنچ گیا۔ اس دن وہاں کوئی افتتاحی تقریب چل رہی تھی لہذا سیکورٹی والوں نے ٹام کو اپنا سیٹ اپ لگانے سے منع کر دیا۔ ٹام ویسے بھی ذہنی طور اپنا کام چھوڑنے کے لیے تیار تھا اس لیے اس نے سیکورٹی والوں سے الجھنے کی بجائے ایک قریبی پارک میں جاکر اپنا سٹریٹ شو شروع کر دیا۔

یہ اتوار کا دن تھا اور پارک میں سیر کے لیے آنے والوں کا رش لگا ہوا تھا۔ ٹام نے جونہی اپنا ڈرم بجانا شروع کیا تو پارک میں پہلے سے موجود دوسرے آرٹسٹ اس کے پاس آ گئے اور اسے کام کرنے سے روک دیا۔ ٹام اور گلی کے دوسرے فنکاروں میں کا فی بحث و مباحثہ ہوا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ٹام کے ڈرم کا شور ان کے شو کو خراب کرے اور ویسے بھی وہ لوگ پیشہ ورانہ حسد اور چپقلش کا شکار نظر آتے تھے۔ آخر کار ٹام نے باقی فنکاروں کو راضی کر لیا کہ اگر وہ اسے پارک میں اپنا شو کرنے دیں تو وہ اپنی کمائی کا حصہ سب میں برابر تقسیم کر دے گا۔ اس بات پر سب فنکار راضی ہو گئے اور مل کر شو کرنے لگے۔

وہ دن جس کا آغاز ماں کی دعاؤں سے ہوا، وہ بظاہر ٹام کے لیے بھاری نظر آ رہا تھا۔ پہلے شاپنگ مالز کی سیکورٹی والوں کا پھڈا، پھر گلی کے دوسرے فنکاروں سے جھگڑا لیکن جب ٹام اور گلی کے دوسرے فنکاروں نے مل کر اپنا شو شروع کیا تو لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ ان کے گرد جمع ہونا شروع ہو گئی۔ وہاں موجود ان کی پرفارمنس سے کا فی متا ثر نظر آنے لگے اور انہوں نے دل کر انہیں داد دی اور ساتھ اچھی خاصی ٹپ بھی اکٹھی ہو گئی۔ یہ سب کچھ، ان غریب فنکاروں کے لیے عجیب تھا۔ انہیں اتفاق میں برکت کا ثمر نظر آنے لگا۔ وہ سب پارک بند ہونے تک ہلہ گلہ اور وہاں آنے والے لوگوں کو خوش کرتے رہے۔ آخر میں جب شو ختم ہوا تو ٹام نے اپنا ٹپ باکس کھولا اور جمع ہونے والی رقم سب فنکاروں میں برابر تقسیم کر دی۔

اس روز تمام فنکار ٹام کی قائدانہ صلاحیتوں، اس کے فن اور سب کے ساتھ اس کے مساویانہ سلوک سے بہت خوش تھے۔ جن لوگوں نے ٹام کا وہ شو دیکھا ان میں مقامی میگزین کا فوٹو گرافر اور کلچرل سیکشن کا انچارج، ایک صحافی بھی شامل تھا۔ شو ختم ہو نے بعد وہ ٹام کے پاس آیا اور اسے ایک ایکسکلوسیو فوٹو بنوانے کی درخواست کی۔ ٹام نے خوشی خوشی اس کی اجازت دے دی مگر اس صحافی نے ٹام کو ایک کا غذ پر دستخط کرنے کے لیے کہا۔ یہ کیا ہے، ٹام نے پوچھا۔ یہ اجازت نامے کا پیپر ہے کیونکہ آپ کی تصویر میگزین کے ٹائٹل پیج پر شائع کرنے کے لیے استعمال ہو گی۔ فوٹو گرافر نے تصویر بنوانے کے عوض ٹام کو 100 ڈالرز دینے کی پیشکش بھی کی۔

ٹام نے صحافی کی بات سن کر کہا، ہم گلی کے فنکار تو کسی نکڑ پر لگے ایک بل بورڈ کی طرح ہوتے ہیں۔ ہر گزرنے والا اسے دیکھ سکتا ہے، اس کی تصویر بنا سکتا ہے لیکن آپ مجھے 100 ڈالرز کیوں دے رہے ہیں۔ صحافی نے جواب دیا، دراصل میں یہ کام اپنی خوشی سے کر رہا ہوں اور تمہاری یہ تصویر بلیک ہسٹری منتھ کی تقریبات کے سلسلے اپنے میگزین میں شائع کر نا چاہتا ہوں۔ ٹام اپنی تصویر پبلک کرنے پر راضی ہو گیا لیکن اس نے جرنلسٹ سے 100 کا نوٹ لینے سے انکار کر دیا۔ جرنلسٹ ٹام کے رویے پر بہت حیران ہوا اور اسے اپنا وزٹنگ کارڈ دے کر اپنے دفتر میں آنے اور ساتھ کوفی پینے کی آفر کردی۔

ٹام نے گلیوں میں اپنا فن بیچنے والا کام جاری رکھا لیکن ساتھ ساتھ کسی دوسری نوکری کی تلاش بھی جاری رکھی۔ نوکری کی تلاش میں ایک ماہ گزر گیا لیکن کہیں سے بھی ٹام کو جاب کی آفر نہیں ملی۔ کسی نے اس کی بڑی عمر دیکھ کر انکار کر دیا تو کوئی اس کا بے گھر افراد جیسا حلیہ دیکھ کر ڈر گیا۔ ایک دن ٹام اپنے کوٹ کی جیبیں خالی کر رہا تھا تو اسے صحافی کا وزٹنگ کارڈ مل گیا۔ وہ کارڈ دیکھ کر اسے خیال آیا کہ کیوں نہ ملازمت ڈھونڈنے کے لیے میگزین کے کلچرل سیکشن کے انچارج سے مدد مانگی جائے۔ اگلے دن وہ اس صحافی کے دفتر پہنچ گیا۔

ٹام کا حلیہ اور شکل دیکھ کر اسے میگزین کے صدر دروازے پر روک لیا گیا لیکن جرنلسٹ کا وزٹنگ کارڈ دیکھ کر سیکورٹی والوں نے اسے اندر جانے کی اجازت دے دی۔ وہ صحافی ٹام کو اپنے دفتر میں دیکھ کر پہلے تو حیران ہوا، پھر اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے اس کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ ٹام کے لیے کوفی منگوائی گئی اور تھوڑی بہت رسمی گفتگو کے بعد وہ دونوں خاموش ہو گئے۔ ٹام کو ایسا لگ رہا تھا شاید وہ مدد مانگنے کے لیے غلط جگہ پر آ گیا کیونکہ میگزین کے کلچرل سیکشن کے انچارج نے دعا سلام کے بعد کوئی اور بات نہیں کی اور اپنے ڈیسک پر مصروف نظر آنے لگا۔ اس کا بے رخا پن دیکھ کر ٹام اداس ہو گیا اور اس نے، اس سے مدد مانگنے کا فیصلہ موخر کر دیا۔

ٹام اس صحافی سے جانے کی اجازت لینے ہی والا تھا کہ اتنے میں دفتر کے دروازے پر دستک ہوئی اور میگزین کی مارکیٹنگ مینجر میگزین کے نئے شمارے کی ایک کاپی اپنے ہاتھ میں پکڑے اندر داخل ہوئی۔ وہ جرنلسٹ سے اس ہفتے کے میگزین میں چھپنے والی ایک تصویر کے بارے کچھ جاننا چاہتی تھی۔ وہ ٹام کی تصویر تھی جو میگزین کے ٹائیٹل پیج کی زینت بنی اور اس پر کیپشن دیا گیا تھا، Americans، Who Got Street Talent۔

وہ فوٹو گرافر، میگزین کے ٹائیٹل پیج پر اپنے کیمرے سے لی گئی تصویر کو دیکھ خوشی سے اپنی کرسی سے اچھل کر کھڑا ہو گیا اور ٹام کی طرف اشارہ کر کے بولا، یہ ہے وہ، جو اس تصویر میں ہے۔ مارکیٹنگ والی خاتون ٹام کو اپنے سامنے دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی، وہ اسی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے کلچرل سیکشن کے دفتر میں آئی تھی۔ فوٹو گرافر جرنلسٹ خوش تھا کہ اس کی پہلی تصویر کسی میگزین کے ٹائیٹل پیج کے لیے منتخب کی گئی۔ وہ ٹام کو اپنے کام کے لیے نیک شگون سمجھنے لگا اور اس نے مارکیٹنگ مینجر کے سامنے ٹام کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ اس نے خاتون کو 100 ڈالرز والی بات بھی بتائی جس سے متاثر ہو کر اس نے ٹام کو اپنے دفتر میں کوفی پینے کی دعوت دی تھی۔

مارکیٹنگ مینجر بھی ٹام کی صلاحیتوں اور بے لوث رویے کی معترف نظر آنے لگی۔ اس نے کہا کہ ٹام کو بتا یا کی مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کا ڈائریکٹر اس سے ملاقات کر نا چاہتا ہے اور اس کے پاس ٹام کے لیے کوئی اچھی بزنس پروپوپزل ہے۔ یہ سن کر ٹام کے کان بھی کھڑے ہو گئے اور وہ جھٹ سے بولا، میں آج پورا دن فارغ ہوں۔ وہ عورت ٹام کو اپنے باس سے ملوانے اس کے دفتر لے آئی۔ خاتون کا باس، ٹام کو اتنی جلدی اپنے دفتر میں پا کر حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور اس نے اپنی مینجر کی پھرتیوں کی داد دی۔ ڈائریکٹر نے ٹام کو اپنی پروپوزل کے بارے میں بتایا کہ وہ سٹریٹ آرٹسٹس کے ساتھ مل کر گورنمنٹ کے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کی ایک آگاہی مہم پر کام کرنا چاہتے ہیں جو نشے کے عادی افراد اور نوجوانوں سے متعلق تھی۔

کچھ دیر پہلے اپنی قسمت کو کوسنے والے ٹام کے اندر اب اعتماد نظر آنے لگا۔ وہ اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھ رہا تھا کہ جسے بن مانگے ہی سب کچھ مل رہا تھا۔ وہ ڈائریکٹر کی باتیں بڑے باوقار انداز میں سنتا رہا اور اس نے آگاہی مہم کی تفصیل جاننے کے لیے کئی سوال بھی پوچھے۔ مارکیٹنگ شعبے کے انچارج نے ٹام کو بتایا کہ ان کا میگزین عوام کو منشیات کے نقصانات سے آگاہ کرنے کے لیے اشتہاری مہم شروع کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی جگہوں پر آگاہی کے پیغامات عوام تک پہنچانے کے لیے گلی کے فنکاروں کی مدد حاصل کر نا چاہتا ہے۔ اس نے ٹام کو پراجیکٹ پر مل کر کام کرنے کی آفر کی اور اسے مزید بہتر بنانے کے لیے ٹام کی رائے جاننے کی کوشش کی۔

ٹام نے پراجیکٹ پر ساتھ مل کر کام کرنے کی حامی بھری او ر بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے سٹریٹ آرٹسٹس کا نیٹ ورک بنانے اور ان کی استعداد کار بڑھانے کی تجویز دی۔ میگزین والوں کا زیادہ فوکس اس بات پر تھا کہ مذکورہ آگہی مہم کے لیے مارکیٹنگ اور برینڈنگ کیسے کی جائے جب کہ ٹام اپنی قسمت کو مہربان پا کر بڑے بڑے خواب دیکھنے لگا۔ وہ گلی کوچوں کے فنکاروں کے لیے ایک بڑا پلیٹ فارم بنانا چاہتا تھا۔ وہ آرٹسٹس کی سٹریٹ پاور کو سمجھ چکا تھا اور وہ انہیں برینڈ ایمبیسڈر بنانے کے خواب بننے لگا۔

ٹام سمجھتا تھا کہ گلی کے فنکار، سڑک کے کسی کونے میں لگے بے جان بل بورڈ سے زیادہ موثر کام کر سکتے ہیں۔ وہ غریب فنکاروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سکھانا چاہتا تھا۔ ٹام کو اپنے فن کی قدر معلوم ہو چکی تھی۔ وہ مارکیٹنگ ڈائریکٹر کی بتائی ہوئی شرائط سے متفق ہوا اور انہوں نے آگہی پراجیکٹ کا ایکشن پلان بنانے کے لیے ایک اور میٹنگ میں ملنے فیصلہ کیا۔ ٹام میگزین کے دفتر سے باہر نکلا اور اب وہ اپنے آپ کو ایک مختلف انسان محسوس کر رہا تھا۔ وہ مایوسی کے اندھیرے سے باہر نکل آیا۔ اب وہ ایک بدلا ہوا انسان نظر آ رہا تھا جو کسی بڑی تبدیلی کا خواہاں ہو۔

ٹام نے مقامی میگزین کے ساتھ مل کر آگاہی مہم والے پراجیکٹ پر خوب محنت کی۔ وہ سٹریٹ آرٹسٹس کا ایک بڑا نیٹ ورک بنانے میں کامیاب رہے جس میں ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے ٹرینگ کا بندوبست بھی شامل تھا۔ دوران تربیت گلی کے فنکاروں کو اپنے فن کی مارکیٹنگ، سوشل میڈیا کے موثر استعمال اور لوگوں سے بہتر انداز میں رابطہ استوار کرنے کے گر بھی سکھائے گئے۔ امریکی سرکا ر کے فنڈ سے چلنے والا آگاہی پراجیکٹ کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ گلی کے فنکاروں کی مدد سے ہزاروں نوجوانوں اور عوام الناس تک مطلوبہ پیغام کو پر اثر طریقے سے پہنچایا گیا۔ اس پراجیکٹ سے جہاں ٹام اور شہر کے باقی درجنوں سٹریٹ آرٹسٹس کو معاشی فائدہ پہنچا وہاں یہ منصوبہ ٹام کی زندگی کا ایک نیا سنگ میل بھی ثابت ہوا۔

ٹام آگہی پراجیکٹ سے سیکھے گئے اسباق کو اپنے ادھورے خواب پورے کرنے کے لیے کام میں لایا۔ اس نے نارتھ ویسٹ پروڈکشن نامی ایک کمپنی رجسٹر کروائی جس کا مقصد گلی کے فنکاروں کی استعداد بڑھانے اور انہیں روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنا تھا۔ ٹام نے سٹریٹ آرٹسٹس کے فن، ان کی زندگی اور صلاحیتوں کے پوشیدہ پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے Americans Got Street Talent کے نام سے ایک پروگرام ترتیب دیا جس میں گلی کوچوں کے فنکاروں کا فن ایک اچھے انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ فنکاروں کی امیج بلڈنگ اور سوشل میڈیا ایکسپوژر پر تو جہ دی گئی۔ جلد ہی گلی کے فنکاروں کی ویڈیوز وائرل ہونا شروع ہو گئیں۔ ان کے لاکھوں فالورز بن گئے اور ان کی ویڈیوز کو کروڑوں ویوز ملے۔

ٹام کی کمپنی نے جلد ہی سرکاری اداروں اور بڑی بڑی کارپوریشنز کی تو جہ حاصل کر لی اور یوں اس کا شروع کیا ہوا پروگرام ایک چھوٹے شہر سے پورے امریکہ میں پھیلنے لگا۔ امریکہ کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں سٹریٹ آرٹسٹس کے ٹیلنٹ ہنٹ پروگرامز ہونا شروع ہو گئے۔ عوام کی دلچسپی ان کے پروگرامز میں بڑھنے لگی اور ان کے شوز کو سپانسرز ملنا بھی شروع ہو گئے۔ مسٹر ٹام نے گلی کوچوں کے فنکاروں کی ضرورت، عوام کی دلچسپی اور مارکیٹ کی ڈیمانڈ کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا۔ اس کا ٹیلنٹ ہنٹ شو بہت ہٹ ہوا۔ جلد ہی وہ سٹریٹ آرٹسٹس کی فلاح و بہبود کے لیے ایک چیرٹی کا قیام بھی عمل میں لے آیا۔ اس نے شہر کے ڈاؤن ٹاؤن میں اپنی کمپنی کا بڑا سا دفتر بھی کھول لیا، بالکل اس شاپنگ پلازہ کے مرکزی دروازے کے سامنے جہاں کبھی ٹام بیٹھ کر اپنا ڈرم بجایا کر تا تھا۔

ایک انٹرنیشنل ٹی وی پر نشر ہونے والا ٹام کا انٹرویو بہت مشہور ہوا جس میں اس نے پست زندگی (Low Life) گزارنے والے دنیا کے کروڑوں فنکاروں کی ترجمانی کی اور انہیں نصیحت کرتے ہوئے کہا جب کسی کام کو دل سے نہ سیکھا جائے تو وہ کام آپ کی زندگی میں زحمت لائے گا۔ اس نے فنکاروں کی بشری کمزوریوں کی نشان دہی کی اور بتایا کہ وہ اپنے سیکھنے کا عمل محدود کر دیتے ہیں۔ وہ اپنے فن کی مہارت کو آگے بڑھانے کی بجائے محدود پیمانے پر اس کا استعمال کرتے ہیں۔

مسٹر ٹام نے نظریہ پیش کیا کہ سٹریٹ آرٹسٹ دنیا میں آگہی کا انقلاب لا سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اپنے فن کا بہتر استعمال کرنا سیکھ جائیں۔ اس نے تجویز پیش کی کہ فنکار اپنے فن کے ذریعے دنیا میں امن اور بھائی چارے کا پیغام عام کر سکتے ہیں۔ وہ قومی مقاصد کو اجاگر کرنے میں اپنی اپنی حکومتوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ اس کا یقین تھا کہ ہر فنکار کسی بڑے یا لوکل برینڈ کا ایمبیسڈر بن سکتا ہے مگر اس کے لیے پہلے فنکاروں کو اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔

ٹام جہاں گلی کوچوں کے فنکاروں کی فلاح و بہبود کا کام کر رہا تھا وہاں وہ اکثر ان پر تنقید کرتے ہوئے بھی نظر آتا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر سٹریٹ آرٹسٹس اپنے حلیے بدل لیں تو ان کی زندگی میں بڑی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔ وہ ان سے سوال پوچھتا تھا کہ اگر کوئی سٹریٹ آرٹسٹ اپنے میلے کچیلے یا پھٹے پرانے کپڑوں میں کام کرنے کی بجائے کسی بڑی کمپنی کی شرٹ پہن کر اپنے فن کا مظاہرہ کرے تو کیا اس کی ویلیو اس کھلاڑی سے کم ہوگی جو اکثر پہلے اوور میں ہی آؤٹ ہو جاتا ہے لیکن اس کے بلے یا شرٹ سے پھر بھی سپانسر کرنے والی کمپنی کا ٹریڈ مارک نہیں ہٹا یا جاتا۔ وہ اس بات پر زور دیتا تھا کہ گلی کے فنکاروں کو بھی کسی کی سر پر ستی کی ضرورت ہے۔ انہیں بھی کسی کمپنی کا ٹریڈ مارک چاہیے، کاش انہیں بھی کوئی اچھا مارکیٹنگ گرو مل جائے جو انہیں اپنا فن بیچنا سکھائے۔

ٹام اکثر اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیتا تھا کہ اگر فن بیچنا ہی ہے تو کسی ڈھنگ سے بیچو۔ وہ اپنی غربت کا رونا رونے والے لوگوں سے کہتا تھا کہ ہم غریب کب ہوتے ہیں، تب، جب ہم ذہنی طور پر مفلس ہو جائیں۔ وہ ایسے لوگوں کا بھی بہت مخالف تھا جو اپنے فن سے پیار نہیں کرتے بلکہ فن ان کے لیے محض ایک کمائی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ وہ ہنر بس اتنا ہی سیکھتے ہیں جس سے ان کی ضرورت پوری ہو سکے۔ اس کا ماننا تھا کہ غریب فنکار اسی لیے فن کی دنیا میں پیچھے رہ جاتے ہیں وہ اپنے سیکھنے کے عمل کو روک دیتے ہیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments