جنس اور جارحیت کی نفسیات


جنس اور جارحیت کا رشتہ
پیچیدہ بھی ہے گنجلک بھی
شعوری بھی ہے لاشعوری بھی
صحتمند بھی ہے مریضانہ بھی

جنسی مباشرت بظاہر ایک جارحانہ عمل ہے لیکن جب یہ عمل دو محبوبوں کے درمیان ہوتا ہے تو اس میں محبت، پیار، اپنائیت اور خلوص آپس میں بغلگیر ہو جاتے ہیں اور دو چاہنے والے اپنی خوشی اور رضامندی سے ایک دوسرے کو جنسی معراج تک پہنچاتے ہیں اور جب اس معراج سے واپس لوٹتے ہیں تو ایک دوسرے کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ مشرق کی تانترک روایت تو جنسی مباشرت کو نروان حاصل کرنے کا روحانی طریقہ سمجھتی ہے۔

لیکن جب جنسی تعلق غیر صحتمند ہو جائے تو پھر ایک فریق مباشرت کو جارحیت کے طور پر اور اپنے غصے، نفرت، تلخی اور بدلہ لینے کے جذبے کے لیے جنس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

اگر جنسی مباشرت میں باہمی رضامندی شامل نہ ہو تو میاں بیوی کا تعلق بھی میریٹل ریپ کا بھیانک روپ دھار لیتا ہے۔

جب جنسی تعلق مریضانہ سوچ سے جڑ جائے تو جہاں وہ ایک فرد کے غصے کا اظہار بن سکتا ہے وہیں وہ جنسی تشدد کا روپ بھی دھار سکتا ہے۔ بعض مریضانہ ذہن جنسی استحصال کے بعد قتل اور بعض قتل کے بعد جنسی مباشرت کرتے ہیں۔

جب جنس کو بدلہ لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو اس میں پورا خاندان اور سارا گاؤں بھی ملوث ہو سکتا ہے اور مریضانہ پنچایت یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ بدلہ لینے لیے دوسرے گاؤں کی لڑکی کو گینگ ریپ کیا جائے۔

انسانی تاریخ کی کتابوں میں ایک سیاہ باب ایسا بھی ہے جس میں دشمن کی لڑکیوں اور عورتوں کو کنیزیں بنا کر بانٹا گیا اور ان کی مرضی کے بغیر ان کے ساتھ جنسی اختلاط کیا گیا۔

بیسویں صدی میں سگمنڈ فرائڈ نے اپنی نفسیاتی تحقیق سے ہمیں بتایا کہ وہ لڑکیاں جو روایتی خاندانوں اور مذہبی معاشروں میں پلتی بڑھتی ہیں وہ جب جوان ہوتی ہیں تو اپنے شہوانی جذبات کو قبول کرنے کی بجائے اپنے لاشعور میں دھکیل دیتی ہیں تا کہ احساس گناہ و ندامت سے بچ سکیں لیکن وہ جنسی جذبات لاشعور میں جا کر ہسٹیریا کا نفسیاتی مسئلہ بن جاتے ہیں اور پھر صحتمند ہونے کے لیے انہیں نفسیاتی علاج کی ضرورت پڑتی ہے۔

مغرب کی سیکولر سوچ نے ہمیں سکھایا کہ ہم جنس کو مذہبی اخلاقیات کی بجائے انسانی نفسیات کے حوالے سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔

ایرک فرام نے، جو ایک امریکی ماہر نفسیات تھے، اپنی کتاب
THE ANATOMY OF HUMAN DESTRUCTIVENESS

میں جارحیت کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ جانوروں کی جارحیت اور انسانوں کی جارحیت میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ جانوروں میں
BENIGN AGGRESSION
پائی جاتی ہے۔ شیر اس وقت شکار کرتا ہے جب وہ بھوکا ہوتا ہے۔ شیر کا پیٹ بھر جائے تو وہ پرسکون ہوجاتا ہے۔

انسانوں میں
MALIGNANT AGGRESSION
پائی جاتی ہے جو بہت خطرناک ہو سکتی ہے۔ انسان جب اپنی جارحیت کو کسی ارفع جذبے اور کسی اعلیٰ مقصد کے ساتھ جوڑتا ہے تو وہ اپنے ظلم اور جبر کو مقدس بنا دیتا ہے۔ انسانی جارحیت جب روایت مذہب اور سیاست سے جڑ جاتی ہے تو انسانیت کے لیے خطرے کی گھنٹی بن جاتی ہے۔

فرانز فینن نے، جو الجیریا کے ایک سیاہ فام ماہر نفسیات تھے، اپنی مشہور کتاب
THE WRETCHED OF THE EARTH

میں ہمیں یہ بتایا کہ جب کوئی ظالم و جابر قوم کسی کمزور قوم پر ظلم کرتی ہے تو اس ظلم کا زہر اس قوم کے لاشعور میں جمع ہوتا رہتا ہے اور جب اس مجبور و مظلوم قوم کے بچے جوان ہوتے ہیں اور ان کو موقعہ ملتا ہے تو وہ بدلہ لیتے ہیں اور برسوں دہائیوں اور صدیوں کے زہر کو الٹ دیتے ہیں۔ یہ بدلہ نفسیاتی بھی ہو سکتا ہے سیاسی بھی معاشی بھی اور جنسی بھی۔

جنس اور جارحیت کا رشتہ گنجلک بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔ انفرادی اور سماجی ماہرین نفسیات آج بھی اس رشتے کی گتھیاں سلجھائے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جہاں ماہرین نفسیات جنس اور جارحیت کا نفسیاتی تجزیہ پیش کرتے ہیں وہیں شاعر اور ادیب اس تجزیے کا تخلیقی اظہار کرتے ہیں۔

جب ہم اردو شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اکثر شاعروں نے روایتی شاعری کی اور ایک خیالی محبوبہ کے عشوہ و غمزہ و انداز و ادا کے بارے میں غزلیں لکھیں ایسی لکھیں جن کا حقیقی زندگی سے کوئی زیادہ تعلق نہیں تھا۔ اردو شاعری میں جنس کو شجر ممنوعہ سمجھا گیا اور اسے ہوس کا نام دے کر رد کر دیا گیا۔ روایتی شاعروں کے ساتھ ساتھ چند ایسے شعرا بھی تھے جنہوں نے جنس کو انسانی شخصیت اور محبت کا حصہ سمجھ کر غزلیں اور نظمیں لکھیں لیکن وہ اردو ادب میں کافی بدنام ہوئے۔ یہاں میں صرف دو مثالیں دینا چاہتا ہوں

پہلی مثال مصطفیٰ زیدی کی ہے جنہوں نے اپنی محبوبہ شہناز گل کا نام لے کر ان کے لیے کئی غزلیں لکھیں۔ ایک غزل کے دو اشعار ہیں

؎ فنکار خود نہ تھی میرے فن کی شریک تھی
وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی

اس پہ کھلا تھا باب حیا کا ورق ورق
بستر کی ایک ایک شکن کی شریک تھی

دوسری مثال ن م راشد کی ہے۔ ان کی ایک نظم حاضر خدمت ہے

انتقام
اس کا چہرہ، اس کے خد و خال یاد آتے نہیں
اک شبستاں یاد ہے
اک برہنہ جسم آتشداں کے پاس
فرش پر قالین، قالینوں پہ سیج
دھات اور پتھر کے بت
گوشہ دیوار میں دھنستے ہوئے
اور آتشداں میں انگاروں کا شور
ان بتوں کی بے حسی پر خشمگیں
اجلی اجلی اونچی دیواروں پہ عکس
ان فرنگی حاکموں کی یادگار
جن کی تلواروں نے رکھا تھا یہاں
سنگ بنیاد فرنگ
اس کا چہرہ اس کے خد و خال یاد آتے نہیں
اک برہنہ جسم اب تک یاد ہے
اجنبی عورت کا جسم
میرے، ہونٹوں، نے لیا تھا رات بھر
جس سے ارباب وطن کی بے حسی کا انتقام
وہ برہنہ جسم اب تک یاد ہے

ن م راشد پر اس نظم کی وجہ سے ادب کے جن روایتی مولویوں، پادریوں اور پنڈتوں نے سنگباری کی ان میں کچھ ترقی پسند ادیب و نقاد بھی شامل تھے۔ یہ ایسی ہی سنگباری تھی جس کا سعادت حسن منٹو، آسکر وائلڈ اور سگمنڈ فرائڈ کو سامنا کرنا پڑا۔ یہ اعتراضات ان حضرات و خواتین کی طرف سے تھے جو ادب کو اخلاقیات کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔

جہاں تک جنسیات کی نفسیات کا تعلق ہے میں ن م راشد کی اس نظم کو اردو شاعری کی چند اہم نظموں میں شمار کرتا ہوں۔ اس نظم میں نہ صرف جنس کا جارحیت سے تعلق عیاں ہے بلکہ مشرق کا سماجی اور سیاسی احساس کمتری بھی نہاں ہے۔

اس نظم کو تخلیق کرتے ہوئے ن م راشد نے انسان کی انفرادی اور سماجی نفسیات کے ان گوشوں میں جھانکا ہے جس کے قریب بھی جاتے وقت بہت سے ادبی سورماؤں اور روایتی مولویوں کے پر جلتے ہیں۔

اگر ہم نے جنس اور جارحیت کے پیچیدہ اور گنجلک رشتے کو سمجھنا ہے تو ہمیں انسانی رشتوں کی کہانی کو اخلاقیات کی بجائے نفسیات کی عینک سے پڑھنا اور سمجھنا ہو گا۔ یہ علیحدہ بات کہ
؎ فکر ہر کس بقدر ہمت اوست

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments