وہ کہانی جو ان کہی رہی، چپ چاپ دفن ہو گئ



پاکستان کے اندر پچھلے چند دنوں میں خواتین کے اپنے ہی پیاروں یا جاننے والوں کے ہاتھوں بہیمانہ قتل نے ہماری سوسائٹی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

ہم ایک ایسے سنگدل، غیر انسانی اور غیر منصفانہ معاشرے میں رہتے ہیں۔ جہاں عورت کو سوائے استعمال کرنے کی چیز یا پھر مفت مل جانے والی ملازمہ کے جو مرد کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے خاندان اس کی نسل کو آگے بڑھانے کے علاوہ کوئی حیثیت نہی رکھتی۔

جہاں اٹھ سال کی بچی عید کے روز ہمسائے کے گھر گوشت دینے جائے اور جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر مار دی جائے۔ ہم ایسے گھناونے معاشرے کا حصہ ہیں۔

میں ابھی صرف ان کہانیوں کے بارے میں پڑھ پائی ہوں۔ جو مجھے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی کہانیوں اور ہیش ٹیگ کی وجہ سے معلوم ہوئیں۔ ان خواتین کا کیا جن کا ذکر سوشل میڈیا کی زینت نہی بن پایا۔ یا مجھ سمیت باقی لوگوں کو ان کے ساتھ ہوئے ظلم و ستم کا پتہ ہی نہی چل سکا۔ وہ ان گنت آن کہی کہانیاں جن کو زبان نہی مل سکی۔ وہ ساری خواتین اپنی کہانیاں بنا بتائے منوں مٹی تلے دفن ہو گئیں۔

سوشل میڈیا پر وہ وائرل ویڈیو بھی سب کو یاد ہو گی۔ جس میں بہن کو اس کے والد اور بھائی ہتھوڑی کے ساتھ صرف اس لئے مار رہے تھے۔ کیونکہ وہ اپنے بھائیوں اور والد سے اپنا شرعی حصہ مانگ رہی تھی۔ کاش وہ مارنے والے محافظ سمجھ پاتے کہ یہ ہماری بہن کوئی غیر قانونی، غیر شرعی حق نہی مانگ رہی۔ اس بہن اور بیٹی کو وراثت میں حق ہمارے دین نے ہمارے قانون نے دیا ہے۔ جو وہ مانگ رہی ہے۔

لیکن ایسا ہو نا سکا۔ اس عورت کو اپنا حق مانگنے پر ملی تو صرف اور صرف سزا۔

حیدرآباد کراچی میں چار بچوں کی ماں قرہ العین کو اسی کے سفاک شوہر عمر میمن نے اپنے ہی بچوں کے سامنے بے دردی سے قتل کر دیا۔ دوست، عزیز و اقارب بتاتے ہیں۔ کہ وہ پچھلے دس سال سے بار بار اپنے والدین کے پاس مدد کے لئے گئی۔ شکایت کرتی رہی اپنے شوہر کے ظلم و ستم اور گھریلو تشدد کی دہائی دیتی رہی۔ لیکن اس کے والدین نے ہمیشہ اسے سمجھا کر واپس اسی ظالم شوہر کے حوالے کر دیا۔

نا ہی والدین نے اور نا اس کے بہن، بھائیوں نے اس بے بس اور مجبور بیٹی کی بات مانی یا شاید جان بوجھ کر اگنور کیا اور نا ہی گھریلو تشدد کے خلاف پولیس رپورٹ کی۔ صرف اس لئے کہ شاید اس کا گھر بچ جائے، یا پھر وہ اپنی بیٹی کا اس کے چار بچوں کے ساتھ بوجھ اٹھانا نہی چاہتے تھے۔ اور پھر دیکھ لیں آخر وہ مظلوم ظلم کا سہتے سہتے اپنے ہی محافظ درندے شوہر کے ہاتھوں قتل ہو کر سب کا بوجھ ہلکا کر گئی۔

کاش قرہ العین کے والدین سمجھ پاتے۔ کہ اپ کی بیٹی شادی کے بعد بھی اپ کی ذمے داری ہے۔ وہ ابھی بھی اپ کے ہی جگر کا ٹکڑا ہے۔ وہ اپ کو اپنا سمجھ کر مان کے ساتھ اپ کے پاس بار بار مدد کے لئے آتی رہی۔ لیکن افسوس اپ اس کی مدد کرنے میں ناکام رہے۔ اپ اپنی ذمے داری کو بوجھ سمجھ کر آنکھیں بند کیے ناکام رہے۔

اب اپ کا تو بوجھ ہلکا ہو گیا ہو گا۔ شاید اب اپ کو کوئی طلاق یافتہ بیٹی کا طعنہ بھی نہی دے گا۔ لیکن وہ چار ننھے بے سہارا فرشتے اب بن ماں، باپ کے کس کس در کے بوجھ بنیں گے کوئی نہی جانتا۔ کاش قرہ العین کے والدین نے اس کی سن لی ہوتی۔ تو وہ آج اپنے بچوں کے ساتھ زندہ ہوتی اور آزاد زندگی گزار رہی ہوتی۔ لیکن ایسا ہو نا سکا۔

دوسری قتل ہونے والی نوجوان خاتون نور مقدم سابقہ ایمبیسیڈر کی بیٹی تھیں۔ اور اس کا سفاک قاتل بھی اس کا اپنا ہی دوست تھا۔ کوئی اس کا پیارا۔ جیسے شاید وہ اپنے جیون ساتھی کی شکل میں دیکھتی تھی۔ اس نوجوان خاتون کا جس بیہمانہ اور سفاک طریقے سے قتل کیا اسے سن کر ہی روح کانپ جاتی ہے۔ میں نے اس کیس کے متعلق ہر پولیس رپورٹ اور دوست احباب کی رائے بھی پڑھی۔ سب کچھ جان کر پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ اس کا قاتل کسی جانور سے کم نہی تھا۔ جو اپنے غصے اور نفرت میں اس قدر پاگل ہو گیا۔ کہ اس نے نوجوان خاتون اپنی ہی دوست کا سر تن سے جدا کر دیا۔

نور مقدم کو کہاں پتہ تھا کہ جس ظالم نے اسے امریکہ جانے سے پہلے آخری بار ملنے کی خواہش کی تھی۔ وہ دراصل واقعی ہی اس کی زندگی کی آخری ملاقات ہو گی۔ کس کرب اور اذیت سے گزری ہو گی وہ عورت۔ وہ روح فنا ہونے سے پہلے کئی بار بار تڑپ تڑپ کے مری ہو گی۔ گڑگڑائی ہو گی۔ اپنی محبت کے واسطے سے لے کر خدا اور رسول کے واسطے بھی دیے ہوں گے۔ لیکن جب قاتل کے سر پر قتل کا جنون سوار ہو تو شاید انسان سننے اور سمجھنے سے عاری ہو جاتا ہو گا۔ اسے دوسرے کی تکلیف اور چیخ و پکار لذت کا باعث بنتی ہو گی۔

اگر میں کیس میں سب باتوں کو اکٹھا کروں اور پتہ چلتا ہے۔ کہ مرحوم نور مقدم اور ملزم کا آپس میں قریبی تعلق تھا۔ اور نور مقدم کا ملزم ظاہر جعفر کے گھر جا کر رہنا معمول کی بات تھی۔ جس کا دونوں کے خاندان کو بخوبی علم تھا۔ اور ملزم کے ہمسائیوں اور نوکروں کے مطابق ان کے درمیان لڑائی جھگڑا معمول کی بات تھی۔ جس کی وجہ سے انھوں نے اس مرتبہ بھی معمول کی بات سمجھ کر اگنور کیا۔

کاش نور مقدم نے اپنے ساتھ روز ہوئے تشدد اور غیر مہذب رویے کو محبت میں انتہا سمجھنے کی بجائے اسے جرم سمجھا ہوتا۔ اور بار بار ملزم ظاہر جعفر کو سدھرنے کے نام پر مواقع فراہم نہی کرتی تو شاید وہ آج زندہ ہوتی۔ لیکن ایسی باتیں کہنا آسان ہوتا ہے۔ جو اس صورتحال سے گزر رہا ہوتا ہے۔ وہ شاید اپنے مطابق بھی بالکل درست ہی فیصلے کر رہا ہوتا ہے۔ اس انسان کو نہیں پتہ ہوتا کہ دوسرے کو دیا ہوا مزید وقت، اسی کی زندگی کے وقت کو کم کر دے گا۔

یہاں پر میں نور مقدم اور ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور ان کے دوست و اقارب، ہمسائے اور ملازمین کو بھی قصوروار ٹھہراؤں گی۔ کاش ان میں سے کسی نے پر تشدد تعلق کو دیکھ کر پولیس کو فون کر دیا ہوتا۔ تو شاید قاتل کے دل میں پکڑے جانے کا خوف بیٹھ جاتا اور وہ یہ انتہائی سفاکانہ قدم نا اٹھاتا۔ کاش نور مقدم کے والدین نے اس کے بلاوجہ گھر سے دور رہنے کا سختی سے نوٹس لیا ہوتا۔ تو شاید وہ آج اپنی بیٹی کے لئے انصاف کی دہائی دینے کی بجائے اپنی بیٹی کے ساتھ ہوتے۔

کاش ملزم ظاہر جعفر کے والدین نے اپنے بگڑے بیٹے کو سمجھایا ہوتا کہ اچھے اور برے تعلق میں کیا فرق ہوتا ہے۔ اس کے پرتشدد رویے کو اگنور نا کیا ہوتا تو آج ان کا بیٹا قاتل نا بنتا۔ لیکن ایسا ہو نا سکا۔ سب کے سب اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے۔

مجھے لگتا ہے ہمارا معاشرہ کہیں تو غلطی کر رہا ہے۔ کہیں تو ہم اپنی ذمے دار یوں سے چوک رہے ہیں۔ پاکستان کی بدلتی سوسائٹی اور معاشرتی اقدار میں شاید ہم کہیں کھو گئے ہیں۔ کیا درست کیا کیا غلط ہم والدین اپنے بچوں کو سمجھانے سے قاصر ہیں۔

قاتل کا تعلق امیر یا غربت سے بالکل بھی نہی ہوتا۔ جہاں لوگ یہ رائے دیتے پائے گئے۔ کہ امیر والدین اپنے بچوں کو درست تربیت دینے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو خواتین کی عزت کرنا بھی سکھائیں۔

میرا سب سے ایک سوال ہے۔ کیا جب کوئی غریب قتل کرتا ہے اپنی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کا کسی بھی دوسری عورت کا تو کیا اس غریب کو پیسہ مجبور کرتا ہے یا تربیت یا پھر اس کی اپنی انفرادی سوچ؟

ہمارا معاشرہ دراصل کریمنل مائنڈ سیٹ پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ جہاں ہمارے سیاستدان نوجوانوں کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کریں گے۔ جہاں پر گندے اور غلیظ کردار والے لوگوں کو سیاسی لیڈران اپنے ماتھے کا جھومر بنائیں گے۔ ان کی خواتین کے بارے میں تضحیک آمیز باتوں اور انھیں ہراساں کرنے والوں کو بہادری اور دوسروں کو زیر کرنے کو فتح قرار دیں گے۔ تو پھر دوسرے نوجوانوں تک اپ کیا پیغام دے رہے ہیں؟

جہاں سوشل میڈیا ہو یا ہمارے بازار اور گالیاں ہر طرف مرد خواتین کو ہراساں کرتے ہوئے ایک دوسرے کو فخر سے بتاتے پائیں جائیں گے۔

زندگی اور موت برحق ہے۔ کس کی کتنی زندگی ہے۔ اور کس کو کیسی موت نصیب ہو گی۔ سب طے ہے۔ ایسا ہم ایک مسلمان ہونے کے ناتے یقین رکھتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہی۔ کہ ہم چلتی ہوئی گاڑی کے سامنے کھڑے ہو جائیں۔ یا جلتی ہوئی آگ میں کود جائیں یا پھر اپنے اپ کو ہم کسی بھی وحشی نما انسانی درندے کے حوالے کر دیں۔

میں جذباتی بن کر بے وقوفوں کی طرح یک طرفہ سوچ پر یقین نہیں رکھتی۔ یہ یک طرفہ سوچ ہمیں اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنے والی ڈکٹیٹرشپ کی یاد تازہ کروا دیتی ہے۔ کہو کہ عورت مظلوم ہے اور مرد ظالم۔ اگر تم سوال کرو گے۔ ہماری تھوپی ہوئی سوچ سے باہر جاؤ گے تو تم پر misogynist ہونے کے فتوے لگا دیے جائیں گے۔

میں نے آج تک جتنے بھی لوگ misogyny لفظ استعمال کرتے ہوئے دیکھے ہیں۔ وہ خود سب سے بڑے misogynist سوچ اور اور اس کے پھیلاؤ کے پیروکار نکلے ہیں۔ پھر چاہیے وہ کوئی مرد ہو یا عورت۔

ورنہ مجھے کوئی ایک ایسی خاتون یا مرد کا نام ڈھونڈ کر لا دیں۔ جو اس معیار پر پورا اترتے ہوں۔ جناب نہی لا پائیں گے۔

جب تک ہم اپنے اندر سے لاقانونیت، شرپسندی اپنے اپ کو اعلی اور دوسروں کو حقیر سمجھنا چھوڑ نہی دیتے۔ کہیں کچھ ٹھیک نہی ہونے والا۔ جب تک ایک ماں اپنے بیٹے، بیٹی اور بہو میں فرق کرنا نہی چھوڑے گی۔ کچھ نہی بدلنے والا۔ جب تک ماں، بہن، بیٹی، بیوی اپنے گھر کے مرد کو عورت کی عزت کرنے کے لیے بچپن سے ہی بار بار نہی سمجھائے گی۔ کچھ نہی بدلے گا۔

معاشرے سے نا ہی تو برائی کو مکمل طور پر ختم کی جا سکتا ہے اور نا ہی قاتل ختم کیے جا سکتے ہیں۔ ہاں ایک مرد کی بہتر پرورش کر کے برائی کم ضرور کی جا سکتی ہے

ہمیں عورت کے متعلق اپنی سوچ بدلنی ہو گی۔ اگر کہیں بھی کوئی بھی خاتون دوسری خواتین کی کہانیاں سن کر یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ وہ شاید محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ یا اس کے گھر کے مرد کوئی عظیم لوگ ہیں۔ تو اپ غلط سوچ رہی ہیں۔ اپ بھی جس گھریلو تشدد کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ کوئی قابل فخر بات نہی ہے۔ اپ کو روز کوئی نا کوئی طعنہ سننے کو ملتا ہی ہو گا۔ کیا کرتی ہو سارا فارغ ہوتی ہو بچوں کی دیکھ بھال تمہارا کام ہے۔ تمہاری ہر ضرورت پوری ہو رہی ہے نا وغیرہ۔ اور ورکنگ ویمن تم باہر بڑا خوش رہتی ہو۔ مردوں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔ بچے تباہ ہو رہے ہیں۔ میرے والدین کی خدمت میں کوتاہی ہو رہی ہے۔ چار پیسے کیا کمانے لگ گئی ہو اپنی اوقات سے باہر ہو گئی ہو۔ جی جناب یہ سب بھی گھریلو تشدد میں ہی آتا ہے۔

اپ شاید اسی لئے محفوظ ہیں۔ کیونکہ اپ اٹھائے گئے سوالوں کا جواب نہی دے رہیں۔ اس جو برداشت کر رہی ہیں۔ اپنے بچوں کی خاطر یا شاید اپنے والدین کی خاطر۔ یا یوں کہہ لیں اپ میں سچ بولنے کا حوصلہ نہی۔ عورت محفوظ نہی ہے۔ پھر چاہیے وہ دفتر ہو، گھریلو ملازم ہو سسرال ہو یا اس کا اپنا گھر۔ کوئی بھی عورت کہیں پر بھی اس لئے محفوظ نہیں ہے۔ کیونکہ وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ تو معذرت کے ساتھ اپ محفوظ ہاتھوں میں نہیں، اپ اپنی محفوظ قسمت کے ہاتھوں میں ہے۔ ورنہ اپ کو مجھے کب کہاں کوئی اپنا ہمیں اپنے ہی گھر میں مار دے۔ کوئی کچھ نہی کہہ سکتا۔

اس سے پہلے آپ بھی یہ گھریلو تشدد برداشت کرتے کرتے تشدد کی داستان بن جائیں۔ اور پھر اپ کا بیٹا کل کسی دوسرے کی بیٹی کے ساتھ اپنی ماں کے ساتھ ہوئے تشدد کی کہانی کو دہرائے۔ ہمیں اس تشدد کی کہانی کی کڑی کو توڑنا ہو گا۔

اب یہ فیصلہ اپ خواتین نے ہی کرنا ہے کہ اپنے ساتھ ہونے ظلم کو برداشت کرتے رہنا ہے یا ظالم کا ہاتھ روکنا ہے یا پھر اپ بھی ان لاکھوں ان کہی کہانیوں کی طرح بنا زبان پر لائے ہی ختم ہو جانا ہے۔ یا پھر وہ کہانی جو ان کہی رہی، چپ چاپ دفن ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments