عشق تندوری اور چڑھی سانس والی پتلی


حسب معمول آج بھی دونوں دوست نسیم اور شمیم دفتر کی کینٹین میں ساتھ ساتھ بیٹھے تھے یہ ان کا برسوں کا معمول تھا کہ لنچ وہ دونوں لوگوں سے ذرا فاصلے پر بیٹھ کر کیا کرتے تھے، اس دوران وہ گھریلو اور ذاتی دلچسپی کی بہت سی باتیں کیا کرتے تھے۔ یہ دونوں بہت ہی دیرینہ دوست تھے اور ایک دوسرے سے بلا تکلف ہر موضوع پر بات کر لیا کرتے تھے۔ کھانا کھاتے کھاتے اچانک شمیم نے پوچھا کہ یار یہ تو بتا کہ آخر توے یہ چار چار شادیاں کیوں کر رکھی ہیں۔

نسیم پہلے تو ہنسا پھر کہنے لگا کہ تو مذاق تو نہیں اڑائے گا؟ شمیم نے کہا کہ وعدہ نہیں اڑاؤں گا، یکایک ایسا لگا جیسے نسیم کسی اور ہی دنیا میں چلا گیا ہو، وہ بہت گہری سوچ میں ڈوب گیا پھر اس کی سوچ میں ڈوبی آواز جیسے کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی، وہ کہنے لگا کہ یہ میرے بچپنے کی بات ہے، ان دنوں نہ ٹی وی تھا نہ موبائل فون، لوگ کتابیں پڑھتے تھے یا ریڈیو سنا کرتے تھے، اس زمانے میں ریڈیو پر بی بی سی کا سیربین، اقبال سیونی کا بناکا گیت مالا اور آپ کی فرمائش پروگرام بے حد مقبول تھے اور یہی تفریح کا ذریعہ تھا۔

بچے عموماً موسمی کھیل کھیلا کرتے تھے، لٹو، گلی ڈنڈا، پتنگ بازی وغیرہ وغیرہ ایسے میں گرمیوں کی چھٹیوں میں پتلی کا تماشا دکھانے والے خوب گلی محلوں کا چکر لگایا کرتے تھے، وہ دن میں ایک پتلی رکھوا کر ایڈوانس لے کر چلے جاتے تھے اور شام ڈھلے آ کر پتلی تماشا دکھاتے تھے۔ ان دنوں محلہ داریاں رشتہ داریوں سے زیادہ مضبوط تھیں، محلے کا ہر بزرگ سب کا مشترکہ ہوتا تھا، کوئی دادی تھیں تو کوئی نانا جی تھے، کوئی خالہ جان تھیں تو کوئی چچا میاں، سب کا بڑا اٹوٹ بندھن تھا لوگوں کے دکھ سکھ سانجھے تھے۔

ایک دوپہر پتہ چلا کہ محلہ کی جگت دادی کے گھر پتلی تماشا ہے، میں نے سوچا کہ اس بار میں سب سے آگے پہلی قطار میں بیٹھوں گا، سو شام ڈھلنے سے بھی پہلے میں دادی کے گھر جا دھمکا، انہوں نے بہت دھمکایا کہ ابھی تو وقت ہے، ابھی کون آیا ہے، مگر میں وہاں سے نہ ٹلا، اور ڈھیٹ بن کر ان کے صحن ہی میں ایک جگہ بیٹھا رہا۔ آخر انتظار ختم ہوا اور پتلی والے آن پہنچے۔ وہ کپڑے کی قناطیں باندھ کر اپنا سامان لگا رہے تھے کہ میں ان کے بالکل سامنے جاکر بیٹھ گیا۔

کیا دیکھتا ہوں کہ پتلی والے مرد و عورت کے ساتھ ایک میری ہم عمر بچی بھی ہے، اس نے نہایت ہی خوبصورت اور قیمتی غرارہ اور چھوٹی سی کامدار قمیض پہن رکھی تھی جو یقیناً کسی نے اسے دی ہوگی کیونکہ اتنا قیمتی لباس لینے کے اس کے ماں باپ متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ وہ نہایت ہی حسین تھی، اس کے بھورے بھورے گھنے گھنگھریالے بال اس کے شانوں پر بکھرے تھے، اس کی آنکھیں کپڑوں کی طرح سبز تھیں چہرہ بیضوی اور رنگ گلابی تھا۔

وہ لپک لپک کر اپنے والدین کا ہاتھ بٹا رہی تھی۔ اور میں بس یک ٹک اسے دیکھے جا رہا تھا۔ وہ مجھے اتنی اچھی لگی کہ میں بتا نہیں سکتا، دل چاہتا تھا کہ بس وہ یہیں رک جائے اور کہیں نہ جائے۔ مگر ایسا نہ ہوا اور آخر ایک ڈیڑھ گھنٹے میں تماشا ختم ہو گیا، اور وہ لوگ اپنا سامان باندھنے لگے۔ میں نے کیا دیکھا کیا نہ دیکھا بس میرے تو حواسوں پر وہ بچی سوار تھی۔ جب وہ بالکل گھر سے نکلنے لگے تو مجھے لگا کہ جیسے وہ میری کوئی قیمتی شے اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں۔

میں ان کے پیچھے پیچھے چل دیا ساتھ ساتھ ڈرتا بھی جاتا تھا کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو شامت آ جائے گی۔ مگر میں ان کے پیچھے پیچھے چلتا رہا وہ ہمارے محلے سے نکل کر باہر بڑے میدان کی جانب ہو لئے اور کچھ دیر میں میدان میں پہنچ کر رک گئے، یہ خانہ بدوش لوگ تھے اور کچھ دنوں کے لئے یہاں عارضی قیام کیا کرتے تھے ان کا پورا قبیلہ وہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ کوئی بندر نچانے والا تھا تو کوئی حبس دم اور دوسرے کرتب دکھانے والا تھا تو کوئی پتلی تماشا دکھانے والا تھا۔

میں میدان کے کنارے کھڑا ہو کر ان کو جاتا ہوا دیکھتا رہا وہ ایک خیمے کے پاس جاکر رک گئے۔ اور پھر اس خیمے کے اندر چلے گئے۔ میں کچھ دیر کھڑا رہا جب ڈر زیادہ لگنے لگا تو گھر کی طرف بھاگ لیا۔ کیونکہ اسکولز کی چھٹیاں تھیں لہذا صبح اٹھ کر صبح کی سیر کے بہانے بڑے میدان جا پہنچا کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں ایک عارضی شہر آباد ہے، چولہے جل رہے ہیں دھواں اٹھ رہا ہے، لوگ ادھر ادھر چل پھر رہے ہیں۔ میں بلا ارادہ چلتا ہوا اسی خیمے کے سامنے جاکر کھڑا ہو گیا، اتنے میں اسی عورت کی تیز آواز نے مجھے چونکا دیا جو پتلی تماشا دکھانے آئی تھی، اے چھورا کون ہے رے تو، کیا چاوے تو ہم سے۔

میری تو جیسے گھگھی بندھ گئی، ہکلاتے ہوئے بولا اماں رات آپ نے ہمارے محلے میں پتلی تماشا دکھایا تھا نا تو ہمیں بہت پسند آیا تھا، ہم بھی اپنے گھر پر کروانا چاہ رہے ہیں۔ تو وہ ایک دم نرم پڑ گئی اور کہنے لگی کہ اڈوانس لایا ہے کا؟ اب میرے پھر سے گھبرانے کی باری تھی میں نے کہا کہ وہ تو میں لانا بھول ہی گیا، تو کہنے لگی کہ جا جلدی سے لے کر آ، اور میں نے جو دوڑ لگائی وہاں سے اگر مقابلے میں لگاتا تو ضرور پہلے نمبر پر آتا۔

ہانپتا کانپتا اپنے محلے میں پہنچا، صبح صبح کا وقت تھا علاقہ بالکل سنسان تھا، جھٹ سے اپنے گھر میں داخل ہو گیا۔ بستر پر لیٹ کر مسلسل یہی سوچتا رہا کہ آخر اسے کیسے اپنے گھر بلایا جائے، بہت دیر سوچنے کے بعد جب کچھ نہ سوجھا تو طے کیا کہ ابا کے دفتر جانے کے بعد کارروائی ڈالی جائے گی، یہ سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئی۔ جب آنکھ کھلی تو ابا دفتر جا چکے تھے۔ میں نے ناشتہ کرنے سے بھی پہلے امی سے کہا کہ امی اگر ہم اپنے گھر میں پتلی تماشا کرائیں تو؟

امی کو تو جیسے بجلی کا جھٹکا لگا، کہنے لگیں اپنے ابا کو جانتے ہو وہ ان خرافات کے سخت خلاف ہیں۔ نہیں بھئی نہیں وہ بالکل نہ مانیں گے اور میں ان سے اس بارے میں بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ لہذا خاموشی سے ناشتہ کرو اور کتابیں لے کر بیٹھو۔ میں بھی اڑ گیا کہ میں نے نہیں کرنا ناشتہ، اور نہ ہی میں پڑھنے بیٹھوں گا، یہ وہ دور تھا جب بڑا بھائی واقعی بڑا بھائی ہوتا تھا اور ابا کی غیر موجودگی میں بہت سارے اختیارات کا مالک ہوتا تھا جن میں چھوٹوں پر ہاتھ کی صفائی بھی شامل تھی۔

اماں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بھائی صاحب کو آواز لگا دی وہ اپنے کمرے سے نکلے اور امی سے بلانے کی وجہ پوچھی جب انہیں وجہ بتائی گئی تو انہوں نے بنا دوسری بات کیے ہماری اچھی خاصی درگت بنا ڈالی اور کہا کہ میرے کمرے میں چل کر بیٹھو کتابیں بھی ساتھ لیتے جانا۔ میں روتا ہوا کتابیں لے کر بھائی کے کمرے میں چلا گیا۔ اچانک بھائی کہنے لگے کہ یار یہ تجھے اچانک پتلی تماشے کی کیا سوجھی، تو میں نے ہمت کر کے کہا کہ بھائی وہ کل رات دادی کے گھر، تو بھائی نے میری بات بیچ ہی سے کاٹ دی اور کہا کہ ہاں اگر وہی پتلی والے جنہوں نے دادی کے گھر تماشا کیا تھا آئیں تو بات ہے، اور اس بار جیسے مجھے پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔

دل تو چاہا کہ کہہ دوں کہ بھائی بس ایڈوانس کا بندوبست کریں باقی کام میرا، مگر ہمت نہ ہوئی، بھائی سے کہا کہ چل کر دیکھنا پڑے گا شاید وہ لوگ ہی مل جائیں۔ اصل مسئلہ تھا والد صاحب کا وہ ہرگز گھر میں پتلی تماشا جیسی خرافات نہیں ہونے دیں گے۔ خیر بات بن نہ سکی اور آخر کار وہ خانہ بدوش اپنا سامان سمیٹ کر چلے گئے۔ مجھے بہت برا لگا مگر کچھ کر نہیں سکتا تھا، پھر کئی سال تک وہ نہ دکھے، مگر جب میں انہیں قریب قریب بھول چکا تھا کہ اچانک ہی ایک دن میں نے دیکھا کہ وہی بوڑھا شخص محلے میں پتلی تماشا کی آوازیں لگا رہا ہے۔

میں دوڑ کر دادی کے گھر چلا گیا گو کہ اب میں بچہ نہ تھا مگر دادی تو دادی تھیں ان کے پیچھے لگ گیا کہ دادی آپ نے چند سال پہلے جن سے پتلی تماشا کرایا تھا وہ لوگ پھر آ گئے ہیں۔ خیر بڑی مشکل سے دادی مان گئیں اور اس پتلی والے کو بلا بھیجا، اسے بھی ابھی تک کوئی بکنگ نہیں ملی تھی جھٹ سے دوڑا چلا آیا اور پہچان بھی گیا، خیر بات چیت ہو گئی اور وہ ایڈوانس لے کر ایک پتلی رکھوا کر چلا گیا۔ میرے لئے جیسے وقت کاٹنا بڑا مشکل ہو گیا تھا، خیر جیسے تیسے شام ہوئی اور وہ لوگ آ گئے، میں اس لڑکی کو تلاش کرتا رہا، مگر وہ نظر نہ آئی، سب انتظام ہو گیا بس تماشا شروع ہونے ہی والا تھا کہ اچانک دروازہ کھلا اور ایک نہایت ہی حسین خانہ بدوش لڑکی گھر میں داخل ہوئی اور سیدھی پتلی تماشا کرنے والوں کے پاس جاکر بیٹھ گئی، میری نگاہیں اس ہی کا بغور جائزہ لے رہی تھیں، میرا دل جیسے اچھل کر حلق میں آ گیا، ارے یہ کیا، یہ تو وہی ہے، اتنی بڑی ہو گئی، اور اتنی خوبصورت بھی۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح اس سے بات کرلوں۔ دل کی کیفیت کچھ یوں ہو رہی تھی کہ۔ ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار یا الہی یہ ماجرا کیا ہے۔

وہ کسی صورت مائل بہ التفات تو کیا توجہ دینے کی بھی روادار نہ تھی۔ خیر دل پر ہاتھ رکھ کر پورے تماشے کے دوران بس اسے ہی دیکھتا رہا اور وہ بے نیازی سے اپنے کام میں مصروف رہی اسے بالکل علم ہی نہ تھا کہ کوئی چپکے چپکے اس کے پیار کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ آخر کار تماشا تمام ہوا اور وہ لوگ اپنا سامان سمیٹ کر چل پڑے میں اس بار بھی ان کے پیچھے ہو لیا، وہ میدان میں اپنی عارضی خیمہ بستی میں داخل ہو گئے ساتھ میں بھی پہنچ گیا۔

وہ لڑکی ذرا پیچھے تھی میں نے اس سے بات کرنا چاہی تو اس نے چیخ کر کسی کو آواز لگا دی دیکھتے ہی دیکھتے ایک نہایت ہی بدشکل لحیم شحیم شخص آن موجود ہوا تو وہ کہنے لگی کہ یہ میرا پیچھا بھی کر رہا ہے اور پریشان بھی کر رہا ہے۔ بس پھر کیا تھا قبیلے کے اور لوگ بھی آ گئے انہوں نے مجھے گھیر کر پکڑ لیا، وہ بھی تھوڑی احتیاط کر رہے تھے کہ ہم سے ان کی روزی جڑی تھی۔ وہ بدشکل شخص اس کا شوہر تھا نہایت غصے میں لگتا تھا۔

مگر لوگوں نے اسے سنبھال رکھا تھا طے پایا کہ مجھے لے کر میرے گھر چلتے ہیں اور میرے گھر والوں سے شکایت کرتے ہیں۔ پوری صورتحال کے نتیجے میں میرے سر سے عشق کا بھوت تو اتر ہی چکا تھا لہذا فوراً ہی انہیں کہا کہ بھائیوں مجھے تو پتلی تماشا کرانا تھا، اگر آپ کو برا لگ رہا ہے تو میں واپس چلا جاتا ہوں اور پھر کبھی آپ کی طرف نہیں آؤں گا، وہ سب شش و پنج کی کیفیت میں مجھے دیکھنے لگے آخر ایک بوڑھے نے کہا کہ لگتا ہے لڑکا ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اس سے ایڈوانس لے کر اسے جانے دو، میرے جیب میں چند روپے تھے جو میں نے ایڈوانس بطور دیے اور جان چھڑائی، اس وقت تو میری جان چھٹ گئی مگر زندگی بھر میری جان نہ چھٹ سکی، اس کا چہرہ آج بھی میری آنکھوں میں پھرتا ہے، اور جو لڑکی اس کی ہم شکل نظر آتی ہے میرا دل چاہتا ہے میں اس سے شادی کرلوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments